عورت پر ہلکا سا تشدد

ابن عادل

محفلین
نابالغ بچے کی پیٹھ پر چپت لگانا، بالغ عورت پر ایسے تشدد کہ اس کے جسم پر نیل پڑ جائیں کے مماثل نہیں۔

میں نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی تھی کہ محبت اور تشدد ایک ساتھ کیسے ہوسکتا ہے ۔ ؟ آپ شاید یہ سمجھے کہ میں نے کوئی مقدمہ رکھا ہے ۔ آپ کے خیال میں اس کا کوئی دوسرا بہتر جواب ہوسکتا ہے تو ضرور عنایت کیجیے ۔
 

زیک

مسافر
جہاں دو انسان جمع ہوتے ہیں ، ساتھ رہنے ہیں اور اپنے معاملات نمٹاتے ہیں تو انہیں کسی کو تو ذمہ دار بنانا پڑتا ہے ۔ معاشرہ اسی کا نام ہے ۔ اور معاشرے کی پہلے اکائی گھر ہے ۔ جہاں اس چھوٹی سی مملکت میں معاملات سربراہ کی دانشمندی سے اچھے طریقے سے حل ہوتے ہو تو کیا کہنے ۔۔۔۔! جہاں مسئلے آتے ہیں وہاں فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں ۔
کافی hierarchical معاشرے کے قائل ہیں آپ۔
 
میں نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی تھی کہ محبت اور تشدد ایک ساتھ کیسے ہوسکتا ہے ۔ ؟ آپ شاید یہ سمجھے کہ میں نے کوئی مقدمہ رکھا ہے ۔ آپ کے خیال میں اس کا کوئی دوسرا بہتر جواب ہوسکتا ہے تو ضرور عنایت کیجیے ۔
ظاہر ہے اس بات کا کوئی جواب ہے ہی نہیں تشدد( torture) جس کے مجرموں پر کیے جانے کے خلاف بات کی جاتی ہے۔ اگر شریک حیات پر کریں گے تو جو محبت باقی رہے گی وہ سب کو معلوم ہے کیسی ہوگی۔
 

فرقان احمد

محفلین
تشدد کا لفظ بڑا سخت اور ظالمانہ ہے اور ظاہری بات ہے، ایسا ہو گا، اور تواتر سے ہو گا، تو محبت کیوں کر باقی رہے گی؟ تاہم، ہلکی پھلکی نوک جھونک، روٹھنے منانے کے سلسلے تو چلتے رہتے ہیں۔ جو بھی ہو، میاں بیوی بہرصورت روبوٹ تو ہوتے نہیں ہیں۔ اور دیکھا جائے تو یہ آگ دونوں طرف ہی لگی ہوئی ہے، چاہے برابر نہ بھی ہو، تب بھی۔ صاحب! ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ بیلن اور بیوی کے بھائیوں سے ڈرنے والے شوہر بھی تو وافر مقدار میں اسی معاشرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ :cry::confused::sad:
 

زیک

مسافر
تشدد کا لفظ بڑا سخت اور ظالمانہ ہے اور ظاہری بات ہے، ایسا ہو گا، اور تواتر سے ہو گا، تو محبت کیوں کر باقی رہے گی؟ تاہم، ہلکی پھلکی نوک جھونک، روٹھنے منانے کے سلسلے تو چلتے رہتے ہیں۔ جو بھی ہو، میاں بیوی بہرصورت روبوٹ تو ہوتے نہیں ہیں۔ اور دیکھا جائے تو یہ آگ دونوں طرف ہی لگی ہوئی ہے، چاہے برابر نہ بھی ہو، تب بھی۔ صاحب! ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ بیلن اور بیوی کے بھائیوں سے ڈرنے والے شوہر بھی تو وافر مقدار میں اسی معاشرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ :cry::confused::sad:
نوک جھونک اور مار پیٹ میں فرق ہوتا ہے
 
رائے کا اختلاف ہر انسان کا حق ہے اور اس حق کی حدود و قیود مختلف سانچے طے کرتے ہیں جن میں سے گزر کر انسان کی شخصیت بنتی ہے. ناعمہ کی بات سے اتفاق ہے کہ خواتین پر تشدد ہرگز قابل قبول نہیں ہے خصوصا ایسا تشدد جس سے ان کی شخصیت مجروح ہو یا عزت نفس پر زد پہنچے یا کسی بھی طرح جسمانی نقصان یا تکلیف پہنچے البتہ جس طرح ہر انسان کی سوچ اور شخصیت مختلف ہوتی ہے بالکل اسی طرح اس سے اسے پیش آنے والے مسائل اور ان کا حل مختلف فیہہ امر ہے.

