عوام اور علماء - ہوش کب آئے ؟؟

عندلیب

محفلین
مضمون نگار : علیم خان فلکی

اگرچہ امت کا ہر فرد جانتا ہے کہ جوڑا ، جہیز اور شادی کی دیگر تقاریب ناجائز ہیں اور اگرچہ کہ ہر روز شہر کی کسی نہ کسی گلی میں اصلاح معاشرے کے جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور مقررین اور واعظین مستقل "جہیز حرام ہے" کی کیسٹ بجا رہے ہیں ، پھر کیا وجہ ہے کہ نہ عوام کے کانوں پر جوں رینگتی ہے اور نہ معاشرے میں کوئی تبدیلی کے آثار نظر آتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نوے (90) فیصد اکثریت یا تو مشائخین سے یا پھر مدرسوں کے عالم کی پسند بننے والے حضرات کی اندھی تقلید کرتی ہے۔
ان مشائخین اور علماء کے فتوؤں اور عقیدوں کو ماننے والی اکثریت کے کسی بھی فرد کے آگے آپ لاکھ دیوار سے سر ٹکرائیے ، یہ اس وقت تک کسی چیز کو حلال یا حرام تسلیم کرنے تیار نہیں جب تک کہ وہ چیز ان کے اپنے مرشد یا استاد یا بزرگ نہ فرما دیں۔ جو افراد بچ رہتے ہیں وہ کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان حضرات کا حال علماء و مشائخین کی تقلید کرنے والوں سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ بھی جب تک کسی چیز کو اپنے امیر یا صدر یا ناظم یا اکابر سے نہ سنیں کوئی ماننے تیار نہیں۔
شاید یہی وہ پس منظر تھا جس میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ۔۔۔
یعنی لوگوں نے (یہود و نصاریٰ نے) اپنے مرشدوں اور قائدین کو اپنا رب بنا لیا تھا۔ وہ لوگ جس کو جائز کر دیتے وہ چیز ان لوگوں کے پاس جائز ہو جاتی اور وہ لوگ جن چیزوں کو ناجائز کر دیتے ، یہ چیز ان لوگوں کے پاس ناجائز ہو جاتی۔

پچھلے ہفتے جب میں حیدرآباد پہنچا تو اخبارات میں ایک معروف مشائخ کے گھر کے بیٹے کی شادی کے دن کھانے کی تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس دعوت میں چیف منسٹر ، کئی اہم لیڈر اور شہر کا بڑا طبقہ شریک ہوا ، اس کھانے کی دعوت میں بیس لاکھ سے کم کیا خرچ ہوئے ہوں گے۔ دو چار روز گزرے نہ تھے کہ ایک اور عالم دین جن کا دینی تعلیم اور مدارس کے حوالے سے شہر میں ایک خاص مقام ہے ، ان کے فرزند کی شادی مشائخ موصوف کا ریکارڈ توڑنے والی شادی تھی۔ اس تقریب پر بھی کم سے کم بیس لاکھ خرچ ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب علماء و مشائخ اور ان کی اندھی تقلید کرنے والے مقررین ، واعظین اور استاذان ، اصلاح معاشرہ کے جلسوں کو مخاطب کرتے ہیں تو عوام میں تقویٰ اور ندامت کے بجائے مزید ڈھٹائی اور دعوتوں کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جہیز اور اس سے متعلق ہر آیت اور حدیث ایک مذاق بن جاتی ہے۔

ایک دلچسپ واقعے پر غور فرمائیے۔
شب برات کے موقع پر شہر میں تقاریر کے لئے بیرون شہر سے نامور علماء کو بلایا گیا اور وہ عالیشان ہوٹلوں میں قیام پذیر ہوئے۔ انہی میں سے ایک بزرگ سے ناچیز اور فاضل حسین پرویز (ایڈیٹر "گواہ") نے شرفِ ملاقات حاصل کی۔
شہر میں جوڑے جہیز سے متعلق حالات ان کے سامنے رکھے اور ایک سوال کیا کہ :
کیا نکاح کے دن کے کھانے اور ولیمے کے دن پھر سے ایک کھانے کا کوئی شرعی جواز موجود ہے؟ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خود اپنی کسی شادی یا اپنی بیٹی کے نکاح یا کسی صحابی کے نکاح کے دن کھانا کھلانے کا کوئی ثبوت دیا ہے؟
ہمیں توقع یہی تھی کہ بزرگ صحیح جواب ارشاد فرمائیں گے کہ نکاح کے دن کھانا کھلانے کی بدعت اور اسراف صرف ہندوستان و پاکستان والوں نے ایجاد کی ہے ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو ان چیزوں کو ختم کر کے نکاح کو آسان کر دینے کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرما دیا کہ سب سے بہترین نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو۔
لیکن بزرگ نے صحیح جواب کی توقعات پر پانی پھیرتے ہوئے جواب گول کر دیا اور فرمایا کہ : کھانا کھلانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
جب ہم نے جہیز کے متعلق سوال کیا اور موجودہ حالات میں "خوشی سے دینے اور لینے" کے سسٹم کی وضاحت کی تو موصوف نے اس سسٹم کی تائید میں بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ : جبر کرنا حرام ہے ، خوشی سے دینے اور لینے میں کوئی برائی نہیں!

