فہیم
لائبریرین
ویسے تو ماشاءاللہ امین بھائی اور احمد بھائی اس عید ملن کا احوال پیش کرچکے ہیں۔ لیکن پھر بھی تھوڑا بہت، ٹوٹا پھوٹا اپنی ایویں ہی کی یاداشت کے سہارے جو ہمیں یاد ہے ہم پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں
تو صاحبو اس ملاقات کی کہانی تو پہلے سے شروع تھی لیکن آج عملی طور پر جب اس ملاقات کا قصہ شروع ہوا تو کچھ یوں تھا کہ ہم نے اپنے پرانے والے پکے سے دوست سے پلان کیا تھا کہ دونوں ساتھ چلیں گے اگر ان کو اندازہ ہوتا کہ ان کو کوئی 20 منٹ دھوپ میں انتظار کرنا پڑ سکتا ہے تو شاید وہ اس آفر کو قبول کرنے سے پہلے تھوڑا سوچتے ضرور
خیر جب ہمیں معلوم ہوا کہ عمار بھائی تو مطلوبہ جگہ (جو ان کے گھر سے کافی دور اور ہمارے گھر سے کافی نزدیک تھی) پہنچ چکے ہیں اور ہم ابھی تک تیاریوں میں لگے ہیں تو ہم نے تیاریوں کو تھوڑا تیز کیا]۔ اور ٹریفک سے بچتے بچاتے وہاں پہنچ گئے۔
لیکن یہ کیا وہاں پہنچ کر تو مطلوبہ بندہ کہیں دکھائی ہی نہیں دیا۔ سوچا کہیں ہمارے انتظار سے عاجز آکر مطلوبہ جگہ کے لیے تو روانہ نہیں ہوگئے بھائی صاحب لیکن پھر فون پر رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ تو نہایت ہی قریب موجود ہیں۔ ابھی ان سے گلے مل کر فارغ ہو ہی رہے تھے کہ فون بج اٹھا سوچا کیسے لوگ ہیں جو گلے بھی چین سے نہیں ملنے دیتے۔ ریسیو کیا تو دوسری طرف سے امین بھائی کی جذباتی سی آواز آئی الفاط تو کچھ پلے نہیں پڑے لیکن جذباتی پن سے محسوس ہوا جیسے ٹرین نے چلنا شروع کردیا ہو اور ہم ابھی تک اسٹیشن نہیں پہنچے ہوں ان کو تسلی دی کہ بھائی فکر ناٹ ہم آرہے ہیں۔
بس پھر جلد ہی وہاں پہنچ گئے۔ امین بھائی نے فون پر بتایا تھا کہ وہ اور انیس بھائی پہنچ چکے ہیں لیکن وہاں پہنچے تو لگا کہ سب ہی پہنچ گئے صرف ہم ہی لیٹ لطیف ثابت ہوئے ہیں۔
وہاں موجود شرکاء کا تو امین بھائی اور احمد بھائی پہلے ہی ذکرِ خیر کرچکے ہیں۔ وہاں سب سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ملاقات ہوئی۔
جب سب سے گلے مل کر فارغ ہوئے اور چلنا شروع کیا تو میر انیس بھائی نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ امین بھائی سے فرمایا کہ فہیم صاحب آگئے اب ان سے معلوم کرلیا جائے۔ ہم نے بڑے اشتیاق سے پوچھا کیا؟ جواب میں انہوں نے جو معلوم کیا ہم سن کر سٹپٹا گئے کہ ہم سے ہی کیوں جواب ملا کہ ان کو معلوم ہوا ہے کہ ہم کوئی جاسوس ہیں اور ہمیں اندر کی باتیں معلوم ہوتی ہیں
خیر سے ان کو مطمئن کیا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں یہ تو بس لوگ ایویں ہی بندے کو سر چڑھا رکھتے ہیں۔
