عورت کی عورت کے ساتھ جنگ کیوں؟

یاسر شاہ

محفلین
میری انتظامیہ سے اور صاحب اختیار سے دست بستہ گزارش ہے کہ یہ حدیث کے ذیل سے ریٹنگ ہٹا دی جائے -آئندہ کے لئے بھی کوئی لائحہ عمل بنایا جائے کہ ایسی حرکت نہ ہو -جب سے یہ ریٹنگ دی گئی ہے خدا گواہ ہے دل کو بہت غم ہے اور اردومحفل بھی اچھی نہیں لگ رہی -
 

رباب واسطی

محفلین
نہج البلاغہ: خطبہ نمر 78
اے لوگو ! عورتیں ایمان میں ناقص، حصوں میں ناقص اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں
نقصِ ایمان کا ثبوت یہ ہے کہ ایما کے دَور میں نماز اور روزہ انہیں چھوڑنا پڑتا ہے

اور ناقص العقل ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے (اپنے مردوں میں سے جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرو دو مردوں کی گواہی لیا کرو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ اگر ایک بھول جائے گی تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلادے گی:: سورۃ البقرہ، آیت 282)

اور حصہ و نصیب میں کمی یوں ہے کہ میراث میں ان کا حصہ مردوں سے ادھا ہوتا ہے (اللہ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے، ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، پھر اگر دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ چھوڑے گئے مال میں سے ہے، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، اور اگر میت کی اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو کل مال کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے، پھر اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے، (یہ حصہ ہوگا) اس کی وصیت یا قرض کی ادائیگی کے بعد، تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں، اللہ کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے، بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے:: سورۃ النساء آیت 11)

بُری عورتوں سے ڈرو۔ اور اچھی عورتوں سے بھی چوکنا رہا کرو۔ تم ان کی اچھی باتیں بھی نہ مانو تاکہ اگے بڑھ کر وہ بری باتيں منوانے پر نہ اتر ائیں
-------------------------------------------------------------------------------------------
اللہ نے اشرف المخلوقات میں سے مرد کو زیادہ فضلیت بخشی ہے۔ گھریلو معاملات میں گھر کی سربراہی مرد کے حصے میں اور گھر کا انتظام و انصرام عورت کے حصے میں آیا یعنی گھر کی سلطنت میں سربراہِ مملکت مرد اور عورت محض ایک انتظامی ادارہ کی حیثیت رکھتی ہے اور کسی سلطنت یا مملکت میں پنپتی برائی کا سربراہِ مملکت بلواسطہ یا بلا واسطہ زمہ دار ہوا کرتا ہے
لہذا تمام الزامات عورت پر تھوپ کر مرد خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا بلکہ مرد کو چاہیئے کہ وہ جب بھی اپنے گھر کی عورتوں میں مذکورہ برائی کی ابتدا دیکھے تو شریعت کی روشنی میں اس کا سدِ باب کرے نہ کہ عورت پر اس قسم کے مضامین لکھ کر نسوانیت کی توہین کرے
 