یہ وجہ ہے کہ عوام مکمل گمراہی کے راستے پر ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک ہو جانے والی لڑکیوں پر کوئی تبصرہ کریں یا شریعت کی توہین کرنے والی فرقہ پرست جماعتوں پر کوئی تنقید کریں۔
ایسے لوگ جو "النکاح من سنتی" جیسی حدیث رقعہ پر چھپواتے ہیں اور ان کی پوری شادی کی رسومات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی یا صحابہ کی شادی کا عمل کسوٹی نہیں بنتا تو یہ کھلی منافقت ہے !!
ایک مثال پر غور فرمائیے کہ ۔۔۔ تمام عبادات میں سجدے کو افضلیت حاصل ہے لیکن اگر کوئی شخص نماز میں ایک دو سجدے زائد ادا کرنے میں کوئی برائی نہ سمجھے تو کیا اس شخص کی نماز جائز ہوگی ؟
ہر عاقل شخص یہ دلیل دے گا کہ سجدہ ادا کرنا کوئی برا کام نہیں لیکن کب ، کیسے اور کتنے سجدے ادا کرنا ہیں ، اس کی کسوٹی صرف اور صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہوگی۔
اس طرح بےشمار نیکیوں کے کام ہیں جن کو ہر شخص جب چاہے تب ادا نہیں کر سکتا اور نہ ان کی ترجیحات (priorities) اپنی طرف سے متعین کر سکتا ہے۔ اس طرح "ہدیہ دینے" ، "کھانا کھلا کر مہمان نوازی کرنے" کے بھی انتہائی واضح اصول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان فرما دئے ہیں۔

اِس دور میں جہیز کو "ہدیہ" اور "خوشی سے دینے" کے نام پر جو گمراہی پھیلائی گئی ہے ، یہ حرام کو حلال کرنے کی ایک واضح مثال ہے۔
ایک حدیث کے مطابق ایک دَور ایسا آئے گا جب حلال کو حرام اور حرام کو حلال کا نام دے دیا جائے گا۔ سود کو تجارت اور شراب کو مشروب کا نام دے کر حلال کر لیا جائے گا۔
شاید وہ دَور آ چکا ہے جب لوگوں نے رشوت کو "خوشی سے دیا جانے والا ہدیہ" کہہ کر حلال کر لیا ہے اور نکاح کے دن کے کھانے کو "مہمان نوازی" کا نام دے کر حلال کر لیا ہے۔ اس چیز نے مشائخین ، علماء یا امیر لوگوں کے لئے تو اپنی شان دکھانے کے مواقع پیدا کر دئے ہیں لیکن سطحِ غربت پر زندگی گزارنے والی نوے (90) فیصد امت پر کیا کیا ستم ڈھائے ہیں اس کا انہیں احساس نہیں!
اگر ذرہ برابر بھی انہیں احساس ہوتا تو آج ہر مشائخ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کی طرح وداع ہوتی اور ہر عالم دین کا بیٹا عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کی طرح نکاح کرتا جن کی شادی میں اسی بستی میں اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) خود رہتے ہیں لیکن نہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دعوت دینا ضروری سمجھا جاتا ہے ، نہ بارات اور نہ ہندوؤں کی شادی جیسے ہنگامے !!!


بشکریہ : سوشیو ریفارمز سائیٹ
 

ساجد

محفلین
بہت شکریہ ۔ آپ نے میرے جذبات کی ترجمانی پہ مبنی مضمون ہمارے ساتھ سانجھا کیا۔
 

arifkarim

معطل
ظاہر ہے اسلام محض نام کا ہے اور باتیں ہیں صحابہ کرام کی!
قول و فعل کے تضاد کا جب نتیجہ نکالتے ہیں تو اجر و ثواب گول صفر ہی نکلتا ہے!
 
بھائی شادی بیاہ وغیرہ کی ہر وہ رسم جو اسلامی اصولوں سے متصادم نہ ہو، جائز اور مباح ہے۔ حرام تو قطعاّ نہین۔ صرف اسی بنیاد پر انکو بدعت یا حرام نہیں کہا جاسکتا کہ جی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ رسم نہیں تھی۔ ہر علاقے کے اپنے رسم و رواج ہوتے ہیں اپنا کلچر ہوتا ہے۔ عرب کلچر کو اسلام کے مترادف قرار دینا سنگین غلطی ہے۔
 
جی برادرم محمود پر یہاں زیادہ تر باتیں انھیں اصولوں کی کی گئی ہیں جو اسلامی اصولوں سے متصادم ہیں۔ مثلاً اصراف۔
 

arifkarim

معطل
عرب کلچر کو اسلام کے مترادف قرار دینا سنگین غلطی ہے۔

میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ مذہب و ثقافت کو آپس میں مت ملائیں۔ مگر بد رسومات چاہے کسی بھی معاشرہ میں ہوں، یا کسی بھی ثقافت کا حصہ ہوں، غلط ہے۔
جہیز دینا یا لینا۔ شادی بیاہ پر شور شرابا اور ضرورت سے زیادہ واویلا کرنا "ریاکاری و دکھاوے" کے زمرہ میں آتا ہے، اور اس سے متعلق اسلام میں واضح احکامات موجود ہیں!
 
