امجد میانداد
محفلین
شاید یہاں باتوں میں مقام سے مراد مشقت اور محنت ہی لیا جا رہا ہے۔
کام کاج میں عورت کا مرد کے برابر ہونا اسکینڈینیونز ، یورپینز اور امیریکنز کے ہاں تقریباََ ڈسکس ہو چکا ، چلیں اب بات کرتے ہیں ساؤتھ ایشینز کی
بالخصوص پاکستان کی بات کی جائے تو شاید میری اس بات سے اتفاق کر لیا جائے کہ پاکستان کی حقیقی تصویر وہ نہیں جو نظر آتی ہے یا دکھائی جاتی ہے۔
پاکستان کی آبادی کا تناسب آج سے تقریباََ 40 سال پہلے سے ہی اگر ہم حساب لیں تو غالباََ کچھ یوں رہا ہے دیہی 70 فیصد اور شہری 30 فیصد۔ جو کہ تبدیل ہوتے ہوتے اب 60 فیصد دیہی اور 40 فیصد شہری ہو چکا ہے۔
پاکستان میں دو طرح کے طبقات میں اوپر کی جانے والی بحث کے تقابل میں عورت مرد کے شانہ بشانہ ہے یا شاید مرد سے سبقت حاصل کیے ہوئے ہے۔
دیہی پس منظر سے آگاہی رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ پاکستان کی دیہی عورت مرد سے زیادہ محنت کش اور جانفشا ہے۔ اور مرد کے مقابلے میں اس پر ذمہ داریاں بھی کئی گنا زیادہ ہیں۔ اسے مرد کی طرح ذمہ دار سمجھتے ہوئے پیرنٹنگ معاملات کو بھی عمومی انسانی بیماریوں کی طرح لیا جاتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل ہوتے ہیں وہ دوبارہ روزمرہ کے معمولات میں شامل ہو جاتی ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ وہاں ان سب میں معاشرتی اجنبیت کی دیوار حائل نہیں ہوتی اس لیے ان خواتین کو باہر کام کرنے میں دشواری بھی نہیں ہوتی۔
اگر یہ کہا جائے کہ دیہات میں خاتون کے بغیر ایک دیہی مرد کامیابی سے اپنے معاملات سنبھال ہی نہیں سکتا، بھلے وہ گھر کے ہوں یا کھیتوں کھلیانوں یا ڈنگر مویشیوں کے تو غلط نہ ہو گا۔
اب ذرا آ جائیں شہری آبادی کی طرف شہری آبادی میں وہ جو اصلاََ شہری ہیں یا پھر متوسط سے بالا طبقے سے تعلق رکھتے ہیں چونکہ وہ شہری زندگی کی مصروفیت گہما گہمی اور ہڑ دُڑ کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں وہ جان چکے ہوتے ہیں کہ خواتین کا کردار اور ان کا شانہ بشانہ چلنا گھر اور کنبے کے لیے بہت ضروری ہے بھلے وہ معاشی ضرورت کے تحت ایسا سوچتے ہوں، روشن خیالی کے تحت، آزاد خیالی کے تحت یا یہ سب ان کے نزدیک بحث طلب ہو ہی نا ۔ اس خالصتاََ شہری اور اس کے علاوہ بالا طبقے میں خواتین معاشی سفر یا دیگر مصروفیات میں مرد سے کچھ زیادہ ہی مصروف ثابت ہوئی ہیں، پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ گھر ہستی پھر بھی انہی کی ذمہ داری ہے اگر آیا ہے تو آیا نے کیا پکانا ہے اور کیسا پکانا ہے ، کپڑے کب دھلوانے ہیں کیسے اور کون کون سے یہ پھر بھی انہی کو دیکھنا ہے۔ چونکہ شہری زندگی اور شہر ان میں رچ بس چکا ہوتا ہے یا پھر ان کے لیے یہ سب میٹر نہیں کرتا اس لیے معاشرتی اجنبیت یہاں بھی آڑے نہیں آتی ان کی کسی سرگرمی میں یا وہ اسے خاطر میں نہیں لاتے۔
