عورت اور مرد کسی صورت برابر نہیں ،ترک صدر

شاید یہاں باتوں میں مقام سے مراد مشقت اور محنت ہی لیا جا رہا ہے۔

کام کاج میں عورت کا مرد کے برابر ہونا اسکینڈینیونز ، یورپینز اور امیریکنز کے ہاں تقریباََ ڈسکس ہو چکا ، چلیں اب بات کرتے ہیں ساؤتھ ایشینز کی :) :)
بالخصوص پاکستان کی بات کی جائے تو شاید میری اس بات سے اتفاق کر لیا جائے کہ پاکستان کی حقیقی تصویر وہ نہیں جو نظر آتی ہے یا دکھائی جاتی ہے۔

پاکستان کی آبادی کا تناسب آج سے تقریباََ 40 سال پہلے سے ہی اگر ہم حساب لیں تو غالباََ کچھ یوں رہا ہے دیہی 70 فیصد اور شہری 30 فیصد۔ جو کہ تبدیل ہوتے ہوتے اب 60 فیصد دیہی اور 40 فیصد شہری ہو چکا ہے۔

پاکستان میں دو طرح کے طبقات میں اوپر کی جانے والی بحث کے تقابل میں عورت مرد کے شانہ بشانہ ہے یا شاید مرد سے سبقت حاصل کیے ہوئے ہے۔
دیہی پس منظر سے آگاہی رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ پاکستان کی دیہی عورت مرد سے زیادہ محنت کش اور جانفشا ہے۔ اور مرد کے مقابلے میں اس پر ذمہ داریاں بھی کئی گنا زیادہ ہیں۔ اسے مرد کی طرح ذمہ دار سمجھتے ہوئے پیرنٹنگ معاملات کو بھی عمومی انسانی بیماریوں کی طرح لیا جاتا ہے اور چلنے پھرنے کے قابل ہوتے ہیں وہ دوبارہ روزمرہ کے معمولات میں شامل ہو جاتی ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ وہاں ان سب میں معاشرتی اجنبیت کی دیوار حائل نہیں ہوتی اس لیے ان خواتین کو باہر کام کرنے میں دشواری بھی نہیں ہوتی۔
اگر یہ کہا جائے کہ دیہات میں خاتون کے بغیر ایک دیہی مرد کامیابی سے اپنے معاملات سنبھال ہی نہیں سکتا، بھلے وہ گھر کے ہوں یا کھیتوں کھلیانوں یا ڈنگر مویشیوں کے تو غلط نہ ہو گا۔

اب ذرا آ جائیں شہری آبادی کی طرف شہری آبادی میں وہ جو اصلاََ شہری ہیں یا پھر متوسط سے بالا طبقے سے تعلق رکھتے ہیں چونکہ وہ شہری زندگی کی مصروفیت گہما گہمی اور ہڑ دُڑ کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں وہ جان چکے ہوتے ہیں کہ خواتین کا کردار اور ان کا شانہ بشانہ چلنا گھر اور کنبے کے لیے بہت ضروری ہے بھلے وہ معاشی ضرورت کے تحت ایسا سوچتے ہوں، روشن خیالی کے تحت، آزاد خیالی کے تحت یا یہ سب ان کے نزدیک بحث طلب ہو ہی نا ۔ اس خالصتاََ شہری اور اس کے علاوہ بالا طبقے میں خواتین معاشی سفر یا دیگر مصروفیات میں مرد سے کچھ زیادہ ہی مصروف ثابت ہوئی ہیں، پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ گھر ہستی پھر بھی انہی کی ذمہ داری ہے اگر آیا ہے تو آیا نے کیا پکانا ہے اور کیسا پکانا ہے ، کپڑے کب دھلوانے ہیں کیسے اور کون کون سے یہ پھر بھی انہی کو دیکھنا ہے۔ چونکہ شہری زندگی اور شہر ان میں رچ بس چکا ہوتا ہے یا پھر ان کے لیے یہ سب میٹر نہیں کرتا اس لیے معاشرتی اجنبیت یہاں بھی آڑے نہیں آتی ان کی کسی سرگرمی میں یا وہ اسے خاطر میں نہیں لاتے۔

اب آخر میں اس طبقے کو کور کر لیں وہ 10 فیصد جو ہمارے چالیس سال پہلے کے اعدادو شمار میں دیہی میں شامل تھا اور آج کے دور کے اعدادو شمار میں شہری اعداد و شمار میں شامل ہے ۔ یہ وہ طبقہ ہے جو تبدیلی کے لیے شہر کا رخ کرتا رہا ہے اور چونکہ وہ یہ تصور کرتا ہے کہ گاؤں یا دیہات میں تو سارے اپنے تھے اور جو اپنے نہیں تھے وہ بھی نسلوں سے جانے پہچانے تھے اس لیے عورت کا کام کاج یا کسی اور معاشرتی و معاشی مصروفیت کے باعث باہر نکلنا کوئی مسئلہ نہ تھا کہیں اجنبیت نا تھی لیکن اب شہر میں آنے کے بعد شہری زندگی اور ماحول اور اتنی ساری اجنبیت بھی ہضم کرنا ممکن نہ ہوتا اس کے ساتھ ساتھ اپنا دیہی کمپلیکس وہ شہری طرز کی نفی کر کے ختم کرتےہیں۔ اس طرح اس دس فیصد کی وہ خواتین جو پہلے تو فعال تھیں کئی شعبوں میں اب صرف گھر گھر ہستی کی ہو کر رہ جاتی ہیں اور یہ طبقہ مصروف شہری و بالا طبقے کی طرح اپنے کام سے کام رکھنے والا بھی نہیں ہوتا اس نے اپنے پیچھے رہ جانے والے دیہاتی تعلقات پر بھی رعب بنانا ہوتا ہے اور شہری لوگوں کے اثر سے بھی الگ کرنا ہوتا ہے اس لیے یہ کچھ نہ کچھ الگ کرتے رہتے ہیں۔
 

زرقا مفتی

محفلین
حقوق نسواں پر سب مرد حضرات بحث میں مصروف
محفل کی خواتین کہاں ہیں؟؟
ترک صدر نے کچھ غلط نہیں کہا
عورت اور مرد کی برابری کی بحث بہت پرانی ہے
مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک فضول بحث ہے
عورت اور مرد کے تخلیق کار نے انہیں مختلف بنایا ۔
روایتی طور پر مرد خاندان کا کفیل اور محا فظ ہے اور عورت گھر اور بچوں کی مہربان نگہبان
تاہم عورت فطری ذہانت میں کسی طور مرد سے کم نہیں ۔خاندان میں مرد کی غیر موجودگی میں وہ اسکی کفیل محافظ مہرباں نگہباں بن جاتی ہے
عورت نے اپنی ذہانت سے ہر شعبے میں اپنی حیثیت منوا لی ہے
لیکن ممتا ہمیشہ سے اسکی پہچان رہی ہے اور کوئی بھی مرد عورت کے اس فطری جذبے میں اس کی برابری نہیں کر سکتا اور یہی ترک صدر نے کہا
ایک عورت اپنے اسی فطری جذبے یا صلاحیت کے بل بوتے پر بچے کی پرورش کرتی ہے وہ اپنے شیر خوار کی ضرورت کو بھی پہچان لیتی ہے جو ابھی بولنا نہیں جانتا۔
میرے خیال میں ایک نو زائیدہ بچے کو تین سال تک ماں کے زیادہ پیار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام ایک رحمت ہے کہ ملازمت پیشہ مائیں اپنے کم سن بچوں کو نانی یا دادی کے سپرد کر سکتی ہیں۔
 

