عید کا چاند سعودی عرب کے حساب سے منانے کی کیا تُک؟

مہوش علی

لائبریرین
نیز اوپر اوریا جان مقبول دعوی کر رہے ہیں کہ رسول ص کے زمانے سے لیکر اس صدی میں سلطنت عثمانیہ کے ختم ہونے تک پوری اسلامی مملکت میں ایک ہی دن عید ہوتی تھی۔
میں ان کی اس بات پر یقین نہیں کر سکتی جبتک یہ اپنی اس بات پر کوئی ثبوت نہ پیش کر دیں کیونکہ یہ بات عقلی طور پر ممکن نہیں دکھائی دے رہی۔

نیز ایک مسئلہ یہ ہے کہ رمضان کا آغاز کیسے کیا جائے؟

فرض کریں نیوزی لینڈ میں لوگوں کو چاند نظر نہیں آیا۔ اس لیے انہوں نے صبح کو رزہ نہیں رکھا۔ سعودیہ میں بھی نظر نہیں آیا، افریقہ میں بھی نظر نہیں آیا، مگر پھر امریکہ میں اس دن جا کر نظر آ جاتا ہے اور اس وقت نیوزی لینڈ میں یقینا دوپہر ہو چکی ہے۔ تو کیا نیوزی لینڈ والے دوپہر تک کھاتے پیتے رہیں اور اسکے بعد روزے کا آغاز کریں؟

دارلعلوم دیوبند کے فتوے کو جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں تو وہ مجھے کافی Realistic لگا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اگر آپ یورپ میں ہیں تو آپ قریب کے ممالک جیسے مراکش وغیرہ ہیں، انکو چاند دیکھنے کے معاملے میں فالو کر سکتے ہیں۔ مگر اگر کوئِی کہے کہ دور کے ممالک جیسے نیوزی لینڈ یا پاکستان یا سعودیہ میں چاند نظر آ گیا ہے تو یہ فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ اس کی پیروی نہیں کی جا سکتی۔
 

گرائیں

محفلین
یہی بات تو ہم مسجد قاسم علی خان کے علما اور صوبہ کے کچھ اضلاع کے عوام سے کہنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ بس سعودیہ اور سعودیہ۔ اور مزے کی بات جس شام چاند نظر آہی نہیں سکتا تھا، 50 کے قریب لوگوں کو نظر آ بھی گیا ، جو کہ ایک معجزہ ہے۔

اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔
اوریا صاحب کی باتیں مجھے قابل عمل نہیں لگی تھیں، مگر انھوں نےبعد میں جو علما کی رائے شامل کی، میں نے سوچا یہ کالم یہاں ان رائے پر تبصرے کے لئے پیش کرنا چاہئے۔
 

راشد احمد

محفلین
خدا کا شکر ہے کہ کوئی سانحہ رونما نہیں ہوا

اے این پی نے جس قسم کی حرکتیں کی تھیں اس سے لگ رہا تھا کہ فرقہ واریت یا کوئی فتنہ پھیل سکتا ہے۔ اے این پی نے جہاں فرقہ واریت اور صوبائی تعصب پھیلانے کی کوشش کی وہیں اس نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی کوشش کی۔ اے این پی کے رہنما بشیر بلور نے اتوار کو عید الفطر کی نماز ادا کرنے کے بعد کہا تھا کہ جس نے پیر کو عید منائی وہ ربوہ کے ساتھ ہے یعنی وہ قادیانی ہے۔ اس پر کسی نے احتجاج نہیں کیا۔

دین سے انحراف تو اے این پی کی روایت ہے۔ انہیں‌یہ تو سوچنا چاہئے کہ آگے ہی صوبہ سرحد میں طالبان جیسا فتنہ ہے۔
 

Dilkash

محفلین
از:پروفیسر ناصر علی سید

ہماری عید ہے ہم ہر طرح منائیں گے
عید جو خوشیوں کا تہوار ہے اب کے تکرار کا تہوار بن گیا دو تین عیدوں کی روایت نئی نہیں ہے خصوصاً جب سے افغان مہاجرین نے قدم رنجہ فرمایا ہے عید اور پہلا روزہ ایک سے زیادہ دنوں تک پھیل گیا ہے شروع شروع میں تھوڑی بہت الجھن ضرور ہوتی تھی مگر بعد میں سر تسلیم خم کردیا گیا تھا اور افغان مہاجرین کے خیموں اور حیات آباد کے جن سیکٹروں میں مہاجرین کی اکثریت تھی وہاں پہلا روزہ اور عید کا پہلا دن پہلے ہوجاتا جب ان کا دوسرا دن ہوتا تو قاسم علی خان کی مسجد سے جڑے ہوئے شہری اپنا پہلا دن منارہے ہوتے اور پھر جب ان کا دوسرا اور افغان مہاجرین کا تیسرا دن ہوتا تو پشاور صدر کی اکثریت مرکزی رویت ہلال کمیٹی (بلکہ عرف عام میں اسے ’’حکومت کے ساتھ‘‘ کہا جاتا ہے) کے اعلان کے ساتھ رمضان یا عید کا پہلا دن منانا شروع کردیتے ۔

یار لوگ اس صورت حال کے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ جیسے یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں بلکہ خوش تھے کہ خوشیوں کو جتنا زیادہ پھیلا جائے بہتر ہے۔ کسی بھی دن کو پہلا دن گرداننے والے ہرگروہ کے پاس کافی جواز اپنے آ پ کو صادق ثابت کرنے کے لئے موجود ہوتا ہے اس لئے جب بھی بحث و تکرار چھڑتی ہے تو جلد ہی سمٹ جاتی ہے کہ چلو اللہ تعالیٰ قبول کرے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ کون حق پر ہے مگر اب کے ایسا نہیں ہوا اور عوام کی عمومی بحث خواص میں شروع ہوگئی اور دونوں فریقین میں ایسے ایسے تندو تیز جملوں کا تبادلہ ہوا کہ وہ عوام جو پہلے انگشت حیرت درد دہاں تھے اب کانوں میں انگلیاں دینے لگے۔

خصوصاً جب یہ تندوتیز جملے انہوں نے ایک عالم دین کے منہ سے سنے۔ کون حق پر تھا کس کی عید صحیح تھی عام آدمی یہ بھول کر اونچے مناصب پر متمکن احباب کی گفتگو کی ’’مٹھاس‘‘ پر بحث کرنے پر مجبور ہوگیا۔ چونکہ صوبائی حکومت مسجد قاسم علی خان کے فیصلے سے نہ صرف مطمئن تھی بلکہ اس کی بنیاد پر سرکاری اعلامیہ بھی جاری کربیٹھی تھی تو عام آدمی کے پاس سوائے مرزا محمود سرحدی کے اس قطعہ کے مصداق اتوار کی عید منانے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا

ہماری عید ہے ہم ہر طرح منائیں گے

ہمارا شیخ کے فتوی پہ اعتبار نہیں

ہمارے ڈپٹی کمشنر نے چاند دیکھا ہے

ہمیں یقین ہے کہ وہ غیر ذمہ دار نہیں

سو میں نے بھی ’’ہمارے ایک منسٹر نے چاند دیکھا ہے‘‘ گنگناتے ہوئے اتوار کو عید منائی۔ آخر چوالیس حاضر اور دو سو غیر حاضر شہادتیں کم نہیں ہوتیں اور اسے جم غفیر کہاجاسکتا ہے او یہی شرعی شرط ہے اب رہی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے انتظار کی بات تو مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ایک بار تو انہوں نے سرحد کی عید کے تیسرے دن اور افغان مہاجرین کے چوتھے دن عید کا پہلا دن اناؤنس کیا تھا اتوار کی عید کی چاند رات میری بات اپنے دوست میجر عامر سے ہورہی تھی میجر عامر بہت دنوں تک منقار زیر پر رہنے کے بعد کچھ سچی مگر تلخ داستانوں کے ساتھ ان دنوں خاصا ان ہیں اور ان کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ یا خاموش رہتے ہیں یا سچ کہتے ہیں اور چونکہ ان کی تربیت ایک مذہبی اور روحانی ماحول میں ہوئی ہے اس لئے وہ ایک سچے مسلمان اور پکے پاکستانی ہیں۔

بولتے بھی خوب ہیں کہ یہ خطابت بھی انہوں نے ورثے میں پائی ہے کم کم لکھتے ہیں مگر لکھتے بھی خوب ہیں پھر دوستوں کے دوست ہیں‘ دوست تو خیر ان کے بہت ہیں مگر چونکہ ان کا شوق دوستوں سے زیادہ کریکٹر پالنے کا ہے سو وہ بھی ان کے گرد رہتے ہیں خیران سے بات ہورہی تھی اور ظاہر ہے چاند رات کو ذکر چاند نظر آنے نہ آنے اور صبح عید کے ہونے نہ ہونے کا تھا میں نے کہا کہ میں تو گاؤں(اکوڑہ خٹک‘‘ میں عید کا پہلا دن مناتا ہوں تو بھلے سے قاسم علی خان کی مسجد سے اعلان ہو نہ ہو ہمارے قاضی انوارالدین کا اعلان حتمی ہوتا ہے اور اتوار کو تو خیر اب کے صوبائی حکومت کے کچھ ذمہ دار افراد کی موجودگی میں اعلان ہوچکا ہے

میجر عامر نے بھی اتفاق کیا کہ وہ بھی گاؤں میں ہیں اور کل عید منارہے ہیں مفتی منیب الرحمن کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی تومیجر عامر نے ایک مزے کی بات کہی کہ اگر مفتی صاحب اس چاند کو دیکھ کر یکم شوال کا اعلان کرتے ہیں جسے ہر شخص آسانی اور سہولت کے ساتھ آسمان پر تادیر جگر جگر چمکتا ہوا دیکھتا ہے تو پھرا س چاند کے لئے کسی بھی رویت ہلال کمیٹی یا منیب الرحمن کی کتنی ضرورت باقی رہ جاتی ہے