آگے پھر وہی ہوا جو محمد امین بھائی نے بیان کیا اور جب ہم لوگ مزار قائد سے اگلی منزل کی جانب نکلے تو ہم سے ایک حماقت ہوئی کہ ہم ایک الیکٹریشن بندے کو تھوڑا سا بائیک کا کاریگر بھی سمجھ بیٹھے اور ان صاحب سے بائیک میں تھوڑی سی چھیڑ چھاڑ کرالی۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ آگے جاکر ہمیں بنا کلچ وائر کے بائیک کو ٹانگو سے دوڑا کے ففٹی کے انداز میں بھی چلانا پڑ سکتا ہے۔ وہ تو خیر ہو کہ ایک مکینک نظر آئنگ اور ہم نے بائیک کو ٹھیک کرائینگ ورنہ نہ معلوم کہ ہم عمار اور انیس الرحمٰن بھائی سمیت بائیک کو کہیں دے مارتے اور بعد میں یہ دونوں حضرات ہمیں مارتے۔
وہاں پہنچے پھر وہی ہوا جو پہلے بیان ہوا۔
جب مزمل شیخ بسمل صاحب نے کرسی صدارت سنبھالی تو پہلی آواز نکالی کہ کل رات کچھ شیر (شعر) آئے ہیں وہی پیش ہیں۔ یہ سن کر فہد بھائی (ابو شامل) صاحب کا دماغ فوراۢ چڑیا گھر کی طرف پرواز کر گیا کہ کب آئے، کہاں سے آئے نام کیا رکھے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ تو کاغذی شیر یعنی کاغذوں پر سجنے والے شعر ہیں تو ان کا سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا خیر سے جب مزمل صاحب نے اپنا کلام پیش کیا تو معلوم ہوا کہ گویا میر و غالب کے دور میں آگئے ہیں۔
اس کے بعد مہدی نقوی حجاز بھائی نے بھی اپنی عمر کی مناسبت سے اونچی شاعری پیش کی اور خوب داد لوٹی احمد بھائی ان دونوں سے پہلے وہ داد وصول کر اسے دبائے بیٹھے تھے لیکن بعد میں اس کو اپنی وصولی میں سے کچھ حصہ ان دو بچوں کے نام بھی کرنا پڑا۔
پھر کھانا ہوا۔ کچھ لوگوں کے ساتھ اچھا مذاق بھی ہوگیا کہ ان کو یاد رہے گا کہ فوڈ سینٹر جا کر بریانی تو کھالینی ہے لیکن ایک مخصوص بریانی نہیں کھانی ورنہ آپ نے سوچنا ہے کہ اس سے بہتر تو بندہ مونگ کی دال کی کھچڑی کھالے۔
کھانے کے بعد اپنا کلام پیش کرنے کی باری ہمارے امین بھائی کی تھی۔ جو یقین دلانے پر تلے تھے کہ یقین کریں ہمارا کوئی دیوان نہیں ارے دیوان کہاں ہمارے پاس تو کوئی پاندان بھی نہیں تو ہم شاعر کہاں سے ہوئے۔ لیکن پھر شاید کچھ پرانی یادیں ان کے دماغ میں سما گئیں جو کہ شاعری کی شکل میں محفوظ بھی تھیں وہ انہوں نے پیش کر ڈالیں۔
سارے شعراء حضرات نے جو کلام پیش کیا اس کو تحریری شکل میں تو وہی پیش کرسکتے ہیں
لیکن جب اتنے لوگوں نے کلام پیش کیا تو ہمیں بھی کچھ ایویں ہی کا جوش چڑھ گیا کہ ہم نے بھی کچھ کہنا ہے۔
ہم تو امین بھائی سے پہلے ہی کہہ دینا چاہتے تھے لیکن شعیب بھائی کو ڈر تھا کہ اس کو سننے کے بعد کہیں لوگوں کا ادبی ذوق ڈر کر کہیں نہ بھاگ لے اس لیے انہوں نے ہمیں آخر کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔
خیر سے ہم مطلوبہ جگہ پہنچے لیکن ہماری ہی فرمائش تھی کہ ہماری ریکارڈنگ نہ ہو۔ باقی پہلے جنہوں نے کلام پیش کیا وہ باقاعدہ ویڈیو کی شکل میں محفوظ ہے۔