منقب سید

محفلین
حقوق نسواں پر سب مرد حضرات بحث میں مصروف
حقوق نسواں ہمیشہ سے ہی سب مرد حضرات کا ہارٹ فیورٹ رہا ہے۔ :p
وہ الگ بات کہ اکثریت خواتین کو جائز بنیادی حقوق دینے کے بھی حق میں نہیں ہوتے۔
محفل کی خواتین کہاں ہیں؟؟
سب بہنیں گھریلو ذمہ داریوں میں مصروف لگتی ہیں آجکل۔
عورت اور مرد کی برابری کی بحث بہت پرانی ہے
مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک فضول بحث ہے
عورت اور مرد کے تخلیق کار نے انہیں مختلف بنایا ۔
روایتی طور پر مرد خاندان کا کفیل اور محا فظ ہے اور عورت گھر اور بچوں کی مہربان نگہبان۔۔
متفق
تاہم عورت فطری ذہانت میں کسی طور مرد سے کم نہیں ۔
ایک مرتبہ دوران تعلیم ایسی ہی بحث کے دوران دو گروپ بنائے گئے تھے جو مخلوط تھے اور اس موقف کے حق میں گروپ A تھا اور گروپ B اس موقف کی مخالفت میں دلائل دے رہا تھا۔ بحث 3 دن تک چلی اور آخر میں گروپ B نے گواہی کے بارے میں اسلامی قوانین کے سہارے اس موقف کی تردید پیش کر کے بحث کا مقابلہ جیتا۔ خیر میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ چند معاملات میں واقعی عورت کا شعور مرد کے مقابلے میں زیادہ پختہ ہے اور چند معاملات میں مرد اس میدان میں آگے ہے۔ لہذا صورتحال اس موقف پر برابر یا متوازن ریٹنگ ہی کی بنتی ہے۔
لیکن ممتا ہمیشہ سے اسکی پہچان رہی ہے اور کوئی بھی مرد عورت کے اس فطری جذبے میں اس کی برابری نہیں کر سکتا اور یہی ترک صدر نے کہا
ایک عورت اپنے اسی فطری جذبے یا صلاحیت کے بل بوتے پر بچے کی پرورش کرتی ہے وہ اپنے شیر خوار کی ضرورت کو بھی پہچان لیتی ہے جو ابھی بولنا نہیں جانتا۔
متفق
میرے خیال میں ایک نو زائیدہ بچے کو تین سال تک ماں کے زیادہ پیار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام ایک رحمت ہے کہ ملازمت پیشہ مائیں اپنے کم سن بچوں کو نانی یا دادی کے سپرد کر سکتی ہیں۔
کاش آپ کے اس خیال سے آج کل کی نوجوان خواتین کی ایک بڑی تعداد متفق ہو سکے۔
۔
عورت اور مرد کی اہمیت اپنی اپنی جگہ مسلم ہے۔ بے شک برابری کے میدان میں ایک دوسرے کے مقابل آ کر بھی بہت سی فطری چیزیں ایسی ہیں جنہیں کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح ہمارے مذہبی اور معاشرتی اقدار ہمیں سکھاتے ہیں اس کے مطابق عورت ہو یا مرد دونوں اپنی اپنی جگہ پر ایک دوسرے کے لئے قابل احترام ہیں۔ اس طرح کی بحث کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے جو کہ بعد میں بدمزگی کا باعث بنتی ہے۔
 
مجھے چند دن پہلے منظر عام پر آنے والی انسانی دماغ پر ہونے والی سائنسی تحقیق کے نتائج یاد آگئے۔ جس کے مطابق مرد اور عورت کے دماغ بھی مختلف ہوتے ہیں۔ عورت کے دماغ میں حقائق کو یاد رکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے اور مرد کے دماغ میں حقائق کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت۔ :)
اس تحقیق کا خلاصہ یہ تھا کہ مرد و عورت کے دماغ ایسے بنے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ :)
 

زیک

مسافر
ایک مرتبہ دوران تعلیم ایسی ہی بحث کے دوران دو گروپ بنائے گئے تھے جو مخلوط تھے اور اس موقف کے حق میں گروپ A تھا اور گروپ B اس موقف کی مخالفت میں دلائل دے رہا تھا۔ بحث 3 دن تک چلی اور آخر میں گروپ B نے گواہی کے بارے میں اسلامی قوانین کے سہارے اس موقف کی تردید پیش کر کے بحث کا مقابلہ جیتا۔
ہاہاہا
 

سید زبیر

محفلین
ایک خاتون کا کیا مقام ہے یورپ بھی اس سے آگاہ ہے مگر سرمایہ دار استحصالی طبقہ اپنے مفاد میں خواتین کو استعمال کرتا ہے ۔ اسلام میں جہاں خواتین پر بھی حصول علم فرض ہے وہاں وہ ضرورت کے تحت کاروبار ، ملازمت وغیرہ بھی کر سکتی ہے ۔مرد اگر جسمانی طور مضبوط ہے تو عورت جذبات و احساسات پر قوی ہے وہ مرد کو منزل کے حصول کے لئے ایک قوت فراہم کرتی ہے ۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے ۔
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
كيا قرآن مجيد ميں مرد و عورت كے مابين مساوات كا ذكر كيا گيا ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

مساوات كى اصطلاح جس كا آج كل مشرق و مغرب ميں مفكرين حضرات بڑا راگ الاپ رہے ہيں، كہ زندگى كے متعدد شعبوں ميں مساوات ہونى چاہيے، يہ ايسى اصطلاح ہے جو صحيح نہيں اور قلت ادراك كى شكار ہے، خاص كر بات كرنے والے كا اسے قرآن مجيد يا دين حنيف كى طرف منسوب كرنا.

لوگ اپنے اس قول اور اسے سمجھنے ميں بھى غلط ہيں جب وہ يہ نعرہ لگاتے ہيں كہ دين اسلام مساوات كا دين ہے، حالانكہ صحيح تو يہ ہے كہ انہيں يہ كہنا چاہيے: دين اسلام عدل و انصاف كا دين ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہاں يہ جاننا ضرورى ہے كہ كچھ لوگ عدل كى بجائے مساوات كا لفظ استعمال كرتے ہيں جو كہ غلط ہے، مساوات نہيں كہا جائيگا كيونكہ مساوات كا تقاضا ہے كہ ان دونوں كے مابين فرق نہ كيا جائے، اور اس ظالمانہ مساوات كى دعوت اور نعرے كى بنا پر وہ كہنے لگے ہيں كہ:

مرد و عورت كے مابين كونسا فرق ہے ؟ انہوں نے مرد و عورت كو برابر كر ديا ہے، حتى كہ كيمونسٹ تو يہاں تك كہتے ہيں كہ: حاكم اور محكوم كے مابين كونسا فرق ہے ؟ يہ ممكن ہى نہيں كہ كوئى ايك دوسرے پر سلطہ ركھے، اور حكمرانى كرے، حتى كہ والد اور بيٹا بھى، والد كو اپنے بيٹے پر بھى سلطہ اور طاقت نہيں ہے، اسى طرح آگے.

ليكن جب ہم عدل كا لفظ بولينگے اور عدل كا معنى ہے كہ ہر مستحق كو اس كا حق دينا جس كا وہ مستحق ہے، تو يہ ممانعت زائل اور ختم ہو جائيگى، اور عبارت صحيح ہو جائيگى اسى ليے قرآن مجيد ميں كبھى يہ لفظ نہيں آئے كہ اللہ تعالى تمہيں مساوات يعنى برابرى كرنے كا حكم ديتا ہے، بلكہ اللہ تعالى نے قرآن ميں يہ كہا ہے:

{ اللہ تعالى تمہيں عدل و انصاف كا حكم ديا ہے } النحل ( 91 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

{ اور جب تم لوگوں ميں كے درميان فيصلہ كرو تو عدل و انصاف كے ساتھ فيصلہ كرو }النساء ( 58 ).

جو كوئى بھى يہ كہتا ہے كہ دين اسلام مساوات كا دين ہے وہ اسلام پر جھوٹ بول رہا ہے، بلكہ دين اسلام تو دين عدل ہے جو كہ متساوى كو جمع اور متفرقين كو جدا كرنا ہے، اور يہ كہنا كہ يہ دين مساوات ہے جو دين اسلام كو جانتا اور اس كى معرفت ركھتا ہے وہ ايسا قول نہيں كہہ سكتا.

بلكہ اس قاعدہ اور اصول كے بطلان پر يہ دلالت كرتا ہے كہ قرآن مجيد ميں اكثر مساوات كى نفى ہوئى ہے.

ارشاد بارى تعالى ہے:

{ كہہ ديجئے كيا وہ لوگ جو جانتے ہيں اور جو لوگ نہيں جانتے برابر ہيں }الزمر ( 9 ).

اور ايك مقام پر ارشاد ربانى ہے:

{ كہہ ديجئے كيا اندھا اور ديكھنے والا برابر ہو سكتے ہيں، يا كيا اندھيرے اور روشنى برابر ہو سكتے ہيں }الرعد ( 16 ).

اور ايك مقام پر فرمان ہے:

{ تم ميں سے جس نے فتح سے پہلے خرچ كيا اور جھاد كيا برابر نہيں، يہ ان لوگوں سے زيادہ درجے والے ہيں جنہوں نے اس كے بعد خرچ كيا اور جہاد كيا }الحديد ( 10 ).

اور ايك مقام پر رب ذوالجلال كا فرمان اس طرح ہے:

{ اپنى جانوں اور مالوں سے اللہ كى راہ ميں جہاد كرنے والے مومن اور بغير عذر كے بيٹھ رہنے والے مومن برابر نہيں ہو سكتے اپنے مالوں اور اپنى جانوں سے جہاد كرنے والوں كو بيٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالى نے درجوں ميں بہت فضيلت دے ركھى ہے }النساء ( 95 ).

قرآن مجيد ميں كوئى ايك حرف بھى ايسا نہيں جو مساوات كا حكم ديتا ہو، بلكہ عدل و انصاف كا حكم ديتا ہے، اور لوگوں كے بھى كلمہ " عدل " مقبول ہے، ميں محسوس كرتا ہوں كہ مجھے اس شخص پر علم يا مال يا ورع و تقوى يا نيكى كرنے ميں درجہ اور فضيلت حاصل ہے، پھر ميں اس پر كبھى راضى نہيں كہ وہ ميرے برابر ہو، ہر انسان جانتا ہے كہ جب ہم يہ كہيں مرد و عورت ميں برابرى ہے تو اس ميں حرج پايا جاتا ہے.

ديكھيں: شرح العقيدۃ الواسطيۃ ( 1 / 180 - 181 ).

