القلم پر حسن نظامی نے ایک مراسلہ
صوبہ سرحد اور رؤیت ہلال کے نام سے شئیر کیا تھا وہ یہاں نقل کر رہا ہوں
جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒ ۱۹۷۲ سے ۱۹۷۹ ء تک مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ممبر اور ۱۹۸۴ سے ۱۹۸۶ء تک چےئرمین رہے ہیں ۔ پیر صاحب قبلہ کازیر نظر مضمون ماہنامہ ضیائے حرم کے ستمبر ۱۹۸۵ء کے شمارہ میں شائع ہوا ہے ۔ اسے تازہ حالات میں استفادہ عامہ کے لیے ارسال کیا جا رہا ہے۔
صوبہ سرحد اور رؤیت ہلال
تحریر: جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ
سابق چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان۔
سابق جج سپریم کورٹ آف پاکستان
مسلسل کئی سالوں سے رمضان المبارک اور عید الفطر کے چاند کے بارے میں بدمزگی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ رؤیت ہلال کمیٹی اپنی تحقیق کے مطابق رؤیت ہلال کا اعلان کرتی ہے لیکن صوبہ سرحد میں بعض مقامات پر رؤیت ہلال کمیٹی کی اعلان کردہ تاریخ سے ایک دن پہلے اور بعض دفعہ دو دن رمضان المبارک کی آمد اور عید الفطر منانے کا اعلان کر دیا جاتا ہے جس سے صوبہ سرحد کے لوگ تو پریشانی کا شکار ہوتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے صوبوں کے لوگوں کو بھی تشویش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بدمزگی پر قابو پانے کے لیے اور اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے میں نے فیصلہ کیا کہ شعبان کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں منعقد کیا جائے ۔ اس سے میرے پیش نظر دو مقصد تھے۔ ایک تو یہ کہ اس شکوہ کو دور کیا جائے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی اپنے اجلاس دوسرے صوبوں میں منعقد کرتی ہے لیکن صوبہ سرحد کو ہمیشہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ پشاور جا کر سرحد کے علماء سے تبادلہ خیال کر کے اتحاد و اتفاق کی صورت نکالی جائے۔ کیونکہ ماہ رمضان کے روزے ہوں یا یکم شوال کو عید الفطر ،یہ دونوں شرعی احکام ہیں ۔ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم ﷺ کے ارشادات کی تعمیل کرتے ہوئے روزے بھی رکھتے ہیں اور عید بھی مناتے ہیں۔ اس میں نہ کسی کا کوئی ذاتی مفاد ہے اور نہ صوبائی عصبیت۔ میں نے صوبہ سرحد کے ناظم اعلیٰ اوقاف جناب سیٹھی صاحب کو پیغام بھیجا کہ اس اجلاس میں مرکزی اور زونل رؤیت ہلال کمیٹی کے ارکان کے علاوہ سرحد کے دیگر علماء کو بھی شمولیت کی دعوت دی جائے تاکہ ان سے تبادلۂ خیال ہو سکے۔ چنانچہ میں اور دیگر اراکین 29 رجب المرجب 1405ھ مطابق 30 اپریل 1985 ء کو پشاور پہنچے۔ غروب آفتاب سے قبل ’’بالاحصار ‘‘میں علماء کا اجتماع ہوا، وہاں بھی میں نے ان حضرات کی خدمت میں یہاں(پشاور) میں اجلاس منعقد کرنے کے ان دونوں مقاصد کی وضاحت کی۔ مغرب کی نماز ’’بالاحصار ‘‘کی مسجد میں ادا کی۔ اس کے بعد چاند دیکھنے میں مصروف ہو گئے ۔ اگرچہ’’ بالاحصار ‘‘کا یہ گوشہ سارے علاقہ میں بلند ترین گوشہ تھا اور سامنے کوئی آڑ بھی نہ تھی لیکن کوشش بسیار کے باوجود کسی کو بھی چاند نظر نہ آیا۔ پھر ہم صوبائی سیکرٹریٹ میں ناظم اعلیٰ اوقاف کے دفتر میں آ گئے۔ وہاں پھر علماء کا اجتماع ہوا۔ صوبہ سرحد کے تقریباً تمام اضلاع کے ڈی سی صاحبان سے فون کے ذریعہ رابطہ قائم کیا جن کی صدارت میں ضلعی رؤیت ہلال کمیٹیوں کے اجلاس منعقد ہو رہے تھے۔ لیکن سب نے یہی جواب دیا کہ بڑی کوشش کے باوجود شعبان المعظم کا چاند نظر نہیں آیا۔ پاکستان کے دوسرے صوبوں کے اہم مقامات پر منعقد ہونے والے اجلاسوں سے رابطہ قائم کیا، پنجاب، سندھ، بلوچستان، سب نے یہی اطلاع دی کہ چاند نظر نہیں آیا۔ اگرچہ بعض مقامات پر مطلع گرد آلود تھا لیکن بہت سے ایسے مقامات بھی تھے جہاں سے اطلاع ملی کہ مطلع صاف ہے باوجود کوشش کے چاند نظر نہیں آیا۔
