جی جناب اپنی سابقہ پوسٹ میں میں نے سورۃ النساء پڑھنے کی دعوت دی تھی کہ جناب اس کا مطالعہ فرما لیجئے اب اللہ جانتا ہے کتنوں نے مطالعہ کیا اور کتنوں نے نہیں کیا ۔ میں نے جب سورۃ النساء کھول کر پڑھنا شروع کیا تو کیا دیکھتا ہون کہ ایک مکمل مینوئیل ہے جس میں اتنے معاملات کا بیان ہے اور ایسے واضح بیان ہے کہ تفسیر کی حاجت ہی محسوس نہیں ہوتی
مندرجہ ذیل تمام ترجمہ جات آیات کریمہ کے ہیں اور ایک ہی سورۃ مبارکہ کے ہیں جسے سورۃ النساء کے نام سے ہم سب جانتے ہیں آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا بیان ہوا ہے۔ اس طویل پوسٹ کا مقصد خواتین کو مارنے کے اس اجازت نامے کا حوالہ دینا ہے جو اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی آیت نمبر 34 میں دیا ہے اور باقی آیات کا بیان اس لیئے ہے کہ ان میں بہت سے ایسے حقوق کا بیان ہے جو ہمارے معاشرے میں نہ تو لوگ جانتے ہیں نہ عمل پذیر ہوتے ہیں نتیجہ کے طور پر پھر اخبارات میں کاروکاری ۔ غیرت کے نام پر قتل اور قرآن سے شادی جیسے قبیح معاملات سامنے آتے ہیں
مزید یہ کہ کوئی یہ نہ کہے کہ ایک آیت کو پکڑ لیا اسکے سیاق و سباق کو تو دیکھا ہی نہیں
سورہ النساء کی یہ آیات بمعہ ترجمہ اس ربط سے براہ راست بھی مطالعہ کی جا سکتی ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
1۔ لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔ اور خدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت بر آری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے
2۔ اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو۔ اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے
3۔ اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارےانصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے
(پہلی تین آیات ترجمہ ہی اپنے آپ میں تفسیر ہے)
اب آیت نمبر سات میں دیکھتے ہیں کیا حکم خداوندی ہے
7۔ جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تھوڑا ہو یا بہت۔ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی یہ حصے (خدا کے) مقرر کئے ہوئے ہیں
آیت نمبرآٹھ میں رشتہ دارون اور ضعیفوں کے حقوق کا بیان آتا ہے
8- اور جب میراث کی تقسیم کے وقت (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج آجائیں تو ان کو بھی اس میں سے کچھ دے دیا کرو۔ اور شیریں کلامی سے پیش آیا کرو
آیت نمبر 9 میں کم سن اور ایسے بچوں کا بیان ہے جن کے متعلق والدین کو عموما ڈر ہوتا ہے کہ ان کا کیا ہوگا
9- اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیئے جو (ایسی حالت میں ہوں کہ) اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو (کہ ان کے مرنے کے بعد ان بیچاروں کا کیا حال ہوگا) پس چاہیئے کہ یہ لوگ خدا سے ڈریں اور معقول بات کہیں
اب آپ سب سوچ رہے ہونگے کہ یہ کیا کر رہے ہیں فیصل بھائی ۔ سوال گندم اور جواب چنا ہے تو اب اس بالائی تمہید کا مقصد یہ تھا کہ انہیں جنہیں الوہی حدود و قیود پر اور ان کے نفاذ کے سوال پر ہی پیٹ درد ہو رہا ہے وہ یہ جان لیں کہ صرف عورتوں پر تشدد اور دو دو تین تین چار چار شادیاں کرنے پر ہی نہیں بلکہ اسلام تو زندگی کے ہر پہلو پر آپ کی رہ نہائی کرتا ہے ۔
اب یہ تو ظلم ہے کہ ایک سیاست دان کا بنایا ہوا آئین تو اتنا مقدس ہو جائے کہ اسکی توہین پر سزائے موت ہو اور اللہ کا واضح اور کھول کھول کر بیان کردہ قانون اتنا ہلکا سمجھا جائے کہ ہر ماجھا ساجھا اٹھ پر اس پر رائے دہی کرنے لگے اور اسے اپنا حق گردانے ۔۔۔
جب کہا جاتا ہے کہ خواتین کا حصہ مردوں سے آدھا ہے تو چھپکلی کی طرح سر اٹھا کر کہا جاتا ہے کہ جی کیوں ایسا کیوں ۔
جواب ہے کہ اللہ کا حکم ہے اور اس سے زیادہ کوئی سبب یا وجہ بڑی نہیں ہے جیسے اللہ تعالی فرماتا ہے سورۃ النساء کی آیت نمبر گیارہ میں
11-خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔ اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں ان کادو تہائی۔ اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو۔ اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ۔ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادؤں اور بیٹوں پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے، یہ حصے خدا کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے
