مضمون نگار : علیم خان فلکی
اگرچہ امت کا ہر فرد جانتا ہے کہ جوڑا ، جہیز اور شادی کی دیگر تقاریب ناجائز ہیں اور اگرچہ کہ ہر روز شہر کی کسی نہ کسی گلی میں اصلاح معاشرے کے جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور مقررین اور واعظین مستقل "جہیز حرام ہے" کی کیسٹ بجا رہے ہیں ، پھر کیا وجہ ہے کہ نہ عوام کے کانوں پر جوں رینگتی ہے اور نہ معاشرے میں کوئی تبدیلی کے آثار نظر آتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نوے (90) فیصد اکثریت یا تو مشائخین سے یا پھر مدرسوں کے عالم کی پسند بننے والے حضرات کی اندھی تقلید کرتی ہے۔
ان مشائخین اور علماء کے فتوؤں اور عقیدوں کو ماننے والی اکثریت کے کسی بھی فرد کے آگے آپ لاکھ دیوار سے سر ٹکرائیے ، یہ اس وقت تک کسی چیز کو حلال یا حرام تسلیم کرنے تیار نہیں جب تک کہ وہ چیز ان کے اپنے مرشد یا استاد یا بزرگ نہ فرما دیں۔ جو افراد بچ رہتے ہیں وہ کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان حضرات کا حال علماء و مشائخین کی تقلید کرنے والوں سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ بھی جب تک کسی چیز کو اپنے امیر یا صدر یا ناظم یا اکابر سے نہ سنیں کوئی ماننے تیار نہیں۔
شاید یہی وہ پس منظر تھا جس میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ۔۔۔
یعنی لوگوں نے (یہود و نصاریٰ نے) اپنے مرشدوں اور قائدین کو اپنا رب بنا لیا تھا۔ وہ لوگ جس کو جائز کر دیتے وہ چیز ان لوگوں کے پاس جائز ہو جاتی اور وہ لوگ جن چیزوں کو ناجائز کر دیتے ، یہ چیز ان لوگوں کے پاس ناجائز ہو جاتی۔
پچھلے ہفتے جب میں حیدرآباد پہنچا تو اخبارات میں ایک معروف مشائخ کے گھر کے بیٹے کی شادی کے دن کھانے کی تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس دعوت میں چیف منسٹر ، کئی اہم لیڈر اور شہر کا بڑا طبقہ شریک ہوا ، اس کھانے کی دعوت میں بیس لاکھ سے کم کیا خرچ ہوئے ہوں گے۔ دو چار روز گزرے نہ تھے کہ ایک اور عالم دین جن کا دینی تعلیم اور مدارس کے حوالے سے شہر میں ایک خاص مقام ہے ، ان کے فرزند کی شادی مشائخ موصوف کا ریکارڈ توڑنے والی شادی تھی۔ اس تقریب پر بھی کم سے کم بیس لاکھ خرچ ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب علماء و مشائخ اور ان کی اندھی تقلید کرنے والے مقررین ، واعظین اور استاذان ، اصلاح معاشرہ کے جلسوں کو مخاطب کرتے ہیں تو عوام میں تقویٰ اور ندامت کے بجائے مزید ڈھٹائی اور دعوتوں کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جہیز اور اس سے متعلق ہر آیت اور حدیث ایک مذاق بن جاتی ہے۔
ایک دلچسپ واقعے پر غور فرمائیے۔
شب برات کے موقع پر شہر میں تقاریر کے لئے بیرون شہر سے نامور علماء کو بلایا گیا اور وہ عالیشان ہوٹلوں میں قیام پذیر ہوئے۔ انہی میں سے ایک بزرگ سے ناچیز اور فاضل حسین پرویز (ایڈیٹر "گواہ") نے شرفِ ملاقات حاصل کی۔
شہر میں جوڑے جہیز سے متعلق حالات ان کے سامنے رکھے اور ایک سوال کیا کہ :
کیا نکاح کے دن کے کھانے اور ولیمے کے دن پھر سے ایک کھانے کا کوئی شرعی جواز موجود ہے؟ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خود اپنی کسی شادی یا اپنی بیٹی کے نکاح یا کسی صحابی کے نکاح کے دن کھانا کھلانے کا کوئی ثبوت دیا ہے؟
ہمیں توقع یہی تھی کہ بزرگ صحیح جواب ارشاد فرمائیں گے کہ نکاح کے دن کھانا کھلانے کی بدعت اور اسراف صرف ہندوستان و پاکستان والوں نے ایجاد کی ہے ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو ان چیزوں کو ختم کر کے نکاح کو آسان کر دینے کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرما دیا کہ سب سے بہترین نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو۔
لیکن بزرگ نے صحیح جواب کی توقعات پر پانی پھیرتے ہوئے جواب گول کر دیا اور فرمایا کہ : کھانا کھلانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
جب ہم نے جہیز کے متعلق سوال کیا اور موجودہ حالات میں "خوشی سے دینے اور لینے" کے سسٹم کی وضاحت کی تو موصوف نے اس سسٹم کی تائید میں بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ : جبر کرنا حرام ہے ، خوشی سے دینے اور لینے میں کوئی برائی نہیں!
