عورت - ناقص العقل / ناقص دین ؟؟

باذوق

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

[ARABIC]عن أبي سعيد الخدري قال:
خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في أضحى، أو فطر، إلى المصلى، فمر على النساء، فقال: (يا معشر النساء تصدقن فإني أريتكن أكثر أهل النار). فقلن: وبم يا رسول الله؟ قال: (تكثرن اللعن، وتكفرن العشير، ما رأيت من ناقصات عقل ودين أذهب للب الرجل الحازم من إحداكن). قلن: وما نقصان ديننا وعقلنا يا رسول الله؟ قال: (أليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل). قلن: بلى، قال: (فذلك من نقصان عقلها، أليس إذا حاضت لم تصل ولم تصم). قلن: بلى، قال: (فذلك من نقصان دينها).[/ARABIC]
{یہ حدیث صحیح بخاری میں 5 مقامات پر بیان ہوئی ہے ، اور صحیح مسلم میں تین مختلف اسناد سے بیان ہوئی ہے۔}
(اردو ترجمہ : داؤد راز)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحیٰ یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ عورتوں کے پاس سے گزرے اور فرمایا :
اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ کرو ، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ، ایسا کیوں ؟
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:
تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو ، باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے ، میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔
عورتوں نے عرض کیا : ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے یا رسول اللہ ؟
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
کیا عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟
انہوں نے کہا : جی ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔
پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا :
کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے ، نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟
عورتوں نے کہا : ایسا ہی ہے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔
صحيح بخاري ، كتاب الحیض ، باب : ترك الحائض الصوم ، حدیث : 305
صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب بيان نقصان الايمان بنقص الطاعات

یہ حدیث صحیحین کے علاوہ درج ذیل کتب احادیث میں بھی موجود ہے :
1۔ ابوداؤد ، باب الدليل على زيادة الاِيمان ونقصانه
2۔ ترمذی ، باب ما جاء في استكمال الايمان وزيادته ونقصانه
3۔ ابن ماجہ ، باب فتنة النساء
4۔ مسند احمد ، جلد:2
5۔ صحیح ابن خزیمہ ، باب اسقاط فرض الصلاة عن الحائض ايام حيضها
6۔ سنن دارمی ، باب الحائض تسمع السجدة فلا تسجد
7۔ سنن بیھقی کبری ، باب الحائض تفطر فى شهر رمضان كتاب الصوم
8۔ ابن حبان ، ذكر الزجر للنساء عن اكثار اللعن واكفار العشير
9۔ مستدرک الحاکم ، جلد:4
10۔ مجمع الزوائد ، باب الصدقة على الاقارب وصدقة المراة على زوجها


الاسلام سوال و جواب پر اس طرح کا ایک سوال کیا گیا تھا :
بعض لوگ كہتے ہيں كہ عورتيں ناقص العقل اور ناقص دين ہيں، اور وراثت و گواہى ميں بھى نقص ہے، اور بعض كا كہنا ہے: اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كے درميان اجروثواب ميں برابرى كى ہے، اس سلسلہ ميں آپ كى رائے كيا ہے، آيا عورتيں شريعت اسلام كى رو سے ناقص ہيں يا نہيں ؟
تفصیلی جواب یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

اس جواب کا آخری پیراگراف کچھ یوں ہے :
عورتوں کو چاہیے کہ وہ اس نقص کا اعتراف اس طرح ہی کریں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے راہنمائی فرمائی ہے ، اگرچہ وہ عورت علم اور تقوی والی ہی کیوں نہ ہواس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے تو بولتے ہی نہیں بلکہ یہ تواللہ تعالی کی طرف سے ان کی طرف وحی کی جاتی ہے۔

سورہ البقرہ کی آیت نمبر:282 یوں ہے:
[ARABIC]... وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاء أَن تَضِلَّ إْحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى ...[/ARABIC]
۔۔۔۔ اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو ، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے ۔۔۔
اردو ترجمہ : محمد جوناگڑھی

اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف ، اپنی تفسیر "احسن البیان" میں لکھتے ہیں :
یہ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کو مقرر کرنے کی علت و حکمت ہے۔ یعنی عورت ، عقل اور یادداشت میں مرد سے کمزور ہے (جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں بھی عورت کو ناقص العقل کہا گیا ہے)۔
اس میں عورت کے استخفاف اور فروتری کا اظہار نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگ باور کراتے ہیں) بلکہ ایک فطری کمزوری کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت پر مبنی ہے۔ مُكَابَرَةً کوئی اس کو تسلیم نہ کرے تو اور بات ہے۔ لیکن حقائق و واقعات کے اعتبار سے یہ ناقابل تردید ہے۔

اور اسی حقیقت کو امھات التفاسیر میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں چند مشہور تفاسیر کے آن لائن حوالے پیش خدمت ہیں۔

امھات التفسیر "تفسیر ابن کثیر" میں ابن کثیر رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :
[ARABIC]إنما أقيمت المرأتان مقام الرجل؛ لنقصان عقل المرأة، كما قال مسلم في صحيحه[/ARABIC]
دو عورتوں‌ کو ایک عورت کے قائم مقام کرنا عورت کی عقل کے نقصان کے سبب ہے ، جیسے صحیح‌مسلم شریف میں حدیث‌ ہے کہ ۔۔۔
بحوالہ : آن لائن تفسیر ابن کثیر