ہم نے مطلوبہ جگہ بیٹھ کر سب سے پہلے یہ عرض کردیا تھا ہمیں شاعری کی کچھ سمجھ نہیں اور ہم جو کہنے جا رہے ہیں وہ نہ غزل ہے نہ نظم بلکہ شاعری بھی نہیں ہے۔ بلکہ جیسے لوگ تک بندیاں کہتے ہیں ایسے ہی اسے بے تکا پن سمجھ لیا جائے۔
ہمارا وہ بے تکا پن سن کر واہ کی آواز تو نہیں نکل سکی کسی کے منہ سے لیکن ہنسی ضرور نکل گئی۔
ہم سوچنگ کے اس کے الفاظ بھی شامل کردیے جائیں۔ جو کچھ یوں تھے۔
پھر وہاں سے اگلی محفل تھوڑی پیدل مارچ کے بعد سب کی من پسند جگہ یعنی کوئٹہ چائے ہوٹل پر جمی وہاں شعیب بھائی کے ایک دوست جو وہیں کے رہائشی تھے شامل ہوئے۔
عمار کو کچھ کام تھا اس لیے وہ جلدی اجازت لے کر رخصت ہوگیا۔
بعد میں پھر ایک طویل شاعرانہ محفل جمی اس میں ہم نے شعیب بھائی کو آفر کی کہ اگر وہ کچھ دیر کے لیے اپنے آپ کو خاتون تصور کرلیں تو ہم ایک غزل پیش کرسکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے آفر قبول نہ کی اور پھر شاعری کے اس دور کے بعد سبھوں نے واپس اپنے گھر کی راہ لی۔
یہ ہم نے بس جو دماغ میں سمایا وہ لکھ مارا۔
کچھ غلطی ہوگئی ہو تو نیند میں ٹن سمجھ کر نظر انداز فرمائیے گا
تو صاحبو اس ملاقات کی کہانی تو پہلے سے شروع تھی لیکن آج عملی طور پر جب اس ملاقات کا قصہ شروع ہوا تو کچھ یوں تھا کہ ہم نے اپنے پرانے والے پکے سے دوست سے پلان کیا تھا کہ دونوں ساتھ چلیں گے اگر ان کو اندازہ ہوتا کہ ان کو کوئی 20 منٹ دھوپ میں انتظار کرنا پڑ سکتا ہے تو شاید وہ اس آفر کو قبول کرنے سے پہلے تھوڑا سوچتے ضرور
خیر جب ہمیں معلوم ہوا کہ عمار بھائی تو مطلوبہ جگہ (جو ان کے گھر سے کافی دور اور ہمارے گھر سے کافی نزدیک تھی) پہنچ چکے ہیں اور ہم ابھی تک تیاریوں میں لگے ہیں تو ہم نے تیاریوں کو تھوڑا تیز کیا]۔ اور ٹریفک سے بچتے بچاتے وہاں پہنچ گئے۔
لیکن یہ کیا وہاں پہنچ کر تو مطلوبہ بندہ کہیں دکھائی ہی نہیں دیا۔ سوچا کہیں ہمارے انتظار سے عاجز آکر مطلوبہ جگہ کے لیے تو روانہ نہیں ہوگئے بھائی صاحب لیکن پھر فون پر رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ تو نہایت ہی قریب موجود ہیں۔ ابھی ان سے گلے مل کر فارغ ہو ہی رہے تھے کہ فون بج اٹھا سوچا کیسے لوگ ہیں جو گلے بھی چین سے نہیں ملنے دیتے۔ ریسیو کیا تو دوسری طرف سے امین بھائی کی جذباتی سی آواز آئی الفاط تو کچھ پلے نہیں پڑے لیکن جذباتی پن سے محسوس ہوا جیسے ٹرین نے چلنا شروع کردیا ہو اور ہم ابھی تک اسٹیشن نہیں پہنچے ہوں ان کو تسلی دی کہ بھائی فکر ناٹ ہم آرہے ہیں۔
بس پھر جلد ہی وہاں پہنچ گئے۔ امین بھائی نے فون پر بتایا تھا کہ وہ اور انیس بھائی پہنچ چکے ہیں لیکن وہاں پہنچے تو لگا کہ سب ہی پہنچ گئے صرف ہم ہی لیٹ لطیف ثابت ہوئے ہیں۔