جیسے ایک مرد اپنی بیوی پر تشدد کا حق دار نہیں ہے ویسے ہی ایک عورت پر بھی حدود و قیود کا نفاذ ہوتا ہے. اب مرد ہو یا عورت گھر کے چلنے میں دونوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے. اسلام بطور ایک مکمل ضابطہ حیات اس کردار کو نبھانے کے لیے ایک راہ کا تعین کرتا ہے جس تشدد کا رونا آج کے لبرلز حقوق نسواں کی آڑ میں لیتے ہیں اس درجہ سے پہلے کے درجات جیسے سمجھانا.. بستر الگ کر لینا وغیرہ کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں.. اور اس کے ساتھ ہی ان جاہلوں کی مثال دیتے ہیں کہ فلاں نے بیوی کو مار مار کر ادھ موا کر دیا اور فلاں نے بیوی کی ہڈی پسلی ایک کردی وغیرہ وغیرہ تو اس کا جواب تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو خواتین اپنے آشناؤں کے ساتھ مل کر اپنے خاوندوں کو قتل کر دیتی ہیں کیا وہ درست ہے... ؟؟ یا جو خواتین اپنی شادی کے بعد اپنے خاوند کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہیں وہ کیا درست کرتی ہیں.. یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا... میں جب دبئی میں تھا تو ایک شخص کو جانتا تھا کہ ان کی بیوی نے انہیں کئی برس تک اپنے قریب نہ آنے دیا اور آخر کار انہیں گھر سے نکال دیا اور وہ مجھے ملا تو میں نے پوچھا تم نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی تو جواب ملا جو انسان میری بات اور ضرورت کو نہ بتانے سے نہ سمجھے اسے مار پیٹ کر سمجھانا فضول ہے. باقی بات حقوق کی تو وہ اللہ کے حضور دعوی کرونگا.....

قصہ مختصر مار پیٹ یا گھریلو تشدد ایک الگ امر ہے اور اللہ کی طے کردہ حدود پر عمل ایک الگ امر ہے. مارنے کا حق صرف اسے ہے جو باقی معاملات میں بھی الوہی احکامات پر عمل پذیر ہوتا ہو لیکن خواتین اس معاملے میں بری الذمہ نہیں ہیں اور مادر پدر آزادیوں سے معاشرے میں صرف بگاڑ پیدا ہوتا ہے

تنقید رویوں پر کیجئے اور اس تنقید کو اصلاح پر مرکوز رکھیئے البتہ اسلام کی طے کردہ حدود و قیود پر تنقید کرنے سے باز رہیئے کہیں یہی ایک معاملہ آپ کو وہاں نہ پہنچا دے جہاں فرعون و نمرود و قارون و ہامان کا بسیرا ہے.. آزادی اور بغاوت میں فرق کرنا ضروری ہے..

سورۃ النساء کا مطالعہ فرما لیجئے اگر ترجمہ کی سہولت موجود ہو تو ترجمہ پر غور فرمائیے کہ اس میں کچھ احکامات کا بیان ہے. ایسا نہ ہو کہ کسی قرآنی حکم کی براہ راست مخالفت ہمیں ظالموں میں سے کردے کیونکہ قرآن الوہی کلام ہے کسی سیاستدان کا بنایا ہوا قانون نہیں نہ کسی قبیلے کے رسوم و رواج ہیں کہ ان پر بات کرنا ضروری اور تنقید کا حق بلا روک و ٹوک ہر کسی کو دیا جائے
 
آخری تدوین:

شہزاد وحید

محفلین
میرے تو خیال میں یہاں بھی وہی مثال پوری آئے گی شریف آدمی والی یا کمزور پارٹی والی۔ جو بندی تو برداشت کر لیتی ہے اسے پھر مزید زد وکوب کیا جاتا ہے مزید ذہنی و جسمانی اذیت کا سامان کیا جاتا ہے مگر جو آگے سے پوری پیش آئے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دے اس سے اگلی دفعہ پھر کوئی پنگا نہیں لیتا۔
 