تفسیر جلالین میں بھی آیت البقرہ:282 کے اس حصہ کی تفسیر میں یہی کہا گیا ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ، عورت کے عقل و ضبط کے نقص کے سبب ہے۔
بحوالہ : آن لائن تفسیر جلالین

تفسیر فتح القدیر میں بھی اس آیت کی تفسیر میں عورت کے ناقص العقل ہونے کی ذکر کیا گیا ہے۔
بحوالہ : آن لائن تفسیر فتح القدیر

تفسیر بیضاوی میں بھی دو عورتوں کی شہادت کی یہی وجہ (عورت کے عقل و ضبط کا نقص) بیان کی گئی ہے۔
بحوالہ : آن لائن تفسیر البیضاوی

تفسیر درمنثور میں امام سیوطی نے بھی آیت البقرہ:282 کے متذکرہ حصے کی تفسیر میں صحیح مسلم کی مندرجہ بالا حدیث پیش کی ہے۔
بحوالہ : آن لائن تفسیر الدرمنثور


الاسلام سوال و جواب کے حوالے سے درج ذیل مضمون کا مطالعہ بھی قارئین کے لیے ضرور مفید ثابت ہوگا:
كيا سزا اور اجروثواب ميں عورت و مرد برابر ہيں ؟
 

باذوق

محفلین
شکریہ باذوق ۔۔ میں احادیث کا احترام کرتی ہوں ۔۔ اور ان کو مانتی ہوں اس لئے کچھ نہیں کہوں گی ۔۔۔ البتہ کبھی کبھی ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اس زمانے میں احادیث پتوں اور پتھروں وغیرہ پر محفوظ کی جاتی تھیں یا یادداشت کی بنا پر لکھی گئی ہیں تو کیا ہم تک صحیح حالت میں پہنچی ہیں ۔۔ ؟
آپ ایک طرف احادیث کا احترام بھی کر رہی ہیں اور دوسری طرف ان کی صحت پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی ؟ ایسا دو طرفہ رویہ تو نہیں رہنا چاہئے۔
صرف احادیث ہی نہیں بلکہ قرآن بھی ویسے ہی طریقوں سے محفوظ کیا گیا جن کا ذکر آپ نے کیا ہے۔ اب کیا اسی بنیاد پر ہم قرآن کی صحت کا بھی انکار کر دیں گے؟؟
قرآن کی یہ آیت گواہی کے متعلق ہے ۔۔ عورت کی زندگی کیونکہ مرد کے مقابلے میں محدود ہوتی ہے اس لئے اس کی گواہی آدھی مانی جاتی ہے ۔۔۔
یہ آپ کا اپنا فلسفہ ہو سکتا ہے کہ آدھی گواہی کا سبب عورت کی محدود زندگی ہے۔
جبکہ احادیثِ صحیحہ اور مستند تفاسیر اس کی جو بھی وجہ بتاتے ہیں ، وہ اوپر حوالوں کے ساتھ لکھا جا چکا ہے۔
(باقی میری ناقص عقل میں واقعی یہ بات نہیں آ رہی کہ جب مرد اور عورت ایک جیسا سن سکتے ہیں ۔۔ دیکھ سکتے ہیں ۔۔کھا سکتے ہیں ۔۔تو سوچ کیوں نہیں سکتے ۔۔ یہ سوال میرے اللہ سے ہیں اب کوئی مجھے حدیث کا منکر سمجھ کر کوئی فرد جرم نا عائد کر دیں ۔۔۔)
نہیں۔ یہاں حدیث کے انکار کی بات نہیں۔
اس طرح کی سوچ کی بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں جن کو بوجہ میں یہاں بیان کرنا نہیں چاہتا۔
بس صرف اتنا کہوں گا کہ جب قرآن اور حدیث سے کوئی حقیقت ثابت ہو جائے اور چاہے وہ ہماری عقل میں بھی کیوں نہ آئے تب بھی آمنا و صدقنا کہہ کر خاموش ہو جانا ہی بہتر طریقہ ہوتا ہے۔
ہاں اگر کوئی میں نہ مانوں ہی کہتا رہے تو ظاہر ہے ضد کا کوئی علاج نہیں ہوتا !!
 