اب آخر میں اس طبقے کو کور کر لیں وہ 10 فیصد جو ہمارے چالیس سال پہلے کے اعدادو شمار میں دیہی میں شامل تھا اور آج کے دور کے اعدادو شمار میں شہری اعداد و شمار میں شامل ہے ۔ یہ وہ طبقہ ہے جو تبدیلی کے لیے شہر کا رخ کرتا رہا ہے اور چونکہ وہ یہ تصور کرتا ہے کہ گاؤں یا دیہات میں تو سارے اپنے تھے اور جو اپنے نہیں تھے وہ بھی نسلوں سے جانے پہچانے تھے اس لیے عورت کا کام کاج یا کسی اور معاشرتی و معاشی مصروفیت کے باعث باہر نکلنا کوئی مسئلہ نہ تھا کہیں اجنبیت نا تھی لیکن اب شہر میں آنے کے بعد شہری زندگی اور ماحول اور اتنی ساری اجنبیت بھی ہضم کرنا ممکن نہ ہوتا اس کے ساتھ ساتھ اپنا دیہی کمپلیکس وہ شہری طرز کی نفی کر کے ختم کرتےہیں۔ اس طرح اس دس فیصد کی وہ خواتین جو پہلے تو فعال تھیں کئی شعبوں میں اب صرف گھر گھر ہستی کی ہو کر رہ جاتی ہیں اور یہ طبقہ مصروف شہری و بالا طبقے کی طرح اپنے کام سے کام رکھنے والا بھی نہیں ہوتا اس نے اپنے پیچھے رہ جانے والے دیہاتی تعلقات پر بھی رعب بنانا ہوتا ہے اور شہری لوگوں کے اثر سے بھی الگ کرنا ہوتا ہے اس لیے یہ کچھ نہ کچھ الگ کرتے رہتے ہیں۔
کام کاج میں عورت کا مرد کے برابر ہونا اسکینڈینیونز ، یورپینز اور امیریکنز کے ہاں تقریباََ ڈسکس ہو چکا ، چلیں اب بات کرتے ہیں ساؤتھ ایشینز کی
بالخصوص پاکستان کی بات کی جائے تو شاید میری اس بات سے اتفاق کر لیا جائے کہ پاکستان کی حقیقی تصویر وہ نہیں جو نظر آتی ہے یا دکھائی جاتی ہے۔
پاکستان کی آبادی کا تناسب آج سے تقریباََ 40 سال پہلے سے ہی اگر ہم حساب لیں تو غالباََ کچھ یوں رہا ہے دیہی 70 فیصد اور شہری 30 فیصد۔ جو کہ تبدیل ہوتے ہوتے اب 60 فیصد دیہی اور 40 فیصد شہری ہو چکا ہے۔
پاکستان میں دو طرح کے طبقات میں اوپر کی جانے والی بحث کے تقابل میں عورت مرد کے شانہ بشانہ ہے یا شاید مرد سے سبقت حاصل کیے ہوئے ہے۔
دیہی پس منظر سے آگاہی رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ پاکستان کی دیہی عورت مرد سے زیادہ محنت کش اور جانفشا ہے۔ اور مرد کے مقابلے میں اس پر ذمہ داریاں بھی کئی گنا زیادہ ہیں۔ اسے مرد کی طرح ذمہ دار سمجھتے ہوئے پیرنٹنگ معاملات کو بھی عمومی انسانی بیماریوں کی طرح لیا جاتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل ہوتے ہیں وہ دوبارہ روزمرہ کے معمولات میں شامل ہو جاتی ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ وہاں ان سب میں معاشرتی اجنبیت کی دیوار حائل نہیں ہوتی اس لیے ان خواتین کو باہر کام کرنے میں دشواری بھی نہیں ہوتی۔