عارف بھائی آپ کالم کو دوبارہ پڑھیں۔ شروع میں تو کالم نگار نے "اسراف" سے بات آگے بڑھائی لیکن آخر تک آتے آتے موصوف کھل کر کہہ رہے ہیں کہ شادی یا نکاے کے دن کھانا کھلانا سراسر بدعت و گمراہی ہے۔ کالم کے آخری پیراگرافس ذرا غور سے پڑھیں۔
 
جب معاشرے میں پھیلی کسی برائی کا انسداد کرنا ہو تو قدرے سختی برتنی پڑتی ہے۔ مثلاً نکاح کے روز کھانا کھلانا اگر چہ مہمان نوازی کے دائرے میں شامل کرکے جائز کہا جا سکتا ہے پر اس کے بد اثرات یہ ہیں کہ برسوں سے چلی آ رہی یہ مہمان نوازی کی رسم ایک لازمی حصہ بن گئی ہے اور عام تصور یہ بن گیا ہے کہ یہی عین شریعت ہے۔ اس لحاظ سے بیک ٹو بیسکس والی تدبیر مناسب ہے۔ اسی طرح ہدیہ دینا واقعی احسن عمل ہے پر یہ کہا جائے کہ "باس اور آفیسر کو دیا گیا تحفہ رشوت ہے" تو اسے اصلاح معاشرہ کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
 

گرائیں

محفلین
مضمون نگار : علیم خان فلکی

اگرچہ امت کا ہر فرد جانتا ہے کہ جوڑا ، جہیز اور شادی کی دیگر تقاریب ناجائز ہیں اور اگرچہ کہ ہر روز شہر کی کسی نہ کسی گلی میں اصلاح معاشرے کے جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور مقررین اور واعظین مستقل "جہیز حرام ہے" کی کیسٹ بجا رہے ہیں ، پھر کیا وجہ ہے کہ نہ عوام کے کانوں پر جوں رینگتی ہے اور نہ معاشرے میں کوئی تبدیلی کے آثار نظر آتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نوے (90) فیصد اکثریت یا تو مشائخین سے یا پھر مدرسوں کے عالم کی پسند بننے والے حضرات کی اندھی تقلید کرتی ہے۔

ان مشائخین اور علماء کے فتوؤں اور عقیدوں کو ماننے والی اکثریت کے کسی بھی فرد کے آگے آپ لاکھ دیوار سے سر ٹکرائیے ، یہ اس وقت تک کسی چیز کو حلال یا حرام تسلیم کرنے تیار نہیں جب تک کہ وہ چیز ان کے اپنے مرشد یا استاد یا بزرگ نہ فرما دیں۔ جو افراد بچ رہتے ہیں وہ کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان حضرات کا حال علماء و مشائخین کی تقلید کرنے والوں سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ بھی جب تک کسی چیز کو اپنے امیر یا صدر یا ناظم یا اکابر سے نہ سنیں کوئی ماننے تیار نہیں۔
شاید یہی وہ پس منظر تھا جس میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ۔۔۔
یعنی لوگوں نے (یہود و نصاریٰ نے) اپنے مرشدوں اور قائدین کو اپنا رب بنا لیا تھا۔ وہ لوگ جس کو جائز کر دیتے وہ چیز ان لوگوں کے پاس جائز ہو جاتی اور وہ لوگ جن چیزوں کو ناجائز کر دیتے ، یہ چیز ان لوگوں کے پاس ناجائز ہو جاتی۔

پچھلے ہفتے جب میں حیدرآباد پہنچا تو اخبارات میں ایک معروف مشائخ کے گھر کے بیٹے کی شادی کے دن کھانے کی تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس دعوت میں چیف منسٹر ، کئی اہم لیڈر اور شہر کا بڑا طبقہ شریک ہوا ، اس کھانے کی دعوت میں بیس لاکھ سے کم کیا خرچ ہوئے ہوں گے۔ دو چار روز گزرے نہ تھے کہ ایک اور عالم دین جن کا دینی تعلیم اور مدارس کے حوالے سے شہر میں ایک خاص مقام ہے ، ان کے فرزند کی شادی مشائخ موصوف کا ریکارڈ توڑنے والی شادی تھی۔ اس تقریب پر بھی کم سے کم بیس لاکھ خرچ ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب علماء و مشائخ اور ان کی اندھی تقلید کرنے والے مقررین ، واعظین اور استاذان ، اصلاح معاشرہ کے جلسوں کو مخاطب کرتے ہیں تو عوام میں تقویٰ اور ندامت کے بجائے مزید ڈھٹائی اور دعوتوں کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جہیز اور اس سے متعلق ہر آیت اور حدیث ایک مذاق بن جاتی ہے۔