باذوق

محفلین
یہ بات تو بہت عام سی ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو پہلے اپنی مرضی کی احادیث سے منوا لیا۔ اگر کوئی حدیث نہ ملے تو بھی خود سے گھڑنے میں‌کوئی حرج نہیں۔ اگر آپ کو اس میں کوئی شک ہے تو براہ کرم مجھے صحیح بخاری کے آج اور آج سے پچاس اور سو سال اور پانچ سو سال پرانے نمونے دکھا دیں کہ ان میں احادیث کا متن اور احادیٹ کی تعداد برابر چلی آ رہی ہے
برادر محترم !
صحیح بخاری کی صحت پر شکوک و شبہات ظاہر کرنے والے آپ اکیلے فرد تھوڑی ہیں۔
یہ سلسلہ تو اسی دن سے چلا آ رہا ہے جس دن سے امام بخاری علیہ الرحمة نے الجامع الصحیح کی تکمیل کی تھی۔
معترضین تو ہر دور میں رہے ہیں اور قیامت تک اعتراض ہوتا رہے گا مگر "اصحح الکتاب بعد کتاب اللہ" کا جو لقب صحیح بخاری کو حاصل ہو چکا ہے ، وہ ہمارے آپ کے اعتراضات سے ختم تھوڑی ہوگا۔
ویسے اگر عورت اتنی ہی ناقص العقل اور ناقص الدین اور ناقص الوغیرہ وغیرہ ہے تو اللہ پاک کا یہ ارشاد کس کے لئے ہے کہ ہر چیز کو احسن التقویم پر پیدا کیا گیا ہے؟
قیصرانی بھائی ، پہلی گذارش اور وہ بھی انتہائی ادب سے یہ کہ :
آپ احادیث پر گفتگو کر رہے ہیں کسی ٹام ڈک اینڈ ہیری کی باتوں پر نہیں ۔۔۔۔ لہذا ذرا ہاتھ ہولا رکھیں برادر !
حدیث میں جو لفظ بیان ہوا ہے وہ صرف اتنا ہے : [ARABIC]ناقصات عقل ودين[/ARABIC]
یہ ناقص الوغیرہ وغیرہ کے الفاظ جوڑ کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟؟
اگر اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو احسن التقویم پر پیدا کرنے کا ذکر کیا ہے تو شیطان بھی تو اللہ ہی کی مخلوق ہے ، اس کو آپ کیا کہیں گے؟
قرآن کی آیت/آیات کو اپنی مرضی سے سمجھنے کے بجائے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اس ہی نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعے سمجھا جائے جس پر کہ خود قرآن نازل ہوا تھا؟!
ویسے مجھے حیرت ہے کہ یہ احادیث امام ابو حنیفہ نے کیوں نہ دیکھیں کہ وہ حنیفہ کے ابو یعنی بیٹی کے حوالے سے یعنی ناقص العقل، ناقص الدین اور ناقص الوغیرہ وغیرہ کے نام سے جانے جاتے ہیں؟
یہاں دوبارہ آپ نے اپنی مرضی کے الفاظ (ناقص الوغیرہ وغیرہ) استعمال کئے ، چلئے، میں نظرانداز کر دیتا ہوں۔
آپ امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ تک ہی کیوں جاتے ہیں؟
کیا مومنین کی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ خاتون نہیں تھیں؟
جبکہ انہی کی فضیلت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ :
[ARABIC]عن أبي موسى، قال ما أشكل علينا أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم حديث قط فسألنا عائشة إلا وجدنا عندها منه علما ‏.[/ARABIC]
ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ :
جب بھی ہم اصحابِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں کسی حدیث کے متعلق اشکال پیدا ہوتا ہے تو ہم اسے ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے حل کرانے کو آتے تو ہمیشہ آپ کے پاس اس حدیث کا علم پایا کرتے ۔
ترمذی ، كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : فضل عائشة رضى الله عنها ، حدیث : 4257
(امام ترمذی اور علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)

اس مستند روایت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہ) کا شمار اکابر فقہاء صحابہ میں ہوتا ہے!

اس کے باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی ایک جگہ بھی یہ منقول نہیں ہے کہ انہوں نے اس حدیث کا انکار کیا ہو جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورت کو "ناقصات عقل ودين" کا حامل بتایا ہے !!

حافظ صلاح الدین یوسف نے یہ بات بالکل برحق کہی ہے کہ :
اس (حدیث) میں عورت کے استخفاف اور فروتری کا اظہار نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگ باور کراتے ہیں) بلکہ ایک فطری کمزوری کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت پر مبنی ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
باذوق; نے کہا:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحیٰ یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ عورتوں کے پاس سے گزرے اور فرمایا :
؟[/url]
السلام علیکم
محترم باذوق جی
آپ نے جو یہ حدیث مبارک لکھی ہے ۔
اس حدیث کے شروع میں ہی اک بہت بڑا اشکال ہے کہ ۔
راوی حدیث کو محکم یہ یاد نہیں کہ یہ کب کا واقع ہے ۔
عیدالاضحی کا یا عید الفطر کا ۔
اگر پہلی بات میں ہی ضعٍف حافظہ محسوس ہو
تو باقی کے کلام کی صداقت کی دلیل کیا ہو گی ۔
میرے محترم اللہ آپ کے علم میں بہت اضافہ کرے آمین۔
احادیث کو اگر ماننے کے لیے صرف یہی دلیل کافی ہے کہ
یہ جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک سے بیان کی گئی ہے ۔
تو پھر ہمیں ان تمام احادیث کو جنہیں موضوع و ضعیف کہ الگ کر دیا گیا ہے ۔
ماننا پڑے گا ۔ کیونکہ جمع الاحادیث انسانی کاوش ہے ۔ اور اس میں تدوین کردہ مواد
اپنے وقت کی جید عالم (جن کہ توکل و یقین ۔اور دین سے محبت پر کویئی اشکال نہیں کیا جا سکتا ۔)
نے اپنی زندگی کے قیمتی وقت کو صرف کر کے مرتب کیا ۔
اگر کچھ احادیث کو موضوع اور ضعیف کہہ کر الگ کر دیا گیا
تو اس کا سب سے بڑا سبب راویان احادیث کا شخصی کردار
اور حافظہ کا ضعیف ہونا تھا ،
اگر اس حدیث کو مانا جائے تو کچھ شرپسند انسان اس حدیث کو
جناب ام المومنیں حضرت عایشہ صدیقہ کی ذات پاک پر چسپاں کر کے
جنگ جمل کی نسبت زبان دراز کر سکتے ہیں ۔
احادیث قران فہمی کے لیے مددگار ضرور ہیں ۔اور اپنی صداقت کے لیے محتاج قران پاک ہیں ،
لیکن کلام اللہ احادیث کا کسی صورت محتاج نہیں کہ اللہ کا کلام ہے ۔
اللہ ہم سب کو دین سمجھنے اور اپنے کردار سے سلامتی کی شمع روشن کرنے کی توفیق سے نوازے آمین
نایاب
 