یہ وجہ ہے کہ عوام مکمل گمراہی کے راستے پر ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک ہو جانے والی لڑکیوں پر کوئی تبصرہ کریں یا شریعت کی توہین کرنے والی فرقہ پرست جماعتوں پر کوئی تنقید کریں۔
ایسے لوگ جو "النکاح من سنتی" جیسی حدیث رقعہ پر چھپواتے ہیں اور ان کی پوری شادی کی رسومات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی یا صحابہ کی شادی کا عمل کسوٹی نہیں بنتا تو یہ کھلی منافقت ہے !!
ایک مثال پر غور فرمائیے کہ ۔۔۔ تمام عبادات میں سجدے کو افضلیت حاصل ہے لیکن اگر کوئی شخص نماز میں ایک دو سجدے زائد ادا کرنے میں کوئی برائی نہ سمجھے تو کیا اس شخص کی نماز جائز ہوگی ؟
ہر عاقل شخص یہ دلیل دے گا کہ سجدہ ادا کرنا کوئی برا کام نہیں لیکن کب ، کیسے اور کتنے سجدے ادا کرنا ہیں ، اس کی کسوٹی صرف اور صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہوگی۔
اس طرح بےشمار نیکیوں کے کام ہیں جن کو ہر شخص جب چاہے تب ادا نہیں کر سکتا اور نہ ان کی ترجیحات (priorities) اپنی طرف سے متعین کر سکتا ہے۔ اس طرح "ہدیہ دینے" ، "کھانا کھلا کر مہمان نوازی کرنے" کے بھی انتہائی واضح اصول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان فرما دئے ہیں۔
اِس دور میں جہیز کو "ہدیہ" اور "خوشی سے دینے" کے نام پر جو گمراہی پھیلائی گئی ہے ، یہ حرام کو حلال کرنے کی ایک واضح مثال ہے۔
ایک حدیث کے مطابق ایک دَور ایسا آئے گا جب حلال کو حرام اور حرام کو حلال کا نام دے دیا جائے گا۔ سود کو تجارت اور شراب کو مشروب کا نام دے کر حلال کر لیا جائے گا۔
شاید وہ دَور آ چکا ہے جب لوگوں نے رشوت کو "خوشی سے دیا جانے والا ہدیہ" کہہ کر حلال کر لیا ہے اور نکاح کے دن کے کھانے کو "مہمان نوازی" کا نام دے کر حلال کر لیا ہے۔ اس چیز نے مشائخین ، علماء یا امیر لوگوں کے لئے تو اپنی شان دکھانے کے مواقع پیدا کر دئے ہیں لیکن سطحِ غربت پر زندگی گزارنے والی نوے (90) فیصد امت پر کیا کیا ستم ڈھائے ہیں اس کا انہیں احساس نہیں!
اگر ذرہ برابر بھی انہیں احساس ہوتا تو آج ہر مشائخ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کی طرح وداع ہوتی اور ہر عالم دین کا بیٹا عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کی طرح نکاح کرتا جن کی شادی میں اسی بستی میں اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) خود رہتے ہیں لیکن نہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دعوت دینا ضروری سمجھا جاتا ہے ، نہ بارات اور نہ ہندوؤں کی شادی جیسے ہنگامے !!!