ایک دلچسپ واقعے پر غور فرمائیے۔
شب برات کے موقع پر شہر میں تقاریر کے لئے بیرون شہر سے نامور علماء کو بلایا گیا اور وہ عالیشان ہوٹلوں میں قیام پذیر ہوئے۔ انہی میں سے ایک بزرگ سے ناچیز اور فاضل حسین پرویز (ایڈیٹر "گواہ") نے شرفِ ملاقات حاصل کی۔
شہر میں جوڑے جہیز سے متعلق حالات ان کے سامنے رکھے اور ایک سوال کیا کہ :
کیا نکاح کے دن کے کھانے اور ولیمے کے دن پھر سے ایک کھانے کا کوئی شرعی جواز موجود ہے؟ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خود اپنی کسی شادی یا اپنی بیٹی کے نکاح یا کسی صحابی کے نکاح کے دن کھانا کھلانے کا کوئی ثبوت دیا ہے؟
ہمیں توقع یہی تھی کہ بزرگ صحیح جواب ارشاد فرمائیں گے کہ نکاح کے دن کھانا کھلانے کی بدعت اور اسراف صرف ہندوستان و پاکستان والوں نے ایجاد کی ہے ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو ان چیزوں کو ختم کر کے نکاح کو آسان کر دینے کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرما دیا کہ سب سے بہترین نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو۔
لیکن بزرگ نے صحیح جواب کی توقعات پر پانی پھیرتے ہوئے جواب گول کر دیا اور فرمایا کہ : کھانا کھلانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
جب ہم نے جہیز کے متعلق سوال کیا اور موجودہ حالات میں "خوشی سے دینے اور لینے" کے سسٹم کی وضاحت کی تو موصوف نے اس سسٹم کی تائید میں بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ : جبر کرنا حرام ہے ، خوشی سے دینے اور لینے میں کوئی برائی نہیں!

یہ وجہ ہے کہ عوام مکمل گمراہی کے راستے پر ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک ہو جانے والی لڑکیوں پر کوئی تبصرہ کریں یا شریعت کی توہین کرنے والی فرقہ پرست جماعتوں پر کوئی تنقید کریں۔
ایسے لوگ جو "النکاح من سنتی" جیسی حدیث رقعہ پر چھپواتے ہیں اور ان کی پوری شادی کی رسومات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی یا صحابہ کی شادی کا عمل کسوٹی نہیں بنتا تو یہ کھلی منافقت ہے !!
ایک مثال پر غور فرمائیے کہ ۔۔۔ تمام عبادات میں سجدے کو افضلیت حاصل ہے لیکن اگر کوئی شخص نماز میں ایک دو سجدے زائد ادا کرنے میں کوئی برائی نہ سمجھے تو کیا اس شخص کی نماز جائز ہوگی ؟
ہر عاقل شخص یہ دلیل دے گا کہ سجدہ ادا کرنا کوئی برا کام نہیں لیکن کب ، کیسے اور کتنے سجدے ادا کرنا ہیں ، اس کی کسوٹی صرف اور صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہوگی۔
اس طرح بےشمار نیکیوں کے کام ہیں جن کو ہر شخص جب چاہے تب ادا نہیں کر سکتا اور نہ ان کی ترجیحات (priorities) اپنی طرف سے متعین کر سکتا ہے۔ اس طرح "ہدیہ دینے" ، "کھانا کھلا کر مہمان نوازی کرنے" کے بھی انتہائی واضح اصول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان فرما دئے ہیں۔

اِس دور میں جہیز کو "ہدیہ" اور "خوشی سے دینے" کے نام پر جو گمراہی پھیلائی گئی ہے ، یہ حرام کو حلال کرنے کی ایک واضح مثال ہے۔
ایک حدیث کے مطابق ایک دَور ایسا آئے گا جب حلال کو حرام اور حرام کو حلال کا نام دے دیا جائے گا۔ سود کو تجارت اور شراب کو مشروب کا نام دے کر حلال کر لیا جائے گا۔
شاید وہ دَور آ چکا ہے جب لوگوں نے رشوت کو "خوشی سے دیا جانے والا ہدیہ" کہہ کر حلال کر لیا ہے اور نکاح کے دن کے کھانے کو "مہمان نوازی" کا نام دے کر حلال کر لیا ہے۔ اس چیز نے مشائخین ، علماء یا امیر لوگوں کے لئے تو اپنی شان دکھانے کے مواقع پیدا کر دئے ہیں لیکن سطحِ غربت پر زندگی گزارنے والی نوے (90) فیصد امت پر کیا کیا ستم ڈھائے ہیں اس کا انہیں احساس نہیں!
اگر ذرہ برابر بھی انہیں احساس ہوتا تو آج ہر مشائخ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کی طرح وداع ہوتی اور ہر عالم دین کا بیٹا عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کی طرح نکاح کرتا جن کی شادی میں اسی بستی میں اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) خود رہتے ہیں لیکن نہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دعوت دینا ضروری سمجھا جاتا ہے ، نہ بارات اور نہ ہندوؤں کی شادی جیسے ہنگامے !!!