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم اوپر بیان کردہ بخاری شریف کی روایت برحق ہے یہاں پر جو عورتوں کو ناقص کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے تو ساتھ میں اس کی علتیں بھی بیان کردی گئیں ہیں اور ان علتوں میں سے بعض کا تعلق عورتوں کی خلقت کہ ساتھ ہے جیسے کہ حائضہ وغیرہ ہونا اور بعض کا تعلق عورتوں کہ فطری امور سے ہے لہذا اگر بنظر غائر اس حدیث پاک کا جائزہ لیا جائے تو اسکی بہترین توجیہ یہی ہوگی کہ یہاں پر مطلقاً تو کل خواتین ہی مخاطب ہیں مگر مراد کل نہیں بلکہ اکثریت ہے ۔ کیونکہ یہ عام مشاہدہ ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے بہت سی خواتین بعض مردوں کہ مقابلے میں زیادہ زہین و فطین ہوتی ہیں جبکہ مرد انکے مقابلے میں غبی لہزا امت میں سابقہ ہر دور میں اسکی بہت سی روشن مثالیں ہیں جن میں سے حضرت خدیجہ ،حضرت آسیہ ،حضرت فاطمہ اور حضرت عائشہ سلام اللہ علیھم نمایاں ہیں ۔ رہ گیا حائضہ ہونے کی وجہ سے نماز اور روزوں کہ انقطاع کا معاملہ تو اس میں بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سی عورتیں اکثر مردوں کہ مقابلے زیادہ پرہیز گار اور عبادت گزار ہوتیں ہیں باجود اس کہ انکی عبادت میں خلقتی نقص رکاوٹ ہوتا ہے اور انکے مقابلے میں مرد بغیر کسی رکاوٹ کہ بھی نماز اور روزہ وغیرہ کی پابندی نہیں کرتے ۔ ۔ ۔ ۔۔لہزا ہماری دانست میں یہاں عورتوں کی اکثریت مراد ہے نہ کُل خواتین ۔ ۔۔ باقی واللہ والرسولہ اعلم
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم
محترم باذوق جی
آپ نے جو یہ حدیث مبارک لکھی ہے ۔
اس حدیث کے شروع میں ہی اک بہت بڑا اشکال ہے کہ ۔
راوی حدیث کو محکم یہ یاد نہیں کہ یہ کب کا واقع ہے ۔
عیدالاضحی کا یا عید الفطر کا ۔
اگر پہلی بات میں ہی ضعٍف حافظہ محسوس ہو
تو باقی کے کلام کی صداقت کی دلیل کیا ہو گی ۔
وعلیکم السلام
اس کا جواب کئی طرح سے دیا جا سکتا ہے۔
آپ اس بات پر بھی غور کیجئے کہ 1400 سال بعد آپ کو اس حدیث کے متن پر اس لیے شک ہوتا ہے کہ عظیم المرتبت صحابی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو یہ یاد نہیں رہتا کہ وہ عیدالاضحیٰ کا دن تھا یا عیدالفطر کا ۔۔۔۔ اور آپ فوراً پکار اٹھتے ہیں کہ جب یہ ہی یاد نہ رہے تو دوسرے کلام کی صداقت کیا ہوگی؟؟
بھائی ! جب آپ کو ایسا خیال آ سکتا ہے تو کیا امام بخاری کو یہ خیال نہ آیا ہوگا جب کہ ان کی ساری زندگی ہی احادیث کی چھان بین میں گزری۔ اس کے باوجود انہوں نے اس حدیث کو صحیح بخاری میں درج کیا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ جو فرمان ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوا اس کو بیان کرنا مقصود ہے ناکہ یہ وہ کس موقعہ پر ادا ہوا تھا ؟
ممکن ہے کہ آپ امام بخاری کے رتبے کو مدنظر رکھ کر کہہ دیں کہ یہ روایت ، صحیح بخاری کے ذمے لگا دی گئی ہے جبکہ "اصل بخاری" میں یہ نہیں ملے گی۔
تو بھائی یہ آپ کا دعویٰ بلا دلیل ہوگا۔ اپنی دعوے کو ثابت کرنے کے لیے آپ کو ثبوت دینا چاہئے پہلے۔

دوسری بات یہ کہ ۔۔۔۔۔
یہ روایت صرف امام بخاری نے بیان نہیں کی بلکہ یہی متن امام مسلم نے بھی صحیح مسلم میں بیان کیا ہے اور وہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں۔
مزید آگے بڑھئے تو یہی روایت آپ کو مختلف سندوں سے دس مزید کتب احادیث میں ملے گی (جن کے حوالے دے چکا ہوں)۔
حضور آپ آخر کس کس راوی کو جھٹلائیں گے ؟؟


احادیث کو اگر ماننے کے لیے صرف یہی دلیل کافی ہے کہ
یہ جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک سے بیان کی گئی ہے ۔
تو پھر ہمیں ان تمام احادیث کو جنہیں موضوع و ضعیف کہ الگ کر دیا گیا ہے ۔
ماننا پڑے گا ۔ کیونکہ جمع الاحادیث انسانی کاوش ہے ۔ اور اس میں تدوین کردہ مواد
اپنے وقت کی جید عالم (جن کہ توکل و یقین ۔اور دین سے محبت پر کویئی اشکال نہیں کیا جا سکتا ۔)
نے اپنی زندگی کے قیمتی وقت کو صرف کر کے مرتب کیا ۔
اگر کچھ احادیث کو موضوع اور ضعیف کہہ کر الگ کر دیا گیا
تو اس کا سب سے بڑا سبب راویان احادیث کا شخصی کردار
اور حافظہ کا ضعیف ہونا تھا
محترمی ! علمِ اسماء رجال حدیث ، ایک ایسا فنِ اسلامی ہے جس کا ثانی پیدا کرنے سے آج تک بھی مغربی دنیا قاصر رہی ہے۔
آپ کا بالا اقتباس ظاہر کر رہا ہے کہ آپ کو اس فن کے اصول و مبادی کے مطالعے کی اشد ضرورت لاحق ہے۔ برا نہ مانئے گا۔