میجر عامر کی یہ بات مجھے اس وقت بہت یاد آئی اور میں نے خوب خوب انجوائے بھی کیا جب مفتی صاحب عید کے چاند کا اعلان کرتے ہوئے فرمارہے تھے کہ چاروں طرف سے شہادتیں مل گئی ہیں اور گاؤں کے گاؤں چاند دیکھ رہے ہیں’’جب چاند ہوتا ہے تو سب کو نظر آتا ہے‘‘ گویا وہی بات کہ جب سب کو نظر آجاتا ہے تو پھر کمیٹی کی کیا ضرورت ہے اور پھر اس کے بعد تو اب تک ہر اخبار ہرچینل پر مفتی صاحب گرج چمک کے ساتھ برس رہے ہیں بول رہے ہیں خطابت کے جوہر دکھارہے ہیں اور یار لوگ زیر لب داغ دہلوی کا شعرخود کو سنارہے ہیں۔

ملے جو حشر میں لے لوں زبان ناصح کی

عجیب چیز ہے یہ طول مدعا کے لئے

Dated : 2009-09-25 00:00:00
 

ماظق

محفلین
مسئلہ عید کا نہیں ہے بلکہ عبادت کا ہے ۔ نماز عید واجب ہے لیکن روزہ فرض ہے اس لیے اس معاملے پر بات کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچنا چاہیئے ۔ کسی کے کہنے پر ایک روزہ چھوڑ دینے سے ہماری عبادت کا نقصان ہوتا ھے ۔ جس دن پاکستان میں چاند کی انتیس تاریخ تھی اس شام سرحد والوں کے حساب سے شوال کی دو تاریخ تھی لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ پورے صوبہ سرحد میں دو شوال کو بھی چاند نظر نہیں آیا،نہ صرف سرحد بلکہ پنجاب اور اسلام آباد میں بھی چاند کی شہادت موصول نہیں ھوئی ۔ھونا تو یہ چاہیئے تھا کہ سرحد میں چاند بالکل واضع نظر آتا اور ہر جگہ نظر آتا لیکن افسوس ایسا کچھ نہ ہوا ۔ وفاقی وزیر ریلوے نے بیان داغا تھا کہ مفتی منیب صرف پنجاب کی وجہ سے اعلان نہیں کرتے انتہائی شرمناک بیان تھا ۔ مفتی منیب کا تعلق صوبہ سرحد سے ھے اس کے علاوہ مرکزی کمیٹی میں شامل تین مزید اکان کا تعلق بھی صوبہ سرحد سے ھے لیکن اس کے باوجود بھی چاند کے مسئلے کو سیاسی نگ دینا اصل میں لوگوں کی توجہ حقیقی مسائل سے ھٹانے کے علاوہ کچھ نہیں ھو سکتی ۔ اس بار ملک میں عید بلوچستان اور سندھ میں چاند نظر آنے کے بعد منائی گئی ۔ اللہ تعالٰی ھمارے راھنماؤں کو صحیح راستی دکھائے ۔ آمین
 

Dilkash

محفلین
جمیل مرغز

چاند اور چاند کمیٹی
’’جب چاند ہوتا ہے تو سب کو نظر آتا ہے‘‘۔مفتی منیب الرحمان نے کیا خوبصورت جملہ کہا ہے۔یہ جملہ انہوں نے اتوار کی شام رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس کے بعد کہا۔ان کا کہنا تھا کہ ملک کے تمام علاقوں میں چاند اتنا واضح نظر آیا ہے کہ علماء کرام کے علاوہ پورے پورے دیہات نے اس کو دیکھا ۔

یہ بڑی اچھی بات ہے کہ پورے پورے دیہات نے چاند دیکھا اور اس کے بعد مفتی صاحب نے عید کا اعلان کیا‘اس موقعے پر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کے قیام کا مقصد کیا ہے؟۔رویت ہلال‘ دو الفاظ ‘رویت (طلوع یاظاہر ہونا) اور ہلال(پہلے دن کا چاند) سے بنا ہے ‘ اس کا مطلب ہے کہ پہلے دن کے چاند کے طلوع ہونے کورویت ہلال کہتے ہیں۔چونکہ پہلے دن کا چاند عام لوگوں کی بجائے صرف تیز نظر والوں کو بھی کوشش کے بعد ہی نظر آسکتاہے ۔رویت ہلال کمیٹی کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں سے شہادتیں لے کر چاند کے ہونے یا نہ ہونے کا اعلان کرے ۔

چاند دیکھنے والوں کا تعلق اکثر شہروں کی بجائے دور دراز کے دیہاتی علاقوں سے ہوتا ہے اس لئے مقامی طورپر ان کے لئے علماء کی کمیٹیاں بنا دی جاتی ہیں تاکہ وہ ان لوگوں سے شہادتیں لے کر مرکزی کمیٹی تک پہنچا سکیں ۔اب اگر ایسے چاند کی بجائے رویت ہلال کمیٹی اس چاند کا اعلان کر نے لگے جو پورے پورے دیہات کو نظر آئے تویہ چاند یقیناً دوسرے یا تیسرے دن کا ہوتا ہے۔ایسے چاند کو دیکھنے کے لئے کسی کمیٹی کی ضرورت نہیں ہوتی۔بدقسمتی سے مفتی منیب الرحمان اور ان کی کمیٹی آج تک قوم کو پہلے دن کا چاند دکھانے میں ناکام رہی ہے۔

یہ ہمیشہ دوسرے تیسرے دن کا چاند دکھاتی ہے،اس لئے سب سے پہلے تو اس کمیٹی کا نام رویت ہلال کی بجائے چاند کمیٹی رکھنا چاہئے۔ابتداء ہی سے چاند دیکھنا پختون روایات کا خاصہ رہا ہے‘جو لوگ چاند دیکھنا چاہتے وہ 29رمضان کو سورج ڈھلنے سے قبل ہی چھتوں پر چڑھ جاتے یا کسی تنہا جگہ مثلاً کسی پہاڑی یا رہٹ وغیرہ میں اطمینان سے بیٹھ کر چاند دیکھنے کی کوشش کرتے ۔بعض لوگ تو چاند دیکھنے کے اتنے ماہر ہو گئے تھے کہ ان کو ہر چاند کے پہلے دن کے طلوع ہونے کی جگہ بھی معلوم ہوتی۔ہمارے گاؤں کے ایک بزرگ بہت مشہور تھے‘ انہوں نے رہٹ کے شہتیر(کانجڑ) میں مخصوص سوراخ کئے تھے ‘ہر مہینے کے چاند کے لئے الگ سوراخ۔عجیب بات یہ تھی کہ واقعی ہر چاند اپنے مخصوص سوراخ سے ہی نظر آتا‘ان کا کہنا تھا کہ ہر چاند کے طلوع ہونے کا مقام الگ ہوتا ہے۔

اگر مقام معلوم ہو تو پہلے دن کا چاند دیکھنا مشکل نہیں ہوتا۔انہوں نے متواتر 40 سال تک رویت کی صحیح شہادت دی تھی‘اسی طرح اور بھی لوگ تھے۔ افطار کے بعد محلے کے لوگ چاند دیکھنے والوں کے ساتھ ہمارے گاؤں کے بلکہ علاقے کے بہت بڑے اور محترم عالم دین فاضل دیوبندمرحوم حضرت مولاناگل باچا صاحب کی مسجد میں جمع ہوتے‘دوسرے محلوں اور گاؤں کے چاند دیکھنے والے بھی آجاتے۔

مسجد کے آس پاس میلے کا سماں ہوتا‘جب سب جمع ہوجاتے تو پھر حضرت ہر شخص سے شہادت لیتے‘ہم بھی تماش بینوں میں شامل ہوتے‘شہادت کا طریقہ بڑا سخت ہوتا۔وقت کیا تھا؟۔چاند کس مقام پر تھا؟۔چاند کا رخ کس طرف تھا؟۔سورج موجود تھا کہ غروب ہوچکا تھا؟۔غروب مغرب کے بعد کتنے وقت تک چاند آسمان پر موجود تھا؟۔سب سے الگ الگ سوال کرکے جھوٹ اور سچ معلوم کیا جاتا۔ایک دفعہ گواہوں میں مشکوک کردار کاایک آدمی شہادت کے لئے آیا تو اس کی شہادت لینے سے انکار کر دیا گیا‘جس طرح پختون مذہب کے بارے میں سخت ہیں اسی طرح رویت کے معاملے میں بھی کسی دھوکے اور بے ایمانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

شہادت کے بعد عید کا اعلان کیا جاتا‘دوسرے علاقوں کے لوگ بھی آکر عید ہونے کے خطوط لے جاتے۔کبھی اگر ہمارے گاؤں میں چاند کسی نے نہ دیکھا ہو تو پھر کسی دوسرے گاؤں کے علماء سے خط لے کر مولانا صاحب کے پاس آتے ‘اگر ان کو اطمینان ہو جاتا تو پھر عید کا اعلان کر دیتے۔اسلام اور مسلمانوں پر جب بھی سخت وقت آیا ہے تو پختونوں نے سب سے پہلے قربانی دی ہے‘صوفیائے کرام اور فاتحین سب مغرب سے آئے تھے اور ان کی کاوشوں سے بر صغیر میں اسلام پھیلا‘جب ہندوستان کے مسلمانوں پر سخت وقت آیا تو حضرت مجدد الف ثانیؒ کے ایک خط پر 1761 میں احمد شاہ بابا قندھار سے پانی پت کے میدانوں میں پہنچے۔