للہ نے اشرف المخلوقات میں سے مرد کو زیادہ فضلیت بخشی ہے۔ گھریلو معاملات میں گھر کی سربراہی مرد کے حصے میں اور گھر کا انتظام و انصرام عورت کے حصے میں آیا یعنی گھر کی سلطنت میں سربراہِ مملکت مرد اور عورت محض ایک انتظامی ادارہ کی حیثیت رکھتی ہے اور کسی سلطنت یا مملکت میں پنپتی برائی کا سربراہِ مملکت بلواسطہ یا بلا واسطہ زمہ دار ہوا کرتا ہے
لہذا تمام الزامات عورت پر تھوپ کر مرد خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا بلکہ مرد کو چاہیئے کہ وہ جب بھی اپنے گھر کی عورتوں میں مذکورہ برائی کی ابتدا دیکھے تو شریعت کی روشنی میں اس کا سدِ باب کرے نہ کہ عورت پر اس قسم کے مضامین لکھ کر نسوانیت کی توہین کرے
کافی حد تک متفق۔ اگر عورت عورت کی دشمن سمجھی جاتی ہے تو یہ سوچ کی خطا ہے اسی طرح عورت کو مظلوم تر سمجھنا بھی سوچ کی خطا کےعلاوہ کچھ نہیں ہے - معاشرے میں مختلف عوامل کسی بھی عمل یا ردعمل کا سبب بنتے ہیں ۔ تسلط کی خواہش دو لوگوں میں کشمکش پیدا کر ہی دیتی ہے اب وہ خواتین ہوں یا مرد حضرات یا مرد و خواتین دونوں۔ مردوں کو خواتین پر تسلط کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اسی طرح سے خواتین کو مردوں پر تسلط کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایک رشتہ جس کے گرد یہ سب جنگیں ہوتی ہیں میاں بیوی کاہے یہ رشتہ برابری اور احترام مانگتا ہے بیوی خاوند کو دے اور خاوند بیوی کو دے۔ والدین کی خدمت مرد کا فرض ہے بیوی پر فرض نہیں ہے لیکن اگر اسے محبت سے سمجھایا جائے کہ تم میری غیر موجودگی میں میری نمائیندہ ہو تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب مرد پر تسلط کی جنگ شروع ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانا غلط ہے اسی طرح نئی آنے والی کو ایک دن یا مہینہ یا سال بھر میں گھر کا تیس برس سے چلتا ہوا نظام سمجھ آجائے یہ تصور کرنا غیر حقیقی ہے اسے پیار عزت اور وقت دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ گھر سکون کا گہوارا نہ بن پائے۔ یہاں عورت عورت کی دشمن نہیں ہوتی بلکہ تسلط تسلط کا دشمن ہوتا ہے جس میں سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے گھر کا سکون اور رشتوں کا تقدس
 

رباب واسطی

محفلین
مردوں کو خواتین پر تسلط کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اسی طرح سے خواتین کو مردوں پر تسلط کا کوئی حق نہیں ہے
جی بجا فرمایا
میں نے بھی یہی وضاحت کرنے کی کوشش کی کہ جب انسانی عادات و اطوار اور اچھائیوں برائیوں کی بات ہو رہی ہو تو انسانیت کو مقدم رکھا جائے نہ کہ مردانگی یا نسوانیت میں امتیاز کیا جائے
 
آخری تدوین:
فطری طور پر نقص کا ہونا عیب نہیں ہے۔ ان نقائص کی بنیاد پر نفرت کرنا غلط ہے بلکہ کوشش ہونی چاہیئے کہ ان نقائص کو نظر میں رکھتے ہوئے توقعات قائم کی جائیں ۔ اور دوسرے کو مساوی محبت ، عزت اور مقام دیا جائے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
نہج البلاغہ: خطبہ نمر 78
اے لوگو ! عورتیں ایمان میں ناقص، حصوں میں ناقص اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں
نقصِ ایمان کا ثبوت یہ ہے کہ ایما کے دَور میں نماز اور روزہ انہیں چھوڑنا پڑتا ہے

اور ناقص العقل ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے (اپنے مردوں میں سے جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرو دو مردوں کی گواہی لیا کرو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ اگر ایک بھول جائے گی تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلادے گی:: سورۃ البقرہ، آیت 282)

اور حصہ و نصیب میں کمی یوں ہے کہ میراث میں ان کا حصہ مردوں سے ادھا ہوتا ہے (اللہ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے، ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، پھر اگر دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ چھوڑے گئے مال میں سے ہے، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، اور اگر میت کی اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو کل مال کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے، پھر اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے، (یہ حصہ ہوگا) اس کی وصیت یا قرض کی ادائیگی کے بعد، تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں، اللہ کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے، بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے:: سورۃ النساء آیت 11)