اگر اس حدیث کو مانا جائے تو کچھ شرپسند انسان اس حدیث کو
جناب ام المومنیں حضرت عایشہ صدیقہ کی ذات پاک پر چسپاں کر کے
جنگ جمل کی نسبت زبان دراز کر سکتے ہیں ۔
یہ تو ایک بڑی ہی عجیب بات کہہ دی آپ نے۔
کہنے کو تو قرآن کے معترضین بھی کہتے ہیں کہ قرآن میں حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کے دو جھوٹ بیان ہوئے ہیں جبکہ احادیث میں جھوٹ کو سنگین برائی قرار دیا گیا ہے۔
تو کیا آپ ان معترضین کے کہنے پر قرآن سے وہ آیات نکال دیں گے؟؟
جب آپ قرآنی آیات کو نکالنے کے بجائے ان کی تاویل و تشریح کر سکتے ہیں تو یہی معاملہ آخر حدیث کے ساتھ کیوں نہیں؟؟

احادیث قران فہمی کے لیے مددگار ضرور ہیں ۔اور اپنی صداقت کے لیے محتاج قران پاک ہیں ،
لیکن کلام اللہ احادیث کا کسی صورت محتاج نہیں کہ اللہ کا کلام ہے ۔
اس کا جواب میں محفل پر کئی بار دے چکا ہوں۔
بار بار ایک ہی بات دہرانا مجھے نہیں آتا۔ لہذا ایک پرانا مراسلہ یہاں کاپی کر رہا ہوں۔ ٹھنڈے دل سے پڑھ لیجئے گا۔
میرے خیال میں تو صرف ایک ہی ایسی کتاب ہے جس کے بارے میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ:
انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون
ترجمہ: یقیناً ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت فرمانے والے ہیں۔
لفظی ترجمے سے قطع نظر ۔۔۔ کم سے کم میں نے کسی بھی مفسر سے ایسی تفسیر نہیں پڑھی جس میں لکھا ہو کہ
اللہ نے صرف قرآن یعنی (قرآن میں مذکور تمام الفاظ) کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہو اور حدیث کی ذمہ داری نہ لی ہو۔

ایسا مفہوم خلافِ قرآن بھی ہے اور خلافِ عقل بھی۔ صرف الفاظِ قرآنی کی حفاظت کر کے وہ مقصد قطعاََ حاصل نہیں ہو سکتا جس کا ذکر قرآن بار بار کرتا ہے ۔ یعنی اطیعو اللہ و اطیعوالرسول۔
قرآن میں کئی سو بار نماز کا حکم آیا ہے۔ لیکن پورا قرآن دیکھ جائیے۔ آپ کو کہیں بھی نماز کا طریقہ نہیں ملے گا۔ کس طرح قیام کیا جائے ، کس طرح رکوع اور سجدہ اور کتنی رکعات؟ پھر اللہ بار بار کہتا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرو۔
اب رسول کی اطاعت کیسے کی جائے؟ قرآن تو رسول (ص) کا ہر ہر فعل و قول تفصیل سے نہیں بتاتا۔
بتائیے کہ صرف قرآن (جو کہ بقول آپ کے ، صرف ایک ایسی کتاب ہے جو خود اللہ نے محفوظ کر رکھی ہے) کو ہاتھ میں پکڑ کر اب مسلمان کرے تو کیا کرے ؟ نمازوں کی تعداد کا ذکر قرآن میں ملتا نہیں ، طریقہء نماز قرآن بتاتا نہیں ، زکوٰۃ کتنی دینی ، کب دینی کس کو دینی ۔۔۔ اس بارے میں بھی قرآن خاموش !
اب بیچارہ مسلمان حیران پریشان قرآن سے رجوع کرے تو وہاں سے جواب آتا ہے
اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا ! ( البقرہ : 286)