جی جناب اپنی سابقہ پوسٹ میں میں نے سورۃ النساء پڑھنے کی دعوت دی تھی کہ جناب اس کا مطالعہ فرما لیجئے اب اللہ جانتا ہے کتنوں نے مطالعہ کیا اور کتنوں نے نہیں کیا ۔ میں نے جب سورۃ النساء کھول کر پڑھنا شروع کیا تو کیا دیکھتا ہون کہ ایک مکمل مینوئیل ہے جس میں اتنے معاملات کا بیان ہے اور ایسے واضح بیان ہے کہ تفسیر کی حاجت ہی محسوس نہیں ہوتی

مندرجہ ذیل تمام ترجمہ جات آیات کریمہ کے ہیں اور ایک ہی سورۃ مبارکہ کے ہیں جسے سورۃ النساء کے نام سے ہم سب جانتے ہیں آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا بیان ہوا ہے۔ اس طویل پوسٹ کا مقصد خواتین کو مارنے کے اس اجازت نامے کا حوالہ دینا ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 34 میں دیا ہے اور باقی آیات کا بیان اس لیئے ہے کہ ان میں بہت سے ایسے حقوق کا بیان ہے جو ہمارے معاشرے میں نہ تو لوگ جانتے ہیں نہ عمل پذیر ہوتے ہیں نتیجہ کے طور پر پھر اخبارات میں کاروکاری ۔ غیرت کے نام پر قتل اور قرآن سے شادی جیسے قبیح معاملات سامنے آتے ہیں

مزید یہ کہ کوئی یہ نہ کہے کہ ایک آیت کو پکڑ لیا اسکے سیاق و سباق کو تو دیکھا ہی نہیں

سورہ النساء کی یہ آیات بمعہ ترجمہ اس ربط سے براہ راست بھی مطالعہ کی جا سکتی ہیں




بسم اللہ الرحمن الرحیم



1۔ لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔ اور خدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت بر آری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے

2۔ اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو۔ اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے

3۔ اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارےانصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے
(پہلی تین آیات ترجمہ ہی اپنے آپ میں تفسیر ہے)
اب آیت نمبر سات میں دیکھتے ہیں کیا حکم خداوندی ہے


7۔ جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تھوڑا ہو یا بہت۔ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی یہ حصے (خدا کے) مقرر کئے ہوئے ہیں


آیت نمبرآٹھ میں رشتہ دارون اور ضعیفوں کے حقوق کا بیان آتا ہے



8- اور جب میراث کی تقسیم کے وقت (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج آجائیں تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دیا کرو۔ اور شیریں کلامی سے پیش آیا کرو

آیت نمبر 9 میں کم سن اور ایسے بچوں کا بیان ہے جن کے متعلق والدین کو عموما ڈر ہوتا ہے کہ ان کا کیا ہوگا


9- اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیئے جو (ایسی حالت میں ہوں کہ) اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو (کہ ان کے مرنے کے بعد ان بیچاروں کا کیا حال ہوگا) پس چاہیئے کہ یہ لوگ خدا سے ڈریں اور معقول بات کہیں
اب آپ سب سوچ رہے ہونگے کہ یہ کیا کر رہے ہیں فیصل بھائی ۔ سوال گندم اور جواب چنا ہے تو اب اس بالائی تمہید کا مقصد یہ تھا کہ انہیں جنہیں الوہی حدود و قیود پر اور ان کے نفاذ کے سوال پر ہی پیٹ درد ہو رہا ہے وہ یہ جان لیں کہ صرف عورتوں پر تشدد اور دو دو تین تین چار چار شادیاں کرنے پر ہی نہیں بلکہ اسلام تو زندگی کے ہر پہلو پر آپ کی رہ نہائی کرتا ہے ۔
اب یہ تو ظلم ہے کہ ایک سیاست دان کا بنایا ہوا آئین تو اتنا مقدس ہو جائے کہ اسکی توہین پر سزائے موت ہو اور اللہ کا واضح اور کھول کھول کر بیان کردہ قانون اتنا ہلکا سمجھا جائے کہ ہر ماجھا ساجھا اٹھ پر اس پر رائے دہی کرنے لگے اور اسے اپنا حق گردانے ۔۔۔
جب کہا جاتا ہے کہ خواتین کا حصہ مردوں سے آدھا ہے تو چھپکلی کی طرح سر اٹھا کر کہا جاتا ہے کہ جی کیوں ایسا کیوں ۔
جواب ہے کہ اللہ کا حکم ہے اور اس سے زیادہ کوئی سبب یا وجہ بڑی نہیں ہے جیسے اللہ تعالی فرماتا ہے سورۃ النساء کی آیت نمبر گیارہ میں