وہاں موجود شرکاء کا تو امین بھائی اور احمد بھائی پہلے ہی ذکرِ خیر کرچکے ہیں۔ وہاں سب سے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ملاقات ہوئی۔
جب سب سے گلے مل کر فارغ ہوئے اور چلنا شروع کیا تو میر انیس بھائی نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ امین بھائی سے فرمایا کہ فہیم صاحب آگئے اب ان سے معلوم کرلیا جائے۔ ہم نے بڑے اشتیاق سے پوچھا کیا؟ جواب میں انہوں نے جو معلوم کیا ہم سن کر سٹپٹا گئے کہ ہم سے ہی کیوں جواب ملا کہ ان کو معلوم ہوا ہے کہ ہم کوئی جاسوس ہیں اور ہمیں اندر کی باتیں معلوم ہوتی ہیں
خیر سے ان کو مطمئن کیا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں یہ تو بس لوگ ایویں ہی بندے کو سر چڑھا رکھتے ہیں۔
آگے پھر وہی ہوا جو محمد امین بھائی نے بیان کیا اور جب ہم لوگ مزار قائد سے اگلی منزل کی جانب نکلے تو ہم سے ایک حماقت ہوئی کہ ہم ایک الیکٹریشن بندے کو تھوڑا سا بائیک کا کاریگر بھی سمجھ بیٹھے اور ان صاحب سے بائیک میں تھوڑی سی چھیڑ چھاڑ کرالی۔ ہمیں کیا پتہ تھا کہ آگے جاکر ہمیں بنا کلچ وائر کے بائیک کو ٹانگو سے دوڑا کے ففٹی کے انداز میں بھی چلانا پڑ سکتا ہے۔ وہ تو خیر ہو کہ ایک مکینک نظر آئنگ اور ہم نے بائیک کو ٹھیک کرائینگ ورنہ نہ معلوم کہ ہم عمار اور انیس الرحمٰن بھائی سمیت بائیک کو کہیں دے مارتے اور بعد میں یہ دونوں حضرات ہمیں مارتے۔
وہاں پہنچے پھر وہی ہوا جو پہلے بیان ہوا۔
جب مزمل شیخ بسمل صاحب نے کرسی صدارت سنبھالی تو پہلی آواز نکالی کہ کل رات کچھ شیر (شعر) آئے ہیں وہی پیش ہیں۔ یہ سن کر فہد بھائی (ابو شامل) صاحب کا دماغ فوراۢ چڑیا گھر کی طرف پرواز کر گیا کہ کب آئے، کہاں سے آئے نام کیا رکھے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ تو کاغذی شیر یعنی کاغذوں پر سجنے والے شعر ہیں تو ان کا سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا خیر سے جب مزمل صاحب نے اپنا کلام پیش کیا تو معلوم ہوا کہ گویا میر و غالب کے دور میں آگئے ہیں۔
اس کے بعد مہدی نقوی حجاز بھائی نے بھی اپنی عمر کی مناسبت سے اونچی شاعری پیش کی اور خوب داد لوٹی احمد بھائی ان دونوں سے پہلے وہ داد وصول کر اسے دبائے بیٹھے تھے لیکن بعد میں اس کو اپنی وصولی میں سے کچھ حصہ ان دو بچوں کے نام بھی کرنا پڑا۔
پھر کھانا ہوا۔ کچھ لوگوں کے ساتھ اچھا مذاق بھی ہوگیا کہ ان کو یاد رہے گا کہ فوڈ سینٹر جا کر بریانی تو کھالینی ہے لیکن ایک مخصوص بریانی نہیں کھانی ورنہ آپ نے سوچنا ہے کہ اس سے بہتر تو بندہ مونگ کی دال کی کھچڑی کھالے۔