مرہٹوں کی قیادت بالاجی باجی راؤ کر رہے تھے۔احمد شاہ بابا نے ان کو ایسی عبرت ناک شکست دی کہ ان کے ہندوستان پر حکمرانی کا خواب ہمیشہ کے لئے چور چور ہوگیا‘مغل شہنشاہ بابر کو بھی ہندوستان کے تخت کے لئے پختونوں کا سہارا لینا پڑا ۔سید احمدشہید ‘ شاہ اسماعیل شہید اور تحر یک سرخ رومال کے کارکنوں کو بھی پورے ہندوستان میں صرف انہی پختونوں نے پناہ دی تھی۔ جب پاکستان کے حکمرانوں ‘ فوج اور امریکہ کو افغانستان سے سوویٹ یونین کو نکالنے کا کٹھن مرحلہ درپیش تھا ‘تو اس وقت پختونوں کی دین سے محبت ہی ان کے کام آئی اور جہاد کے جھوٹے نعرے سے پختونوں کو دھوکہ دے کر اپنا مقصد حاصل کر لیا۔

اگر کوئی اور قوم ہوتی تو یقین کریں کہ وہاں مذ ہبی جذبات اتنے کام نہ آتے اور نہ جہاد اورشہادت کے اتنے شوقین ان کو میسّر آتے‘انگریزوں اور ان سے قبل سکھوں کے خلاف سب سے زیادہ جدوجہد بھی حاجی صاحب ترنگزئی‘ہڈے ملا صاحب ‘فقیر ایپی اور باچا خان جیسے علماء کرام اور سیاست دانوں نے کی اس لئے پختونوں کو کسی سے مسلمانی کا سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ۔اب تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ جس قوم کی بدولت ہندوستان کی سرزمین اسلام کے نور سے منور ہوئی اسی افغان قوم کو رویت ہلال کے مسئلے پر جھوٹا اور فاسق ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ایک سادہ مسئلے کو مفتی منیب الرحمان نے اپنی فرقہ وارانہ سوچ کی بھینٹ چڑھا دیا ہے

اس سے قبل بھی وفاقی وزیر مذہبی امور اور مفتی منیب صاحب نے طالبان کی مخالفت کے نام پرایک مخصوص طرز فکر کے علماء کی کانفرنسیں کرکے فرقہ واریت پھیلانے کی کوششیں کی تھیں۔ مفتی صاحب بھی جنرل مشرف کی باقیات میں سے ہیں ۔چونکہ جناب زرداری صاحب کو جنرل صاحب کی باقیات سے بہت زیادہ دلی لگاؤ ہے اس لئے ان کو بھی ابھی تک بحال رکھا ہے۔ پختون دنیا کی واحد قوم ہے جس نے من حیث القوم اسلام قبول کیا تھا۔ایک ہزارسال سے زیادہ عرصہ اسلام کے لئے قربانیاں دینے والی قوم کی مسلمانی پر اب شک کیا جا رہا ہے

اب پختونوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم لوگوں نے پچھلے ایک ہزار سال سے عید کا چاند دیکھنے کے نام پرجھک ماری ہے ۔نہ تمہاری عید ٹھیک تھی اور نہ روزے۔تم یہ بھی نہیں جانتے کہ عید اور رمضان کا چاند وہ ہوتا ہے جو صوبہ سرحد اور فاٹا سے باہر نظر آئے‘ان علاقوں میں دکھائی دینے والا چاند جعلی ہوتا ہے۔ہفتے کو صوابی ‘چارسدہ ‘مردان ‘کوہاٹ ‘وزیرستان میں رویت کی شہادتیں موصول ہوئیں ۔اتنی تعداد میں لوگوں نے چاند دیکھا کہ محترم قاضی حسین احمد کو بھی کہنا پڑا کہ میرے پاس بھی شہادتیں آئی تھیں ۔ ویسے تو اب عوام نے مولانا فضل الرحمان کی باتوں پر حیران ہونا چھوڑ دیا ہے

حیرانی اس وقت ہوئی جب مولانا صاحب نے مرکزی حکومت کو خوش کرنے کے لئے پورس کے ہاتھیوں کی طرح اپنی ہی فوج کو روند ڈالا۔پختونوں میں دیو بندی طرز فکر کی اکثریت ہے اور علماء دیوبند کو عام لوگ بھی قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘یہ علماء کرام روایتی طور پر جمعیت العلماء اسلام کے حامی ہوتے ہیں ۔ویسے تو عید کا اعلان کرنے والوں میں ہر مکتبہ فکر کے علماء شامل تھے لیکن ان میں اکثریت دیو؂بندی علماء کی تھی۔مولانا فضل الرحمان کی زبانی پہلی دفعہ عوام کو معلوم ہوا کہ یہ علماء بھی جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ موٹ کا چاند دیکھتے ہیں

ان کی اس بات سے شاید مرکز میں ان کو مزید وزارتیں مل جائیں‘علماء دیوبند کی اس قدر دانی سے شاید ان کی عزت بڑھ جائے‘لیکن پختون قوم اب بھی ان علماء کی قدر دان ہے اور رہے گی۔خود ایم ایم اے کی حکومت کے دوران بھی مفتی منیب الرحمان کے طرز عمل کے خلاف ان کے صوبائی وزیر مذہبی امور حافظ اختر علی نے بھی احتجاج کرتے ہوئے عید کا اعلان کیا تھا‘جیدعلماء مولانا حسن جان اور مولانا محمد یوسف قریشی نے بھی صوبہ سرحد کی شہادتیں تسلیم نہ کرنے پر استعفا دیا تھا‘اس دفعہ بھی رمضان اور عید کی شہادتیں تسلیم نہ کی گئیں‘رمضان میں اجلاس جلدی ختم کر دیا گیا حالانکہ شہادتیں موجود تھیں‘عید کے موقع پر مفتی صاحب نے فون بند رکھا۔

مسئلہ بہت سادہ ہے‘پورے پاکستان میں جہاں بھی چاند نظر آئے اس کو تسلیم کیا جائے‘پورے پاکستان میں صوبہ سرحد اور فاٹاکو بھی شامل تصور کیا جائے‘چونکہ دور دراز علاقوں سے بھی شہادتیں موصول ہو سکتی ہیں اس لئے رویت ہلال کمیٹی کو دیر تک بیٹھنا چاہیے‘شام سات بجے اجلاس ختم کرنے سے یا مسجد قاسم علی خان کے علماء کی کمیٹی کو فتنہ کہنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا‘مفتی صاحب اگر ان شہادتوں کو نہیں مانتے تو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ عوام ان کو مانتے ہیں۔لاہور کے مختلف علاقوں میں اس بار عید منانے والوں کا کہنا تھا کہ چونکہ پشاور میں چاند نظر آگیا ہے اس لئے تمام مسلمانوں پر عید منانالازمی ہے

اگر صوبہ سرحد کے لوگوں سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ ملک کے دوسرے علاقوں میں دیکھے جانے والی چاند کو مانیں تو پھر جو چاند انہوں نے دیکھا ہے تو اس کو بھی ماننا پڑے گا‘یا تو سعودی عرب کے ساتھ عید منائی جائے‘اگرکچھ لوگوں کو یہ منظور نہیں تو پھر رویت ہلال کمیٹی کے لئے قواعد وضوابط بناکر ان کو مجبور کیا جا ئے کہ وہ شہادتوں کے حصول تک انتظار کریں‘عید کا چاند نظر نہ آنے کا مکمل یقین ہونے تک اجلاس ختم نہ کیا جائے‘شہادت جہاں سے بھی موصول ہو اس کو تسلیم کیا جائے۔

مفتی منیب الرحمان بہت زیادہ متنازع ہو چکے ہیں اور عید و رمضان ایک ساتھ منانے کا فرض ادا کرنے میں مکمل طور پرناکام رہے ہیں ‘اس لئے ان کو فارغ کرکے نئی کمیٹی بنائی جائے‘موجودہ ممبران نے تو شاید اس کمیٹی کو مراعات حاصل کرنے کا وسیلہ بنا لیا ہے‘اگر مراعات حاصل کرنا اور رویت کی بجائے دوسرے یا تیسرے دن کا چاند عوام کو دکھاناہی رویت ہلال کمیٹی کا کام ہے تو پھر اس کمیٹی کانام تبدیل کرکے رویت ہلال کمیٹی کی بجائے ’’چاند اور چاندنی‘‘ کمیٹی رکھا جائے۔

Dated : 2009-09-26 00:00:00
 
جو بنیادی بات ہے اس کا ذکر کسی نے بھی نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یہ کہ آپ مانے یا نہ مانے ۔
پنجابی کبھی کبھی ایک پشتون کی اس ضمن میں کسی قسم کی کوئی گواہی قبول نہیں کرے گا۔( بقول مہتمم قاسم علی خان مسجد )

اگر یہ بات نہیں ہے تو
ہلال کمیٹی کو پشاور میں لانے سے پھر کیوں گھبراتے ہیں ؟
 

فاتح

لائبریرین
حضراتِ ذی وقار ، کیا اس سلسلے میں سائنس سے فائدہ نہیں اٹھا لینا چاہئیے۔
آخر کو جب چاند گرہن اور سورج گرہن کے آغاز اور اختتام کا وقت یہ سائنس سیکنڈز کی حد تک درست بتا سکتی ہے تو کیا چاند کے طلوع کا ہم اس پہ اعتبار نہیں کر سکتے؟

ساجد صاحب کی رائے صائب ہے۔
آخر اوقات الصلوٰۃ کے سلسلے میں بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہیں نہیں فرمایا کہ موجودہ دور کی گھڑیوں کے مطابق فجر اتنے بج کر اتنے منٹ پر اور ظہر اتنے بج کر اتنے منٹ پر ادا کی جائے لیکن تمام دنیا کی تمام مساجد میں اوقات الصلوٰۃ انہی گھڑیوں کے مطابق آویزاں بھی ہوتے ہیں اور انہی کے مطابق نماز ادا بھی کی جاتی ہے تو چاند "دیکھنے" پر اس قدر اصرار کیوں۔
 