اس بنا پر اسلام ان امور ميں مرد و عورت كے مابين مساوات اور برابرى نہيں كرتا جن ميں اگر مساوات و برابرى كى جائے تو ان ميں ايك پر ظلم ہو؛ كيونكہ بغير جگہ كے مساوات شديد قسم كا ظلم كہلاتا ہے.

چنانچہ قرآن مجيد نے عورت كو وہ اشياء پہننے اور زيب تن كرنے كا حكم ديا ہے جو مرد كے علاوہ ہيں، كيونكہ دونوں جنس كے فتنہ ميں فرق ہے، چنانچہ مرد كے ساتھ عورت كے مقابلہ ميں كم ہے، اس ليے عورت كا لباس مرد كے لباس كے علاوہ ہے اور پھر يہ حكمت نہيں كہ عورت كو اپنا بدن ننگا كرنے كا حكم ديا جو مرد اپنے جسم سے ننگا كر سكتا ہے، كيونكہ عورت اور مرد كے بدن كا فتنہ بھى مختلف ہے، جيسا كہ ہم آگے چل كر بيان بھى كرينگے.

دوم:

شريعت اسلاميہ ميں كچھ امور ايسے ہيں جن ميں عورت مرد سے مختلف ہے:

1 - القوامہ: يعنى حكمرانى:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ مرد عورتوں پر حاكم ہيں اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں }النساء ( 34 ).

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

قولہ تعالى: { مرد عورتوں پر حكمران ہيں }.

يعنى مرد عورت كا قيم ہے، دوسرے معنوں ميں مرد عورت كا حكمران اور رئيس اور اس كا بڑا اور اس پر حاكم ہے، اور جب وہ ٹيڑھى ہو جائے تو اسے سيدھا كرنے اور ادب سكھانے والا ہے.

{ اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى }.

يعنى: اس ليے كہ مرد عورتوں سے افضل ہے، اور مرد عورت سے بہتر ہے، اسى ليے نبوت مرد كے ساتھ خاص ہے، اور اسى طرح حكمرانى بھى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" وہ قوم ہرگز كبھى كامياب نہيں ہو سكتى جس نے اپنے امور كا ذمہ دار عورت كو بنا ليا "

اسے امام بخارى رحمہ اللہ نے عبد الرحمن بن ابى بكرۃ رضى اللہ تعالى سے بيان كيا وہ اپنے والد ابى بكرۃ رضى اللہ تعالى سے بيان كرتے ہيں، اور اسى طرح قضاء وغيرہ كا منصب بھى مرد كے ساتھ خاص ہے.

{ اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں }.

يعنى: حق مہر اور نان و نفقہ اور عورتوں كے وہ اخراجات جو اللہ تعالى نے اپنى كتاب اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى سنت ميں مرد پر واجب كيے ہيں، چنانچہ مرد فى نفسہ عورت سے افضل ہے، اور اسے اس عورت پر فضيلت حاصل ہے، اس ليے مناسب ہوا كہ وہ اس كا قيم اور نگران اور حاكم ہو جيسا كہ اللہ تعالى نے فرمايا ہے:

{ اور مردوں كو ان پر فضيلت و درجہ حاصل ہے }الآيۃ.

اور على بن ابى طلحہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں كہ:

{ مرد عورتوں پر حاكم ہيں }.

يعنى ان پر حكمران اور امير ہيں، يعنى عورت ان كى ان معاملات ميں اطاعت كريگى جن ميں اللہ تعالى نے اس كى اطاعت كرنےكا حكم ديا ہے، اور اس كى اطاعت يہ ہے كہ عورت اس كے اہل كے ليے محسنہ ہو اور اس كے مال كى حفاظت كرنے والى ہو.

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 490 ).

2 - گواہى: قرآن مجيد نے مرد كى گواہى دو عورتوں كے برابر قرار دى ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

{ اور تم اپنے مردوں ميں سے دو مرد گواہ بنا لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ايك مرد اور دو عورتيں جنہيں تمہيں گواہ بنانا پسند كرتے ہو، اس ليے كہ اگر ايك عورت بھول جائے تو دوسرى اس كو ياد دلا دے }البقرۃ ( 282 ).

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" دو عورتيں ايك مرد كے قائم مقام اس ليے بنائى گئى ہيں كہ عورت كى عقل ناقص ہے جيسا كہ صحيح مسلم ميں وارد ہے...

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے عورتوں كى جماعت صدقہ كيا كرو، اور استغفار كثرت سے كرتى رہا كرو، كيونكہ ميں نے ديكھا ہے كہ تمہارى كثرت آگ ميں ہے.

ايك عقل اور رائے والى عورت نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہميں كيا ہے كہ زيادہ آگ ميں ہيں ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم لعن طعن بہت كثرت سے كرتى ہو، اور خاوند كى ناشكر بہت كرتى ہو، ميں نے تم سے ناقص دين اور ناقص عقل والياں نہيں ديكھى جو عقلمند شخص پر غالب آ جاتى ہوں "

وہ عورت كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم عقل اور دين ميں نقصان كس طرح ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عورت كى عقصل ميں نقص يہ ہے كہ دو عورتوں كى گواہى ايك مرد كے برابر ہے، يہ اس كى عقل كا نقصان ہے، اور كئى راتيں وہ نماز اور رمضان كے روزوں كى ادائيگى نہيں كرتى جو كہ اس كے دين كا نقصان ہے "

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 336 ).

ہو سكتا ہے بعض عورتيں كچھ مردوں سے زيادہ عقلمند بھى ہوں ليكن يہ اصل نہيں، اور نہ ہى اكثر ہے، اور شريعت نے اغلب اور عام پربنا كى ہے.

اور پھر عورت كے ناقص العقل ہونے كا مطلب يہ نہيں كہ وہ مجنون اور پاگل ہے، بلكہ اس كا معنى يہ ہے كہ اكثر اوقات اس كى عقل پر اس كى عاطفت و نرمى و رحمدلى غالب آ جاتى ہے، اور اس كے ليے يہ حالت مرد كے مقابلہ ميں اكثر پيدا ہوتى ہے جسكا انكار صرف تكبر والا اور منكر شخص ہى كرتا ہے.

3 - عورت مرد كے مقابلہ ميں نصف كى وارث ہوتى ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

{ اللہ تعالى تمہيں تمہارى اولاد كے متعلق وصيت كرتا ہے كہ لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر ملے گا }النساء ( 11 ).

قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اس ليے كہ اللہ تعالى ان سے زيادہ ان كى مصحلتوں اور ضروريات كا علم ركھتا ہے، اس ليے اس نے تقسيم ميں ان كے درميان جو اس نے مصحلت سمجھى اس كے حساب سے فرق ركھا ہے "

ديكھيں: تفسير قرطبى ( 5 / 164 ).

اور اس ليے بھى كہ مرد كے ذمہ عورت كے مقابلہ ميں اخراجات اور نفقات زيادہ ہيں، اس ليے مناسب يہى ہے كہ اسے وراثت ميں عورت سے زيادہ ديا جائے.

4 - لباس:

عورت كا پورا بدن ہى ستر ہے، اس كے متعلق جو كم از كہا گيا ہے وہ يہى ہے كہ وہ صرف اپنا چہرہ اور ہاتھ ننگے ركھ سكتى ہے اس ميں بھى اختلاف ہے كيونكہ صحيح قول يہى ہے كہ وہ كچھ بھى ننگا نہيں ركھ سكتى.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ اپنى اوڑھنياں اپنے اوپر لٹكا كر ركھا كريں، اس سے بہت جلد ان كى شناخت ہو جايا كريگى، اور انہيں اذيت نہ دى جائے گى، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے }الاحزاب ( 59 ).

اور مرد كا ستر اس كى ناف سے ليكر گھٹنے تك ہے.

عبد اللہ بن جعفر بن بى طالب سے كہا گيا كہ ہميں وہ سناؤ جو تم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنا اور جو ان سے ديكھا ہے، اور ہميں وہ نہ سنانا جو ان كے علاوہ كسى اور سے ہو چاہے وہ ثقہ ہى كيوں نہ ہو، تو انہوں نے كہا:

ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:

" ناف اور گھٹنے كے درميان ستر ہے "

اسے حاكم نے مستدرك حديث نمبر ( 6418 ) ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 5583 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

يہ مثاليں صرف وضاحت كى ليے بيان ہوئى ہيں بطور حصر نہيں كہ اس كے علاوہ اور مثاليں نہيں بلكہ مثاليں تو بہت پائى جاتى ہيں.

اس كے علاوہ بھى مرد و عورت كے مابين بہت سارے فرق پائے جاتے ہيں جو يہ ہيں:

۔ مرد چار عورتوں سے شادى كر سكتا ہے، ليكن عورت ايسا نہيں كر سكتى وہ صرف ايك ہى خاوند ركھ سكتى ہے.

۔ مرد كو طلاق دينے كا حق حاصل ہے، اور سے طلاق صحيح ہے، ليكن عورت سے طلاق صحيح نہيں، اور نہ ہى عورت طلاق كى مالك ہے.

۔ مرد كتابى عورت سے شادى كر سكتا ہے، ليكن مسلمان عورت صرف مسلمان شخص سے ہى شادى كر سكتى ہے.