بشکریہ : سوشیو ریفارمز سائیٹ

سرخ رنگ کے نشان زد جملوں میں متضاد دعوے کئے گئے ہیں اور ان متضاد باتوں نے پورے مضمون کو مشکوک بنا دیا ہے۔ میرا خیال ہے موصوف نے بغیر کسی تیاری کے ، شائد ایک مختصر نوٹس پر یہ مضمون لکھ ڈالا ہے۔ مضمون سے صاف ظآہر ہوتا ہے کہ موصوف کو اس موضوع پو مکمل دسترس حاصل نہیں ہے۔
پھر اگلے جملوں میں جیسے کہ آج کل تنقید کی ہوا چل رہی ہے، بغیر کسی مستند ثبوت کے ، محض اپنی سوچ کی بنیاد پر خا مخا ہی علما پر تنقید شروع کر ڈالی ہے۔

شائد فیشن ہے آج کل کا۔
میرے خیال ہیں اس تحریر میں مزید بہتری کی بہت گنجائش ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ مصنف پہلے فیصلہ کر ڈالیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
مضمون نگار : علیم خان فلکی

اگرچہ امت کا ہر فرد جانتا ہے کہ جوڑا ، جہیز اور شادی کی دیگر تقاریب ناجائز ہیں اور اگرچہ کہ ہر روز شہر کی کسی نہ کسی گلی میں اصلاح معاشرے کے جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور مقررین اور واعظین مستقل "جہیز حرام ہے" کی کیسٹ بجا رہے ہیں ، پھر کیا وجہ ہے کہ نہ عوام کے کانوں پر جوں رینگتی ہے اور نہ معاشرے میں کوئی تبدیلی کے آثار نظر آتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی نوے (90) فیصد اکثریت یا تو مشائخین سے یا پھر مدرسوں کے عالم کی پسند بننے والے حضرات کی اندھی تقلید کرتی ہے۔
ان مشائخین اور علماء کے فتوؤں اور عقیدوں کو ماننے والی اکثریت کے کسی بھی فرد کے آگے آپ لاکھ دیوار سے سر ٹکرائیے ، یہ اس وقت تک کسی چیز کو حلال یا حرام تسلیم کرنے تیار نہیں جب تک کہ وہ چیز ان کے اپنے مرشد یا استاد یا بزرگ نہ فرما دیں۔ جو افراد بچ رہتے ہیں وہ کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان حضرات کا حال علماء و مشائخین کی تقلید کرنے والوں سے بھی زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ بھی جب تک کسی چیز کو اپنے امیر یا صدر یا ناظم یا اکابر سے نہ سنیں کوئی ماننے تیار نہیں۔
شاید یہی وہ پس منظر تھا جس میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ۔۔۔
یعنی لوگوں نے (یہود و نصاریٰ نے) اپنے مرشدوں اور قائدین کو اپنا رب بنا لیا تھا۔ وہ لوگ جس کو جائز کر دیتے وہ چیز ان لوگوں کے پاس جائز ہو جاتی اور وہ لوگ جن چیزوں کو ناجائز کر دیتے ، یہ چیز ان لوگوں کے پاس ناجائز ہو جاتی۔

پچھلے ہفتے جب میں حیدرآباد پہنچا تو اخبارات میں ایک معروف مشائخ کے گھر کے بیٹے کی شادی کے دن کھانے کی تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس دعوت میں چیف منسٹر ، کئی اہم لیڈر اور شہر کا بڑا طبقہ شریک ہوا ، اس کھانے کی دعوت میں بیس لاکھ سے کم کیا خرچ ہوئے ہوں گے۔ دو چار روز گزرے نہ تھے کہ ایک اور عالم دین جن کا دینی تعلیم اور مدارس کے حوالے سے شہر میں ایک خاص مقام ہے ، ان کے فرزند کی شادی مشائخ موصوف کا ریکارڈ توڑنے والی شادی تھی۔ اس تقریب پر بھی کم سے کم بیس لاکھ خرچ ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب علماء و مشائخ اور ان کی اندھی تقلید کرنے والے مقررین ، واعظین اور استاذان ، اصلاح معاشرہ کے جلسوں کو مخاطب کرتے ہیں تو عوام میں تقویٰ اور ندامت کے بجائے مزید ڈھٹائی اور دعوتوں کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جہیز اور اس سے متعلق ہر آیت اور حدیث ایک مذاق بن جاتی ہے۔