کھانے کے بعد اپنا کلام پیش کرنے کی باری ہمارے امین بھائی کی تھی۔ جو یقین دلانے پر تلے تھے کہ یقین کریں ہمارا کوئی دیوان نہیں ارے دیوان کہاں ہمارے پاس تو کوئی پاندان بھی نہیں تو ہم شاعر کہاں سے ہوئے۔ لیکن پھر شاید کچھ پرانی یادیں ان کے دماغ میں سما گئیں جو کہ شاعری کی شکل میں محفوظ بھی تھیں وہ انہوں نے پیش کر ڈالیں۔
سارے شعراء حضرات نے جو کلام پیش کیا اس کو تحریری شکل میں تو وہی پیش کرسکتے ہیں
لیکن جب اتنے لوگوں نے کلام پیش کیا تو ہمیں بھی کچھ ایویں ہی کا جوش چڑھ گیا کہ ہم نے بھی کچھ کہنا ہے۔
ہم تو امین بھائی سے پہلے ہی کہہ دینا چاہتے تھے لیکن شعیب بھائی کو ڈر تھا کہ اس کو سننے کے بعد کہیں لوگوں کا ادبی ذوق ڈر کر کہیں نہ بھاگ لے اس لیے انہوں نے ہمیں آخر کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔
خیر سے ہم مطلوبہ جگہ پہنچے لیکن ہماری ہی فرمائش تھی کہ ہماری ریکارڈنگ نہ ہو۔ باقی پہلے جنہوں نے کلام پیش کیا وہ باقاعدہ ویڈیو کی شکل میں محفوظ ہے۔
ہم نے مطلوبہ جگہ بیٹھ کر سب سے پہلے یہ عرض کردیا تھا ہمیں شاعری کی کچھ سمجھ نہیں اور ہم جو کہنے جا رہے ہیں وہ نہ غزل ہے نہ نظم بلکہ شاعری بھی نہیں ہے۔ بلکہ جیسے لوگ تک بندیاں کہتے ہیں ایسے ہی اسے بے تکا پن سمجھ لیا جائے۔
ہمارا وہ بے تکا پن سن کر واہ کی آواز تو نہیں نکل سکی کسی کے منہ سے لیکن ہنسی ضرور نکل گئی۔
ہم سوچنگ کے اس کے الفاظ بھی شامل کردیے جائیں۔ جو کچھ یوں تھے۔
کیسی کیسی ہوتی ہیں انساں کی خواہشات
چھوٹا تھا میں بندہ کردی تھی بڑی بات
چاہا تھا کیا میں نے کیا بتاؤں میں تمہیں
کسی کا زندگی بھر کا ساتھ، کسی سے فقط ایک ملاقات
پر نہ ہونی تھی پوری ہماری یہ خواہش
لگ گئی دونوں باتوں کی پوری طرح واٹ
نہیں ہے کچھ کہنے کو مزید ہمارے پاس
اب تو فقط آنسو ہیں اپنے ساتھ
یہ شاعری ہو نہ ہو بھلے
ہے یہ ہمارے دل کی بات
آخر میں فہد بھائی نے ٹکڑا لگایا کہہے بہت ہی یہ واہیات
دو مصرے مزمل بھائی نے بھی شامل فرمادئیے تھے جو ہمیں یاد نہیں پھر وہاں سے اگلی محفل تھوڑی پیدل مارچ کے بعد سب کی من پسند جگہ یعنی کوئٹہ چائے ہوٹل پر جمی وہاں شعیب بھائی کے ایک دوست جو وہیں کے رہائشی تھے شامل ہوئے۔
عمار کو کچھ کام تھا اس لیے وہ جلدی اجازت لے کر رخصت ہوگیا۔
بعد میں پھر ایک طویل شاعرانہ محفل جمی اس میں ہم نے شعیب بھائی کو آفر کی کہ اگر وہ کچھ دیر کے لیے اپنے آپ کو خاتون تصور کرلیں تو ہم ایک غزل پیش کرسکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے آفر قبول نہ کی اور پھر شاعری کے اس دور کے بعد سبھوں نے واپس اپنے گھر کی راہ لی۔
یہ ہم نے بس جو دماغ میں سمایا وہ لکھ مارا۔
کچھ غلطی ہوگئی ہو تو نیند میں ٹن سمجھ کر نظر انداز فرمائیے گا