تو کیا یہ آیت دیکھ کر مسلمان نماز پڑھنا چھوڑ دے ؟ کہ نماز کا طریقہ اس کو پورے قرآن میں کہیں ملتا ہی نہیں اور وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا۔
اور اگر حدیث کی طرف وہ رجوع کرے ، تو اس کی گیارنٹی کون دے گا کہ طریقہ نماز والی فلاں حدیث صحیح ہے ؟
یہی وجہ ہے کہ مفسرین درج بحث آیت کی جب تشریح کرتے ہیں تو "الذکر" میں قرآن و حدیث دونوں کو شامل بتاتے ہیں۔
یہ تصور ہی غلط ہے کہ اللہ قرآن کے الفاظ کی تو حفاظت کی ذمہ داری تو لے اور "مفہوم" کی کوئی ذمہ داری نہ لے۔ لہذا ہمارا یہ دعویٰ قطعاََ برحق ہے کہ صحیح حدیث بھی بعینہ اسی طرح محفوظ ہے جس طرح الفاظِ قرآنی !!
مزید تشفی کے لیے میرا یہ مراسلہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم اوپر بیان کردہ بخاری شریف کی روایت برحق ہے یہاں پر جو عورتوں کو ناقص کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے تو ساتھ میں اس کی علتیں بھی بیان کردی گئیں ہیں اور ان علتوں میں سے بعض کا تعلق عورتوں کی خلقت کہ ساتھ ہے جیسے کہ حائضہ وغیرہ ہونا اور بعض کا تعلق عورتوں کہ فطری امور سے ہے لہذا اگر بنظر غائر اس حدیث پاک کا جائزہ لیا جائے تو اسکی بہترین توجیہ یہی ہوگی کہ یہاں پر مطلقاً تو کل خواتین ہی مخاطب ہیں مگر مراد کل نہیں بلکہ اکثریت ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔۔لہزا ہماری دانست میں یہاں عورتوں کی اکثریت مراد ہے نہ کُل خواتین ۔ ۔۔ باقی واللہ والرسولہ اعلم
بھائی ! بہتر ہوتا اگر آپ اپنی طرف سے تشریح کرنے کے بجائے شارحین حدیث کا کوئی حوالہ دے دیتے۔
جب تک کوئی مستند حوالہ موجود نہ ہو بس یہ آپ کا ذاتی خیال ہی کہا جائے گا۔

مزید یہ کہ ۔۔۔۔۔ آپ کا یہ خیال راست قرآن کی آیت (البقرہ:282) سے ٹکراتا ہے۔
قرآن کی متذکرہ آیت میں دو عورتوں کی گواہی کی تفسیر میں وہی [arabic]ناقصات عقل ودين[/arabic] والی حدیث پیش کی گئی ہے۔
آپ تفسیر جلالین دیکھ لیں ، متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہی منقول ہے کہ دو عورتوں کی گواہی کا سبب یہی وجہ [arabic]ناقصات عقل ودين[/arabic] ہے۔
اب اگر "کُل عورتوں" کے بجائے "اکثر عورتیں" مراد لی جائیں‌ تو پھر دو خاتون گواہوں والا قرآنی حکم ہی کالعدم ہو جاتا ہے۔
اللہ اور رسول چاہیں تو کہہ سکتے تھے کہ اگر بغیر [arabic]ناقصات عقل ودين[/arabic] والی عورت مل جائے تو اس ایک کی بھی گواہی کافی ہوگی !!
مگر آپ کو بھی علم ہوگا کہ ایک عورت کی گواہی والا کوئی حکم کہیں بھی پایا نہیں جاتا !!!!
 

باذوق

محفلین
بھائی باسم، ایک اقتباس پیش ہے
اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے،
اگر آپ اس کو ذرا سا کھلے دل سے دیکھیں کہ عورت کو دنیاوی امور جیسا کہ حصول رزق وغیرہ کی چھوٹ دی گئی ہے کہ اگر وہ چاہے تو کاروبار یا ملازمت وغیرہ کرے تو ظاہر ہے کہ ایک گھر بیٹھی ہوئی خاتون جو دنیا سے اتنی واقف نہ ہو اس کو گواہی دینے کے لئے یا گواہ بننے کے لئے جانا پڑے تو کیا کہنا چاہیں‌گے؟ کیا اس وقت ہونے والی بشری غلطی کو بھی آپ اس کی فطری یا پیدائشی غلطی سمجھیں‌گے؟ اس کی ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ ایک عورت کو بلاوا آتا ہے کہ آؤ بھئی، فلاں‌مقدمے میں‌گواہی کی ضرورت آ‌گئی ہے۔ اب وہ عورت جو گھر سے کم ہی باہر نکلتی ہو، اس کے لئے گھر سے نکل کر عدالت تک جانا اور عدالت کی کاروائی اور وکلاء کا سامنا کرنا وہ بھی اکیلے بہتر ہوگا کہ اس کے ساتھ ایک اور خاتون بطور مددگار چلی جائے؟
قیصرانی بھائی !
اگر ، مگر ، گو کہ ، ہر چند کہ ۔۔۔۔۔ وغیرہ جیسے سابقوں کے ساتھ بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہر زمانے کے علمائے کرام کے نزدیک یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ قرآنی آیات کی من مانی تشریح گمراہی کی سمت ہی لے جاتی ہے۔ اور قرآن میں تو اپنی رائے سے کچھ کہنے پر سخت وعید بھی آئی ہے۔
بہرحال ۔۔۔۔۔۔ اگر آپ اپنی بات کی تائید میں احادیثِ صحیحہ سے یا مستند تفاسیرِ متقدمین سے حوالے دے سکیں تو پھر ہم سب اس پر غور کرنے پر مجبور ہونگے۔
اب مزے کی بات، اس ترجمے میں‌واضح ہے کہ دوسری عورت کی حیثیت اس وقت کارآمد ہے جب پہلی عورت کچھ بھول رہی ہو۔ اگر پہلی عورت کچھ نہ بھولے تو دوسری کی گواہی کی کیا ضرورت ہوگی؟ کیا اس صورت میں‌بھی آپ کہنا چاہیں‌گے کہ نہیں‌ایک عورت کی گواہی ادھوری ہے؟
قیصرانی بھائی !
کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔
ہر حال میں 2 عورتوں کی گواہی ضروری نہیں بلکہ بعض صورتوں میں ایک گواہی بھی قبول ہو سکتی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

