مجھ کو اِک نظم کا وعدہ ہے مِلے گی مجھ کو
ڈوُبتی نبضوں میں جب درد کو نیند آنے لگے
زرد سا چہرہ لیے چاند اُفق پر پہنچے
دِن بھی ابھی پانی میں ہو ، رات کِنارے کے قریب
نہ اندھیرا نہ اُجالاہو ، نہ یہ رات نہ دن
جسم جب ختم ہو اور رُوح کو جب سانس آئے
مجھ سے اِک نظم کا وعدہ ہے مِلے گی مجھ کو
ڈوُبتی نبضوں میں جب درد کو نیند آنے لگے
زرد سا چہرہ لیے چاند اُفق پر پہنچے
دِن بھی ابھی پانی میں ہو ، رات کِنارے کے قریب
نہ اندھیرا نہ اُجالاہو ، نہ یہ رات نہ دن
جسم جب ختم ہو اور رُوح کو جب سانس آئے
مجھ سے اِک نظم کا وعدہ ہے مِلے گی مجھ کو