11-خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں ان کادو تہائی۔ اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو۔ اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ۔ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادؤں اور بیٹوں پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے، یہ حصے خدا کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے
صرف اتنا ہی نہیں موت کی صورت میں اپنی بیویوں کے ترکے میں بھی خاوند کا حق بیان کر دیا گیا ہے جیسے کہ اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہے

12-اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں۔ اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا۔ اور اگر اولاد ہو تو ترکے میں تمہارا حصہ چوتھائی۔ (لیکن یہ تقسیم) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو ان کے ذمے ہو، کی جائے گی) اور جو مال تم (مرد) چھوڑ مرو۔ اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ۔ اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ (یہ حصے) تمہاری وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو تم نے کی ہو اور (ادائے) قرض کے (بعد تقسیم کئے جائیں گے) اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا مگر اس کے بھائی بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ حصے بھی ادائے وصیت و قرض بشرطیکہ ان سے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کئے جائیں گے) یہ خدا کا فرمان ہے۔ اور خدا نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے


اللہ تعالی کی دی ہوئی اجازتوں میں سے ایک اجازت پر اعتراض کرنا کہاں تک درست ہے جب مالک و مولیٰ خالق کائنات نے یہ تمام حدود طے کر دی ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں اس پر اعتراض کرنے والے۔ یہ اللہ پاک کی طے کردہ حدود ہیں


13-(یہ تمام احکام) خدا کی حدیں ہیں۔ اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری کرے گا خدا اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔اور یہ بڑی کامیابی ہے
اور انہی حدود کی نافرمانی کرنے پر کیا حکم باری تعالی ہے ذرا غور کیجئے آج کے لبڑل مافیا کے لوگ


14-اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو خدا دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا
اس کے بعد بدکاری کا بیان ہے کہ اس پر کیا طریقہ کار طے کیا جاتا ہے اور توبہ کا کیا طریقہ کار ہے جو غیرت کے نام پر قتل و غارت گری کے خلاف ہے اور اس سے آگے چلتے ہی زبردستی کی وراثت جیسے قرآن سے شادی طلاق دیتے وقت عورتوں سے دیا گیا مال واپس مانگنا وغیرہ پر روک لگائی گئی ہے
15- مسلمانو تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو۔ اگر وہ (ان کی بدکاری کی)گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کردے یا خدا ان کے لئے کوئی اور سبیل (پیدا) کرے
16- اور جو دو مرد تم میں سے بدکاری کریں تو ان کو ایذا دو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نیکوکار ہوجائیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو۔ بےشک خدا توبہ قبول کرنے والا (اور) مہربان ہے
17- خدا انہیں لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو نادانی سے بری حرکت کر بیٹھے ہیں۔ پھر جلد توبہ قبول کرلیتے ہیں پس ایسے لوگوں پر خدا مہربانی کرتا ہے۔ اور وہ سب کچھ جانتا (اور) حکمت والا ہے
18- اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو (ساری عمر) برے کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی موت آموجود ہو تو اس وقت کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ ان کی (توبہ قبول ہوتی ہے) جو کفر کی حالت میں مریں۔ ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے
19- مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ اور (دیکھنا) اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں (گھروں میں) میں مت روک رکھنا ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں (تو روکنا مناسب نہیں) اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے
20- اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو۔ اور پہلی عورت کو بہت سال مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لوگے؟
21- اور تم دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہے
[FONT=Times New Roman, sans-serif]اس سب کے بعد اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ کن سے نکاح کن کن صورتوں جائز ہے اور کیسے ان کے ساتھ تعامل کیا جائے
[/FONT]

22- اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان نکاح مت کرنا (مگر جاہلیت میں) جو ہوچکا (سوہوچکا) یہ نہایت بےحیائی اور (خدا کی) ناخوشی کی بات تھی۔ اور بہت برا دستور تھا
23- تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے (ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہو چکا (سو ہو چکا) بے شک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے

24- اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے

25-اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کرلے) اور خدا تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کرکے نکاح کر لو اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو بشرطیکہ عفیفہ ہوں نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں پھر اگر نکاح میں آکر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو (دی جائے) یہ (لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی) اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو اور اگر صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے


اللہ تعالیٰ کو یہ سب بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے اس کے جواب میں فرمان ہے


26- خدا چاہتا ہے کہ (اپنی آیتیں) تم سے کھول کھول کر بیان فرمائے اور تم کو اگلے لوگوں کے طریقے بتائے اور تم پر مہربانی کرے اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے


27- اور خدا تو چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی کرے اور جو لوگ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھے راستے سے بھٹک کر دور جا پڑو

28- خدا چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان (طبعاً) کمزور پیدا ہوا ہے
29- مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہو جائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے
ایسا نہ کرنے والے کے لیئے کیا جزا ہے یہ بھی بیان فرما دیا گیا


30- اور جو تعدی اور ظلم سے ایسا کرے گا ہم اس کو عنقریب جہنم میں داخل کریں گے اور یہ خدا کو آسان ہے


31- اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے

اب بات کرتے ہیں مردوں کی عورتوں کی فضیلت کی تو اس کا جواب واضح اللہ تعالی کے فرمان کی صورت میں ہمیں ملتا ہے

32- اور جس چیز میں خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی ہوس مت کرو مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور خدا سے اس کا فضل (وکرم) مانگتے رہو کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے

وعدوں اور وراثت کا بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے


33- اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو (حق داروں میں تقسیم کردو کہ) ہم نے ہر ایک کے حقدار مقرر کردیئے ہیں اور جن لوگوں سے تم عہد کرچکے ہو ان کو بھی ان کا حصہ دو بےشک خدا ہر چیز کے سامنے ہے

اب اس بات کا بیان آتا ہے جس میں عورتوں کو ہلکی مار لگانے کی اجازت ہے لیکن اگر وہ فرمانبردار ہو جائیں تو انہیں ایذاء دینے کا بہانہ نہ ڈھونڈنے کا بھی حکم ربانی اسی آیت میں ہے


34- مرد عورتوں پر مسلط وحاکم ہیں اس لئے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال وآبرو کی) خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی (اور بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بےشک خدا سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے

اس کے علاوہ بھی میاں بیوی کے باہمی مسائل کے حل کا طریقہ کار طے کر دیا گیا ہے

35-اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو وہ اگر صلح کرا دینی چاہیں گے تو خدا ان میں موافقت پیدا کردے گا کچھ شک نہیں کہ خدا سب کچھ جانتا اور سب باتوں سے خبردار ہے

میں ایک عام سا سادہ سا مسلمان ہوں اور تفسیر و تشریح کے علم سے نا بلد ہوں البتہ جو بات اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کھول کر بیان فرمادی اور اس کے سمجھنے میں کوئی اشکال نہیں تو اس کو بعینہ آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنا میرا فرض ہے اور حق بھی امید ہے سمجھدار سمجھ جائیں گے بے شک ہدایت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے ہی ممکن ہے اور علم کا منبع و مصدر حقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ستار العیوب ہے۔۔

 

لاریب مرزا

محفلین
اچھی تحریر لکھی ناعمہ بہنا!! اسلام میں تشدد کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ اسلام میں اگر عورت پر کسی قسم کی سختی کا حکم ملتا ہے تو وہ اس صورت میں جبکہ عورت اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنے کوشش کرے اور اس میں بھی کچھ حدود و قیود ہیں کہ کتنی سزا دی جائے۔ لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں مرد دن بھر کے غصے یا کسی بھی قسم کی ذہنی پریشانی کے ازالے کے طور چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایشو بنا کر پر اپنی بیگمات کو بری طرح سے پیٹتے ہیں۔ لہٰذا اس طرح کے کسی قانون کا نفاذ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صاحب اگر "ہلکا پھلکا" مارنا اتنا ہی ضروری ہے تو بیگم کو "آنکھ مارلیں"۔۔۔۔۔
بیگم کو آنکھ مار تو لیں بعد میں جو وہ بیلن مارے گی اُس کا کون ذمہ دار ہے قبلہ وصی اللہ صاحب۔ ویسے آپ کے جملے سے لگا کہ آپ ابھی تک ناکتخدا ہیں :)
 