بُری عورتوں سے ڈرو۔ اور اچھی عورتوں سے بھی چوکنا رہا کرو۔ تم ان کی اچھی باتیں بھی نہ مانو تاکہ اگے بڑھ کر وہ بری باتيں منوانے پر نہ اتر ائیں
-------------------------------------------------------------------------------------------
اللہ نے اشرف المخلوقات میں سے مرد کو زیادہ فضلیت بخشی ہے۔ گھریلو معاملات میں گھر کی سربراہی مرد کے حصے میں اور گھر کا انتظام و انصرام عورت کے حصے میں آیا یعنی گھر کی سلطنت میں سربراہِ مملکت مرد اور عورت محض ایک انتظامی ادارہ کی حیثیت رکھتی ہے اور کسی سلطنت یا مملکت میں پنپتی برائی کا سربراہِ مملکت بلواسطہ یا بلا واسطہ زمہ دار ہوا کرتا ہے
لہذا تمام الزامات عورت پر تھوپ کر مرد خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا بلکہ مرد کو چاہیئے کہ وہ جب بھی اپنے گھر کی عورتوں میں مذکورہ برائی کی ابتدا دیکھے تو شریعت کی روشنی میں اس کا سدِ باب کرے نہ کہ عورت پر اس قسم کے مضامین لکھ کر نسوانیت کی توہین کرے
مجھے تو ان تینوں باتوں میں نقائص کی کوئی کہانی نہیں ملتی۔
دو عورتوں کی گواہی کے بارے میں اس کے بھول جانے کے امکان کو بنیاد بنایا گیا نہ کہ یہ کہا گیا ہے کہ اس کی عقل میں نقص ہے۔
بیٹی یا عورت کا وراثت میں حصہ کم اس لیے ہے کہ اس کا ولی مرد ہے اور وہی باپ، شوہر یا بیٹے کی صورت میں اس کی دیکھ بھال کا ذمے دار ہے۔ عورت کے کندھوں پر مالی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ہے ۔ مرد کو اگر زیادہ حصہ مل رہا ہے تو اس پر جو مالی ذمہ داریاں بھی لاگو کی گئی ہیِں اس کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔
اور ایمان کے نقص والی بات کا حوالہ اگر قرآن کے حوالے سے دے دیا جائے تو ہمارے بھی علم میں اضافہ ہو گا۔
اللہ تعالی کے ہر حکم میں حکمت ہے۔ لیکن ہم ہر حکم کی اپنے انداز سے تشریح کرتے ہیں۔ کم از کم مجھے قرآن و سنت کے مطالعے سے کہیں بھی یہ تاثر نہیں ملا کہ عورت ایسی سراپا نقص ہے۔
اللہ ہم پر رحم کرے، ہمیں معاف فرمائے اور اپنے احکامات درست طور پر سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین
 
نہج البلاغہ: خطبہ نمر 78
اے لوگو ! عورتیں ایمان میں ناقص، حصوں میں ناقص اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں
نقصِ ایمان کا ثبوت یہ ہے کہ ایما کے دَور میں نماز اور روزہ انہیں چھوڑنا پڑتا ہے

اور ناقص العقل ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے (اپنے مردوں میں سے جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرو دو مردوں کی گواہی لیا کرو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں۔ اگر ایک بھول جائے گی تو ان میں سے ایک دوسری کو یاد دلادے گی:: سورۃ البقرہ، آیت 282)

اور حصہ و نصیب میں کمی یوں ہے کہ میراث میں ان کا حصہ مردوں سے ادھا ہوتا ہے (اللہ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے، ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، پھر اگر دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ چھوڑے گئے مال میں سے ہے، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے، اور اگر میت کی اولاد ہے تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو کل مال کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہیں اور ماں باپ ہی اس کے وارث ہیں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہے، پھر اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو اس کی ماں کا چھٹا حصہ ہے، (یہ حصہ ہوگا) اس کی وصیت یا قرض کی ادائیگی کے بعد، تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے، تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہیں زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں، اللہ کی طرف سے یہ حصہ مقرر کیا ہوا ہے، بے شک اللہ خبردار حکمت والا ہے:: سورۃ النساء آیت 11)