ایک دلچسپ واقعے پر غور فرمائیے۔
شب برات کے موقع پر شہر میں تقاریر کے لئے بیرون شہر سے نامور علماء کو بلایا گیا اور وہ عالیشان ہوٹلوں میں قیام پذیر ہوئے۔ انہی میں سے ایک بزرگ سے ناچیز اور فاضل حسین پرویز (ایڈیٹر "گواہ") نے شرفِ ملاقات حاصل کی۔
شہر میں جوڑے جہیز سے متعلق حالات ان کے سامنے رکھے اور ایک سوال کیا کہ :
کیا نکاح کے دن کے کھانے اور ولیمے کے دن پھر سے ایک کھانے کا کوئی شرعی جواز موجود ہے؟ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خود اپنی کسی شادی یا اپنی بیٹی کے نکاح یا کسی صحابی کے نکاح کے دن کھانا کھلانے کا کوئی ثبوت دیا ہے؟
ہمیں توقع یہی تھی کہ بزرگ صحیح جواب ارشاد فرمائیں گے کہ نکاح کے دن کھانا کھلانے کی بدعت اور اسراف صرف ہندوستان و پاکستان والوں نے ایجاد کی ہے ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو ان چیزوں کو ختم کر کے نکاح کو آسان کر دینے کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرما دیا کہ سب سے بہترین نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو۔
لیکن بزرگ نے صحیح جواب کی توقعات پر پانی پھیرتے ہوئے جواب گول کر دیا اور فرمایا کہ : کھانا کھلانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔
جب ہم نے جہیز کے متعلق سوال کیا اور موجودہ حالات میں "خوشی سے دینے اور لینے" کے سسٹم کی وضاحت کی تو موصوف نے اس سسٹم کی تائید میں بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ : جبر کرنا حرام ہے ، خوشی سے دینے اور لینے میں کوئی برائی نہیں!

یہ وجہ ہے کہ عوام مکمل گمراہی کے راستے پر ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک ہو جانے والی لڑکیوں پر کوئی تبصرہ کریں یا شریعت کی توہین کرنے والی فرقہ پرست جماعتوں پر کوئی تنقید کریں۔
ایسے لوگ جو "النکاح من سنتی" جیسی حدیث رقعہ پر چھپواتے ہیں اور ان کی پوری شادی کی رسومات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی یا صحابہ کی شادی کا عمل کسوٹی نہیں بنتا تو یہ کھلی منافقت ہے !!
ایک مثال پر غور فرمائیے کہ ۔۔۔ تمام عبادات میں سجدے کو افضلیت حاصل ہے لیکن اگر کوئی شخص نماز میں ایک دو سجدے زائد ادا کرنے میں کوئی برائی نہ سمجھے تو کیا اس شخص کی نماز جائز ہوگی ؟
ہر عاقل شخص یہ دلیل دے گا کہ سجدہ ادا کرنا کوئی برا کام نہیں لیکن کب ، کیسے اور کتنے سجدے ادا کرنا ہیں ، اس کی کسوٹی صرف اور صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہوگی۔
اس طرح بےشمار نیکیوں کے کام ہیں جن کو ہر شخص جب چاہے تب ادا نہیں کر سکتا اور نہ ان کی ترجیحات (priorities) اپنی طرف سے متعین کر سکتا ہے۔ اس طرح "ہدیہ دینے" ، "کھانا کھلا کر مہمان نوازی کرنے" کے بھی انتہائی واضح اصول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بیان فرما دئے ہیں۔

اِس دور میں جہیز کو "ہدیہ" اور "خوشی سے دینے" کے نام پر جو گمراہی پھیلائی گئی ہے ، یہ حرام کو حلال کرنے کی ایک واضح مثال ہے۔
ایک حدیث کے مطابق ایک دَور ایسا آئے گا جب حلال کو حرام اور حرام کو حلال کا نام دے دیا جائے گا۔ سود کو تجارت اور شراب کو مشروب کا نام دے کر حلال کر لیا جائے گا۔
شاید وہ دَور آ چکا ہے جب لوگوں نے رشوت کو "خوشی سے دیا جانے والا ہدیہ" کہہ کر حلال کر لیا ہے اور نکاح کے دن کے کھانے کو "مہمان نوازی" کا نام دے کر حلال کر لیا ہے۔ اس چیز نے مشائخین ، علماء یا امیر لوگوں کے لئے تو اپنی شان دکھانے کے مواقع پیدا کر دئے ہیں لیکن سطحِ غربت پر زندگی گزارنے والی نوے (90) فیصد امت پر کیا کیا ستم ڈھائے ہیں اس کا انہیں احساس نہیں!
اگر ذرہ برابر بھی انہیں احساس ہوتا تو آج ہر مشائخ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کی طرح وداع ہوتی اور ہر عالم دین کا بیٹا عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کی طرح نکاح کرتا جن کی شادی میں اسی بستی میں اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) خود رہتے ہیں لیکن نہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دعوت دینا ضروری سمجھا جاتا ہے ، نہ بارات اور نہ ہندوؤں کی شادی جیسے ہنگامے !!!