بشکریہ : سوشیو ریفارمز سائیٹ
اگرچہ امت کا ہر فرد جانتا ہے کہ جوڑا ، جہیز اور شادی کی دیگر تقاریب ناجائز ہیں اور اگرچہ کہ ہر روز شہر کی کسی نہ کسی گلی میں اصلاح معاشرے کے جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور مقررین اور واعظین مستقل "جہیز حرام ہے" کی کیسٹ بجا رہے ہیں ، پھر کیا وجہ ہے کہ نہ عوام کے کانوں پر جوں رینگتی ہے اور نہ معاشرے میں کوئی تبدیلی کے آثار نظر آتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نوے (90) فیصد اکثریت یا تو مشائخین سے یا پھر مدرسوں کے عالم کی پسند بننے والے حضرات کی اندھی تقلید کرتی ہے۔
ان مشائخین اور علماء کے فتوؤں اور عقیدوں کو ماننے والی اکثریت کے کسی بھی فرد کے آگے آپ لاکھ دیوار سے سر ٹکرائیے ، یہ اس وقت تک کسی چیز کو حلال یا حرام تسلیم کرنے تیار نہیں جب تک کہ وہ چیز ان کے اپنے مرشد یا استاد یا بزرگ نہ فرما دیں۔ جو افراد بچ رہتے ہیں وہ کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان حضرات کا حال علماء و مشائخین کی تقلید کرنے والوں سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ بھی جب تک کسی چیز کو اپنے امیر یا صدر یا ناظم یا اکابر سے نہ سنیں کوئی ماننے تیار نہیں۔
شاید یہی وہ پس منظر تھا جس میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ۔۔۔
یعنی لوگوں نے (یہود و نصاریٰ نے) اپنے مرشدوں اور قائدین کو اپنا رب بنا لیا تھا۔ وہ لوگ جس کو جائز کر دیتے وہ چیز ان لوگوں کے پاس جائز ہو جاتی اور وہ لوگ جن چیزوں کو ناجائز کر دیتے ، یہ چیز ان لوگوں کے پاس ناجائز ہو جاتی۔
پچھلے ہفتے جب میں حیدرآباد پہنچا تو اخبارات میں ایک معروف مشائخ کے گھر کے بیٹے کی شادی کے دن کھانے کی تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس دعوت میں چیف منسٹر ، کئی اہم لیڈر اور شہر کا بڑا طبقہ شریک ہوا ، اس کھانے کی دعوت میں بیس لاکھ سے کم کیا خرچ ہوئے ہوں گے۔ دو چار روز گزرے نہ تھے کہ ایک اور عالم دین جن کا دینی تعلیم اور مدارس کے حوالے سے شہر میں ایک خاص مقام ہے ، ان کے فرزند کی شادی مشائخ موصوف کا ریکارڈ توڑنے والی شادی تھی۔ اس تقریب پر بھی کم سے کم بیس لاکھ خرچ ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب علماء و مشائخ اور ان کی اندھی تقلید کرنے والے مقررین ، واعظین اور استاذان ، اصلاح معاشرہ کے جلسوں کو مخاطب کرتے ہیں تو عوام میں تقویٰ اور ندامت کے بجائے مزید ڈھٹائی اور دعوتوں کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جہیز اور اس سے متعلق ہر آیت اور حدیث ایک مذاق بن جاتی ہے۔
ایک دلچسپ واقعے پر غور فرمائیے۔
شب برات کے موقع پر شہر میں تقاریر کے لئے بیرون شہر سے نامور علماء کو بلایا گیا اور وہ عالیشان ہوٹلوں میں قیام پذیر ہوئے۔ انہی میں سے ایک بزرگ سے ناچیز اور فاضل حسین پرویز (ایڈیٹر "گواہ") نے شرفِ ملاقات حاصل کی۔
شہر میں جوڑے جہیز سے متعلق حالات ان کے سامنے رکھے اور ایک سوال کیا کہ :
کیا نکاح کے دن کے کھانے اور ولیمے کے دن پھر سے ایک کھانے کا کوئی شرعی جواز موجود ہے؟ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خود اپنی کسی شادی یا اپنی بیٹی کے نکاح یا کسی صحابی کے نکاح کے دن کھانا کھلانے کا کوئی ثبوت دیا ہے؟
ہمیں توقع یہی تھی کہ بزرگ صحیح جواب ارشاد فرمائیں گے کہ نکاح کے دن کھانا کھلانے کی بدعت اور اسراف صرف ہندوستان و پاکستان والوں نے ایجاد کی ہے ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو ان چیزوں کو ختم کر کے نکاح کو آسان کر دینے کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرما دیا کہ سب سے بہترین نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو۔
لیکن بزرگ نے صحیح جواب کی توقعات پر پانی پھیرتے ہوئے جواب گول کر دیا اور فرمایا کہ : کھانا کھلانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
جب ہم نے جہیز کے متعلق سوال کیا اور موجودہ حالات میں "خوشی سے دینے اور لینے" کے سسٹم کی وضاحت کی تو موصوف نے اس سسٹم کی تائید میں بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ : جبر کرنا حرام ہے ، خوشی سے دینے اور لینے میں کوئی برائی نہیں!