بُری عورتوں سے ڈرو۔ اور اچھی عورتوں سے بھی چوکنا رہا کرو۔ تم ان کی اچھی باتیں بھی نہ مانو تاکہ اگے بڑھ کر وہ بری باتيں منوانے پر نہ اتر ائیں
-------------------------------------------------------------------------------------------
اللہ نے اشرف المخلوقات میں سے مرد کو زیادہ فضلیت بخشی ہے۔ گھریلو معاملات میں گھر کی سربراہی مرد کے حصے میں اور گھر کا انتظام و انصرام عورت کے حصے میں آیا یعنی گھر کی سلطنت میں سربراہِ مملکت مرد اور عورت محض ایک انتظامی ادارہ کی حیثیت رکھتی ہے اور کسی سلطنت یا مملکت میں پنپتی برائی کا سربراہِ مملکت بلواسطہ یا بلا واسطہ زمہ دار ہوا کرتا ہے
لہذا تمام الزامات عورت پر تھوپ کر مرد خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا بلکہ مرد کو چاہیئے کہ وہ جب بھی اپنے گھر کی عورتوں میں مذکورہ برائی کی ابتدا دیکھے تو شریعت کی روشنی میں اس کا سدِ باب کرے نہ کہ عورت پر اس قسم کے مضامین لکھ کر نسوانیت کی توہین کرے
کیا یہ خطبہ جنگِ جمل کے بعد دیا گیا تھا ؟
 

سید عمران

محفلین
فطری طور پر نقص کا ہونا عیب نہیں ہے۔ ان نقائص کی بنیاد پر نفرت کرنا غلط ہے بلکہ کوشش ہونی چاہیئے کہ ان نقائص کو نظر میں رکھتے ہوئے توقعات قائم کی جائیں ۔ اور دوسرے کو مساوی محبت ، عزت اور مقام دیا جائے
بہت اچھا کہا...
اصل میں عورت میں یہ باتیں نقص بمعنی عیب نہیں بلکہ کمزوری ہیں. اس لیے ان کے ساتھ اللہ تعالی نے اور اللہ کے رسول نے نرمی و شفقت برتنے کا فرمایا. جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
عاشروھن بالمعروف
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تیزی سے بھاگتے اونٹ کے مالک سے فرمایا کہ اونٹ کی رفتار دھیمی کرلو. دیکھتے نہیں کہ اس پر شیشے کے آبگینے ہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
دو عورتوں کی گواہی کے بارے میں اس کے بھول جانے کے امکان کو بنیاد بنایا گیا نہ کہ یہ کہا گیا ہے کہ اس کی عقل میں نقص ہے۔
اور بھول جانے سی یہ مراد نہیں کہ ان کا حافظہ کمزور ہوتا ہے بلکہ خواتین تو کیا مردوں کی بھی سٹی عدالت کچہریوں میں آکر گم ہوجاتی ہے اس لیے اس کو ایک اور سہارا دے دیا تاکہ زیادہ نرویس نہ ہوجائیں.
 

فرحت کیانی

لائبریرین
اور بھول جانے سی یہ مراد نہیں کہ ان کا حافظہ کمزور ہوتا ہے بلکہ خواتین تو کیا مردوں کی بھی سٹی عدالت کچہریوں میں آکر گم ہوجاتی ہے اس لیے اس کو ایک اور سہارا دے دیا تاکہ زیادہ نرویس نہ ہوجائیں.
متفق۔
لیکن یہ نقص کی تعریف پر پھر بھی پورا نہیں اترتا۔

یہ ایک حدیث کا حصہ ہے.
اگر شیئر کر سکیں تو کریں پلیز۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت اچھا کہا...
اصل میں عورت میں یہ باتیں نقص بمعنی عیب نہیں بلکہ کمزوری ہیں. اس لیے ان کے ساتھ اللہ تعالی نے اور اللہ کے رسول نے نرمی و شفقت برتنے کا فرمایا. جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
عاشروھن بالمعروف
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تیزی سے بھاگتے اونٹ کے مالک سے فرمایا کہ اونٹ کی رفتار دھیمی کرلو. دیکھتے نہیں کہ اس پر شیشے کے آبگینے ہیں!!!
یہی بات میں لکھنے والی تھی کہ میرے محدود مطالعے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم کی زندگی میں عورت کے ساتھ عزت، شفقت اور نرمی کے ساتھ پیش آنے کی مثالیں ہی مثالیں ہیں۔

