عورت کی عورت کے ساتھ جنگ کیوں؟

مقدس

لائبریرین
ویسے دشمنی کوئی بھی کسی کے ساتھ کرسکتا ہے۔۔۔
عورت عورت سے، مرد مرد سے، مرد عورت سے اور عورت مرد سے۔۔۔
عموماً گھریلو معاملات میں خواتین کی ایک دوسرے سے زیادہ نہیں بنتی۔۔۔
جیسے ساس بہو، نند بھاوج، دیورانی جِٹھانی۔۔۔
اور دفتری معاملات میں مرد مرد کا دشمن ہوتا ہے، باس کی نظروں میں اپنے نمبر بڑھانے کی خاطر اپنے ساتھیوں کو نیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، کاروباری مسابقت میں خواہش ہوتی ہے کہ مد مقابل کا تمام کاروبار تباہ و برباد ہوجائے، اور عشق کے معاملے میں چاہتا ہے کہ رقیب کا منہ کالا کراکے ہی چھوڑے۔۔۔
اسی لیے اس کو رقیب روسیاہ کا مستقل نام بھی دے دیا گیا ہے!!!
جی بھیا آئی ایگری لیکن چونکہ یہاں صرف عورتوں کی بات ہو رہی تھی سو آئی جسٹ مینشن دیم
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
ویسے دشمنی کوئی بھی کسی کے ساتھ کرسکتا ہے۔۔۔
عورت عورت سے، مرد مرد سے، مرد عورت سے اور عورت مرد سے۔۔۔
عموماً گھریلو معاملات میں خواتین کی ایک دوسرے سے زیادہ نہیں بنتی۔۔۔
جیسے ساس بہو، نند بھاوج، دیورانی جِٹھانی۔۔۔
اور دفتری معاملات میں مرد مرد کا دشمن ہوتا ہے، باس کی نظروں میں اپنے نمبر بڑھانے کی خاطر اپنے ساتھیوں کو نیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، کاروباری مسابقت میں خواہش ہوتی ہے کہ مد مقابل کا تمام کاروبار تباہ و برباد ہوجائے، اور عشق کے معاملے میں چاہتا ہے کہ رقیب کا منہ کالا کراکے ہی چھوڑے۔۔۔
اسی لیے اس کو رقیب روسیاہ کا مستقل نام بھی دے دیا گیا ہے!!!

خوب!!!
بھیا آپ بہت ہی معتدل مزاج ہیں..
خوبصورت گفتگو کرتے ہیں..
 

سید عمران

محفلین
گھر سے مراد لڑی ہذا ہے سرکار ۔:D

اور لڑی ہذا سے مراد کیا ہے؟؟؟
اور جہاں دفتر کے بعد جاکر رہتے ہیں اس جگہ سے کیا مراد لیتے ہیں؟؟؟
 
مرد کی مرد سے جنگ کا آرٹیکل کب آ رہا ہے؟
زیک بھائی اس کے لیے آپ کو مرد کی مردسے جنگ کا آرٹیکل دیکھنے کی کیا ضرورت ہے ، آپ محفل پر ہمارے اور عمران بھائی کے درمیان جو مراسلوں کا تبادلہ ہوتا ہے اس کا مشاہدہ کرتے رہیں ، وہ ہی کافی رہے گا ۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
فہیم بھیا اگر ساس بہو کی دشمن ہو جائے یا بہو ساس کی تو جب تک گھر خراب نہ ہو جائے ان کو چین نہیں آتا اور اس وقت مرد بیچارے بیچ میں پس رہے ہوتے ہیں ۔۔۔ عورتوں میں جیلسی میرے خیال میں مردوں سے زیادہ ہوتی ہے اس لیے وہ بناء سوچے اپنی دشمنی نبھاتے ہوئے دوسروں کے ساتھ اپنا بھی بہت نقصان کرتی ہیں
اللہ ان کو عقل دے۔
 