ابن عادل

محفلین
عورت کے ساتھ زیادتی یا تشدد کا ذمہ دار مرد ہے اور مذہب اسے چھتری فراہم کرتا ہے ۔ یہ وہ منظر نامہ ہے جو بظاہریہاں بن رہا ہے ۔ سماجی مسائل کی بحثوں میں حصہ ڈالنا بہت اچھی بات ہے لیکن سماج کا دائرہ بہت وسیع ہے جبکہ انسان کا اپنا دائرہ بہت محدود ہے ۔ وہ اپنے اردگرد کے اچھے یا برے ماحول کا اطلاق پورے سماج پر کرکے مسائل پر حکم لگاتا ہے ۔ اور اگر ماحولیاتی و علاقائی اثرات بھی اس میں شامل کیے جائیں تو سماج کا تنوع اتنا بڑھ جاتا ہے کہ کسی مسئلے پر کلام نہایت دشوار عمل ہے ۔اگر اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کچھ عقدہ کھلے کہ اللہ نے بہت سے معاملات اپنے ہاتھ میں کیوں رکھے ہیں ۔ قومیں عورت کے اختیار و حدود کو طے کرنے کے معاملے میں ایسی بھول بھلیوں میں گم ہیں کہ خود پریشان ہیں ۔ جو بزعم خود آزادی نسواں کا تمغہ سجائے اس علم کو ہر جگہ گاڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ان کی رائے عامہ کے جائزے ان سے چیخ چیخ کرکہہ رہے ہیں کہ ۔۔دامن کو ذرا دیکھ ۔۔۔
مغرب نے جانچ و جائزے ، نظم و ضبط اور انتظامی سائنس کو عروج تک پہنچا دیا ہے ۔ مزید ٹیکنالوجی کی مدد نے اسے نگرانی و گرفت کی لامحدود وسعتیں فراہم کردیں ہیں ۔ جس نے اسے یہ یقین دلا دیا ہے کہ انسان کو ہرزاویے سے گرفت میں لایا جاسکتا ہے ۔ لیکن انسان کے انسان کے ساتھ اخلاقی تعلقات کو پکڑ میں لانا ممکن نہیں ۔ والدین ، بیوی ،اولاد ، عزیزواقرباء اور اسی طرح کے بیسیوں انسانی رشتے اور ان کا تعلق کیسے گرفت میں لایا جائے ۔ یہ ممکن نہیں ۔ اس کا حل صرف اسلام نے فراہم کیا ہے ۔ اوروہ اس کے لیے ' احسان ' کی اصطلاح استعمال کرتا ہے ۔ 'احسان ' کیا ہے ؟ ہمہ دم حضوری رب کا احساس ۔یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ اس احساس کے بغیر معاشرے میں ان تعلقات کے بارے میں مثبت رویہ پیدا کرنا ممکن نہیں ۔
اس تفصیل کو سمجھ لینے کے بعد جنہیں قرآن سے تشدد کا ثبوت مل جاتا ہے توہم اس کے سوا کیا کہیں ۔
اپنے اپنے وسعت ظرف و نظر کی بات ہے
جس نے جو عالم بنا ڈالا وہ اس کا ہو گیا
 

وصی اللہ

محفلین
بیگم کو آنکھ مار تو لیں بعد میں جو وہ بیلن مارے گی اُس کا کون ذمہ دار ہے قبلہ وصی اللہ صاحب۔ ویسے آپ کے جملے سے لگا کہ آپ ابھی تک ناکتخدا ہیں :)
ہائے ہائے صاحب۔۔ کتخدائی کا کیا دور یاد دلا دیا۔۔اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے۔۔۔۔ویسے چند دن پہلے کہیں پڑھا تھا یاد نہیں کہاں کہ خوش قسمت کی انگریزی"unmarried" ہوتی ہے۔۔۔کیا یہ بات درست ہے؟؟؟
 
Top