۔ مرد بيوى يا كسى محرم كے بغير سفر كر سكتا ہے، ليكن عورت محرم كے بغير سفر نہيں كر سكتى.

۔ مردوں كے ليے مسجد ميں نماز ادا كرنا حتمى ہے، ليكن عورتوں پر ايسا نہيں، بلكہ عورت كا گھر ميں نماز ادا كرنا افضل و بہتر ہے.

۔ عورت ريشم اور سونا پہن سكتى ہے، ليكن مرد يہ دونوں چيزيں نہيں پہن سكتا.

۔ جو كچھ بيان ہوا ہے ان ميں عورت مرد كے خلاف ہے؛ كيونكہ لڑكا لڑكى كى طرح نہيں، اور اللہ تعالى كا بھى فرمان ہے:

{ اور لڑكا لڑكى كى طرح نہيں ہے }آل عمران ( 36 ).

لہذا لڑكا لڑكى سے كئى امور ميں فرق ركھتا لڑكا قوت اور بدن اور سختى ميں لڑكى سے مختلف ہے، اور لڑكى ميں نرمى و رقت اور رحمدلى پائى جاتى ہے.

مرد عورت سے عقل ميں مختلف ہے، جبكہ مرد كى قوت ادراك اور اس كى ياداشت عورت كےمقابلہ ميں زيادہ معروف ہے اور عورت مرد كے مقابلہ ميں ياداشت ميں كمزور ہے، اور مرد سے زيادہ بھول جاتى ہے، اور اس كا مشاہدہ بھى موجود ہے، كيونكہ دنيا ميں اكثر علماء اور موجد مرد ہى ہيں، ہاں بعض عورتيں بھى مردوں سے زيادہ ذہين اور قوت ذاكرہ اور ياداشت ركھتى ہيں ليكن يہ اصل اور اكثر كو ختم نہيں كرتى جيسا اوپر بيان ہو چكا ہے.

عورت كے مقابلہ ميں مرد غصہ اور فرحت كى حالت ميں اپنے احساسات اور عواطف كا مالك ہے اور اس پر كنٹرول ركھتا ہے، ليكن عورت قليل سے سبب سے بھى متاثر ہو جاتى ہے اور اس كے آنسو كسى چھوٹے سے حادثہ پر بھى امڈ آتے ہيں.

۔ مردوں پر جہاد فرض ہے، ليكن عورتوں پر جہاد و قتال نہيں، يہ اللہ تعالى كا عورتوں پر فضل اور اس كى رحمت، اور ان كے حال كا خيال ركھا ہے.

تو حتمى طور پر ہم يہ كہہ سكتے ہيں كہ مردوں كے احكام عورتوں كے احكا جيسے نہيں.

سوم:

شريعت اسلاميہ نے مرد و عورت كے درميان بہت سارى عبادات اور معاملات ميں برابرى كى ہے:

۔ عورت بھى مرد كى طرح ہى وضوء كرتى ہے، اور مرد كى طرح غسل كرتى اور مرد كى طرح نماز كى ادائيگى كرتى ہے، اور اس كے روزہ كى طرح روزہ ركھتى ہے، صرف حيض اور نفاس كى حالت ميں نہيں، اور جس طرح مرد زكاۃ ادا كرتا ہے عورت بھى زكاۃ ادا كرتى ہے، اور مرد كى طرح حج كرتى ہے ۔ حج ميں تھوڑے سے احكام ميں عورت مرد كے مختلف ہے ۔ عورت كى خريد و فروخت صحيح ہے اور قبول ہو گى، اور اسى طرح اگر عورت صدقہ كرتى ہے تو اس كا صدقہ جائز ہو گا، اور عورت كے ليے اپنے غلام آزاد كرنا جائز ہے، اس كے علاوہ بہت سارے امور كيونكہ عورتيں مردوں كى شقائق ہيں جس طرح كہ حديث ميں وارد ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو كپڑا گيلا پائے ليكن اسے احتلام ياد نہ ہو، آيا وہ غسل كرے ؟

تو آپ نے فرمايا وہ غسل كرے.

اور ايك ايسا شخص جو خواب ديكھے كہ اسے احتلام ہوا ہے ليكن كپڑے گيلے نہيں پاتا تو كيا غسل كرے ؟

تو آپ نے فرمايا: اس پر غسل نہيں ہے"

ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: كيا اگر عورت ايسا ديكھے تو اس پر بھى غسل ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں كيونكہ عورتيں مردوں جيسى ہى ہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 113 ) مسند احمد حديث نمبر ( 25663 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 98 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

عورت كچھ معاملات و امور ميں مرد كى طرح ہى ہے، اور كچھ امور و معاملات ميں مرد سے عورت كا فرق ہے، اور اكثر شريعت اسلاميہ كے احكا مرد و عورت پر برابر لاگو ہوتے ہيں اور جہاں دونوں جنسوں ميں فرق آيا ہے اسے مسلمان اللہ تعالى اپنى مخلوق پر رحمت اور اس كا علم سمجھتا ہے، اور كافر اسے ايك تكبرانہ نظر سے ديكھتا ہوا اسے ظلم سمجھتا ہے، ظلم پر سوار ہو دونوں جنسوں كے مابين مساوات كا گمان ركھتا ہے.

ہميں يہ بتائے كہ ايك مرد بچے كا حمل كيسا اٹھا سكتا ہے اور كس طرح وہ بچے كو دودھ پلا سكتا ہے، وہ پھر بھى ظلم پر سوار ہوتا ہے حالانكہ وہ عورت كى كمزورى كو بھى ديكھتا ہے كہ ہر ماہ اس كو ماہوارى آتى ہے، وہ اسى طرح اس ظلم كے پيچھے بھاگتا ہے حتى كہ چٹان سے جا ٹكراتا ہے، ليكن اس كے مقابلہ ميں ايك مسلمان شخص ايمان پر مطئمن ہے اور اللہ سبحانہ و تعالى كے امر كے سامنے سر تسليم خم كيے ركھتا ہے فرمان بارى تعالى ہے:

{ كيا وہى نہ جانے جس نے پيدا كيا پھر وہ باريك بين اور باخير بھى ہو }الملك ( 14 ).

واللہ اعلم .
 

سید زبیر

محفلین
كيا قرآن مجيد ميں مرد و عورت كے مابين مساوات كا ذكر كيا گيا ہے ؟

الحمد للہ:

اول:

مساوات كى اصطلاح جس كا آج كل مشرق و مغرب ميں مفكرين حضرات بڑا راگ الاپ رہے ہيں، كہ زندگى كے متعدد شعبوں ميں مساوات ہونى چاہيے، يہ ايسى اصطلاح ہے جو صحيح نہيں اور قلت ادراك كى شكار ہے، خاص كر بات كرنے والے كا اسے قرآن مجيد يا دين حنيف كى طرف منسوب كرنا.

لوگ اپنے اس قول اور اسے سمجھنے ميں بھى غلط ہيں جب وہ يہ نعرہ لگاتے ہيں كہ دين اسلام مساوات كا دين ہے، حالانكہ صحيح تو يہ ہے كہ انہيں يہ كہنا چاہيے: دين اسلام عدل و انصاف كا دين ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہاں يہ جاننا ضرورى ہے كہ كچھ لوگ عدل كى بجائے مساوات كا لفظ استعمال كرتے ہيں جو كہ غلط ہے، مساوات نہيں كہا جائيگا كيونكہ مساوات كا تقاضا ہے كہ ان دونوں كے مابين فرق نہ كيا جائے، اور اس ظالمانہ مساوات كى دعوت اور نعرے كى بنا پر وہ كہنے لگے ہيں كہ:

مرد و عورت كے مابين كونسا فرق ہے ؟ انہوں نے مرد و عورت كو برابر كر ديا ہے، حتى كہ كيمونسٹ تو يہاں تك كہتے ہيں كہ: حاكم اور محكوم كے مابين كونسا فرق ہے ؟ يہ ممكن ہى نہيں كہ كوئى ايك دوسرے پر سلطہ ركھے، اور حكمرانى كرے، حتى كہ والد اور بيٹا بھى، والد كو اپنے بيٹے پر بھى سلطہ اور طاقت نہيں ہے، اسى طرح آگے.

ليكن جب ہم عدل كا لفظ بولينگے اور عدل كا معنى ہے كہ ہر مستحق كو اس كا حق دينا جس كا وہ مستحق ہے، تو يہ ممانعت زائل اور ختم ہو جائيگى، اور عبارت صحيح ہو جائيگى اسى ليے قرآن مجيد ميں كبھى يہ لفظ نہيں آئے كہ اللہ تعالى تمہيں مساوات يعنى برابرى كرنے كا حكم ديتا ہے، بلكہ اللہ تعالى نے قرآن ميں يہ كہا ہے:

{ اللہ تعالى تمہيں عدل و انصاف كا حكم ديا ہے } النحل ( 91 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

{ اور جب تم لوگوں ميں كے درميان فيصلہ كرو تو عدل و انصاف كے ساتھ فيصلہ كرو }النساء ( 58 ).