باقی ایسی علمی تحقیقات چونکہ ہم عام لوگوں کے بس کی بات نہیں تو میرا یہ خیال ہے کہ جو لوگ کسی بھی علم کو آگے پہنچاتے ہیں، بہت اہم اور ذمہ داری کا کام کر رہے ہیں۔ بس ایسا ہے کہ الفاظ کا چناو اور تشریح ایسی ہونی چاہیے کہ مطلب واضح ہو جائے نہ کہ دوسرے لوگ مزید الجھن و ابہام کا شکار ہو جائیں۔ عام عوام کے لیے عمومی مستعمل الفاظ کا استعمال مقصد کی کامیابی کے امکانات کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
 
آخری تدوین:
لہذا تمام الزامات عورت پر تھوپ کر مرد خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا بلکہ مرد کو چاہیئے کہ وہ جب بھی اپنے گھر کی عورتوں میں مذکورہ برائی کی ابتدا دیکھے تو شریعت کی روشنی میں اس کا سدِ باب کرے نہ کہ عورت پر اس قسم کے مضامین لکھ کر نسوانیت کی توہین کرے
بہن آپ کی بات کسی حد تک درست ہے ۔
مگر مضمون نگار نے جن خامیوں کو بیان کیا ہے کیا وہ موجود معاشرے میں موجود نہیں ؟
کیا آپ کے مشاہدے میں کبھی بھی ایسے حالات واقعات نہیں آئے ؟
اس مضمون سے آپ کیسے ثابت کرسکتی ہیں کہ یہ مضمون نسوانیت کی توہین کرنے کے لیے تحریر کیا گیا ہے ؟
یہ مضمون اصلاحی کی غرض سے تحریر کیا گیا لگتا ہے ، جس میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مسائل بیان کیے گئے ہیں اور مسائل بڑھ جانے پر ظہور ہونے والے انجام پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ویسے اکثر اصلاحی تحریریں طنز یہ اور تیکھی ہوتی ہیں ۔ ایسی تحریروں میں سچ بیان کیا گیا ہے جو اکثر قارئین کے لیے ناقابل برداش ہوتا ہے۔
تنقید اور آزادی رائے کا آپ مکمل حق رکھتی ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ محفل پر شیئر کی جانے والی ہر تحریر سے متفق ہوں ۔آخری پیرا گراف مضمون کا مکمل خلاصہ ہےجس میں محبت اور احترام کا درس دیا گیا ہے۔ آپ کے لیے اقتباس حاضر ہے ۔
آئیں ! عورت کی عورت کے ساتھ اس جنگ کا خاتمہ کریں اور ایک دوسرے کو محبت اور احترام سے قبول کریں تب ہی ہم مل کر اس معاشرے کی برائیوں کا مقابلہ کر سکیں گے، کیونکہ اگر عورت عورت کی ڈھال بن جائے گی تو پھر کوئی اس ڈھال کا مقابلہ نہیں کرسکے گا ۔
 
آخری تدوین:

رباب واسطی

محفلین
جتنا اختلاف میں نے کیا اتنا تو بنتا تھا
باقی صاحبِ مضمون نے اپنی روز مرہ زندگی کے مشاہدے کے مطابق ایک مضمون لکھ دیا لیکن یہ مشاہدہ کسی مخصوص معاشرے یا علاقے کی عکاسی کرتا ہے ضروری نہیں کہ یہی مسلّمہ عالمگیر حقیقت ہو
جوابی مراسلہ میں میں نے کچھ حوالاجات دیئے ہیں انسانی فطرت سے متعلق، یہ میرا مطالعہ اور میری سوچ تھی
جس طرح میں نے اختلاف کیا لہذا دوسروں کو بھی میری بات سے اختلاف کا حق بنتا ہے
 

سید عمران

محفلین
اگر شیئر کر سکیں تو کریں پلیز۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى، فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ: “يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ، فَإِنِّي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ” فَقُلْنَ: وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ” قُلْنَ: وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟” قُلْنَ: بَلَى. قَالَ: “فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا. أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟” قُلْنَ: بَلَى. قَالَ: “فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا” متفق عليه
ایک بات کی وضاحت...
یہاں نقص دین میں کہا گیا ہے ایمان میں نہیں...
اور چوں کہ یہ نقص اللہ کی طرف سے ہے لہذا خدا کے نزدیک اس پر کوئی مواخذہ بھی نہیں.
 

