ناصر علی مرزا
معطل
عورت اور مرد کسی صورت برابر نہیں ،ترک صدر
کالم نگار | طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)
26 نومبر 2014 0 Print
ترک صدر رجب طیب اردگان کا یہ بیان تمام خبروں پر غالب رہا۔ کہاں اتا ترک اور کہاں موجودہ ترکی صدر کے خیالات ! ترک صدر نے کہا کہ ’’عورت اور مرد کسی صورت برابر نہیں‘ ‘اس بیان سے ترک صدر دقیانوسی سوچ کا حامل شخص معلوم ہو گا مگر جب مکمل خطاب سنا تو معلوم ہوا کہ ’’مامتا‘‘ کے پیچھے چھپی عورت کے مقام کو اجاگر کرنا مقصود تھا۔
استنبول میں خواتین کے لئے انصاف کے موضوع پر ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران ترک صدر نے ترکی میں نسوانیت کے حامی حلقوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’ہم یہ بات حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والوں کو نہیں سمجھا سکتے کیوں کہ وہ مامتاکے نظریے کو تسلیم نہیں کرتے ۔
ترکی کے صدر نے کہاکہ مرد اور خواتین کے درمیان حیاتیاتی فرق کا مطلب یہ ہے کہ اپنی اپنی زندگی میں دونوں ایک ہی طرح کے فرائض انجام نہیں دے سکتے۔انہوں نے کہا ہمارے مذہب اسلام نے معاشرے میں خواتین کے لئے ایک پوزیشن واضح کر دی ہے ،اس کا تعلق مامتا سے ہے ،کچھ لوگ یہ بات سمجھ سکتے ہیں اور کچھ لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں ،آپ یہ بات حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والوں کو نہیں سمجھا سکتے کیوں کہ وہ مامتا کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے ۔
ترک صدر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’میں اپنی والدہ کے پائوں چومتا تھا ،مجھے ان میں سے جنت کی خوشبو آتی تھی ،وہ مجھے خاموشی سے دیکھتی تھیں اور کبھی کبھی رو پڑتی تھیں ۔ماں کی مامتا بالکل مختلف شے ہے ۔
مردوں اور خواتین کے ساتھ با لکل ایک سا برتائو کیا ہی نہیں جا سکتا،ایسا کرنا انسانی فطرت کے خلاف ہو گا۔ انہوں نے کہا ’خواتین کا کردار،عادتیں،اور جسمانی ساخت مختلف ہوتے ہیں۔ ترک صدر نے کہا کہ آپ ایک ایسی ماں کو جس نے اپنے بچے کو دودھ پلایا ہو ،کسی مرد کے برابر کھڑا نہیں کر سکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آپ خواتین کو ہر کام کرنے کے لئے نہیں کہہ سکتے ،جو مرد کر سکتے ہیں،جیسا کہ کمیونسٹ نظام والی حکومتوں میں دیکھنے میں آتا تھا۔آپ خواتین کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہر جا کر زمین کھودنا شروع کر دیں ،یہ ان کی نازک فطرت کے منافی ہے‘‘۔
ترک صدر نے اپنے خطاب میں صنف نازک کے مقام مامتا کو بڑے حساس انداز میں بیان کیا ہے۔انہوں نے خواتین کا وہ روپ اجاگر کرنے کی کوشش کی جو خواتین کا حقیقی اثاثہ ہے۔ عورت جب ماں بنتی ہے تو اس کا مقام عام عورتوں سے محترم تصور کیا جاتا ہے۔حقوق نسواں میں مرد جب عورت کو اپنے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کی حمایت کرتاہے تو اکثر اوقات یہ مرد عورت کے مقام مامتا کو نظر انداز کر دیتاہے ۔ عورت کا حقیقی روپ مامتا کی صورت میں نمودار ہوتا ہے بلکہ عورت مکمل ہی ماں بننے کے بعد ہوتی ہے۔
مغربی دنیا میں مرد نے اپنی ذمہ داریاں عورت پر ڈال کر عورت کو برابری کے اعزاز سے نواز دیا ، سردیوں میں بھی عورت کو آدھا لباس پہناکر آزادی نسواں کی نوید دیتا ہے جبکہ خودگرمیوں میں بھی بدن ڈھانپ کر رکھتا ہے۔حقوق نسواں اور کبھی آزادی نسواں کے نام پر عورت کو باہر اور اندر کے تمام کام سونپ دیتا ہے ۔یہاں عورتیں گھاس بھی کاٹتی ہیں ،برفباری میں گھر کے سامنے سے برف ہٹاتی ہیں،ہر مشکل اور تھکا دینے والا کام کرتی نظر آتی ہیں ، یہ آزادی اسے اس قدر ڈھیٹ ہڈی بنا دیتی ہے کہ مرد کے بغیر گزارا کرنااسے مشکل نہیں لگتا لہذا طلاق لیتے وقت مغربی عورت کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ’’ہائے میرا کیا بنے گا‘‘۔ کیوں کہ جب سے پیدا ہوئی اس نے اپنی ماں کو بھی مردوں کی طرح کام کرتے دیکھا۔ مغرب میں بچے شادی کے بغیر بھی پیدا ہو جاتے ہیں لہذا یہاں شادی کا مقصد بچے نہیں بلکہ دو چاہنے والے ایک ساتھ زندگی گزارنے کی آرزو میں شادی کر لیتے ہیں ، آرزو بدگمانیوں کی نذر ہو جائے تو راستے الگ کر لیتے ہیں جبکہ ان کی زندگی کی روٹین متاثر نہیں ہو تی ۔
