کافی حد تک متفق۔ اگر عورت عورت کی دشمن سمجھی جاتی ہے تو یہ سوچ کی خطا ہے اسی طرح عورت کو مظلوم تر سمجھنا بھی سوچ کی خطا کےعلاوہ کچھ نہیں ہے - معاشرے میں مختلف عوامل کسی بھی عمل یا ردعمل کا سبب بنتے ہیں ۔ تسلط کی خواہش دو لوگوں میں کشمکش پیدا کر ہی دیتی ہے اب وہ خواتین ہوں یا مرد حضرات یا مرد و خواتین دونوں۔ مردوں کو خواتین پر تسلط کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اسی طرح سے خواتین کو مردوں پر تسلط کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک رشتہ جس کے گرد یہ سب جنگیں ہوتی ہیں میاں بیوی کاہے یہ رشتہ برابری اور احترام مانگتا ہے بیوی خاوند کو دے اور خاوند بیوی کو دے۔ والدین کی خدمت مرد کا فرض ہے بیوی پر فرض نہیں ہے لیکن اگر اسے محبت سے سمجھایا جائے کہ تم میری غیر موجودگی میں میری نمائیندہ ہو تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب مرد پر تسلط کی جنگ شروع ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانا غلط ہے اسی طرح نئی آنے والی کو ایک دن یا مہینہ یا سال بھر میں گھر کا تیس برس سے چلتا ہوا نظام سمجھ آجائے یہ تصور کرنا غیر حقیقی ہے اسے پیار عزت اور وقت دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ گھر سکون کا گہوارا نہ بن پائے۔ یہاں عورت عورت کی دشمن نہیں ہوتی بلکہ تسلط تسلط کا دشمن ہوتا ہے جس میں سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے گھر کا سکون اور رشتوں کا تقدسللہ نے اشرف المخلوقات میں سے مرد کو زیادہ فضلیت بخشی ہے۔ گھریلو معاملات میں گھر کی سربراہی مرد کے حصے میں اور گھر کا انتظام و انصرام عورت کے حصے میں آیا یعنی گھر کی سلطنت میں سربراہِ مملکت مرد اور عورت محض ایک انتظامی ادارہ کی حیثیت رکھتی ہے اور کسی سلطنت یا مملکت میں پنپتی برائی کا سربراہِ مملکت بلواسطہ یا بلا واسطہ زمہ دار ہوا کرتا ہے
لہذا تمام الزامات عورت پر تھوپ کر مرد خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا بلکہ مرد کو چاہیئے کہ وہ جب بھی اپنے گھر کی عورتوں میں مذکورہ برائی کی ابتدا دیکھے تو شریعت کی روشنی میں اس کا سدِ باب کرے نہ کہ عورت پر اس قسم کے مضامین لکھ کر نسوانیت کی توہین کرے
اتنے نقص؟عورتیں ایمان میں ناقص، حصوں میں ناقص اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں
جی بجا فرمایامردوں کو خواتین پر تسلط کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اسی طرح سے خواتین کو مردوں پر تسلط کا کوئی حق نہیں ہے
فطری طور پر نقص کا ہونا عیب نہیں ہے۔ ان نقائص کی بنیاد پر نفرت کرنا غلط ہے بلکہ کوشش ہونی چاہیئے کہ ان نقائص کو نظر میں رکھتے ہوئے توقعات قائم کی جائیں ۔ اور دوسرے کو مساوی محبت ، عزت اور مقام دیا جائےاتنے نقص؟
مجھے تو ان تینوں باتوں میں نقائص کی کوئی کہانی نہیں ملتی۔نہج البلاغہ: خطبہ نمر 78
اے لوگو ! عورتیں ایمان میں ناقص، حصوں میں ناقص اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں
نقصِ ایمان کا ثبوت یہ ہے کہ ایما کے دَور میں نماز اور روزہ انہیں چھوڑنا پڑتا ہے
اور ناقص العقل ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے (اپنے مردوں میں سے جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرو دو مردوں کی گواہی لیا کرو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ اگر ایک بھول جائے گی تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلادے گی:: سورۃ البقرہ، آیت 282)
اور حصہ و نصیب میں کمی یوں ہے کہ میراث میں ان کا حصہ مردوں سے ادھا ہوتا ہے (اللہ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے، ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، پھر اگر دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ چھوڑے گئے مال میں سے ہے، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، اور اگر میت کی اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو کل مال کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے، پھر اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے، (یہ حصہ ہوگا) اس کی وصیت یا قرض کی ادائیگی کے بعد، تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں، اللہ کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے، بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے:: سورۃ النساء آیت 11)
بُری عورتوں سے ڈرو۔ اور اچھی عورتوں سے بھی چوکنا رہا کرو۔ تم ان کی اچھی باتیں بھی نہ مانو تاکہ اگے بڑھ کر وہ بری باتيں منوانے پر نہ اتر ائیں