زیک

مسافر
واہ!!! اس تفصیلی بیان کے بعد اگر کوئ عورت مسلمان رہتی ہے تو وہ واقعی ناقص العقل ہے۔ :p
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
محترم باذوق بھائی
اسلام صاف سچا اور آسان دین ہے ۔
اس میں کوئی گورکھ دھندا نہیں ہے ،
یہ عقل سلیم والوں کے لیے باعث رحمت و ہدایت ہے ۔
آپ کی اس نصیحت کا شکریہ
محترمی ! علمِ اسماء رجال حدیث ، ایک ایسا فنِ اسلامی ہے جس کا ثانی پیدا کرنے سے آج تک بھی مغربی دنیا قاصر رہی ہے۔
آپ کا بالا اقتباس ظاہر کر رہا ہے کہ آپ کو اس فن کے اصول و مبادی کے مطالعے کی اشد ضرورت لاحق ہے۔ برا نہ مانئے گا۔

مغربی دنیا قاصر ہی رہے گی ۔ یہ علم خاص مسلمانوں میں پایا جاتا ہے ۔
بے شک میرا علم ناقص ہے ۔ اور مجھے ایسا کوئی شوق بھی نہیں ہے کہ ایسا علم سیکھوں جس سے نفرت و تعصب کا پرچار ہو ۔
کہنے کو تو قرآن کے معترضین بھی کہتے ہیں کہ قرآن میں حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کے دو جھوٹ بیان ہوئے ہیں جبکہ احادیث میں جھوٹ کو سنگین برائی قرار دیا گیا ہے۔
تو کیا آپ ان معترضین کے کہنے پر قرآن سے وہ آیات نکال دیں گے؟؟
جب آپ قرآنی آیات کو نکالنے کے بجائے ان کی تاویل و تشریح کر سکتے ہیں تو یہی معاملہ آخر حدیث کے ساتھ کیوں نہیں؟؟

قران پاک میں ذکر ابراہیم علیہ الصلوات و السلام کو پڑھنے والا بہت آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ آپ کے جھوٹ کی بنیاد اور مقصود کیا تھا ۔ اس کلام ربانی کا کسی کلام انسانی سے موازنہ کسی صورت درست نہیں ۔
باقی جہاں تک آپ نے وجوب حدیث کا لکھا ہے کہ بنا حدیث کے قران سمجھ ہی نہیں آسکتا ۔ تو عرض ہیے کہ ارکان اسلام کی وضاحت کے لیے تو ان کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ۔ لیکن دین اسلام تو صاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے ۔ نماز پڑھنے کی تاکید ہے ۔ کیسے پڑھی جائے حدیث بتائے گی ۔
جمع احادیث میں زندگیاں بتانے والوں کا یہ منشا تو ہر گز نہ ہوگا کہ یہ ہماری تحریر دین اسلام میں تفرقہ و انتشار کا سبب ہو ۔
اب آپ کی تحریر کردہ احادیث کو تسلیم کر کے اگر عورت کو ناقص العلم و عقل مان بھی لیا جائے تو براہ کرم یہ بتائیں کہ کیا حاصل ہو گا ۔
احادیث کو تشکیل کردار کے لیے استعمال کیا جانا چاہیئے نا کہ تخریب کے لیے ۔
محترم باذوق بھائی
میرا آپ سے بالکل بھی کوئی نظریاتی بحث کرنے کی نیت و ارادہ نہیں ہے ۔ میں تو اک ان پڑھ انسان ہوں ۔ آپ جیسی ہستیوں کی تحاریر سے کچھ علم کے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ اور علم نافع کا طلبگار ہوں ۔
اللہ ہم سب کو راہ ہدایت پر گامزن رکھے آمین
نایاب
 

بدتمیز

محفلین
صبح‌ اٹھ کے درست طور پر دانت برش کرنے کا طریقہ آتا نہیں اور ناقص علم اور سنی سنائی کے سہارے دینی اور علمی بحثیں کرکے دین کی خدمت کرنے والے اساتذہ سے گزارش ہے کسی اور کام کو بھی ہاتھ ڈالیں اور اسلام کی مزید تشریح‌سے گریز کریں۔
 

نایاب

لائبریرین
صبح‌ اٹھ کے درست طور پر دانت برش کرنے کا طریقہ آتا نہیں اور ناقص علم اور سنی سنائی کے سہارے دینی اور علمی بحثیں کرکے دین کی خدمت کرنے والے اساتذہ سے گزارش ہے کسی اور کام کو بھی ہاتھ ڈالیں اور اسلام کی مزید تشریح‌سے گریز کریں۔

السلام علیکم
محترم بدتمیز جی
سدا خوش رہیں آمین
ماشااللہ
آپ کی تحریر کا مخاطب کوئی بھی ہو ۔
لیکن آپ کا انداز نصیحت علم کامل کی بہترین تشریح کر رہا ہے ۔
کاش آپ دانت برش کرنے کا درست طریقہ ہی تحریر کر دیتے ۔
مجھ سے ناقص العلم مستفید نصیحت ہو کر
عقل و دانش نہ سہی
اپنی صحت ہی درست کر لیتے ۔
نایاب
 

علی ذاکر

محفلین
انقلاب چین سے پہلے وہاں یہ رواج تھا کہ لڑکیوں کے پاؤں بچپن ہی سے کس کر باند دیتے تھے اس طرح وہ بڑھ نہیں پاتے تھے اور چینی عورتیں صحیح طرح چل نہیں‌سکتی تھیں !

یہی کام اس طرح کی حدیثیں کر رہی ہیں !