جو كوئى بھى يہ كہتا ہے كہ دين اسلام مساوات كا دين ہے وہ اسلام پر جھوٹ بول رہا ہے، بلكہ دين اسلام تو دين عدل ہے جو كہ متساوى كو جمع اور متفرقين كو جدا كرنا ہے، اور يہ كہنا كہ يہ دين مساوات ہے جو دين اسلام كو جانتا اور اس كى معرفت ركھتا ہے وہ ايسا قول نہيں كہہ سكتا.

بلكہ اس قاعدہ اور اصول كے بطلان پر يہ دلالت كرتا ہے كہ قرآن مجيد ميں اكثر مساوات كى نفى ہوئى ہے.

ارشاد بارى تعالى ہے:

{ كہہ ديجئے كيا وہ لوگ جو جانتے ہيں اور جو لوگ نہيں جانتے برابر ہيں }الزمر ( 9 ).

اور ايك مقام پر ارشاد ربانى ہے:

{ كہہ ديجئے كيا اندھا اور ديكھنے والا برابر ہو سكتے ہيں، يا كيا اندھيرے اور روشنى برابر ہو سكتے ہيں }الرعد ( 16 ).

اور ايك مقام پر فرمان ہے:

{ تم ميں سے جس نے فتح سے پہلے خرچ كيا اور جھاد كيا برابر نہيں، يہ ان لوگوں سے زيادہ درجے والے ہيں جنہوں نے اس كے بعد خرچ كيا اور جہاد كيا }الحديد ( 10 ).

اور ايك مقام پر رب ذوالجلال كا فرمان اس طرح ہے:

{ اپنى جانوں اور مالوں سے اللہ كى راہ ميں جہاد كرنے والے مومن اور بغير عذر كے بيٹھ رہنے والے مومن برابر نہيں ہو سكتے اپنے مالوں اور اپنى جانوں سے جہاد كرنے والوں كو بيٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالى نے درجوں ميں بہت فضيلت دے ركھى ہے }النساء ( 95 ).

قرآن مجيد ميں كوئى ايك حرف بھى ايسا نہيں جو مساوات كا حكم ديتا ہو، بلكہ عدل و انصاف كا حكم ديتا ہے، اور لوگوں كے بھى كلمہ " عدل " مقبول ہے، ميں محسوس كرتا ہوں كہ مجھے اس شخص پر علم يا مال يا ورع و تقوى يا نيكى كرنے ميں درجہ اور فضيلت حاصل ہے، پھر ميں اس پر كبھى راضى نہيں كہ وہ ميرے برابر ہو، ہر انسان جانتا ہے كہ جب ہم يہ كہيں مرد و عورت ميں برابرى ہے تو اس ميں حرج پايا جاتا ہے.

ديكھيں: شرح العقيدۃ الواسطيۃ ( 1 / 180 - 181 ).

اس بنا پر اسلام ان امور ميں مرد و عورت كے مابين مساوات اور برابرى نہيں كرتا جن ميں اگر مساوات و برابرى كى جائے تو ان ميں ايك پر ظلم ہو؛ كيونكہ بغير جگہ كے مساوات شديد قسم كا ظلم كہلاتا ہے.

چنانچہ قرآن مجيد نے عورت كو وہ اشياء پہننے اور زيب تن كرنے كا حكم ديا ہے جو مرد كے علاوہ ہيں، كيونكہ دونوں جنس كے فتنہ ميں فرق ہے، چنانچہ مرد كے ساتھ عورت كے مقابلہ ميں كم ہے، اس ليے عورت كا لباس مرد كے لباس كے علاوہ ہے اور پھر يہ حكمت نہيں كہ عورت كو اپنا بدن ننگا كرنے كا حكم ديا جو مرد اپنے جسم سے ننگا كر سكتا ہے، كيونكہ عورت اور مرد كے بدن كا فتنہ بھى مختلف ہے، جيسا كہ ہم آگے چل كر بيان بھى كرينگے.

دوم:

شريعت اسلاميہ ميں كچھ امور ايسے ہيں جن ميں عورت مرد سے مختلف ہے:

1 - القوامہ: يعنى حكمرانى:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ مرد عورتوں پر حاكم ہيں اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں }النساء ( 34 ).

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

قولہ تعالى: { مرد عورتوں پر حكمران ہيں }.

يعنى مرد عورت كا قيم ہے، دوسرے معنوں ميں مرد عورت كا حكمران اور رئيس اور اس كا بڑا اور اس پر حاكم ہے، اور جب وہ ٹيڑھى ہو جائے تو اسے سيدھا كرنے اور ادب سكھانے والا ہے.

{ اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى }.

يعنى: اس ليے كہ مرد عورتوں سے افضل ہے، اور مرد عورت سے بہتر ہے، اسى ليے نبوت مرد كے ساتھ خاص ہے، اور اسى طرح حكمرانى بھى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" وہ قوم ہرگز كبھى كامياب نہيں ہو سكتى جس نے اپنے امور كا ذمہ دار عورت كو بنا ليا "

اسے امام بخارى رحمہ اللہ نے عبد الرحمن بن ابى بكرۃ رضى اللہ تعالى سے بيان كيا وہ اپنے والد ابى بكرۃ رضى اللہ تعالى سے بيان كرتے ہيں، اور اسى طرح قضاء وغيرہ كا منصب بھى مرد كے ساتھ خاص ہے.

{ اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں }.

يعنى: حق مہر اور نان و نفقہ اور عورتوں كے وہ اخراجات جو اللہ تعالى نے اپنى كتاب اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى سنت ميں مرد پر واجب كيے ہيں، چنانچہ مرد فى نفسہ عورت سے افضل ہے، اور اسے اس عورت پر فضيلت حاصل ہے، اس ليے مناسب ہوا كہ وہ اس كا قيم اور نگران اور حاكم ہو جيسا كہ اللہ تعالى نے فرمايا ہے:

{ اور مردوں كو ان پر فضيلت و درجہ حاصل ہے }الآيۃ.

اور على بن ابى طلحہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں كہ:

{ مرد عورتوں پر حاكم ہيں }.

يعنى ان پر حكمران اور امير ہيں، يعنى عورت ان كى ان معاملات ميں اطاعت كريگى جن ميں اللہ تعالى نے اس كى اطاعت كرنےكا حكم ديا ہے، اور اس كى اطاعت يہ ہے كہ عورت اس كے اہل كے ليے محسنہ ہو اور اس كے مال كى حفاظت كرنے والى ہو.

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 490 ).

2 - گواہى: قرآن مجيد نے مرد كى گواہى دو عورتوں كے برابر قرار دى ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

{ اور تم اپنے مردوں ميں سے دو مرد گواہ بنا لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ايك مرد اور دو عورتيں جنہيں تمہيں گواہ بنانا پسند كرتے ہو، اس ليے كہ اگر ايك عورت بھول جائے تو دوسرى اس كو ياد دلا دے }البقرۃ ( 282 ).

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" دو عورتيں ايك مرد كے قائم مقام اس ليے بنائى گئى ہيں كہ عورت كى عقل ناقص ہے جيسا كہ صحيح مسلم ميں وارد ہے...

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے عورتوں كى جماعت صدقہ كيا كرو، اور استغفار كثرت سے كرتى رہا كرو، كيونكہ ميں نے ديكھا ہے كہ تمہارى كثرت آگ ميں ہے.

ايك عقل اور رائے والى عورت نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہميں كيا ہے كہ زيادہ آگ ميں ہيں ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم لعن طعن بہت كثرت سے كرتى ہو، اور خاوند كى ناشكر بہت كرتى ہو، ميں نے تم سے ناقص دين اور ناقص عقل والياں نہيں ديكھى جو عقلمند شخص پر غالب آ جاتى ہوں "

وہ عورت كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم عقل اور دين ميں نقصان كس طرح ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عورت كى عقصل ميں نقص يہ ہے كہ دو عورتوں كى گواہى ايك مرد كے برابر ہے، يہ اس كى عقل كا نقصان ہے، اور كئى راتيں وہ نماز اور رمضان كے روزوں كى ادائيگى نہيں كرتى جو كہ اس كے دين كا نقصان ہے "

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 336 ).

ہو سكتا ہے بعض عورتيں كچھ مردوں سے زيادہ عقلمند بھى ہوں ليكن يہ اصل نہيں، اور نہ ہى اكثر ہے، اور شريعت نے اغلب اور عام پربنا كى ہے.

اور پھر عورت كے ناقص العقل ہونے كا مطلب يہ نہيں كہ وہ مجنون اور پاگل ہے، بلكہ اس كا معنى يہ ہے كہ اكثر اوقات اس كى عقل پر اس كى عاطفت و نرمى و رحمدلى غالب آ جاتى ہے، اور اس كے ليے يہ حالت مرد كے مقابلہ ميں اكثر پيدا ہوتى ہے جسكا انكار صرف تكبر والا اور منكر شخص ہى كرتا ہے.

3 - عورت مرد كے مقابلہ ميں نصف كى وارث ہوتى ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

{ اللہ تعالى تمہيں تمہارى اولاد كے متعلق وصيت كرتا ہے كہ لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر ملے گا }النساء ( 11 ).

قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اس ليے كہ اللہ تعالى ان سے زيادہ ان كى مصحلتوں اور ضروريات كا علم ركھتا ہے، اس ليے اس نے تقسيم ميں ان كے درميان جو اس نے مصحلت سمجھى اس كے حساب سے فرق ركھا ہے "

ديكھيں: تفسير قرطبى ( 5 / 164 ).

اور اس ليے بھى كہ مرد كے ذمہ عورت كے مقابلہ ميں اخراجات اور نفقات زيادہ ہيں، اس ليے مناسب يہى ہے كہ اسے وراثت ميں عورت سے زيادہ ديا جائے.

4 - لباس:

عورت كا پورا بدن ہى ستر ہے، اس كے متعلق جو كم از كہا گيا ہے وہ يہى ہے كہ وہ صرف اپنا چہرہ اور ہاتھ ننگے ركھ سكتى ہے اس ميں بھى اختلاف ہے كيونكہ صحيح قول يہى ہے كہ وہ كچھ بھى ننگا نہيں ركھ سكتى.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ اپنى اوڑھنياں اپنے اوپر لٹكا كر ركھا كريں، اس سے بہت جلد ان كى شناخت ہو جايا كريگى، اور انہيں اذيت نہ دى جائے گى، اور اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے }الاحزاب ( 59 ).

اور مرد كا ستر اس كى ناف سے ليكر گھٹنے تك ہے.

عبد اللہ بن جعفر بن بى طالب سے كہا گيا كہ ہميں وہ سناؤ جو تم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنا اور جو ان سے ديكھا ہے، اور ہميں وہ نہ سنانا جو ان كے علاوہ كسى اور سے ہو چاہے وہ ثقہ ہى كيوں نہ ہو، تو انہوں نے كہا:

ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:

" ناف اور گھٹنے كے درميان ستر ہے "

اسے حاكم نے مستدرك حديث نمبر ( 6418 ) ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 5583 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

يہ مثاليں صرف وضاحت كى ليے بيان ہوئى ہيں بطور حصر نہيں كہ اس كے علاوہ اور مثاليں نہيں بلكہ مثاليں تو بہت پائى جاتى ہيں.

اس كے علاوہ بھى مرد و عورت كے مابين بہت سارے فرق پائے جاتے ہيں جو يہ ہيں:

۔ مرد چار عورتوں سے شادى كر سكتا ہے، ليكن عورت ايسا نہيں كر سكتى وہ صرف ايك ہى خاوند ركھ سكتى ہے.

۔ مرد كو طلاق دينے كا حق حاصل ہے، اور سے طلاق صحيح ہے، ليكن عورت سے طلاق صحيح نہيں، اور نہ ہى عورت طلاق كى مالك ہے.

۔ مرد كتابى عورت سے شادى كر سكتا ہے، ليكن مسلمان عورت صرف مسلمان شخص سے ہى شادى كر سكتى ہے.

۔ مرد بيوى يا كسى محرم كے بغير سفر كر سكتا ہے، ليكن عورت محرم كے بغير سفر نہيں كر سكتى.

۔ مردوں كے ليے مسجد ميں نماز ادا كرنا حتمى ہے، ليكن عورتوں پر ايسا نہيں، بلكہ عورت كا گھر ميں نماز ادا كرنا افضل و بہتر ہے.

۔ عورت ريشم اور سونا پہن سكتى ہے، ليكن مرد يہ دونوں چيزيں نہيں پہن سكتا.

۔ جو كچھ بيان ہوا ہے ان ميں عورت مرد كے خلاف ہے؛ كيونكہ لڑكا لڑكى كى طرح نہيں، اور اللہ تعالى كا بھى فرمان ہے:

{ اور لڑكا لڑكى كى طرح نہيں ہے }آل عمران ( 36 ).

لہذا لڑكا لڑكى سے كئى امور ميں فرق ركھتا لڑكا قوت اور بدن اور سختى ميں لڑكى سے مختلف ہے، اور لڑكى ميں نرمى و رقت اور رحمدلى پائى جاتى ہے.

مرد عورت سے عقل ميں مختلف ہے، جبكہ مرد كى قوت ادراك اور اس كى ياداشت عورت كےمقابلہ ميں زيادہ معروف ہے اور عورت مرد كے مقابلہ ميں ياداشت ميں كمزور ہے، اور مرد سے زيادہ بھول جاتى ہے، اور اس كا مشاہدہ بھى موجود ہے، كيونكہ دنيا ميں اكثر علماء اور موجد مرد ہى ہيں، ہاں بعض عورتيں بھى مردوں سے زيادہ ذہين اور قوت ذاكرہ اور ياداشت ركھتى ہيں ليكن يہ اصل اور اكثر كو ختم نہيں كرتى جيسا اوپر بيان ہو چكا ہے.

عورت كے مقابلہ ميں مرد غصہ اور فرحت كى حالت ميں اپنے احساسات اور عواطف كا مالك ہے اور اس پر كنٹرول ركھتا ہے، ليكن عورت قليل سے سبب سے بھى متاثر ہو جاتى ہے اور اس كے آنسو كسى چھوٹے سے حادثہ پر بھى امڈ آتے ہيں.

۔ مردوں پر جہاد فرض ہے، ليكن عورتوں پر جہاد و قتال نہيں، يہ اللہ تعالى كا عورتوں پر فضل اور اس كى رحمت، اور ان كے حال كا خيال ركھا ہے.

تو حتمى طور پر ہم يہ كہہ سكتے ہيں كہ مردوں كے احكام عورتوں كے احكا جيسے نہيں.

سوم:

شريعت اسلاميہ نے مرد و عورت كے درميان بہت سارى عبادات اور معاملات ميں برابرى كى ہے:

۔ عورت بھى مرد كى طرح ہى وضوء كرتى ہے، اور مرد كى طرح غسل كرتى اور مرد كى طرح نماز كى ادائيگى كرتى ہے، اور اس كے روزہ كى طرح روزہ ركھتى ہے، صرف حيض اور نفاس كى حالت ميں نہيں، اور جس طرح مرد زكاۃ ادا كرتا ہے عورت بھى زكاۃ ادا كرتى ہے، اور مرد كى طرح حج كرتى ہے ۔ حج ميں تھوڑے سے احكام ميں عورت مرد كے مختلف ہے ۔ عورت كى خريد و فروخت صحيح ہے اور قبول ہو گى، اور اسى طرح اگر عورت صدقہ كرتى ہے تو اس كا صدقہ جائز ہو گا، اور عورت كے ليے اپنے غلام آزاد كرنا جائز ہے، اس كے علاوہ بہت سارے امور كيونكہ عورتيں مردوں كى شقائق ہيں جس طرح كہ حديث ميں وارد ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو كپڑا گيلا پائے ليكن اسے احتلام ياد نہ ہو، آيا وہ غسل كرے ؟

تو آپ نے فرمايا وہ غسل كرے.

اور ايك ايسا شخص جو خواب ديكھے كہ اسے احتلام ہوا ہے ليكن كپڑے گيلے نہيں پاتا تو كيا غسل كرے ؟

تو آپ نے فرمايا: اس پر غسل نہيں ہے"

ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: كيا اگر عورت ايسا ديكھے تو اس پر بھى غسل ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں كيونكہ عورتيں مردوں جيسى ہى ہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 113 ) مسند احمد حديث نمبر ( 25663 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 98 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

عورت كچھ معاملات و امور ميں مرد كى طرح ہى ہے، اور كچھ امور و معاملات ميں مرد سے عورت كا فرق ہے، اور اكثر شريعت اسلاميہ كے احكا مرد و عورت پر برابر لاگو ہوتے ہيں اور جہاں دونوں جنسوں ميں فرق آيا ہے اسے مسلمان اللہ تعالى اپنى مخلوق پر رحمت اور اس كا علم سمجھتا ہے، اور كافر اسے ايك تكبرانہ نظر سے ديكھتا ہوا اسے ظلم سمجھتا ہے، ظلم پر سوار ہو دونوں جنسوں كے مابين مساوات كا گمان ركھتا ہے.

ہميں يہ بتائے كہ ايك مرد بچے كا حمل كيسا اٹھا سكتا ہے اور كس طرح وہ بچے كو دودھ پلا سكتا ہے، وہ پھر بھى ظلم پر سوار ہوتا ہے حالانكہ وہ عورت كى كمزورى كو بھى ديكھتا ہے كہ ہر ماہ اس كو ماہوارى آتى ہے، وہ اسى طرح اس ظلم كے پيچھے بھاگتا ہے حتى كہ چٹان سے جا ٹكراتا ہے، ليكن اس كے مقابلہ ميں ايك مسلمان شخص ايمان پر مطئمن ہے اور اللہ سبحانہ و تعالى كے امر كے سامنے سر تسليم خم كيے ركھتا ہے فرمان بارى تعالى ہے:

{ كيا وہى نہ جانے جس نے پيدا كيا پھر وہ باريك بين اور باخير بھى ہو }الملك ( 14 ).

واللہ اعلم .

