عورت
روشنی ۔۔۔کوئی میری ساری زندگی کے تجربوں کا نچوڑ مانگے تو میں کہوں گا کبھی کسی عورت کو اس کی رضا کے
بغیر مت اپنانا اور اپنا لو تو کبھی اس سے محبت کی خواہش مت کرنا۔۔۔میں نے عورت کو ہمیشہ بہت کمزور سمجھا تھا۔۔
موم کی گڑیا کی طرح۔۔۔لیکن ایک عمر برتنے کے بعد میں نے یہ جانا ہے کہ عورت موم ہے یا پتھر۔۔۔اس کا فیصلہ وہ خود
کرتی ہے۔۔۔کسی دوسرے شخص کو اسے موم یا پتھر کا خطاب دینے کا حق نہیں ہوتا۔۔۔وہ خود چاہے تو محبوب کے اشاروں
کی سمت مڑتی رہتی ہے۔۔۔اور پتھر بننے کا فیصلہ کر لے تو کوئی شخص بھکاری بن کر بھی اس کی ایک نگاہِ التفات نہیں پا
سکتا۔۔۔اپنی ہستی تمھارے نام لکھ کر بھی میرا دل ایک کشکول کی طرح خالی ہے روشنی۔۔۔یہ وہ کشکول ہے جو ہمدردی ،
مروت ، اور جبر کے تحت دئیے گئے تمام سکے نیچے گرا دیتا ہے،،،جیسے کسی اندھے فقیر کو خود بہ خود خبر ہو جائے کہ اسے
دیا جانے والا سکہ کھوٹا ہے ۔۔۔یہ کشکول محض محبت سے بنا سکہ مانگتا ہے روشنی۔۔،سو اب تک خالی ہے۔
ماہا ملک کے ناول " جو چلے تو جاں سے گزر گئے " سے اقتباس