القلم پر حسن نظامی نے ایک مراسلہ صوبہ سرحد اور رؤیت ہلال کے نام سے شئیر کیا تھا وہ یہاں نقل کر رہا ہوں



جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ ۱۹۷۲ سے ۱۹۷۹ ء تک مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ممبر اور ۱۹۸۴ سے ۱۹۸۶ء تک چےئرمین رہے ہیں ۔ پیر صاحب قبلہ کازیر نظر مضمون ماہنامہ ضیائے حرم کے ستمبر ۱۹۸۵ء کے شمارہ میں شائع ہوا ہے ۔ اسے تازہ حالات میں استفادہ عامہ کے لیے ارسال کیا جا رہا ہے۔

صوبہ سرحد اور رؤیت ہلال
تحریر: جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ
سابق چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان۔
سابق جج سپریم کورٹ آف پاکستان

مسلسل کئی سالوں سے رمضان المبارک اور عید الفطر کے چاند کے بارے میں بدمزگی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ رؤیت ہلال کمیٹی اپنی تحقیق کے مطابق رؤیت ہلال کا اعلان کرتی ہے لیکن صوبہ سرحد میں بعض مقامات پر رؤیت ہلال کمیٹی کی اعلان کردہ تاریخ سے ایک دن پہلے اور بعض دفعہ دو دن رمضان المبارک کی آمد اور عید الفطر منانے کا اعلان کر دیا جاتا ہے جس سے صوبہ سرحد کے لوگ تو پریشانی کا شکار ہوتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے صوبوں کے لوگوں کو بھی تشویش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بدمزگی پر قابو پانے کے لیے اور اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے میں نے فیصلہ کیا کہ شعبان کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں منعقد کیا جائے ۔ اس سے میرے پیش نظر دو مقصد تھے۔ ایک تو یہ کہ اس شکوہ کو دور کیا جائے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی اپنے اجلاس دوسرے صوبوں میں منعقد کرتی ہے لیکن صوبہ سرحد کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ پشاور جا کر سرحد کے علماء سے تبادلہ خیال کر کے اتحاد و اتفاق کی صورت نکالی جائے۔ کیونکہ ماہ رمضان کے روزے ہوں یا یکم شوال کو عید الفطر ،یہ دونوں شرعی احکام ہیں ۔ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم ﷺ کے ارشادات کی تعمیل کرتے ہوئے روزے بھی رکھتے ہیں اور عید بھی مناتے ہیں۔ اس میں نہ کسی کا کوئی ذاتی مفاد ہے اور نہ صوبائی عصبیت۔ میں نے صوبہ سرحد کے ناظم اعلیٰ اوقاف جناب سیٹھی صاحب کو پیغام بھیجا کہ اس اجلاس میں مرکزی اور زونل رؤیت ہلال کمیٹی کے ارکان کے علاوہ سرحد کے دیگر علماء کو بھی شمولیت کی دعوت دی جائے تاکہ ان سے تبادلۂ خیال ہو سکے۔ چنانچہ میں اور دیگر اراکین 29 رجب المرجب 1405ھ مطابق 30 اپریل 1985 ء کو پشاور پہنچے۔ غروب آفتاب سے قبل ’’بالاحصار ‘‘میں علماء کا اجتماع ہوا، وہاں بھی میں نے ان حضرات کی خدمت میں یہاں(پشاور) میں اجلاس منعقد کرنے کے ان دونوں مقاصد کی وضاحت کی۔ مغرب کی نماز ’’بالاحصار ‘‘کی مسجد میں ادا کی۔ اس کے بعد چاند دیکھنے میں مصروف ہو گئے ۔ اگرچہ’’ بالاحصار ‘‘کا یہ گوشہ سارے علاقہ میں بلند ترین گوشہ تھا اور سامنے کوئی آڑ بھی نہ تھی لیکن کوشش بسیار کے باوجود کسی کو بھی چاند نظر نہ آیا۔ پھر ہم صوبائی سیکرٹریٹ میں ناظم اعلیٰ اوقاف کے دفتر میں آ گئے۔ وہاں پھر علماء کا اجتماع ہوا۔ صوبہ سرحد کے تقریباً تمام اضلاع کے ڈی سی صاحبان سے فون کے ذریعہ رابطہ قائم کیا جن کی صدارت میں ضلعی رؤیت ہلال کمیٹیوں کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے۔ لیکن سب نے یہی جواب دیا کہ بڑی کوشش کے باوجود شعبان المعظم کا چاند نظر نہیں آیا۔ پاکستان کے دوسرے صوبوں کے اہم مقامات پر منعقد ہونے والے اجلاسوں سے رابطہ قائم کیا، پنجاب، سندھ، بلوچستان، سب نے یہی اطلاع دی کہ چاند نظر نہیں آیا۔ اگرچہ بعض مقامات پر مطلع گرد آلود تھا لیکن بہت سے ایسے مقامات بھی تھے جہاں سے اطلاع ملی کہ مطلع صاف ہے باوجود کوشش کے چاند نظر نہیں آیا۔
محکمہ موسمیات کے افسران بھی اس اجتماع میں شریک تھے جنہوں نے مفصل تحریری رپورٹ دی کہ آج پاکستان کے کسی صوبہ کے کسی مقام پر رؤیت ہلال کا کوئی امکان نہیں۔ وہ تفصیلی رپورٹ میرے پاس ریکارڈ میں ہے اور محکمہ موسمیات کے دفتر سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی جس میں مولانا حسن جان صاحب جو سرحد کے نمائندہ ہیں وہ بھی شریک تھے ۔سب نے متفقہ طور پر چاند کے نظر نہ آنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلہ پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اراکین اور صوبہ سرحد کے زونل رؤیت ہلال کمیٹی کے ارکین نے بھی اپنے اپنے دستخط ثبت کئے۔ جن میں مولانا حسن جان صاحب سرفہرست تھے اور اس فیصلہ کے مطابق چاند کے نظر نہ آنے کا اعلان کیا گیا۔
اس کام سے فارغ ہونے کے بعد سرحد کے علماء کرام سے اس بدمزگی پر قابو پانے کے لیے گفتگو کاآغاز ہوا۔ وہاں کے علماء نے فرمایا کہ ہمارے یہاں لوگ دور دراز علاقوں میں آباد ہیں۔ ہمارے پاس رؤیت ہلال کی شہادت دیر سے پہنچتی ہے جبکہ کمیٹی کا اجلاس اختتام پذیر ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہوتا کہ ہم گواہان کی شہادتوں کے مطابق اپنے طور پر ہی چاند کے دیکھے جانے کا اعلان کر دیں۔ میں نے گزارش کی کہ جس طرح ہمارا فرض ہے کہ اس سلسلہ میں ہم آپ کو مطمئن کریں آپ کا بھی فرض ہے کہ آپ رؤیت ہلال کمیٹی کے دیگر اراکین کو بھی مطمئن کریں۔ یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ ہم لوگ آپ کی رؤیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ آپ کو یاد ہو گا گزشتہ سال رمضان المبارک کا چاند پاکستان میں کہیں نظر نہیں آیا تھا۔ سارے صوبہ سرحد میں صرف بنوں سے رؤیت کی خبر ملنے پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی نے رمضان المبارک کے چاند کے دیکھے جانے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس سانحہ کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگرچہ بعض حضرات نے اس رؤیت کو تسلیم نہیں کیا لیکن مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی نے اس کو تسلیم بھی کیا۔ اس کے مطابق اعلان بھی کیا۔ اس لیے یہ خیال غلط ہے کہ صوبہ سرحد میں اگر چاند دیکھا جائے تو دوسرے صوبوں والے اس کو تسلیم نہیں کرتے۔
میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ شرعی دلائل کے مطابق رؤیت کے بارے میں ہمیں مطمئن کر دیں گے تو ہم اس کو ماننے میں قطعًا پس و پیش نہیں کریں گے اور رؤیت کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر مطلع گرد آلود یا ابر آلود ہو تو رمضان شریف کے لیے ایک آدمی کی خبر اور عید الفطر وغیرہ کے لیے دومروں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت کافی ہے لیکن اگر مطلع صاف ہو تو پھر دو چار، دس بیس آدمیوں کی شہادت سے رؤیت ثابت نہیں ہوتی جب تک کہ جم غفیر رؤیت ہلال کی گواہی نہ دے۔
یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ شہروالوں کو تو کہیں چاند نظر نہ آئے حالانکہ وہاں کئی منزلہ اونچے مکانات ہوتے ہیں اور ان پر چڑھ کر چاند بآسانی دیکھا جا سکتا ہے اور صرف دور دراز کے دیہات میں بسنے والے چند آدمیوں کو چاند نظر آجائے اور اگر ایسا ہو بھی تو آج کل ٹیلی فون کی سہولتیں دور دراز علاقوں میں بھی میسر ہیں۔ کم از کم ہر تھانہ میں فون موجود ہے۔ غروب آفتاب کے بعد ایک گھنٹہ کے اندر اندر چاند نظر آنا ہو تو نظر آ جاتا ہے اور جنہیں چاند نظر آئے وہ بآسانی ایک گھنٹے کے اندر اندر ٹیلی فون تک پہنچ سکتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر ہم سے رابطہ قائم کریں کہ ہم نے چاند دیکھ لیا ہے۔ ہم ان کا انتظار کریں گے اور اگر مان لیا جائے کہ یہاں صرف دیہات میں چاند نظر آتا ہے جہاں آبادی بھی قلیل ہے اور چاند دیکھنے کے مواقع بھی کم ہیں اور گاؤں فون سے اس قدر دور ہے کہ وہاں پہنچنے میں طویل وقت درکار ہے تو اس صورت میں باہمی مشورہ سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسے گواہوں کو جتنا جلدی ممکن ہو سکے زونل رؤیت ہلال کمیٹی کے ارکان کے سامنے پیش کیا جائے اور اگر بالاتفاق ان کی شہادت کو قبول کر کے رؤیت کا فیصلہ دے دیں تو مجھے مطلع کر دیا جائے تاکہ میں سابقہ اعلان کے بجائے نیا اعلان کر دوں کہ چاند نظر آنے کی شرعی شہادت مل گئی ہے۔ اہل پاکستان اس کے مطابق روزہ رکھیں یا عید منائیں۔ چنانچہ اس بات پر تمام شرکاء نے اتفاق کیا اور میں خوش خوش واپس آیا کہ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا ہے اور اختلاف ختم کرنے کی ایک قابل عمل صورت نکل آئی ہے جس کو سب نے بالاتفاق منظور کر لیا ہے۔
ہم نے وہ رات پشاور میں گزاری، اگلا پورا دن بھی وہی بسر کیا اور مغرب سے پہلے واپسی ہوئی، اتنے عرصہ میں ہمیں کسی نے اطلاع نہ دی کہ کسی نزدیک یا دور دراز علاقہ سے ہلال شعبان کی رؤیت کی شہادت مل گئی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق جس کی تصدیق محکمہ موسمیات کی رپورٹ سے ہو گئی تھی اور ملک کے تمام اضلاع سے آمدہ اطلاعات نے بھی اس کی تصویب کر دی تھی کہ انتیس رجب کو شعبان کا چاند نظر نہیں آیا۔
نصف سے زیادہ شعبان خاموشی سے گزر گیا ہمیں کسی نے اطلاع نہ دی کہ چاند ایک دن پہلے دیکھا گیا ہے ۔بیس شعبان کے بعد افواہیں گرم ہوئیں کہ صوبہ سرحد کے بعض علماء نے ایک دن پہلے ہلال شعبان کے دیکھے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ علماء کے اس اجتماع میں جو متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا اس کی خلاف ورزی کیوں کی گئی ؟اگر واقعی وہاں کے علماء کے سامنے ہلال شعبان کی رؤیت ایک دن پہلے ثابت ہو گئی تھی تو انہوں نے معاہدہ کے مطابق فوری طور پر زونل رؤیت ہلال کمیٹی کا اجلاس کیوں طلب نہ کیا اور اس کمیٹی کے سامنے گواہوں کی شہادتیں کیوں نہ لیں اور اس فیصلہ سے ہمیں کیوں مطلع نہ کیا گیا۔
ٍ انتیس شعبان مطابق بیس مئی۱۹۸۵ء، جب ماہ رمضان کے ہلال کی رؤیت کے لیے کراچی میں مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس وقت چار سدہ کے متعدد علماء کا یہ فتویٰ پیش ہوا کہ آج انتیس نہیں بلکہ تیس شعبان ہے لیکن مطلع صاف ہونے کے باوجود پاکستان کے کسی گوشہ سے چاند کے دیکھے جانے کی اطلاع نہ ملی۔ سرحد سے بھی زونل کمیٹی یا کسی ضلع کمیٹی کی طرف سے چاند دیکھنے کی اطلاع نہ ملی۔ حالانکہ آج اگر چاند کی تیس تاریخ ہوتی تو چاند کا نظر آنا یقینی تھا ۔اس رات کو مطلع صاف ہونے کے باوجود چاند کا نظر نہ آنا علماء چارسدہ کے فتویٰ کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی تھا۔ نیز محکمہ موسمیات کے ماہرین بھی اس اجتماع میں شریک تھے، انہوں نے جو رپورٹ پیش کی اس سے بھی ظاہر ہوتا تھا کہ آج پاکستان کے کسی حصہ میں چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں۔ چنانچہ پوری تحقیق کے بعد مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی اور کراچی کی زونل رؤیت ہلال کمیٹی کے جملہ اراکین نے متفقہ فیصلہ کیا کہ رمضان المبارک کا چاند آج کہیں نظر نہیں آیا، اس لیے پہلا روزہ کل بروز منگل کے بجائے پرسوں بروز بدھ مطابق 22 مئی کو ہو گا۔ اس فیصلہ پر بھی سرحد کے حضرت مولانا حسن جان صاحب نے دوسرے اراکین کی طرح دستخط کئے اور میں نے اس کا اعلان بطور چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان سے کیا۔
لوگ اطمینان سے رمضان المبارک کی برکتوں سے بہرہ اندوز ہو رہے تھے کہ یکایک معلوم ہوا کہ سرحد کے بعض علماء کا ایک اجلاس 21 رمضان المبارک مطابق 11 جون 85 ء منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ چاند کی رؤیت ہو یا نہ ہو اٹھارہ جون کو تیس ماہ رمضان قرار دیا جائے اور انیس جون کو عید الفطر منائی جائے۔
یہ فیصلہ سراسر احکام شریعت کے خلاف ہے کیونکہ چاند انتیس کا بھی ہو سکتا ہے اور تیس کا بھی، انہیں کس نے بتایا کہ اس دفعہ چاند تیس کا ہو گا اور عید بروز بدھ 19 جون کو منائی جائے گی۔ ہو سکتا کہ چاند انتیس کا ہوتا اور ایک روزقبل طلوع ہوتا اور ان کے حساب کے مطابق عید منگل کو منائی جاتی۔ دس دن قبل عید کا یہ تعین کم از کم شریعت اسلامیہ سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔
پوری ایمانداری سے انتہائی کوشش کرنے کے باوجود ہم اپنے ان بزرگ علماء کے فیصلوں کی صحیح توجیہہ نہیں کر سکے اور نہ ہی مجھے اس کی حقیقت تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ ہمیں یہ فیصلے خصوصاً عید کے بارے میں ان کا فیصلہ احکام شرعیہ کے سراسر خلاف نظر آتا ہے ۔میں ان علماء کی خدمت میں مؤدبانہ التماس کرتا ہوں کہ وہ اپنے طرزعمل پر نظرثانی کریں اور اسے اپنی انا یا کسی عصبیت کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی مکرم ﷺ نے جو شاہراہ ہدایت ہمیں دیکھائی ہے اس پر ثابت قدمی سے چلتے رہیں۔اس سے ہمارا افتراق و انتشار، اتفاق و اتحاد سے بدل سکتا ہے اور اس سے ہم باطل کی طاغوتی طاقتوں کے سامنے ایک فولادی چٹان بن کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔
آخر میں حکومت پاکستان کے جملہ کار پردازوں سے خصوصاً محترم گورنر سرحد اور جناب وزیراعلیٰ سرحد کی خدمت میں پرزور التماس کرتا ہوں کہ وہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے ان فیصلوں کا جو بڑی تحقیق اور پوری ذمہ داری سے کئے جاتے ہیں خود بھی احترام کریں اور عوام کو بھی ان کے احترام کرنے کی تلقین کریں تاکہ ان عناصر کی حوصلہ شکنی ہوجو دین کے پردے میں ملک میں انتشار و افتراق کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں اور اپنے طرز عمل سے دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دین اسلام میں اور شریعت اسلامیہ میں اب اتنی تاب و تواں نہیں کہ وہ ملت کو متحد و منظم رکھ سکے۔
 