زیک

مسافر
اور بھول جانے سی یہ مراد نہیں کہ ان کا حافظہ کمزور ہوتا ہے بلکہ خواتین تو کیا مردوں کی بھی سٹی عدالت کچہریوں میں آکر گم ہوجاتی ہے اس لیے اس کو ایک اور سہارا دے دیا تاکہ زیادہ نرویس نہ ہوجائیں.
اگر مرد نروس ہو جائے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى، فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ: “يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ، فَإِنِّي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ” فَقُلْنَ: وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ” قُلْنَ: وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟” قُلْنَ: بَلَى. قَالَ: “فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا. أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟” قُلْنَ: بَلَى. قَالَ: “فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا” متفق عليه
ایک بات کی وضاحت...
یہاں نقص دین میں کہا گیا ہے ایمان میں نہیں...
اور چوں کہ یہ نقص اللہ کی طرف سے ہے لہذا خدا کے نزدیک اس پر کوئی مواخذہ بھی نہیں.
جزاک اللہ خیرا۔
مجھے اب اس کا اردو ترجمہ ڈھونڈنا ہو گا۔
 
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فِي أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى، فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ: “يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ، فَإِنِّي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ” فَقُلْنَ: وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ” قُلْنَ: وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ؟” قُلْنَ: بَلَى. قَالَ: “فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا. أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ؟” قُلْنَ: بَلَى. قَالَ: “فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا” متفق عليه
ایک بات کی وضاحت...
یہاں نقص دین میں کہا گیا ہے ایمان میں نہیں...
اور چوں کہ یہ نقص اللہ کی طرف سے ہے لہذا خدا کے نزدیک اس پر کوئی مواخذہ بھی نہیں.


صحیح بخاری ، باب 24 حدیث نمبر 1462


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , قَالَ : أَخْبَرَنِي زَيْدٌ هُوَ ابْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، " خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَوَعَظَ النَّاسَ وَأَمَرَهُمْ بِالصَّدَقَةِ , فَقَالَ : أَيُّهَا النَّاسُ تَصَدَّقُوا ، فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ , فَقَالَ : يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ ، فَقُلْنَ : وَبِمَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمَّا صَارَ إِلَى مَنْزِلِهِ جَاءَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ تَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ ، فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ : هَذِهِ زَيْنَبُ ، فَقَالَ : أَيُّ الزَّيَانِبِ ، فَقِيلَ : امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : نَعَمْ ائْذَنُوا لَهَا ، فَأُذِنَ لَهَا ، قَالَتْ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّكَ أَمَرْتَ الْيَوْمَ بِالصَّدَقَةِ وَكَانَ عِنْدِي حُلِيٌّ لِي فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ ، فَزَعَمَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّهُ وَوَلَدَهُ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَيْهِمْ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : صَدَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ زَوْجُكِ وَوَلَدُكِ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بِهِ عَلَيْهِمْ " .

ترجمہ

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی ‘ انہیں عیاض بن عبداللہ نے ‘ اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ پھر (نماز کے بعد) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا۔ فرمایا: لوگو! صدقہ دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہی فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے۔ عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اس لیے کہ تم لعن وطعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کار آزمودہ مرد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میں لے لیتی ہو۔ ہاں اے عورتو! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھر پہنچے تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا آئیں اور اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ زینب آئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سی زینب (کیونکہ زینب نام کی بہت سی عورتیں تھیں) کہا گیا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اچھا انہیں اجازت دے دو ‘ چنانچہ اجازت دے دی گئی۔ انہوں نے آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج آپ نے صدقہ کا حکم دیا تھا۔ اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن (میرے خاوند) ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان (مسکینوں) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحیح کہا۔ تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں تم صدقہ کے طور پر دو گی۔
 
Top