بچے پیدا کرنا،ان کی پرورش کرنا، گھر داری سنبھالنے کے علاوہ باہر کی ذمہ داریاں بھی عورت پر ڈال دینا،مامتا کے ساتھ زیادتی ہے۔مرد حقوق نسواں کی آڑ میں عورت پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ ڈال دیتا ہے لیکن حیرت ان عورتوں پر ہوتی ہے جو مردکی موجودگی میں باہر کی ذمہ داریاں بھی خود پر لاد لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ وہ آزاد ہو گئی ہیں ، مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی ہیں۔ایک مکمل بیوی اور ماں کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد عورت کے پاس اتنی ہمت اور وقت نہیں ہوتاکہ وہ ’’شانہ بشانہ‘‘ کا شوق پورا کر سکے۔
مغرب کی عورت اپنے معاشرتی حالات کے ہاتھوں مجبور ہے مگر ایک مسلمان عورت اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لئے گھر سے باہر وقت گزارنا زیادہ پسند کرنے لگی ہے۔مامتاکے فرائض میں ڈنڈی مار رہی ہیں۔گھر اور باہر کی زندگی میں توازن برقرار نہ رکھا جا سکے تو ایک دن یہی مرد اسے ذلیل کرکے گھر سے نکال دیتا ہے۔ صدر ترک کا یہ کہنا کہ عورت اور مرد کسی صورت برابر نہیں سے مراد کام اور ذمہ داریوں کی نوعیت میں تفریق کو واضح کرنا ہے۔ مردوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانا مقصود ہے کہ عورت ماں بھی ہوسکتی ہے لہذاعورت کے مقام مامتا کو فار گرانٹڈ مت لیا جائے۔
کالم نگار | طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)
26 نومبر 2014 0 Print
ترک صدر رجب طیب اردگان کا یہ بیان تمام خبروں پر غالب رہا۔ کہاں اتا ترک اور کہاں موجودہ ترکی صدر کے خیالات ! ترک صدر نے کہا کہ ’’عورت اور مرد کسی صورت برابر نہیں‘ ‘اس بیان سے ترک صدر دقیانوسی سوچ کا حامل شخص معلوم ہو گا مگر جب مکمل خطاب سنا تو معلوم ہوا کہ ’’مامتا‘‘ کے پیچھے چھپی عورت کے مقام کو اجاگر کرنا مقصود تھا۔
استنبول میں خواتین کے لئے انصاف کے موضوع پر ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران ترک صدر نے ترکی میں نسوانیت کے حامی حلقوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’ہم یہ بات حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والوں کو نہیں سمجھا سکتے کیوں کہ وہ مامتاکے نظریے کو تسلیم نہیں کرتے ۔
ترکی کے صدر نے کہاکہ مرد اور خواتین کے درمیان حیاتیاتی فرق کا مطلب یہ ہے کہ اپنی اپنی زندگی میں دونوں ایک ہی طرح کے فرائض انجام نہیں دے سکتے۔انہوں نے کہا ہمارے مذہب اسلام نے معاشرے میں خواتین کے لئے ایک پوزیشن واضح کر دی ہے ،اس کا تعلق مامتا سے ہے ،کچھ لوگ یہ بات سمجھ سکتے ہیں اور کچھ لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں ،آپ یہ بات حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والوں کو نہیں سمجھا سکتے کیوں کہ وہ مامتا کے نظریہ کو تسلیم نہیں کرتے ۔
ترک صدر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’میں اپنی والدہ کے پائوں چومتا تھا ،مجھے ان میں سے جنت کی خوشبو آتی تھی ،وہ مجھے خاموشی سے دیکھتی تھیں اور کبھی کبھی رو پڑتی تھیں ۔ماں کی مامتا بالکل مختلف شے ہے ۔