دوست

محفلین
مجھے کوئی بس اتنا بتا دے کہ جس دن سرحد میں چاند دیکھ لیے جانے کا اعلان ہوا اس دن یہ ممکن تھا کہ سرحد میں چاند نظر آجاتا؟ میں‌ پچھلے ہزار سال کی بات نہیں کررہا اور نہ ہی ان عیدوں پر شک کررہا ہوں لیکن آج کے دور میں جبکہ ہمارے پاس جدید سہولیات موجود ہیں تو میرا سوال بس اتنا ہے کہ چاند کے سائنسی کیلنڈر کے مطابق کیا سرحد کے علاقے میں اس دن چاند نظر آنے کا امکان تھا؟ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر چاند کیسے نظر آگیا۔ اوپر پوسٹ کیے گئے مضمون سے پیر اکرم شاہ صاحب کا ہے سے بھی سراسر قصور سرحد کے علماء کا نکلتا ہے۔ یا پھر مجھے پڑھنے میں مغالطہ ہوا ہے۔
 

گرائیں

محفلین
مجھے کوئی بس اتنا بتا دے کہ جس دن سرحد میں چاند دیکھ لیے جانے کا اعلان ہوا اس دن یہ ممکن تھا کہ سرحد میں چاند نظر آجاتا؟ میں‌ پچھلے ہزار سال کی بات نہیں کررہا اور نہ ہی ان عیدوں پر شک کررہا ہوں لیکن آج کے دور میں جبکہ ہمارے پاس جدید سہولیات موجود ہیں تو میرا سوال بس اتنا ہے کہ چاند کے سائنسی کیلنڈر کے مطابق کیا سرحد کے علاقے میں اس دن چاند نظر آنے کا امکان تھا؟ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر چاند کیسے نظر آگیا۔ اوپر پوسٹ کیے گئے مضمون سے پیر اکرم شاہ صاحب کا ہے سے بھی سراسر قصور سرحد کے علماء کا نکلتا ہے۔ یا پھر مجھے پڑھنے میں مغالطہ ہوا ہے۔

جی نہیں دوست۔ اس دن صوبہ میں چاند کے نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ تفصیل کے لئے یہ ربط