یہ وجہ ہے کہ عوام مکمل گمراہی کے راستے پر ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک ہو جانے والی لڑکیوں پر کوئی تبصرہ کریں یا شریعت کی توہین کرنے والی فرقہ پرست جماعتوں پر کوئی تنقید کریں۔
ایسے لوگ جو "النکاح من سنتی" جیسی حدیث رقعہ پر چھپواتے ہیں اور ان کی پوری شادی کی رسومات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی یا صحابہ کی شادی کا عمل کسوٹی نہیں بنتا تو یہ کھلی منافقت ہے !!
ایک مثال پر غور فرمائیے کہ ۔۔۔ تمام عبادات میں سجدے کو افضلیت حاصل ہے لیکن اگر کوئی شخص نماز میں ایک دو سجدے زائد ادا کرنے میں کوئی برائی نہ سمجھے تو کیا اس شخص کی نماز جائز ہوگی ؟
ہر عاقل شخص یہ دلیل دے گا کہ سجدہ ادا کرنا کوئی برا کام نہیں لیکن کب ، کیسے اور کتنے سجدے ادا کرنا ہیں ، اس کی کسوٹی صرف اور صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہوگی۔
اس طرح بےشمار نیکیوں کے کام ہیں جن کو ہر شخص جب چاہے تب ادا نہیں کر سکتا اور نہ ان کی ترجیحات (priorities) اپنی طرف سے متعین کر سکتا ہے۔ اس طرح "ہدیہ دینے" ، "کھانا کھلا کر مہمان نوازی کرنے" کے بھی انتہائی واضح اصول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان فرما دئے ہیں۔
اِس دور میں جہیز کو "ہدیہ" اور "خوشی سے دینے" کے نام پر جو گمراہی پھیلائی گئی ہے ، یہ حرام کو حلال کرنے کی ایک واضح مثال ہے۔
ایک حدیث کے مطابق ایک دَور ایسا آئے گا جب حلال کو حرام اور حرام کو حلال کا نام دے دیا جائے گا۔ سود کو تجارت اور شراب کو مشروب کا نام دے کر حلال کر لیا جائے گا۔
شاید وہ دَور آ چکا ہے جب لوگوں نے رشوت کو "خوشی سے دیا جانے والا ہدیہ" کہہ کر حلال کر لیا ہے اور نکاح کے دن کے کھانے کو "مہمان نوازی" کا نام دے کر حلال کر لیا ہے۔ اس چیز نے مشائخین ، علماء یا امیر لوگوں کے لئے تو اپنی شان دکھانے کے مواقع پیدا کر دئے ہیں لیکن سطحِ غربت پر زندگی گزارنے والی نوے (90) فیصد امت پر کیا کیا ستم ڈھائے ہیں اس کا انہیں احساس نہیں!
اگر ذرہ برابر بھی انہیں احساس ہوتا تو آج ہر مشائخ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کی طرح وداع ہوتی اور ہر عالم دین کا بیٹا عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کی طرح نکاح کرتا جن کی شادی میں اسی بستی میں اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) خود رہتے ہیں لیکن نہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دعوت دینا ضروری سمجھا جاتا ہے ، نہ بارات اور نہ ہندوؤں کی شادی جیسے ہنگامے !!!
بشکریہ : سوشیو ریفارمز سائیٹ