میں نے کتنا کچھ مس کر دیا یہاں اپنی غیر حاضری سے
سب نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ کیا پڑھوں بلکہ سب سے پہلے کیا پڑھوں
بہت خوب محمد احمد
اشعار کیوں نہیں لکھے جو وہاں آپ سب نے کہے تھے؟؟؟
زبردست۔ ہمیشہ کی طرح عمدہ اندازِ تحریر۔ بہت اچھا لکھا احمد۔ امید ہے آپ لوگ آئندہ بھی ملتے رہیں گے اور ایسے ہی ہم سب کو ساتھ شامل رکھیں گے۔
لیکن میرا ایک اعتراض بھی ہے۔ آپ نے روداد تو لکھ دی لیکن مشاعرے میں پڑھا جانے والا کلام کدھر ہے؟
بہت شکریہ۔۔۔!
وہاں پڑھی گئی شاعری اس لئے نہیں لکھی کہ زیادہ تر اردو محفل پر موجود ہی ہے۔ میں نے یہ ایک یہ غزل سنائی تھی:
غزل
شکستہ پر ، شکستہ جان و تن ہوں
مگر پرواز میں اپنی مگن ہوں
خود اپنی دھوپ میں جلتا رہا ہوں
خود اپنی ذات پر سایہ فگن ہوں
میں دیواروں سے باتیں کر رہا ہوں
وہ کہتے ہیں میں کتنا کم سخن ہوں
وہ کب کا منزلوں کا ہو چکا ہے
میں جس کا منتظر ہوں خیمہ زن ہوں
بلا کی دھوپ نے چٹخا دیا ہے
میں جیسے کچی مٹی کا بدن ہوں
ستمگر ہو کہ بھی شکوہ کناں وہ
یہ میں ہوں کہ جبینِ بے شکن ہوں
یہ میں کیا ہو گیا ہوں تجھ سے مل کر
کہ خوشبو ہوں، ستارہ ہوں، پون ہوں
جنوں کی اک گرہ مجھ پر کھلی ہے
تو سرشاری کے خط پر گامزن ہوں
رہی ہجرت سدا منسوب مجھ سے
وطن میں ہو کے احمد بے وطن ہوں
اس کے علاوہ
ایک یہ اور
دوسری یہ غزل بھی سنائی تھی۔
مزمل شیخ بسمل نے
یہ غزل سنائی تھی۔ اور بھی اچھے اشعار سنائے تھے جو اب مجھے یاد نہیں ہیں۔
مہدی نقوی حجاز نے بھی بہت اچھا کلام سنایا تھا جو اب مجھے یاد نہیں۔ ان سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے اس کلام کا ربط شامل کریں۔