-------------------------------------------------------------------------------------------
اللہ نے اشرف المخلوقات میں سے مرد کو زیادہ فضلیت بخشی ہے۔ گھریلو معاملات میں گھر کی سربراہی مرد کے حصے میں اور گھر کا انتظام و انصرام عورت کے حصے میں آیا یعنی گھر کی سلطنت میں سربراہِ مملکت مرد اور عورت محض ایک انتظامی ادارہ کی حیثیت رکھتی ہے اور کسی سلطنت یا مملکت میں پنپتی برائی کا سربراہِ مملکت بلواسطہ یا بلا واسطہ زمہ دار ہوا کرتا ہے
لہذا تمام الزامات عورت پر تھوپ کر مرد خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا بلکہ مرد کو چاہیئے کہ وہ جب بھی اپنے گھر کی عورتوں میں مذکورہ برائی کی ابتدا دیکھے تو شریعت کی روشنی میں اس کا سدِ باب کرے نہ کہ عورت پر اس قسم کے مضامین لکھ کر نسوانیت کی توہین کرے
کیا یہ خطبہ جنگِ جمل کے بعد دیا گیا تھا ؟نہج البلاغہ: خطبہ نمر 78
اے لوگو ! عورتیں ایمان میں ناقص، حصوں میں ناقص اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں
نقصِ ایمان کا ثبوت یہ ہے کہ ایما کے دَور میں نماز اور روزہ انہیں چھوڑنا پڑتا ہے
اور ناقص العقل ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے (اپنے مردوں میں سے جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرو دو مردوں کی گواہی لیا کرو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ اگر ایک بھول جائے گی تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلادے گی:: سورۃ البقرہ، آیت 282)
اور حصہ و نصیب میں کمی یوں ہے کہ میراث میں ان کا حصہ مردوں سے ادھا ہوتا ہے (اللہ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے، ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، پھر اگر دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ چھوڑے گئے مال میں سے ہے، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، اور اگر میت کی اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو کل مال کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے، پھر اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے، (یہ حصہ ہوگا) اس کی وصیت یا قرض کی ادائیگی کے بعد، تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں، اللہ کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے، بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے:: سورۃ النساء آیت 11)
بُری عورتوں سے ڈرو۔ اور اچھی عورتوں سے بھی چوکنا رہا کرو۔ تم ان کی اچھی باتیں بھی نہ مانو تاکہ اگے بڑھ کر وہ بری باتيں منوانے پر نہ اتر ائیں
-------------------------------------------------------------------------------------------
اللہ نے اشرف المخلوقات میں سے مرد کو زیادہ فضلیت بخشی ہے۔ گھریلو معاملات میں گھر کی سربراہی مرد کے حصے میں اور گھر کا انتظام و انصرام عورت کے حصے میں آیا یعنی گھر کی سلطنت میں سربراہِ مملکت مرد اور عورت محض ایک انتظامی ادارہ کی حیثیت رکھتی ہے اور کسی سلطنت یا مملکت میں پنپتی برائی کا سربراہِ مملکت بلواسطہ یا بلا واسطہ زمہ دار ہوا کرتا ہے
لہذا تمام الزامات عورت پر تھوپ کر مرد خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا بلکہ مرد کو چاہیئے کہ وہ جب بھی اپنے گھر کی عورتوں میں مذکورہ برائی کی ابتدا دیکھے تو شریعت کی روشنی میں اس کا سدِ باب کرے نہ کہ عورت پر اس قسم کے مضامین لکھ کر نسوانیت کی توہین کرے
بہت اچھا کہا...فطری طور پر نقص کا ہونا عیب نہیں ہے۔ ان نقائص کی بنیاد پر نفرت کرنا غلط ہے بلکہ کوشش ہونی چاہیئے کہ ان نقائص کو نظر میں رکھتے ہوئے توقعات قائم کی جائیں ۔ اور دوسرے کو مساوی محبت ، عزت اور مقام دیا جائے
یہ ایک حدیث کا حصہ ہے.ایمان کے نقص والی بات کا حوالہ اگر قرآن کے حوالے سے دے دیا جائے تو ہمارے بھی علم میں اضافہ ہو گا۔
اور بھول جانے سی یہ مراد نہیں کہ ان کا حافظہ کمزور ہوتا ہے بلکہ خواتین تو کیا مردوں کی بھی سٹی عدالت کچہریوں میں آکر گم ہوجاتی ہے اس لیے اس کو ایک اور سہارا دے دیا تاکہ زیادہ نرویس نہ ہوجائیں.دو عورتوں کی گواہی کے بارے میں اس کے بھول جانے کے امکان کو بنیاد بنایا گیا نہ کہ یہ کہا گیا ہے کہ اس کی عقل میں نقص ہے۔
متفق۔اور بھول جانے سی یہ مراد نہیں کہ ان کا حافظہ کمزور ہوتا ہے بلکہ خواتین تو کیا مردوں کی بھی سٹی عدالت کچہریوں میں آکر گم ہوجاتی ہے اس لیے اس کو ایک اور سہارا دے دیا تاکہ زیادہ نرویس نہ ہوجائیں.