جمیل مرغز کے مضمون کا میں جواب دینا چاہتا تھا، مقامی اخبار کے نمائندے سے دعا سلام ہے، مگر میں نے پھر اس لئے جواب نہیں دیا کہ جب انھوں نے بڑے بڑے علما کی نہیں سنی تو میں کیا چیز ہوں۔
 

کعنان

محفلین
رویت ہلال ‘مسئلہ کیا ہے؟

رویت ہلال ‘مسئلہ کیا ہے؟



اس سال بھی رویت ہلال کو متنازعہ بنادیا گیا اور اس پر ایک محاذ آرائی شروع ہوگئی ہے۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ صوبہ سرحد کی اے این پی کی حکومت نے اسے علاقائی اور مسلکی تنازع بنانے کی کوشش شروع کردی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک خالص دینی مسئلہ کو اے این پی اچھال رہی ہے جو خود کو سیکولر کہتی ہے۔ اس کے وزراءکا دعوی ہے کہ سیکولرازم انسانیت کا مذہب ہے۔ تو کیا اسلام کا کوئی تعلق انسانیت سے نہیں ہے؟

ایوب خان کے دور حکومت کے بعد یہ بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک صوبہ کی حکومت شرعی معاملہ میں کود پڑی ہے اور اے این پی کے وزراء عید کے بعد بھی پریس کانفرنسیں کرنے میں مصروف ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جب رویت ہلال کمیٹی کو ذمہ داری سونپی گئی ہے تو اس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔

گزشتہ سال بھی کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے واضح کیا تھا کہ اگر قاضی کی طرف سے کوئی فیصلہ غلط ہو تو بھی اس کو تسلیم کرنا لازم ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اے این پی کے عزائم کچھ اور ہیں ور نہ یہ کہہ کرقومیت اور صوبائیت کو ہوا نہ دی جاتی کہ رویت ہلال کمیٹی صرف پنجاب کے لیے ہے اورپختونوں کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔

وفاقی وزیر ریلوے اور اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے تمام حدیں ہی عبور کردیں۔انہوں نے فرمایا کہ” اتوارکا روزہ رکھنے والے ربوہ (قادیانیت) کے ساتھ ہیں، ہم مسلمان تبھی ہوسکتے ہیں جب مکہ ، مدینہ کے ساتھ عید منائیں“ حیرت ہے کہ غلام احمد بلور پاکستان کے عوام کی اکثریت کو غلام احمد قادیانی کے متعلقین سے جوڑرہے ہیں جبکہ خود صوبہ سرحد میں بھی بہت سے لوگوں نے اتوار کو روزہ رکھ کر پیر کے دن عید منائی، وہ اگر جائزہ لیں تو ممکن ہے کہ اے این پی ہی میں بہت سے ایسے لوگ نکل آئیں ۔

اس موقع پرجمعیت علماءاسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کرکے معاملہ کو دیوبندی، بریلوی تنازعہ بننے سے بچالیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کا اطلاق پورے ملک پر ہوتا ہے۔

رویت ہلال کمیٹی 1972ءمیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس وقت قائم کی گئی تھی جب رویت ہلال کے معاملہ میں انتشار کی کیفیت تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے نہ کہ انہیں کمزور کیا جائے۔ اے این پی کے رہنما مطالبہ کررہے ہیں کہ مفتی منیب الرحمن کی جگہ مولانا پوپلزئی کو کمیٹی کا چیئرمین بنایا جائے اور یہ کہ مفتی منیب الرحمن جنرل پرویز مشرف کی باقیات ہیں۔

اب اس معاملہ میں سیاست بھی داخل ہوگئی ہے اور جواباً مفتی صاحب نے بھی کہا ہے کہ پرویزمشرف کی باقیات وہ نہیں بلکہ اے این پی ہے جس نے حدود آرڈیننس کے معاملہ میں پرویزمشرف کا ساتھ دیا تھا۔

اے این پی نے عید سے پہلے ہی یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ عید سعودی عرب کے ساتھ منائی جاہے اور مفتی غلام احمد بلور فرما رہے ہیں کہ مکہ، مدینہ کے ساتھ عید نہ منانے والے مسلمان ہی نہیں ہوسکتے۔

تو کیا براعظم پاک وہند کے مسلمان اب تک مسلمان ہی نہیں تھی؟ پھر صرف عید ہی کیوں، اذان نماز ، تراویح ، افطار ، شب قدر سب کچھ سعودی عرب کے ساتھ ہونا چاہیے جو ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو سپاٹ نہیں گول بنایا ہے تو اس میں یقیناً کوئی حکمت ہے۔

چاند اور سورج بیک وقت پوری دنیا میں طلاع وغروب نہیں ہوتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی تنازعہ ہے ہی نہیں۔ ہم سے صرف اتنا کہا گیا ہے کہ چاند نظر آجائے تو روزہ رکھ لو اور دوسرا چاند نظر آئے تو عید کرلو۔اب جس علاقہ میں مستند شہادت رویت ہلال کی ہو وہاں عید کرلی جائے۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ملک بھر میں ایک ساتھ عید ہو۔

غیرمنقسم ہندوستان میں بھی دو دو عیدیں ہوجاتی تھیں۔ اتحاد، اتفاق، یکجہتی اور ایک قوم ہونے کے اظہار کے اور زیادہ بہتر طریقے ہیں، پہلے ان پر تو عمل کرلیا جائے۔ مناسب ہوتا کہ صوبہ سرحد کی حکمران اے این پی خود کو اس تنازع سے دور رکھتی، تاہم یہ تجویز ضرور قابل عمل ہے کہ آئندہ چاند دیکھنے کا اہتمام پشاور میں بھی کیا جائے اورشہادتیں خواہ مسجد قاسم علی خان میں موصول ہوں ان کی چھان بین کی جائے۔

یہ بات صحیح نہیں کہ مفتی منیب الرحمن کے چیئرمین بننے کے بعد سے ملک میں دو عیدیں ہورہی ہیں۔ یہ رویت ہلال کمیٹی بننے سے پہلے بھی ہوتا تھا اور مفتی پوپلزئی کو چیئرمین بنانے کے بعد بھی ہوسکتا ہے ۔

تحمل بردباری اور خوف خدا اس معاملہ میں نہایت ہی ضروری ہے اللہ تعالیٰ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔


(تلخبانہ)
 

ساجد

محفلین
رویت ہلال ‘مسئلہ کیا ہے؟



اس سال بھی رویت ہلال کو متنازعہ بنادیا گیا اور اس پر ایک محاذ آرائی شروع ہوگئی ہے۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ صوبہ سرحد کی اے این پی کی حکومت نے اسے علاقائی اور مسلکی تنازع بنانے کی کوشش شروع کردی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک خالص دینی مسئلہ کو اے این پی اچھال رہی ہے جو خود کو سیکولر کہتی ہے۔ اس کے وزراءکا دعوی ہے کہ سیکولرازم انسانیت کا مذہب ہے۔ تو کیا اسلام کا کوئی تعلق انسانیت سے نہیں ہے؟

ایوب خان کے دور حکومت کے بعد یہ بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک صوبہ کی حکومت شرعی معاملہ میں کود پڑی ہے اور اے این پی کے وزراء عید کے بعد بھی پریس کانفرنسیں کرنے میں مصروف ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جب رویت ہلال کمیٹی کو ذمہ داری سونپی گئی ہے تو اس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔

گزشتہ سال بھی کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے واضح کیا تھا کہ اگر قاضی کی طرف سے کوئی فیصلہ غلط ہو تو بھی اس کو تسلیم کرنا لازم ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اے این پی کے عزائم کچھ اور ہیں ور نہ یہ کہہ کرقومیت اور صوبائیت کو ہوا نہ دی جاتی کہ رویت ہلال کمیٹی صرف پنجاب کے لیے ہے اورپختونوں کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔

وفاقی وزیر ریلوے اور اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے تمام حدیں ہی عبور کردیں۔انہوں نے فرمایا کہ” اتوارکا روزہ رکھنے والے ربوہ (قادیانیت) کے ساتھ ہیں، ہم مسلمان تبھی ہوسکتے ہیں جب مکہ ، مدینہ کے ساتھ عید منائیں“ حیرت ہے کہ غلام احمد بلور پاکستان کے عوام کی اکثریت کو غلام احمد قادیانی کے متعلقین سے جوڑرہے ہیں جبکہ خود صوبہ سرحد میں بھی بہت سے لوگوں نے اتوار کو روزہ رکھ کر پیر کے دن عید منائی، وہ اگر جائزہ لیں تو ممکن ہے کہ اے این پی ہی میں بہت سے ایسے لوگ نکل آئیں ۔

اس موقع پرجمعیت علماءاسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کرکے معاملہ کو دیوبندی، بریلوی تنازعہ بننے سے بچالیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کا اطلاق پورے ملک پر ہوتا ہے۔

رویت ہلال کمیٹی 1972ءمیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس وقت قائم کی گئی تھی جب رویت ہلال کے معاملہ میں انتشار کی کیفیت تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے نہ کہ انہیں کمزور کیا جائے۔ اے این پی کے رہنما مطالبہ کررہے ہیں کہ مفتی منیب الرحمن کی جگہ مولانا پوپلزئی کو کمیٹی کا چیئرمین بنایا جائے اور یہ کہ مفتی منیب الرحمن جنرل پرویز مشرف کی باقیات ہیں۔

اب اس معاملہ میں سیاست بھی داخل ہوگئی ہے اور جواباً مفتی صاحب نے بھی کہا ہے کہ پرویزمشرف کی باقیات وہ نہیں بلکہ اے این پی ہے جس نے حدود آرڈیننس کے معاملہ میں پرویزمشرف کا ساتھ دیا تھا۔