رباب واسطی

محفلین
عورت ہی عورت کی دشمن ہے، یہ بات شاید سننے میں اچھی نہ لگے مگر جب ہم نے عورت پر ہونے والے ہر ظلم کی داستان کو اس کے پس منظر کے ساتھ دیکھا ، تو میں یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ عورت ہی عورت کی اصل دشمن ہے ۔ تاریخ اٹھائیں یا حال پر نظر دوڑائیں ، یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپس کی دشمنی میں ایک عورت ، دوسری عورت کو تباہ کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور اس میں ہتھیار بنتا ہے مرد ۔ مرد جب پہلے ہی عقل سے کام لینے سے انکار کر چکا ہو تو پھر عورت کا کام اور آسان ہو جاتا ہے۔ اب عورت اسے دوسری کے خلاف اکساتی ہے اور پھر مرد بم دھماکے کی طرح قہر برسانا شروع کر دیتا ہے ۔
یہ بات درست ہے کہ عورت کو معاشرے میں مکمل حقوق ملنے چاہیے ،ایک مکمل اور بھرپور انسان ہونے کی حیثیت سے اسے ذات کا تخفظ ملنا چاہیے ، اسے ان حقوق کو حاصل کرنے کے لیے ہر جنگ لڑنی چاہیے ۔بے شک اس مردوں کے معاشرے میں عورت ہی ہے جو بقا کی جنگ لڑ رہی ہےمگر اس کے باوجود اسے بے شمار مسائل کا سامنا ہر روز رہتا ہے اور اس کی سالمیت کو آئے دن خطرہ رہتا ہے ۔بےشک معاشرے میں بےشمار سماجی خرابیاں ہیں مگر ایک چیز کہیں ہم بھول نہیں رہےکہ ان سب میں کہیں تھوڑا سا قصور عورت کا بھی تو نہیں ہے ۔
ذرا سوچیں !
وہ کون ہے جو دوسری عورت کے راز افشاءکرتی ہےاس پر الزام تراشی کرتی ہے ، بدکردار کہتی ہے ؟
وہ کون ہے جو دوسری عورت کو جہنم واصل کرتی ہے ،جو دوسری عورت کو سرعام رسوا کرتی ہے ؟
وہ کون ہے جو دوسری عورت کے پیدا ہونے پر ایک عورت کو منحوس کہتی ہے ؟
وہ کون ہے جو مرد کے لئے دوسری عورت کو ذلیل کرتی ہے ؟
وہ کون ہے جو مرد کو دوسری عورت پر قہر برسانے کےلئے اکساتی ہے ؟
وہ ایک عورت ہے ، جو یہ سب کرتی ہے ۔وہ ایک عورت ہے جو ادھر کی بات ادھر کرتی ہے اور گھر تباہ کرتی ہے ۔اس سب کے پیچھے وہ غلط سوچ ہے وہ پچپن سے گھروں اور اردگرد سے ہمیں ملتی ہے۔ جہاں ایک ماں جب اپنے بیٹے اور بیٹی میں فرق کرتی ہے ، جہاں ایک ماں خود عورت ہونے کے باوجود صرف بیٹے کی پیدائش چاہتی ہے ، جہاں ایک ماں بیٹا ہونے پر فخر کرتی ہے اور بیٹی ہونے پر برا مانتی ہے ، جہاں ایک عورت اپنا حق خود چھوڑتی ہے اور یہی ترغیب دیتی ہے۔ جہاں ایک ماں اپنی بیٹی کو تو دنیا کی سب خوشیاں دینا چاہتی ہے مگر دوسروں کی بیٹی کو کوئی خوشی بھی نصیب نہیں ہونے دیتی۔
یہ مسئلہ تب بھی بنتا ہے جب ماں اپنی بیٹی کو تو دنیا کی سب سے سندر، ذہین اور سلیقہ شعارسمجھتی ہے اور اس کے سامنے دوسروں کی برائیاں کرتی ہے اور دوسروں کی بیٹیوں کی تذلیل کرتی ہے۔ جب وہ لڑکی اس سوچ کے ساتھ گھر سے باہر زندگی کے میدان میں قدم رکھتی ہے تو اسے حقیقت سے آگاہی ہوتی ہے کہ کئی معاملات میں دوسری لڑکیاں اس سے زیادہ خوبیاں رکھتی ہیں تو وہ اس چیز کو قبول کرنے کی بجائے اپنے اندر مذاحمت پیدا کر لیتی ہے اور پھر مقابلے بازی پر اتر آتی ہے جو آگے چل کر حسد اور تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ۔
اس سب سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے اندر دوسروں کو قبول کرنے کا حوصلہ ہو اور ہمیں معلوم ہو کہ کیسے اپنے ساتھ ساتھ دوسرے کی اچھائیوں کو بھی ماننا ہے اور اپنی حامیوں کو بھی قبول کرنا ہے ، ہمارے گھروں سے ہمیں سب ملتا ہے سوائے دوسروں کو قبول کرنے کے ظرف کےمگر ہمیں دوسروں کو قبول کرنا سیکھنا ہے تاکہ ہم نہ صرف اس مقابلے بازی سے محفوظ رہیں بلکہ اپنے اور دوسروں کی بھلائی کا باعث بنیں ۔
آئیں ! عورت کی عورت کے ساتھ اس جنگ کا خاتمہ کریں اور ایک دوسرے کو محبت اور احترام سے قبول کریں تب ہی ہم مل کر اس معاشرے کی برائیوں کا مقابلہ کر سکیں گے، کیونکہ اگر عورت عورت کی ڈھال بن جائے گی تو پھر کوئی اس ڈھال کا مقابلہ نہیں کرسکے گا ۔
لنک
ورت ہی عورت کی دشمن ہے
ارشادنبوی ہے:‘‘جوشخص اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتاہے،وہ اپنے پڑوسی کو ایذاء نہ پہنچائے،عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کو قبول کرو۔وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔پسلی کاسب سے ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر والاحصہ ہوتاہے۔اگرتم اسے سیدھاکرنے لگوگے تواسے توڑبیٹھوگے اوراگراسے یوں ہی چھوڑ دو گے تووہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔عورتوں کے بارے میں خیرخواہی کی نصیحت کوقبول کرو (صحیح بخاری جلد-10۔۔ با ب " النکاح والطلاق-80)
 