جزاک اللہ ۔۔۔اللہ کریم مسلمانوں پر رحم کرے ۔ تفرقہ بازی سے امت مسلمہ کو بچالے ۔آمین
 

صائمہ شاہ

محفلین
کیا ضروری ہے کہ عورت اور مرد کی برابری کا نعرہ لگایا جائے
مرد کے برابر سمجھنے کی ضرورت بھی کیا ہے صرف انسان سمجھ کر ہی انسانی حقوق دئیے اور لئے جائیں تو بہتر ہے
امجد میانداد کی ایک بات سے اتفاق کروں گی دیہی خواتین ہمارے معاشرے میں مردوں سے زیادہ مشقت کرتی ہیں اور بعض تو اپنے مردوں کو گھر بٹھا کر پال رہی ہوتیں ہیں
 

نایاب

لائبریرین
کیا ضروری ہے کہ عورت اور مرد کی برابری کا نعرہ لگایا جائے
" امت خرافات میں کھو گئی "
عورت ۔۔۔۔ مساوات ۔۔۔۔۔۔؟
اس بحث کے دوران " علمائے کرام " کی جانب سے سامنے آنے والی احادیث پاک اکثر انسانوں کو کفر کہنے پہ مجبور کر دیتی ہیں ۔
یہ احادیث پاک پڑھ کر یہ سوچ ابھرتی ہے کہ " نعوذ باللہ " اللہ تعالی نے " عورت کے ساتھ زیادتی کر دی ۔
اگر یہ کم عقل ہے تو اللہ پاک کی حکمت
اگر یہ کچھ دن دین کے فرائض ادا نہیں کر سکتی تو بھی اللہ پاک کی حکمت
ہر جگہ مرد سے کمتر کہیں برابر نہیں ۔ اگر برابر قرار دی گئی تو بس " غسل " کے باب میں ۔
اگر دین اسلام میں بھی " عورت " ہی گمراہی کا زینہ اور جہنم کو بھر دینے والی ہے ۔
تو " ادیان قدیم " میں عورت بارے جو تصور " بیٹیوں " کو زندہ گاڑ دینے کے لیئے بنیاد بنتا تھا ۔ وہ درست تھا ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم " عورت " کو ناقص عقل اور کسی طور کمتر نہیں مانتے تھے ۔ آپ جناب خدیجہ علیہ السلام کے مشوروں پر عمل کرتے رہے ہیں ۔
مشورہ پر عمل اسی کے کیا جاتا ہے جسے انسان " بہتر عقل " کا حامل جانے ۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
یہ بات تو درست ہے کہ ہمیں عورت اور مرد کا مقابلہ اور موازنہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
دونوں کا معاشرے میں اپنا اپنا کردار ہے۔ کچھ خصوصیات میں دونوں ملتے جلتے ہیں اور کچھ میں مختلف۔
مرد کی ذمہ داری یقیناً ماں بچوں کے لئے چھت، نان و نفقہ مہیا کرنے کی ہے۔ لیکن ماں جس طرح محبت اور جانفشانی سے بچوں کا خیال رکھتی ہے اور ان کی پرورش کرتی ہے مرد کے بس کی بات نہیں۔
مرد میں جیسی خاندان کو تحفظ دینے کی صلاحیت ہے اسی وجہ سے یہ ذمہ داری اس کو دی گئی ہے۔
دونوں اپنی اپنی فطرت کے مطابق اپنا اپنا کردار دیانت داری سے ادا کریں۔ سب سے اچھی بات یہی ہوگی۔
اللہ نا کرے کہ کسی کو ایسی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانا پڑے جو اس کے لئے نبھانا مشکل ہو یا اس کے بس کی بات نا ہو۔
 
" امت خرافات میں کھو گئی "
عورت ۔۔۔۔ مساوات ۔۔۔۔۔۔؟
اس بحث کے دوران " علمائے کرام " کی جانب سے سامنے آنے والی احادیث پاک اکثر انسانوں کو کفر کہنے پہ مجبور کر دیتی ہیں ۔
یہ احادیث پاک پڑھ کر یہ سوچ ابھرتی ہے کہ " نعوذ باللہ " اللہ تعالی نے " عورت کے ساتھ زیادتی کر دی ۔

اگر یہ کم عقل ہے تو اللہ پاک کی حکمت
اگر یہ کچھ دن دین کے فرائض ادا نہیں کر سکتی تو بھی اللہ پاک کی حکمت
ہر جگہ مرد سے کمتر کہیں برابر نہیں ۔ اگر برابر قرار دی گئی تو بس " غسل " کے باب میں ۔

اگر دین اسلام میں بھی " عورت " ہی گمراہی کا زینہ اور جہنم کو بھر دینے والی ہے ۔
تو " ادیان قدیم " میں عورت بارے جو تصور " بیٹیوں " کو زندہ گاڑ دینے کے لیئے بنیاد بنتا تھا ۔ وہ درست تھا ۔
بین السطوراحادیث مبارکہ کے قابل اعتبار ہونے پرنقطہ اٹھایا گیا ہے

یہ احادیث پاک پڑھ کر یہ سوچ ابھرتی ہے کہ " نعوذ باللہ " اللہ تعالی نے " عورت کے ساتھ زیادتی کر دی ۔
یا تو نعوذ باللہ احادیث مبارکہ کے باب میں کچھ خرابی ہے ،یا ( ناقص تفہیم کی بدولت )ابھرنے والی سوچ میں
یہ تو موصوف ہی زیادہ واضح کر سکیں گے ؟؟
ہر جگہ مرد سے کمتر کہیں برابر نہیں ۔ اگر برابر قرار دی گئی تو بس " غسل " کے باب میں ۔
یہ ہر جگہ، انتہا درجے کی مبالغہ آرائی ہے ایسا کن احادیث مبارکہ یا دیگر کس ذرائع سے اخذ کیا گیا ہے؟؟
اگر دین اسلام میں بھی " عورت " ہی گمراہی کا زینہ اور جہنم کو بھر دینے والی ہے ۔
تو " ادیان قدیم " میں عورت بارے جو تصور " بیٹیوں " کو زندہ گاڑ دینے کے لیئے بنیاد بنتا تھا ۔ وہ درست تھا ۔
یعنی زمانہ جاہلیت کا زندہ گاڑنے کا تصور غلط تھا اور ہے تو لامحالہ پہلا بیان غلط ہے جو کہ احادیث مبارکہ کی غلط تعبیر کی بدولت ابھرا ہے غلط تعبیر اس لیے کہ ان احادیث مبارکہ کا ذہن میں نہیں آیا -( کسی بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جائے تو لامحالہ غلط تعبیر وتفہیم تو ہوگی ہی)
جس میں جنت کو ماں کے قدموں تلے کہا گیا ہے۔ بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم دی گئی
1
۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو بحیثیت ماں سب سے زیادہ حسنِ سلوک کا مستحق قرار دیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہاری والدہ، عرض کیا پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری والدہ، عرض کی پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا تمہاری والدہ، عرض کی پھر کون ہے؟ فرمایا تمہارا والد۔
بخاری، الصحيح، کتاب الأدب، باب من احق الناس بحسن الصحبة، 5 : 2227، رقم : 5626
2
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم واپس چلے جاؤ واپس چلے جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج پر چلے جاؤ۔‘‘
اور اسی تعلیم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عمل پیرا رہے۔
بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد، باب کتابة الإمام الناس، 3 : 1114، رقم : 2896
3
’’اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے خوب اچھی تعلیم دے اور اس کو خوب اچھے آداب مجلس سکھائے، پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لئے دوہرا اجر ہے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد، باب فضل من أسلم من اهل الکتابين، 3 : 1096، رقم :

4
ایسے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
{ کسی بیوہ و مطلقہ عورت سے اسکی زبانی اجازت لئے بغیر اسکا نکاح نہ کیا جائے اور کسی کنواری لڑکی سے اجازت کا اشارہ لئے بغیر اسکا نکاح نہ کیا جائے ۔} (صحیح مسلم
5
{اگر کسی کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہیں اور وہ انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا رہا ھو تو وہ جنت میں داخل ھو گا }
( ابوداؤد ، ترمذی )
6
زیادہ کامل الایمان وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن اخلاق والا ہے اور تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھرکی عورتوں کے لئے اچھا ہے ۔ } ( ابوداؤد ، ترمذی ، مسند احمد )

اصل مسئلہ کچھ یوں ہے ہم لوگ دین کا علم حاصل کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں، کچھ ادہر ادہر سے تھوڑا بہت پڑھا اور بس بن گئے نیم ملا ٹائپ عالم اور لگے دیں کے احکامات پر طنز اور انگلیاں اٹھانے -

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم " عورت " کو ناقص عقل اور کسی طور کمتر نہیں مانتے تھے ۔ آپ جناب خدیجہ علیہ السلام کے مشوروں پر عمل کرتے رہے ہیں ۔
مشورہ پر عمل اسی کے کیا جاتا ہے جسے انسان " بہتر عقل " کا حامل جانے
قرآن کی کس ایت مبارکہ سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ آپ جناب خدیجہ علیہ السلام کے مشوروں پر عمل کرتے رہے ہیں ۔ ؟؟؟کیوںکہ احادیث مبارکہ کی نسبت علما اکرام کی طرف کر کے ان کے قابل اعتبار ہونے پر ڈھکے چھکے انداز میں اعتراض کر دیا گیا ہے[/QUOTE]
 