مردوں اور خواتین کے ساتھ با لکل ایک سا برتائو کیا ہی نہیں جا سکتا،ایسا کرنا انسانی فطرت کے خلاف ہو گا۔ انہوں نے کہا ’خواتین کا کردار،عادتیں،اور جسمانی ساخت مختلف ہوتے ہیں۔ ترک صدر نے کہا کہ آپ ایک ایسی ماں کو جس نے اپنے بچے کو دودھ پلایا ہو ،کسی مرد کے برابر کھڑا نہیں کر سکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آپ خواتین کو ہر کام کرنے کے لئے نہیں کہہ سکتے ،جو مرد کر سکتے ہیں،جیسا کہ کمیونسٹ نظام والی حکومتوں میں دیکھنے میں آتا تھا۔آپ خواتین کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ باہر جا کر زمین کھودنا شروع کر دیں ،یہ ان کی نازک فطرت کے منافی ہے‘‘۔
ترک صدر نے اپنے خطاب میں صنف نازک کے مقام مامتا کو بڑے حساس انداز میں بیان کیا ہے۔انہوں نے خواتین کا وہ روپ اجاگر کرنے کی کوشش کی جو خواتین کا حقیقی اثاثہ ہے۔ عورت جب ماں بنتی ہے تو اس کا مقام عام عورتوں سے محترم تصور کیا جاتا ہے۔حقوق نسواں میں مرد جب عورت کو اپنے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کی حمایت کرتاہے تو اکثر اوقات یہ مرد عورت کے مقام مامتا کو نظر انداز کر دیتاہے ۔ عورت کا حقیقی روپ مامتا کی صورت میں نمودار ہوتا ہے بلکہ عورت مکمل ہی ماں بننے کے بعد ہوتی ہے۔
مغربی دنیا میں مرد نے اپنی ذمہ داریاں عورت پر ڈال کر عورت کو برابری کے اعزاز سے نواز دیا ، سردیوں میں بھی عورت کو آدھا لباس پہناکر آزادی نسواں کی نوید دیتا ہے جبکہ خودگرمیوں میں بھی بدن ڈھانپ کر رکھتا ہے۔حقوق نسواں اور کبھی آزادی نسواں کے نام پر عورت کو باہر اور اندر کے تمام کام سونپ دیتا ہے ۔یہاں عورتیں گھاس بھی کاٹتی ہیں ،برفباری میں گھر کے سامنے سے برف ہٹاتی ہیں،ہر مشکل اور تھکا دینے والا کام کرتی نظر آتی ہیں ، یہ آزادی اسے اس قدر ڈھیٹ ہڈی بنا دیتی ہے کہ مرد کے بغیر گزارا کرنااسے مشکل نہیں لگتا لہذا طلاق لیتے وقت مغربی عورت کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ ’’ہائے میرا کیا بنے گا‘‘۔ کیوں کہ جب سے پیدا ہوئی اس نے اپنی ماں کو بھی مردوں کی طرح کام کرتے دیکھا۔ مغرب میں بچے شادی کے بغیر بھی پیدا ہو جاتے ہیں لہذا یہاں شادی کا مقصد بچے نہیں بلکہ دو چاہنے والے ایک ساتھ زندگی گزارنے کی آرزو میں شادی کر لیتے ہیں ، آرزو بدگمانیوں کی نذر ہو جائے تو راستے الگ کر لیتے ہیں جبکہ ان کی زندگی کی روٹین متاثر نہیں ہو تی ۔
بچے پیدا کرنا،ان کی پرورش کرنا، گھر داری سنبھالنے کے علاوہ باہر کی ذمہ داریاں بھی عورت پر ڈال دینا،مامتا کے ساتھ زیادتی ہے۔مرد حقوق نسواں کی آڑ میں عورت پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ ڈال دیتا ہے لیکن حیرت ان عورتوں پر ہوتی ہے جو مردکی موجودگی میں باہر کی ذمہ داریاں بھی خود پر لاد لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ وہ آزاد ہو گئی ہیں ، مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی ہیں۔ایک مکمل بیوی اور ماں کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد عورت کے پاس اتنی ہمت اور وقت نہیں ہوتاکہ وہ ’’شانہ بشانہ‘‘ کا شوق پورا کر سکے۔
مغرب کی عورت اپنے معاشرتی حالات کے ہاتھوں مجبور ہے مگر ایک مسلمان عورت اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لئے گھر سے باہر وقت گزارنا زیادہ پسند کرنے لگی ہے۔مامتاکے فرائض میں ڈنڈی مار رہی ہیں۔گھر اور باہر کی زندگی میں توازن برقرار نہ رکھا جا سکے تو ایک دن یہی مرد اسے ذلیل کرکے گھر سے نکال دیتا ہے۔ صدر ترک کا یہ کہنا کہ عورت اور مرد کسی صورت برابر نہیں سے مراد کام اور ذمہ داریوں کی نوعیت میں تفریق کو واضح کرنا ہے۔ مردوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانا مقصود ہے کہ عورت ماں بھی ہوسکتی ہے لہذاعورت کے مقام مامتا کو فار گرانٹڈ مت لیا جائے۔