صرف اتنا ہی نہیں موت کی صورت میں اپنی بیویوں کے ترکے میں بھی خاوند کا حق بیان کر دیا گیا ہے جیسے کہ اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہے
12-اور جو مال تمہاری عورتیں چھوڑ مریں۔ اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اس میں نصف حصہ تمہارا۔ اور اگر اولاد ہو تو ترکے میں تمہارا حصہ چوتھائی۔ (لیکن یہ تقسیم) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو ان کے ذمے ہو، کی جائے گی) اور جو مال تم (مرد) چھوڑ مرو۔ اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا اس میں چوتھا حصہ۔ اور اگر اولاد ہو تو ان کا آٹھواں حصہ (یہ حصے) تمہاری وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو تم نے کی ہو اور (ادائے) قرض کے (بعد تقسیم کئے جائیں گے) اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا مگر اس کے بھائی بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ حصے بھی ادائے وصیت و قرض بشرطیکہ ان سے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کئے جائیں گے) یہ خدا کا فرمان ہے۔ اور خدا نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے
اللہ تعالی کی دی ہوئی اجازتوں میں سے ایک اجازت پر اعتراض کرنا کہاں تک درست ہے جب مالک و مولیٰ خالق کائنات نے یہ تمام حدود طے کر دی ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں اس پر اعتراض کرنے والے۔ یہ اللہ پاک کی طے کردہ حدود ہیں
13-(یہ تمام احکام) خدا کی حدیں ہیں۔ اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری کرے گا خدا اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔اور یہ بڑی کامیابی ہے
اور انہی حدود کی نافرمانی کرنے پر کیا حکم باری تعالی ہے ذرا غور کیجئے آج کے لبڑل مافیا کے لوگ
14-اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو خدا دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا
اس کے بعد بدکاری کا بیان ہے کہ اس پر کیا طریقہ کار طے کیا جاتا ہے اور توبہ کا کیا طریقہ کار ہے جو غیرت کے نام پر قتل و غارت گری کے خلاف ہے اور اس سے آگے چلتے ہی زبردستی کی وراثت جیسے قرآن سے شادی طلاق دیتے وقت عورتوں سے دیا گیا مال واپس مانگنا وغیرہ پر روک لگائی گئی ہے
15- مسلمانو تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو۔ اگر وہ (ان کی بدکاری کی)گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کردے یا خدا ان کے لئے کوئی اور سبیل (پیدا) کرے
16- اور جو دو مرد تم میں سے بدکاری کریں تو ان کو ایذا دو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نیکوکار ہوجائیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو۔ بےشک خدا توبہ قبول کرنے والا (اور) مہربان ہے
17- خدا انہیں لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو نادانی سے بری حرکت کر بیٹھے ہیں۔ پھر جلد توبہ قبول کرلیتے ہیں پس ایسے لوگوں پر خدا مہربانی کرتا ہے۔ اور وہ سب کچھ جانتا (اور) حکمت والا ہے
18- اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو (ساری عمر) برے کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی موت آموجود ہو تو اس وقت کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں اور نہ ان کی (توبہ قبول ہوتی ہے) جو کفر کی حالت میں مریں۔ ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے
19- مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ اور (دیکھنا) اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں (گھروں میں) میں مت روک رکھنا ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں (تو روکنا مناسب نہیں) اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے
20- اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو۔ اور پہلی عورت کو بہت سال مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لوگے؟
21- اور تم دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہے
[FONT=Times New Roman, sans-serif]اس سب کے بعد اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ کن سے نکاح کن کن صورتوں جائز ہے اور کیسے ان کے ساتھ تعامل کیا جائے
[/FONT]
22- اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نے نکاح کیا ہو ان نکاح مت کرنا (مگر جاہلیت میں) جو ہوچکا (سوہوچکا) یہ نہایت بےحیائی اور (خدا کی) ناخوشی کی بات تھی۔ اور بہت برا دستور تھا
23- تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے (ہو وہ بھی تم پر حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہو چکا (سو ہو چکا) بے شک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے
24- اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
25-اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں میں ہی جو تمہارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کرلے) اور خدا تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کرکے نکاح کر لو اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو بشرطیکہ عفیفہ ہوں نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں پھر اگر نکاح میں آکر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں (یعنی بیبیوں) کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو (دی جائے) یہ (لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی) اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو اور اگر صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
اللہ تعالیٰ کو یہ سب بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے اس کے جواب میں فرمان ہے
26- خدا چاہتا ہے کہ (اپنی آیتیں) تم سے کھول کھول کر بیان فرمائے اور تم کو اگلے لوگوں کے طریقے بتائے اور تم پر مہربانی کرے اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
27- اور خدا تو چاہتا ہے کہ تم پر مہربانی کرے اور جو لوگ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھے راستے سے بھٹک کر دور جا پڑو
28- خدا چاہتا ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان (طبعاً) کمزور پیدا ہوا ہے
29- مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہو جائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے
ایسا نہ کرنے والے کے لیئے کیا جزا ہے یہ بھی بیان فرما دیا گیا
30- اور جو تعدی اور ظلم سے ایسا کرے گا ہم اس کو عنقریب جہنم میں داخل کریں گے اور یہ خدا کو آسان ہے
31- اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے
اب بات کرتے ہیں مردوں کی عورتوں کی فضیلت کی تو اس کا جواب واضح اللہ تعالی کے فرمان کی صورت میں ہمیں ملتا ہے
32- اور جس چیز میں خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی ہوس مت کرو مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور خدا سے اس کا فضل (وکرم) مانگتے رہو کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے
وعدوں اور وراثت کا بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے
33- اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو (حق داروں میں تقسیم کردو کہ) ہم نے ہر ایک کے حقدار مقرر کردیئے ہیں اور جن لوگوں سے تم عہد کرچکے ہو ان کو بھی ان کا حصہ دو بےشک خدا ہر چیز کے سامنے ہے
اب اس بات کا بیان آتا ہے جس میں عورتوں کو ہلکی مار لگانے کی اجازت ہے لیکن اگر وہ فرمانبردار ہو جائیں تو انہیں ایذاء دینے کا بہانہ نہ ڈھونڈنے کا بھی حکم ربانی اسی آیت میں ہے
34- مرد عورتوں پر مسلط وحاکم ہیں اس لئے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال وآبرو کی) خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی (اور بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بےشک خدا سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے
اس کے علاوہ بھی میاں بیوی کے باہمی مسائل کے حل کا طریقہ کار طے کر دیا گیا ہے
35-اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو وہ اگر صلح کرا دینی چاہیں گے تو خدا ان میں موافقت پیدا کردے گا کچھ شک نہیں کہ خدا سب کچھ جانتا اور سب باتوں سے خبردار ہے
میں ایک عام سا سادہ سا مسلمان ہوں اور تفسیر و تشریح کے علم سے نا بلد ہوں البتہ جو بات اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کھول کر بیان فرمادی اور اس کے سمجھنے میں کوئی اشکال نہیں تو اس کو بعینہ آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنا میرا فرض ہے اور حق بھی امید ہے سمجھدار سمجھ جائیں گے بے شک ہدایت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے ہی ممکن ہے اور علم کا منبع و مصدر حقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ستار العیوب ہے۔۔