مدیر کی آخری تدوین:
" امت خرافات میں کھو گئی "
عورت ۔۔۔۔ مساوات ۔۔۔۔۔۔؟
اس بحث کے دوران " علمائے کرام " کی جانب سے سامنے آنے والی احادیث پاک اکثر انسانوں کو کفر کہنے پہ مجبور کر دیتی ہیں ۔
یہ احادیث پاک پڑھ کر یہ سوچ ابھرتی ہے کہ " نعوذ باللہ " اللہ تعالی نے " عورت کے ساتھ زیادتی کر دی ۔
اگر یہ کم عقل ہے تو اللہ پاک کی حکمت
اگر یہ کچھ دن دین کے فرائض ادا نہیں کر سکتی تو بھی اللہ پاک کی حکمت
ہر جگہ مرد سے کمتر کہیں برابر نہیں ۔ اگر برابر قرار دی گئی تو بس " غسل " کے باب میں ۔
اگر دین اسلام میں بھی " عورت " ہی گمراہی کا زینہ اور جہنم کو بھر دینے والی ہے ۔
تو " ادیان قدیم " میں عورت بارے جو تصور " بیٹیوں " کو زندہ گاڑ دینے کے لیئے بنیاد بنتا تھا ۔ وہ درست تھا ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم " عورت " کو ناقص عقل اور کسی طور کمتر نہیں مانتے تھے ۔ آپ جناب خدیجہ علیہ السلام کے مشوروں پر عمل کرتے رہے ہیں ۔
مشورہ پر عمل اسی کے کیا جاتا ہے جسے انسان " بہتر عقل " کا حامل جانے ۔۔۔۔
بہت دعائیں



نایاب نے کہا:
یہ احادیث پاک پڑھ کر یہ سوچ ابھرتی ہے کہ " نعوذ باللہ " اللہ تعالی نے " عورت کے ساتھ زیادتی کر دی


یا تو نعوذ باللہ احادیث مبارکہ کے باب میں کچھ خرابی ہے ،یا ( ناقص تفہیم کی بدولت )ابھرنے والی سوچ میں
یہ تو موصوف ہی زیادہ واضح کر سکیں گے ؟؟
نایاب نے کہا:
ہر جگہ مرد سے کمتر کہیں برابر نہیں ۔ اگر برابر قرار دی گئی تو بس " غسل " کے باب میں ۔



یہ ہر جگہ، انتہا درجے کی مبالغہ آرائی ہے ایسا کن احادیث مبارکہ یا دیگر کس ذرائع سے اخذ کیا گیا ہے؟؟
نایاب نے کہا:
اگر دین اسلام میں بھی " عورت " ہی گمراہی کا زینہ اور جہنم کو بھر دینے والی ہے ۔
تو " ادیان قدیم " میں عورت بارے جو تصور " بیٹیوں " کو زندہ گاڑ دینے کے لیئے بنیاد بنتا تھا ۔ وہ درست تھا ۔


یعنی زمانہ جاہلیت کا زندہ گاڑنے کا تصور غلط تھا اور ہے تو لامحالہ پہلا بیان غلط ہے جو کہ احادیث مبارکہ کی غلط تعبیر کی بدولت ابھرا ہے غلط تعبیر اس لیے کہ ان احادیث مبارکہ کا ذہن میں نہیں آیا -( کسی بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جائے تو لامحالہ غلط تعبیر وتفہیم تو ہوگی ہی)
جس میں جنت کو ماں کے قدموں تلے کہا گیا ہے۔ بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تعلیم دی گئی
1
۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو بحیثیت ماں سب سے زیادہ حسنِ سلوک کا مستحق قرار دیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہاری والدہ، عرض کیا پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہاری والدہ، عرض کی پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا تمہاری والدہ، عرض کی پھر کون ہے؟ فرمایا تمہارا والد۔
بخاری، الصحيح، کتاب الأدب، باب من احق الناس بحسن الصحبة، 5 : 2227، رقم : 5626
2
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے اور میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم واپس چلے جاؤ واپس چلے جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج پر چلے جاؤ۔‘‘
اور اسی تعلیم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم عمل پیرا رہے۔
بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد، باب کتابة الإمام الناس، 3 : 1114، رقم : 2896
3
’’اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے خوب اچھی تعلیم دے اور اس کو خوب اچھے آداب مجلس سکھائے، پھر آزاد کرکے اس سے نکاح کرے تو اس شخص کے لئے دوہرا اجر ہے۔‘‘
بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد، باب فضل من أسلم من اهل الکتابين، 3 : 1096، رقم :
4
ایسے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
{ کسی بیوہ و مطلقہ عورت سے اسکی زبانی اجازت لئے بغیر اسکا نکاح نہ کیا جائے اور کسی کنواری لڑکی سے اجازت کا اشارہ لئے بغیر اسکا نکاح نہ کیا جائے ۔} (صحیح مسلم
5
{اگر کسی کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہیں اور وہ انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا رہا ھو تو وہ جنت میں داخل ھو گا }
( ابوداؤد ، ترمذی )
6
زیادہ کامل الایمان وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن اخلاق والا ہے اور تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھرکی عورتوں کے لئے اچھا ہے ۔ } ( ابوداؤد ، ترمذی ، مسند احمد )

اصل مسئلہ کچھ یوں ہے ہم لوگ دین کا علم حاصل کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں، کچھ ادہر ادہر سے تھوڑا بہت پڑھا اور بس بن گئے نیم ملا ٹائپ عالم اور لگے دیں کے احکامات پر طنز اور انگلیاں اٹھانے -

نایاب نے کہا:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم " عورت " کو ناقص عقل اور کسی طور کمتر نہیں مانتے تھے ۔ آپ جناب خدیجہ علیہ السلام کے مشوروں پر عمل کرتے رہے ہیں ۔
مشورہ پر عمل اسی کے کیا جاتا ہے جسے انسان " بہتر عقل " کا حامل جانے


قرآن کی کس ایت مبارکہ سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ آپ جناب خدیجہ علیہ السلام کے مشوروں پر عمل کرتے رہے ہیں ۔ ؟؟؟کیوںکہ احادیث مبارکہ کی نسبت علما اکرام کی طرف کر کے ان کے قابل اعتبار ہونے پر ڈھکے چھپے انداز میں اعتراض کر دیا گیا ہے
 
http://www.asiatimes.co.in/urdu/Asia-Times-Special/2014/11/1633_Turkish-President-Says
تحریر سینئر صحافی پرواز رحمانی کی ہے
’’مردوں اور عورتوں کو قدرت نے جسمانی لحاظ سے الگ الگ بنایا ہے، اس لئے امورِ زندگی کی انجام دہی میں وہ یکساں نہیں ہوسکتے اور فیمنٹس (عورتوں کو مردوں کے برابر سمجھنے والے افراد) عورت کو ماں بننے کے حق سے محروم کرناچاہتے ہیں.....بہت سے لوگ اِس حقیقت کو سمجھتے ہیں لیکن بہت سے اِس سے اِنکار کرتے ہیں.....‘‘ اِن خیالات کااظہار ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے 24 نومبر کو استنبول کی ایک کانفرنس میں کیا، جس کا موضوع تھا ’’عورتوں کے ساتھ انصاف ‘‘۔ کانفرنس میں بڑی تعداد میں صرف خواتین شریک تھیں جن میں خود ترک صدر کی بیٹی سُمیہ بھی شامل تھی۔ کانفرنس اور اس کے موضوع کا اہتمام خواتین کے لئے ہی کیا گیا تھا۔ موضوع پر بولتے ہوئے ترک صدر نے حاضرات کو یہ بھی بتایا کہ ’’ہمارے دین اسلام نے سوسائٹی کےاندر خواتین کا مقام متعین کردیاہے اور مدرہُڈ (عورت کاماں بننا اور بچوں کی پرورش کرنا) اُس کا اہم حصہ ہے‘‘ مزیدکہا ’’مجھے اپنی ماں کے قدموں سے جنت کی خوشبو آتی تھی.....‘‘ (اے ایف پی ٹائمس آف انڈیا ناگپور 25نومبر) ترک صدر نے خواتین کو یہ بھی بتایا ’’آپ یہ باتیں فیمنسٹوں کو نہیں سمجھاسکتیں اس لئے کہ وہ عورتوں کے مدرہُڈ کو تسلیم نہیں کرتے۔‘‘
مزیدید پڑھیں ۔۔۔۔۔۔
http://www.asiatimes.co.in/urdu/Asia-Times-Special/2014/11/1633_Turkish-President-Says
 

صائمہ شاہ

محفلین
اصل مسئلہ عورت کے معاشرتی مقام کا ہے جسمانی یا ذہنی حیثیت کا نہیں ،جن معاشروں میں عورت کو انسان نہیں سمجھا جاتا اسے دوسرے یا تیسرے درجے کا شہری قرار دیا جائے وہاں عورت کی کیا حیثیت ہے اور کیا مقام ؟
 
Top