مع السلام
 

slave of allah

محفلین
بھائيو اور بہنوں!
آپ لوگ اب اتنے بڑے ہوگئے ہو کہ اللہ کی آیات اور احادیث پر جرح کرنا شروع کردو۔
اللہ کی پناہ۔
مسلمان کبھی بھی اللہ کے قوانین پر شک و شبہ نہیں کرسکتا۔
جب حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقص العقل اور ناقص الدین کے الفاظ عوتوں کے لیے فرمائے ہیں تو آپ کی یہ جرح وہ طعنہ خيز الفاظ در حقیقت اللہ کے رسول صلی اللہ علکہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
اللہ سے توبہ کریں اور دین کو صحیح نمونے سمجھنے کی کوشش کریں۔
دین کے بارے میں الفاظ نکالنے سے پہلے 100 دفعہ ضرور سوچيں کہ آپ کیا کہ رہے ہیں؟
دین کے بارے ایک لفظ بھی ہمیں اسلام سے نکال باہر کرسکتا ہے۔
پلیز مسلمان ہوکر اس بات پر ضرور سوچیے گا۔
والسلام علیکم
 
جب کسی موضوع پر واضح حدیث سامنے آجائے اور یہ حدیث مکرر حوالوں سے ثابت بھی ہو تو مجھے اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے ۔ خواتین ناقصات عقل و دین ہیں کس قدر ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات سب سے بہتر جانتی ہے اور اس سلسلے میں مجھے لب کشائی کا کوئی حق نہیں ہے ۔ میرے ذاتی خیالات کیا ہیں انکی کوئی حیثیت نہیں نہ میں مفسر ہوں کہ تفاسیر احادیث یا ایات قرآنی کی کرتا رہوں اور انجانے میں کہیں ایسی جگہ جا گروں جہاں سے اٹھانے والا کوئی نہ ہو
 

باذوق

محفلین
واہ!!! اس تفصیلی بیان کے بعد اگر کوئ عورت مسلمان رہتی ہے تو وہ واقعی ناقص العقل ہے۔ :p
زیک !
میں آپ کا بلاگ اور اردو محفل پر آپ کے مراسلات گذشتہ 4 سال سے پڑھ رہا ہوں۔ یہاں اور یہاں آپ کی تعریف سے ہم جیسوں کو امید بندھتی ہے کہ اس قدر تحقیق اور مطالعہ کے شوقین اور قابل قدر آنلائن حوالہ جات فراہم کرنے والی شخصیت براڈ مائینڈڈ بھی ہوتی ہے۔
آپ جیسوں کی تقلید میں ہم بھی اس امید پر تحقیق کرتے ہیں تاکہ یہ عمومی تاثر پیدا ہو کہ مسلمانوں کی نوجوان نسل دین و دنیا دونوں میدانوں میں تحقیق کے رحجانات کی آبیاری کی قائل ہے۔

مگر آپ کا بالا تبصرہ کم سے کم مجھ میں تو مایوسی کی لہر پیدا کرتا ہے۔
واللہ ! اس تھریڈ کی پہلی پوسٹ میں میرا ایک بھی ذاتی خیال شامل نہیں ہے۔ کئی گھنٹوں کی تحقیق کے بعد میں نے تمام تفاسیر کے آن لائن حوالہ جات خود چیک کئے تھے اور یہاں کے مقامی اسلامک پراپگیشن سنٹر کو فون کر کے پرنٹیڈ کتب سے ان آن لائن حوالوں کی تصدیق بھی کروائی۔
التفسیر ڈاٹ کام پر موجود تقریباً تمام اہم شیعی اور صوفی تفاسیر میں بھی اس آیت (البقرہ:282) کی یہی تشریح ہے مگر میں نے اس لیے حوالہ نہیں دیا کہ کہیں سے بھی متعلقہ پرنٹیڈ کتابیں تصدیق کے لیے مل نہیں سکیں۔

لیکن خیر ۔۔۔۔۔۔
مراسلات نمبر:9-10-12-14 سے معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ دین کی "صدیوں پرانی تحقیق" سے نہ ہمیں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ہم ان "آثار" سے کسی قسم کا کوئی واسطہ رکھنے کے قائل ہیں۔

اور اگر کوئی دین کی نئی تشریح کا اس قدر ہی پرزور حامی ہے تو جس طرح دنیاوی معاملات میں آن لائن تحقیق کے حوالوں سے جو مواد/رپورٹ پیش کی جاتی ہے ویسا ہی دین کی نئی تشریح کیونکر پیش نہیں کی جاتی ؟؟

اگر یہ محنت بھی نہیں ہوتی تو پھر خواہ مخواہ تمسخرانہ انداز اپنا کر ہم آخر کیا جتانا چاہتے ہیں؟؟
تحقیق کی اس قدر تحقیر تو انڈرسٹینڈنگ اسلام گروپ بھی نہیں کرتا !! یا تو علمی سطح پر جواب دیتا ہے یا پھر خاموشی اختیار کرتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اگر یہ محنت بھی نہیں ہوتی تو پھر خواہ مخواہ تمسخرانہ انداز اپنا کر ہم آخر کیا جتانا چاہتے ہیں؟؟

باذوق، اتنی محنت سے یہ مواد پیش کرنے کا شکریہ۔ لیکن میں بھی یہی دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ اس ایکسرسائز کا کیا مقصد ہے؟
 

فرخ منظور

لائبریرین
دین کی اس قسم کی تفاسیر کی جاتی ہیں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ غیر مسلم، مسلمانوں کو ناقص العقل اور غاروں کے زمانے کے انسان کیوں سمجھتے ہیں۔
 
Top