اگر شیئر کر سکیں تو کریں پلیز۔یہ ایک حدیث کا حصہ ہے.
یہی بات میں لکھنے والی تھی کہ میرے محدود مطالعے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کی زندگی میں عورت کے ساتھ عزت، شفقت اور نرمی کے ساتھ پیش آنے کی مثالیں ہی مثالیں ہیں۔بہت اچھا کہا...
اصل میں عورت میں یہ باتیں نقص بمعنی عیب نہیں بلکہ کمزوری ہیں. اس لیے ان کے ساتھ اللہ تعالی نے اور اللہ کے رسول نے نرمی و شفقت برتنے کا فرمایا. جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
عاشروھن بالمعروف
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تیزی سے بھاگتے اونٹ کے مالک سے فرمایا کہ اونٹ کی رفتار دھیمی کرلو. دیکھتے نہیں کہ اس پر شیشے کے آبگینے ہیں!!!
بہن آپ کی بات کسی حد تک درست ہے ۔لہذا تمام الزامات عورت پر تھوپ کر مرد خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا بلکہ مرد کو چاہیئے کہ وہ جب بھی اپنے گھر کی عورتوں میں مذکورہ برائی کی ابتدا دیکھے تو شریعت کی روشنی میں اس کا سدِ باب کرے نہ کہ عورت پر اس قسم کے مضامین لکھ کر نسوانیت کی توہین کرے
آئیں ! عورت کی عورت کے ساتھ اس جنگ کا خاتمہ کریں اور ایک دوسرے کو محبت اور احترام سے قبول کریں تب ہی ہم مل کر اس معاشرے کی برائیوں کا مقابلہ کر سکیں گے، کیونکہ اگر عورت عورت کی ڈھال بن جائے گی تو پھر کوئی اس ڈھال کا مقابلہ نہیں کرسکے گا ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى، فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ: “يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ، فَإِنِّي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ” فَقُلْنَ: وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ” قُلْنَ: وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟” قُلْنَ: بَلَى. قَالَ: “فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا. أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟” قُلْنَ: بَلَى. قَالَ: “فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا” متفق عليهاگر شیئر کر سکیں تو کریں پلیز۔
اگر مرد نروس ہو جائےاور بھول جانے سی یہ مراد نہیں کہ ان کا حافظہ کمزور ہوتا ہے بلکہ خواتین تو کیا مردوں کی بھی سٹی عدالت کچہریوں میں آکر گم ہوجاتی ہے اس لیے اس کو ایک اور سہارا دے دیا تاکہ زیادہ نرویس نہ ہوجائیں.
جزاک اللہ خیرا۔عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى، فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ: “يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ، فَإِنِّي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ” فَقُلْنَ: وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ” قُلْنَ: وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟” قُلْنَ: بَلَى. قَالَ: “فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا. أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟” قُلْنَ: بَلَى. قَالَ: “فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا” متفق عليه
ایک بات کی وضاحت...
یہاں نقص دین میں کہا گیا ہے ایمان میں نہیں...
اور چوں کہ یہ نقص اللہ کی طرف سے ہے لہذا خدا کے نزدیک اس پر کوئی مواخذہ بھی نہیں.
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى، فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ: “يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ، فَإِنِّي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ” فَقُلْنَ: وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ” قُلْنَ: وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟” قُلْنَ: بَلَى. قَالَ: “فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا. أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟” قُلْنَ: بَلَى. قَالَ: “فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا” متفق عليه
ایک بات کی وضاحت...
یہاں نقص دین میں کہا گیا ہے ایمان میں نہیں...
اور چوں کہ یہ نقص اللہ کی طرف سے ہے لہذا خدا کے نزدیک اس پر کوئی مواخذہ بھی نہیں.
دونوں روایات کے الفاظ میں فرق ہے!!!صحیح بخاری ، باب 24 حدیث نمبر 1462
۔