اے این پی نے عید سے پہلے ہی یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ عید سعودی عرب کے ساتھ منائی جاہے اور مفتی غلام احمد بلور فرما رہے ہیں کہ مکہ، مدینہ کے ساتھ عید نہ منانے والے مسلمان ہی نہیں ہوسکتے۔

تو کیا براعظم پاک وہند کے مسلمان اب تک مسلمان ہی نہیں تھی؟ پھر صرف عید ہی کیوں، اذان نماز ، تراویح ، افطار ، شب قدر سب کچھ سعودی عرب کے ساتھ ہونا چاہیے جو ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو سپاٹ نہیں گول بنایا ہے تو اس میں یقیناً کوئی حکمت ہے۔

چاند اور سورج بیک وقت پوری دنیا میں طلاع وغروب نہیں ہوتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی تنازعہ ہے ہی نہیں۔ ہم سے صرف اتنا کہا گیا ہے کہ چاند نظر آجائے تو روزہ رکھ لو اور دوسرا چاند نظر آئے تو عید کرلو۔اب جس علاقہ میں مستند شہادت رویت ہلال کی ہو وہاں عید کرلی جائے۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ملک بھر میں ایک ساتھ عید ہو۔

غیرمنقسم ہندوستان میں بھی دو دو عیدیں ہوجاتی تھیں۔ اتحاد، اتفاق، یکجہتی اور ایک قوم ہونے کے اظہار کے اور زیادہ بہتر طریقے ہیں، پہلے ان پر تو عمل کرلیا جائے۔ مناسب ہوتا کہ صوبہ سرحد کی حکمران اے این پی خود کو اس تنازع سے دور رکھتی، تاہم یہ تجویز ضرور قابل عمل ہے کہ آئندہ چاند دیکھنے کا اہتمام پشاور میں بھی کیا جائے اورشہادتیں خواہ مسجد قاسم علی خان میں موصول ہوں ان کی چھان بین کی جائے۔

یہ بات صحیح نہیں کہ مفتی منیب الرحمن کے چیئرمین بننے کے بعد سے ملک میں دو عیدیں ہورہی ہیں۔ یہ رویت ہلال کمیٹی بننے سے پہلے بھی ہوتا تھا اور مفتی پوپلزئی کو چیئرمین بنانے کے بعد بھی ہوسکتا ہے ۔

تحمل بردباری اور خوف خدا اس معاملہ میں نہایت ہی ضروری ہے اللہ تعالیٰ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔


(تلخبانہ)
کنعان ، تو پھر دیگر ممالک جو رقبے میں پاکستان سے بھی بڑے ہیں اور وہاں مسلمان حکمران ہیں وہاں ایک عید کیسے کی جاتی ہے؟
 

کعنان

محفلین
کنعان ، تو پھر دیگر ممالک جو رقبے میں پاکستان سے بھی بڑے ہیں اور وہاں مسلمان حکمران ہیں وہاں ایک عید کیسے کی جاتی ہے؟


السلام علیکم

ڈئر برادر یہ مسئلہ"'عید کا چاند سعودی عرب کے حساب سے منانے کی کیا تُک؟" تھا جو سرحد پر ایک دن پہلے عید منانے پر شروع ہوا
اگر آپ ان مسلمان ملکوں کے نام بھی لکھ دیتے تو ان کا بتانے میں بھی آسانی ہوتی۔ چلو اس پر بھی تھوڑا بتا دیتا ہوں۔
اس مرتبہ پورے عرب میں ایک دن عید نہیں منائی گئی
بلکہ سعودی عرب اور الامارات اور کا ہی نام سنا تھا کہ اتوار کو عید ہوئی ھے یا کچھ اور بھی ہونگے۔
مگر " سلطنت آف عمان" اور دیگر عرب ممالک میں عید پیر کے دن ہی منائی گئی ھے۔ خیال رہے کہ یہ ملک جی7 میں آتا ھے ( عرب ممالک نے بھی ایک جی7 بنائی ہوئی ھے جس کے ممبران امیر ترین عرب ممالک ہیں)
اب یہ دوسرے مسلمان ممالک میں شامل ہوتا ھے
مزید آگے بڑھتے ہیں

ویسے انگلینڈ، یورپ ، کینیڈا، امریکہ میں پچھلے بہت سالوں سے 2عیدے منائی جا رہی تھیں اور کبھی کبھی 3، جس پر مذاق سی کیفیت ہوتی تھی۔
مگر اس مرتبہ ان تمام ممالک میں‌ ایک ہی دن اتور کو عید منائی گئی بہت اچھا لگا مگر یورپ کے کچھ سٹیٹس میں پیر کو عید منائی گئی۔
مگر اس مرتبہ پورے عرب میں ایک دن عید نہیں منائی گئی۔

والسلام
 

ساجد

محفلین
نہیں ، کنعان ، میں پورے جزیرۃالعرب کی بہ حیثیت مجموعی ایک ہی دن عید کی بات نہیں کر رہا۔
میرا کہنے کا مقصد تھا کہ آپ لیبیا یا سعودی عرب کو لے لیں دونوں ممالک رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے بڑے ہیں لیکن وہاں حسب سابق ایک ہی دن ان کی پوری قوم نے عید منائی۔
یہ ہو سکتا ہے کہ مراکش ،الجزائر اور موریطانیہ کی عید کے دن اور مسقط و بحرین کی عید کے روز میں ایک دن کا فرق آ جاتا ہو لیکن ان میں سے ہر ملک کی عوام دو عیدیں منانے کی بجائے ایک ہی دن عید مناتی ہے۔
کیا ہم پاکستانی ایسا نہیں کر سکتے؟
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم جناب ساجد

اوپر جتنے ممبران نے اپنے اپنے موقف پیش کئے ہیں اگر آپ ان کو بغور مطالعہ کرتے تو آپ کو ساری سمجھ آ جاتی کیونکہ ہر ممبر کی پوسٹ میں‌ کہیں نہ کہیں مفید معلومات موجود تھیں
پھر بھی میں آپ کو سب کی معلومات اکٹھی کر دیتا ہوں


صدیوں سے مسلم دنیا میں عید کا چاند علاقے کے حساب سے دیکھا جاتا رہا اور اسی لحاظ سے عید منائی جاتی رہی۔
مگر اب ایک نئی بدعت کا اضافہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ اپنے علاقے کے چاند واند کو بھول جاؤ اور سعودیہ کے چاند کے حساب سے روزے رکھو اور عید مناؤ۔
مگر اب یہ بیماری بقیہ ملک میں بھی پھیل گئی ہے اور پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کو اس حد تک بدنام کر دیا جائے کہ لوگ اس سے بیزار ہو کر سعودیہ کے ساتھ عید منانا شروع کر دیں۔

[بی بی سی پر ایک تبصرے سے ماخوذ]
آپ کو شاید معلوم نہيں کہ مرکزی رويتِ ہلال کميٹی کوسپارکو اور نيوی کے نيويگيشن ونگ کی مکمل معاونت حاصل ہوتی ہے


سعودی علماء کرام کی جانب سے پہلے ہی کہا جاچکا ہے کہ ہر ملک اپنے علاقوں میں چاند دیکھے اور اسی کے حساب سے ہجری تاریخوں کا تعین کرے۔


السلام علیکم !
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی شریعت میں سورج اور چاند دونوں ہی کے حساب سے بعض عبادات مرکب ہیں جس طرح دن رات کی پانچ نمازوں کا حساب سورج کے حساب سے ہےبالکل ٹھیک اسی طرح سے عیدین کی عبادت کے تحقق کا تعلق روئیت ہلال سے ہے ۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں حکومت پاکستان کی طرف سے روئیت ہلال کے تعین مسئلہ پر مرکزی روئیت ہلال کمیٹی اور اسکی زونل کمیٹیوں کی صورت میں باقاعدہ قضاء کا نظام رائج ہے ۔ لہذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے سرکاری کمیٹی کے مقابل اپنی ایک الگ سے کمیٹی قائم کرلے ۔ ۔ ۔
اور جو اس نظام کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اسلامی شریعت کی مخالفت کرکے مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانے کا کام کرتا ہے۔اور یوں مسلمانوں کی راہ سے ہٹ کر الگ ایک راہ پر چلتا ہے جو کہ یقینا طاغوت کی راہ ہے اور یوں قرآنی فتوٰی کی رو سے جہنم کا باعث بنتا اور اس طرح سے اسلامی شریعتی قانون کی توہین کرکے خود اسلام کی تحقیر کا باعث بنتا ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ملکی قانون و آئین کی توہین کا بھی باعث بنتا ہے ۔

سخنور صاحب،
کیونکہ:
2۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب رات تک سعودیہ والے چاند دیکھ کر رمضان کے مہینے کے آغاز کا اعلان کریں گے،
اُسوقت تک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مسلمان ناشتہ کر کے اپنے اپنے کاموں پر روانہ ہو چکے ہوں گے۔
چنانچہ، روزہ کا وقت شروع ہوتے وقت انکے لیے ممکن نہیں کہ وہ روزے کی نیت کریں، یا روزہ نہ رکھنے کی نیت کریں۔
3۔ یہی حال عید کے دن کا ہے۔ جب سعودیہ میں چاند نظر آنے کی اطلاع آئے گی
اُسوقت تک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں لوگ اگلا روزہ رکھ چکے ہوں گے اور اُن سب کو پھر اپنے روزے توڑنا ہوں گے۔
4۔ اور اہم بات یہ ہے کہ ہم اسلامی تاریخوں کا ایک ہی طرح خیر مقدم کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جس میں‌کہا‌گیا ہے کہ
چاند دیکھ کر روزے کا آغاز کرو اور شوال کا چاند دیکھ کے اختتام۔۔۔
ہمیشہ سے محکمہ موسمیات اور مرکزی رویت ہلال ایک ہی نقطے پر متفق رہے