اگر یہ کہا جائے کہ دیہات میں خاتون کے بغیر ایک دیہی مرد کامیابی سے اپنے معاملات سنبھال ہی نہیں سکتا، بھلے وہ گھر کے ہوں یا کھیتوں کھلیانوں یا ڈنگر مویشیوں کے تو غلط نہ ہو گا۔
اب ذرا آ جائیں شہری آبادی کی طرف شہری آبادی میں وہ جو اصلاََ شہری ہیں یا پھر متوسط سے بالا طبقے سے تعلق رکھتے ہیں چونکہ وہ شہری زندگی کی مصروفیت گہما گہمی اور ہڑ دُڑ کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں وہ جان چکے ہوتے ہیں کہ خواتین کا کردار اور ان کا شانہ بشانہ چلنا گھر اور کنبے کے لیے بہت ضروری ہے بھلے وہ معاشی ضرورت کے تحت ایسا سوچتے ہوں، روشن خیالی کے تحت، آزاد خیالی کے تحت یا یہ سب ان کے نزدیک بحث طلب ہو ہی نا ۔ اس خالصتاََ شہری اور اس کے علاوہ بالا طبقے میں خواتین معاشی سفر یا دیگر مصروفیات میں مرد سے کچھ زیادہ ہی مصروف ثابت ہوئی ہیں، پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ گھر ہستی پھر بھی انہی کی ذمہ داری ہے اگر آیا ہے تو آیا نے کیا پکانا ہے اور کیسا پکانا ہے ، کپڑے کب دھلوانے ہیں کیسے اور کون کون سے یہ پھر بھی انہی کو دیکھنا ہے۔ چونکہ شہری زندگی اور شہر ان میں رچ بس چکا ہوتا ہے یا پھر ان کے لیے یہ سب میٹر نہیں کرتا اس لیے معاشرتی اجنبیت یہاں بھی آڑے نہیں آتی ان کی کسی سرگرمی میں یا وہ اسے خاطر میں نہیں لاتے۔
اب آخر میں اس طبقے کو کور کر لیں وہ 10 فیصد جو ہمارے چالیس سال پہلے کے اعدادو شمار میں دیہی میں شامل تھا اور آج کے دور کے اعدادو شمار میں شہری اعداد و شمار میں شامل ہے ۔ یہ وہ طبقہ ہے جو تبدیلی کے لیے شہر کا رخ کرتا رہا ہے اور چونکہ وہ یہ تصور کرتا ہے کہ گاؤں یا دیہات میں تو سارے اپنے تھے اور جو اپنے نہیں تھے وہ بھی نسلوں سے جانے پہچانے تھے اس لیے عورت کا کام کاج یا کسی اور معاشرتی و معاشی مصروفیت کے باعث باہر نکلنا کوئی مسئلہ نہ تھا کہیں اجنبیت نا تھی لیکن اب شہر میں آنے کے بعد شہری زندگی اور ماحول اور اتنی ساری اجنبیت بھی ہضم کرنا ممکن نہ ہوتا اس کے ساتھ ساتھ اپنا دیہی کمپلیکس وہ شہری طرز کی نفی کر کے ختم کرتےہیں۔ اس طرح اس دس فیصد کی وہ خواتین جو پہلے تو فعال تھیں کئی شعبوں میں اب صرف گھر گھر ہستی کی ہو کر رہ جاتی ہیں اور یہ طبقہ مصروف شہری و بالا طبقے کی طرح اپنے کام سے کام رکھنے والا بھی نہیں ہوتا اس نے اپنے پیچھے رہ جانے والے دیہاتی تعلقات پر بھی رعب بنانا ہوتا ہے اور شہری لوگوں کے اثر سے بھی الگ کرنا ہوتا ہے اس لیے یہ کچھ نہ کچھ الگ کرتے رہتے ہیں۔