رباب واسطی

محفلین
ارشادنبوی ہے:‘‘جوشخص اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتاہے،وہ اپنے پڑوسی کو ایذاء نہ پہنچائے،عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کو قبول کرو۔وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔پسلی کاسب سے ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر والاحصہ ہوتاہے۔اگرتم اسے سیدھاکرنے لگوگے تواسے توڑبیٹھوگے اوراگراسے یوں ہی چھوڑ دو گے تووہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔عورتوں کے بارے میں خیرخواہی کی نصیحت کوقبول کرو (صحیح بخاری جلد-10۔۔ با ب " النکاح والطلاق-80)
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
حیرت ہے
حدیثِ مبارکہ کو مضحکہ خیز کی ریٹنگ
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
 

La Alma

لائبریرین
ارشادنبوی ہے:‘‘جوشخص اللہ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتاہے،وہ اپنے پڑوسی کو ایذاء نہ پہنچائے،عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کو قبول کرو۔وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔پسلی کاسب سے ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر والاحصہ ہوتاہے۔اگرتم اسے سیدھاکرنے لگوگے تواسے توڑبیٹھوگے اوراگراسے یوں ہی چھوڑ دو گے تووہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔عورتوں کے بارے میں خیرخواہی کی نصیحت کوقبول کرو (صحیح بخاری جلد-10۔۔ با ب " النکاح والطلاق-80)
گو کہ لڑی کا موضوع یہ نہیں لیکن اس حدیث کے تناظر میں قرآن کی یہ آیت پیشِ خدمت ہے۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاء ( سوره النساء)
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں نفسِ واحد (ایک جان) سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں۔
یہ آیت ironically سورة النساء(جو عورت ہی کے نام پر ہے) کی پہلی آیت ہے۔ عورت کی پیدائش سے متعلق آج تک جتنے بھی misconceptions ہیں سب کو دور کرتی ہے۔
تحقیق طلب امر یہ ہے کہ جانا جائے؛
اس نفسِ واحد کی اصل حقیقت کیا ہے؟
اس کی جوڑوں میں کیسے تقسیم ہوئی؟
کیا اسے یک خلیہ جاندار کے تولیدی نظام سے ملتے جلتے عمل پر قیاس کیا جا سکتا ہے جس کی تقسیم کے نتیجے میں دو مساوی خلیے جنم لیتے ہیں ؟
آدم اور حوا کی تخلیق کس طرح ممکن ہوئی؟ سورة الدهر کی ایک آیت ہے جسے سورہ انسان بھی کہا جاتا ہے۔ "هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَّذْكُوْرًا۔ انسان پر زمانہ قدیم میں ایسا وقت بھی آ چکا ہے جب وہ کوئی قابلِ تذکرہ شے نہ تھا"۔ لہٰذا یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ تخلیق کے اس عمل میں کن کن ارتقائی مراحل سے گزرنا پڑا؟
مرد کی پسلی سے عورت کی پیدائش کا تصور عیسائیوں میں بھی موجود ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حدیثِ بالا, سوره النساء کی اس آیت کو کس حد تک سپورٹ کرتی ہے کیونکہ صحیح حدیث کسی صورت قرآن سے متصادم نہیں ہو سکتی۔ واللہ اعلم!!
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
حیرت ہے
حدیثِ مبارکہ کو مضحکہ خیز کی ریٹنگ
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
آپ کی تشویش بجا ہے۔ ایسے مراسلے جن میں صرف قرآنی آیات یا احادیث کے الفاظ نقل کیے گئے ہوں ، ان پر مضحکہ خیز کی ریٹنگ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ بادی النظر میں مقصد چاہے کچھ بھی ہو لیکن عمومی تاثر یہی ملے گا کہ ریٹنگ مراسلے کو نہیں، اس آیت یا حدیث کو دی جا رہی ہے۔
اگر کسی فرد کو کسی کے نقطہ نظر سے اختلاف ہے، کسی مذہبی مواد کی Authenticity پہ شبہ ہے، اس بات پر اعتراض ہے کہ کوئی آیت یا حدیث out of context پیش کی جا رہی ہے یا پھر سرے سے آپ ان نظریات کے حامی ہی نہیں تو بہتر ہے اپنا موقف واضح انداز میں پیش کیا جائے۔ اگر صرف ریٹنگ سے ہی کام لینا مقصود ہو تو غیر متفق کی آپشن بھی موجود ہے۔ مذہبی معاملات میں کبھی کبھار تھوڑی احتیاط یا ذمہ داری کا مظاہرہ کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔
 
Top