کرہ ارض کے ایک حصہ سے دوسرے حصے تک تقریباً بارہ گھنٹہ کا فرق ہوتا ہے یعنی ایک حصہ میں دن ہوتا ہے تو دوسرے میں رات،اگر سعودی عرب کے ساتھ روزہ اور عید کا سلسلہ کیا جائے تو کیونکر ممکن ہو گا ۔ ملائشیا،انڈونیشیا تو خیر مسلم ممالک ہیں آسٹریلیا۔نیوزی لینڈ،امیکہ و کینڈا والے مسمان کتنا انتظار کریں گے کہ آج روزہ رکھنا ہے یا عید کرنی ہے کیونکہ سعودیہ کی طرف سے اعلان ہونے میں تو یہی ٹائم کا فرق آڑے ہو گا ۔

نیز ایک مسئلہ یہ ہے کہ رمضان کا آغاز کیسے کیا جائے؟
فرض کریں نیوزی لینڈ میں لوگوں کو چاند نظر نہیں آیا۔
اس لیے انہوں نے صبح کو رزہ نہیں رکھا۔ سعودیہ میں بھی نظر نہیں آیا،
افریقہ میں بھی نظر نہیں آیا،
مگر پھر امریکہ میں اس دن جا کر نظر آ جاتا ہے
اور اس وقت نیوزی لینڈ میں یقینا دوپہر ہو چکی ہے۔
تو کیا نیوزی لینڈ والے دوپہر تک کھاتے پیتے رہیں اور اسکے بعد روزے کا آغاز کریں؟


یہ کچھ انفارمیشن ہیں آپ ان کو پڑھ لیں

میں یونائٹڈ کنگڈم کے رہتا ہوں اور یونائٹڈ کنگڈم کی بھی چار ہی سٹیٹس ہیں ( انگلینڈ، سکارٹ لینڈ، ائرلینڈ، ویلسز) اور یہاں پر عید کا اعلان شہر "برمنگھم" سے ہوتا ھے ۔ اور عید پورے کنگڈم میں منائی جاتی ھے۔ پورے یو۔کے میں پاکستانی کمیونٹی کی انگنت مساجد ہیں ۔
اسی سال روزے بھی ایک ہی دن رکھے گئے، 29 روزے ہونے سے پورے یو۔کے میں ایک ہی دن عید منائی گئی ورنہ ہر سال یہاں پر بھی دو ہی عیدیں ہوتی تھیں ۔ آگے کا پتہ نہیں عید عید الاضہٰی پر کیا ہو گا۔

وجہ صرف "سرحد" والی ہی ھے۔
دیوبند علماء یہاں رمضان کے روزے عید الفطر اور عید الاضہٰی سعودی عرب کے ساتھ ہی کرتے ہیں چاند دیکھ کر نہیں۔
اور اھل سنت علماء رمضان ، عید الفطر اور عید الاضہٰی دوسرے دن کرتے ہیں چاند کے حساب سے۔

یہ اشو ہر سال چھیڑے جاتے ہیں مگر ان کا حل کوئی نہیں سب اپنے اپنے اعلان کے مطابق چلتے ہیں۔

والسلام
 

کعنان

محفلین
قرآن مجید کی اس آیت کو بھی پڑھ کے جواب سے مستفید ہو سکتے ہیں۔


سورۃ البقرۃ:2 , آیت:189 (اے حبیب!) لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج (کے تعیّن) کے لئے وقت کی علامتیں ہیں، اور یہ کوئی نیکی نہیں کہ تم (حالتِ احرام میں) گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے آؤ بلکہ نیکی تو (ایسی الٹی رسموں کی بجائے) پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ
 

فرخ منظور

لائبریرین
رویت ہلال ‘مسئلہ کیا ہے؟



اس سال بھی رویت ہلال کو متنازعہ بنادیا گیا اور اس پر ایک محاذ آرائی شروع ہوگئی ہے۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ صوبہ سرحد کی اے این پی کی حکومت نے اسے علاقائی اور مسلکی تنازع بنانے کی کوشش شروع کردی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک خالص دینی مسئلہ کو اے این پی اچھال رہی ہے جو خود کو سیکولر کہتی ہے۔ اس کے وزراءکا دعوی ہے کہ سیکولرازم انسانیت کا مذہب ہے۔ تو کیا اسلام کا کوئی تعلق انسانیت سے نہیں ہے؟

ایوب خان کے دور حکومت کے بعد یہ بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک صوبہ کی حکومت شرعی معاملہ میں کود پڑی ہے اور اے این پی کے وزراء عید کے بعد بھی پریس کانفرنسیں کرنے میں مصروف ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ جب رویت ہلال کمیٹی کو ذمہ داری سونپی گئی ہے تو اس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔

گزشتہ سال بھی کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے واضح کیا تھا کہ اگر قاضی کی طرف سے کوئی فیصلہ غلط ہو تو بھی اس کو تسلیم کرنا لازم ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اے این پی کے عزائم کچھ اور ہیں ور نہ یہ کہہ کرقومیت اور صوبائیت کو ہوا نہ دی جاتی کہ رویت ہلال کمیٹی صرف پنجاب کے لیے ہے اورپختونوں کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔

وفاقی وزیر ریلوے اور اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے تمام حدیں ہی عبور کردیں۔انہوں نے فرمایا کہ” اتوارکا روزہ رکھنے والے ربوہ (قادیانیت) کے ساتھ ہیں، ہم مسلمان تبھی ہوسکتے ہیں جب مکہ ، مدینہ کے ساتھ عید منائیں“ حیرت ہے کہ غلام احمد بلور پاکستان کے عوام کی اکثریت کو غلام احمد قادیانی کے متعلقین سے جوڑرہے ہیں جبکہ خود صوبہ سرحد میں بھی بہت سے لوگوں نے اتوار کو روزہ رکھ کر پیر کے دن عید منائی، وہ اگر جائزہ لیں تو ممکن ہے کہ اے این پی ہی میں بہت سے ایسے لوگ نکل آئیں ۔

اس موقع پرجمعیت علماءاسلام کے صدر مولانا فضل الرحمن نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کرکے معاملہ کو دیوبندی، بریلوی تنازعہ بننے سے بچالیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کا اطلاق پورے ملک پر ہوتا ہے۔

رویت ہلال کمیٹی 1972ءمیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس وقت قائم کی گئی تھی جب رویت ہلال کے معاملہ میں انتشار کی کیفیت تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اداروں کو مضبوط کیا جائے نہ کہ انہیں کمزور کیا جائے۔ اے این پی کے رہنما مطالبہ کررہے ہیں کہ مفتی منیب الرحمن کی جگہ مولانا پوپلزئی کو کمیٹی کا چیئرمین بنایا جائے اور یہ کہ مفتی منیب الرحمن جنرل پرویز مشرف کی باقیات ہیں۔

اب اس معاملہ میں سیاست بھی داخل ہوگئی ہے اور جواباً مفتی صاحب نے بھی کہا ہے کہ پرویزمشرف کی باقیات وہ نہیں بلکہ اے این پی ہے جس نے حدود آرڈیننس کے معاملہ میں پرویزمشرف کا ساتھ دیا تھا۔

اے این پی نے عید سے پہلے ہی یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ عید سعودی عرب کے ساتھ منائی جاہے اور مفتی غلام احمد بلور فرما رہے ہیں کہ مکہ، مدینہ کے ساتھ عید نہ منانے والے مسلمان ہی نہیں ہوسکتے۔

تو کیا براعظم پاک وہند کے مسلمان اب تک مسلمان ہی نہیں تھی؟ پھر صرف عید ہی کیوں، اذان نماز ، تراویح ، افطار ، شب قدر سب کچھ سعودی عرب کے ساتھ ہونا چاہیے جو ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو سپاٹ نہیں گول بنایا ہے تو اس میں یقیناً کوئی حکمت ہے۔

چاند اور سورج بیک وقت پوری دنیا میں طلاع وغروب نہیں ہوتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی تنازعہ ہے ہی نہیں۔ ہم سے صرف اتنا کہا گیا ہے کہ چاند نظر آجائے تو روزہ رکھ لو اور دوسرا چاند نظر آئے تو عید کرلو۔اب جس علاقہ میں مستند شہادت رویت ہلال کی ہو وہاں عید کرلی جائے۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ملک بھر میں ایک ساتھ عید ہو۔

غیرمنقسم ہندوستان میں بھی دو دو عیدیں ہوجاتی تھیں۔ اتحاد، اتفاق، یکجہتی اور ایک قوم ہونے کے اظہار کے اور زیادہ بہتر طریقے ہیں، پہلے ان پر تو عمل کرلیا جائے۔ مناسب ہوتا کہ صوبہ سرحد کی حکمران اے این پی خود کو اس تنازع سے دور رکھتی، تاہم یہ تجویز ضرور قابل عمل ہے کہ آئندہ چاند دیکھنے کا اہتمام پشاور میں بھی کیا جائے اورشہادتیں خواہ مسجد قاسم علی خان میں موصول ہوں ان کی چھان بین کی جائے۔

یہ بات صحیح نہیں کہ مفتی منیب الرحمن کے چیئرمین بننے کے بعد سے ملک میں دو عیدیں ہورہی ہیں۔ یہ رویت ہلال کمیٹی بننے سے پہلے بھی ہوتا تھا اور مفتی پوپلزئی کو چیئرمین بنانے کے بعد بھی ہوسکتا ہے ۔

تحمل بردباری اور خوف خدا اس معاملہ میں نہایت ہی ضروری ہے اللہ تعالیٰ سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔


(تلخبانہ)

یہ تحریر جہاں سے اٹھائی گئی ہے اس کا حوالہ بھی دیجیے۔ شکریہ!
 
Top