بشکریہ : سوشیو ریفارمز سائیٹ

کیا یہ بتایا جاسکتا ہے کہ اگر علماء کے پاس نہ جایا جائے تو ان کے مترادف کون لوگ ہیں جن سے پوچھا جاسکتا ہے۔
نیز عالم کی پسند بننے والے افراد سے کیا مراد
 

میر انیس

لائبریرین
علما پر بے جا تنقید کرنا جائز نہیں ہے ۔ علما بھی ہمارے ہی جیسے لوگ ہیں جنہوں نے دینی تعلیم حاصل کی جسطرح ہم دنیاوی تعلیم حاصل کرتے ہیں پر کیا کوئی بھی کیمسٹری یا فزکس کا پی ایچ ڈی یہ دعوٰی کرسکتا ہے کہ وہ ہر مسئلہ حل کرلے گا علما سے بھی نادانستگی میں غلطی ہوسکتی ہے ۔ دوسرے علما کا کام ہم کو جائز یا ناجائز کا بتانا ہے قران اور حدیث کی رو سے جیسا کہ جن عالم کا آپ نے زکر کیا انہوں نے جہیز دینا واجب قرار تو نہیں دیا نہ ہی اسکو حرام کہا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ بہت سی روایت میں اسکا ثبوت ملتا ہے بلکہ حضرت فاطمہ (ع) کا تو مختصر جہیز کا ذکر بھی موجود ہے لہٰذا جہیز دینا اگر وہ حرام قرار دیدیتے تو آپ میں سے ہی کوئی یہ روایت پیش کرکے انکو شرمندہ کر سکتا تھا۔ ولیمہ کے کھانے کا بھی روایت میں ثبوت ملتا ہے بلکہ یہاں تک ہے کہ آپ(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا کہ اپنی زرہ بیچ کر کھانے کا انتظام کرو۔
ہاں ایک بات آپکی صحیح ہے کہ اسراف نہیں ہونا چاہئے یعنی جہیز کی تو اجازت ہے پر اپنی بساط سے زیادہ صرف دنیا کو دکھانے کے لئے خرچ کیا جائے جس میں رقم کا انتظام ہر جائز اور ناجائز طریقے سے کیا جائے تو یہ منع ہے ۔ اسکے لئے لڑکے کے گھر والوں کو اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور سختی سے کہنا چاہئے کہ ہم کو جہیز نہیں چاہئے اور آپکا جہیز ہم پر نہ تو کوئی رعب ڈالے گا اورنہ ہی کم جہیز ہم کو کسی پریشانی میں مبتلا کرے گا۔ ویسے آپس کی بات بتائوں کہ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا میں آپکو اپنا واقعہ سناتا ہوں۔
میرے بھائی کی شادی ہورہی تھی اور میں نے پنگامہ برپا کیا ہوا تھا کہ جہیز بالکل نہیں لینا ہے ۔ بھائی بھی تیار تھے جبکہ کچھ تھوڑا سا بہنوں کو اختلاف تھا مگر میں نے انکا منہ بند کردیا تھا۔ حالانکہ اتنا سب کچھ کہنے کہ باوجود ہم کو بھابھی کے گھر والوں نے جہیز لینے کے لیئے بلوایا میں تپا ہوا وہاں گیا تو دیکھا کہ تقریباََ سب کچھ ہی ہے میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی میں تو ایک چیز بھی نہیں لے کر جائونگا ہمنے تو آپکو سختی سے منع کیا تھا پر انہوں نے کہا کہ ہمارے منع کرنے کے باوجود سب ماموں چاچا اور خالہ نے کچھ نہ کچھ دیا کسی نے فرج کسی نے ٹی وی اور کسی نے بیڈ روم سیٹ اب اگر ہم کچھ نہ لیتے تو وہ ناراض ہوتے اور ہم اگر اپنی طرف سے کچھ نہ دیتے تو وہ مزاق اڑاتے کہ سب سے تو لے لیا اور خود سے کچھ نہیں دیا میں پھر بھی نہیں مانا تو انہوں نے امی کو فون کیا ۔ امی نے کہا کہ خوشی کے گھر میں بے کار میں ہم ابتدا ہی میں ایک اختلافی بات کیوں لائیں اسلئے تم جو وہ کہتے ہیں کرو۔ میری اپنی شادی میں بھی یہی ہوا اب تو میری شادی تھی رشتہ طے ہوتے ہی میں نے کہدیا تھا کہ یا تو مجھے جہیز چاہئے یا لڑکی تو وہ لوگ ناراض ہوگئے کہ ہمارے گھر کی آخری شادی ہے اور ہم نے تو 3 سال پہلے سے ہی اسکے لیئے جمع کرنا شروع کردیا تھا اب اس سارے سامان کو کیا آگ لگادیں میں نے بہت سختی سے کہا کہ میں جو اس چیز کا اتنی سختی سے مخالف رہا ہوں اور خاندان میں سب کو پتا ہے کیوں کہ تقریباََ سب لڑکون کو ہی طعنہ دیتا رہا ہوں تو میری بات اسوقت مان لی گئ پر جب دلہن گھر آگئی تو آہستہ آہستہ ساری چیزیں اپنے گھر سے خود لے آئی:worried::worried:
 

Fari

محفلین
علما پر بے جا تنقید کرنا جائز نہیں ہے ۔ علما بھی ہمارے ہی جیسے لوگ ہیں جنہوں نے دینی تعلیم حاصل کی جسطرح ہم دنیاوی تعلیم حاصل کرتے ہیں پر کیا کوئی بھی کیمسٹری یا فزکس کا پی ایچ ڈی یہ دعوٰی کرسکتا ہے کہ وہ ہر مسئلہ حل کرلے گا علما سے بھی نادانستگی میں غلطی ہوسکتی ہے ۔ دوسرے علما کا کام ہم کو جائز یا ناجائز کا بتانا ہے قران اور حدیث کی رو سے جیسا کہ جن عالم کا آپ نے زکر کیا انہوں نے جہیز دینا واجب قرار تو نہیں دیا نہ ہی اسکو حرام کہا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ بہت سی روایت میں اسکا ثبوت ملتا ہے بلکہ حضرت فاطمہ (ع) کا تو مختصر جہیز کا ذکر بھی موجود ہے لہٰذا جہیز دینا اگر وہ حرام قرار دیدیتے تو آپ میں سے ہی کوئی یہ روایت پیش کرکے انکو شرمندہ کر سکتا تھا۔ ولیمہ کے کھانے کا بھی روایت میں ثبوت ملتا ہے بلکہ یہاں تک ہے کہ آپ(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا کہ اپنی زرہ بیچ کر کھانے کا انتظام کرو۔
ہاں ایک بات آپکی صحیح ہے کہ اسراف نہیں ہونا چاہئے یعنی جہیز کی تو اجازت ہے پر اپنی بساط سے زیادہ صرف دنیا کو دکھانے کے لئے خرچ کیا جائے جس میں رقم کا انتظام ہر جائز اور ناجائز طریقے سے کیا جائے تو یہ منع ہے ۔ اسکے لئے لڑکے کے گھر والوں کو اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور سختی سے کہنا چاہئے کہ ہم کو جہیز نہیں چاہئے اور آپکا جہیز ہم پر نہ تو کوئی رعب ڈالے گا اورنہ ہی کم جہیز ہم کو کسی پریشانی میں مبتلا کرے گا۔ ویسے آپس کی بات بتائوں کہ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا میں آپکو اپنا واقعہ سناتا ہوں۔
میرے بھائی کی شادی ہورہی تھی اور میں نے پنگامہ برپا کیا ہوا تھا کہ جہیز بالکل نہیں لینا ہے ۔ بھائی بھی تیار تھے جبکہ کچھ تھوڑا سا بہنوں کو اختلاف تھا مگر میں نے انکا منہ بند کردیا تھا۔ حالانکہ اتنا سب کچھ کہنے کہ باوجود ہم کو بھابھی کے گھر والوں نے جہیز لینے کے لیئے بلوایا میں تپا ہوا وہاں گیا تو دیکھا کہ تقریباََ سب کچھ ہی ہے میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی میں تو ایک چیز بھی نہیں لے کر جائونگا ہمنے تو آپکو سختی سے منع کیا تھا پر انہوں نے کہا کہ ہمارے منع کرنے کے باوجود سب ماموں چاچا اور خالہ نے کچھ نہ کچھ دیا کسی نے فرج کسی نے ٹی وی اور کسی نے بیڈ روم سیٹ اب اگر ہم کچھ نہ لیتے تو وہ ناراض ہوتے اور ہم اگر اپنی طرف سے کچھ نہ دیتے تو وہ مزاق اڑاتے کہ سب سے تو لے لیا اور خود سے کچھ نہیں دیا میں پھر بھی نہیں مانا تو انہوں نے امی کو فون کیا ۔ امی نے کہا کہ خوشی کے گھر میں بے کار میں ہم ابتدا ہی میں ایک اختلافی بات کیوں لائیں اسلئے تم جو وہ کہتے ہیں کرو۔ میری اپنی شادی میں بھی یہی ہوا اب تو میری شادی تھی رشتہ طے ہوتے ہی میں نے کہدیا تھا کہ یا تو مجھے جہیز چاہئے یا لڑکی تو وہ لوگ ناراض ہوگئے کہ ہمارے گھر کی آخری شادی ہے اور ہم نے تو 3 سال پہلے سے ہی اسکے لیئے جمع کرنا شروع کردیا تھا اب اس سارے سامان کو کیا آگ لگادیں میں نے بہت سختی سے کہا کہ میں جو اس چیز کا اتنی سختی سے مخالف رہا ہوں اور خاندان میں سب کو پتا ہے کیوں کہ تقریباََ سب لڑکون کو ہی طعنہ دیتا رہا ہوں تو میری بات اسوقت مان لی گئ پر جب دلہن گھر آگئی تو آہستہ آہستہ ساری چیزیں اپنے گھر سے خود لے آئی:worried::worried:
بالکل صد فیصد سچ کہا آپ نے- :sad2:
آجکل تو اپنی "شو شا" کی زیادہ پرواہ کی جاتی ہے- ویسے آپ کی بیان کردہ کہانی سب کی کہانی ہے-
 
Top