محکمہ موسمیات کے افسران بھی اس اجتماع میں شریک تھے جنہوں نے مفصل تحریری رپورٹ دی کہ آج پاکستان کے کسی صوبہ کے کسی مقام پر رؤیت ہلال کا کوئی امکان نہیں۔ وہ تفصیلی رپورٹ میرے پاس ریکارڈ میں ہے اور محکمہ موسمیات کے دفتر سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی جس میں مولانا حسن جان صاحب جو سرحد کے نمائندہ ہیں وہ بھی شریک تھے ۔سب نے متفقہ طور پر چاند کے نظر نہ آنے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلہ پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اراکین اور صوبہ سرحد کے زونل رؤیت ہلال کمیٹی کے ارکین نے بھی اپنے اپنے دستخط ثبت کئے۔ جن میں مولانا حسن جان صاحب سرفہرست تھے اور اس فیصلہ کے مطابق چاند کے نظر نہ آنے کا اعلان کیا گیا۔
اس کام سے فارغ ہونے کے بعد سرحد کے علماء کرام سے اس بدمزگی پر قابو پانے کے لیے گفتگو کاآغاز ہوا۔ وہاں کے علماء نے فرمایا کہ ہمارے یہاں لوگ دور دراز علاقوں میں آباد ہیں۔ ہمارے پاس رؤیت ہلال کی شہادت دیر سے پہنچتی ہے جبکہ کمیٹی کا اجلاس اختتام پذیر ہو چکا ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہوتا کہ ہم گواہان کی شہادتوں کے مطابق اپنے طور پر ہی چاند کے دیکھے جانے کا اعلان کر دیں۔ میں نے گزارش کی کہ جس طرح ہمارا فرض ہے کہ اس سلسلہ میں ہم آپ کو مطمئن کریں آپ کا بھی فرض ہے کہ آپ رؤیت ہلال کمیٹی کے دیگر اراکین کو بھی مطمئن کریں۔ یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ ہم لوگ آپ کی رؤیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ آپ کو یاد ہو گا گزشتہ سال رمضان المبارک کا چاند پاکستان میں کہیں نظر نہیں آیا تھا۔ سارے صوبہ سرحد میں صرف بنوں سے رؤیت کی خبر ملنے پر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی نے رمضان المبارک کے چاند کے دیکھے جانے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس سانحہ کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگرچہ بعض حضرات نے اس رؤیت کو تسلیم نہیں کیا لیکن مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی نے اس کو تسلیم بھی کیا۔ اس کے مطابق اعلان بھی کیا۔ اس لیے یہ خیال غلط ہے کہ صوبہ سرحد میں اگر چاند دیکھا جائے تو دوسرے صوبوں والے اس کو تسلیم نہیں کرتے۔
میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ شرعی دلائل کے مطابق رؤیت کے بارے میں ہمیں مطمئن کر دیں گے تو ہم اس کو ماننے میں قطعًا پس و پیش نہیں کریں گے اور رؤیت کے بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ اگر مطلع گرد آلود یا ابر آلود ہو تو رمضان شریف کے لیے ایک آدمی کی خبر اور عید الفطر وغیرہ کے لیے دومروں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت کافی ہے لیکن اگر مطلع صاف ہو تو پھر دو چار، دس بیس آدمیوں کی شہادت سے رؤیت ثابت نہیں ہوتی جب تک کہ جم غفیر رؤیت ہلال کی گواہی نہ دے۔
یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ شہروالوں کو تو کہیں چاند نظر نہ آئے حالانکہ وہاں کئی منزلہ اونچے مکانات ہوتے ہیں اور ان پر چڑھ کر چاند بآسانی دیکھا جا سکتا ہے اور صرف دور دراز کے دیہات میں بسنے والے چند آدمیوں کو چاند نظر آجائے اور اگر ایسا ہو بھی تو آج کل ٹیلی فون کی سہولتیں دور دراز علاقوں میں بھی میسر ہیں۔ کم از کم ہر تھانہ میں فون موجود ہے۔ غروب آفتاب کے بعد ایک گھنٹہ کے اندر اندر چاند نظر آنا ہو تو نظر آ جاتا ہے اور جنہیں چاند نظر آئے وہ بآسانی ایک گھنٹے کے اندر اندر ٹیلی فون تک پہنچ سکتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر ہم سے رابطہ قائم کریں کہ ہم نے چاند دیکھ لیا ہے۔ ہم ان کا انتظار کریں گے اور اگر مان لیا جائے کہ یہاں صرف دیہات میں چاند نظر آتا ہے جہاں آبادی بھی قلیل ہے اور چاند دیکھنے کے مواقع بھی کم ہیں اور گاؤں فون سے اس قدر دور ہے کہ وہاں پہنچنے میں طویل وقت درکار ہے تو اس صورت میں باہمی مشورہ سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسے گواہوں کو جتنا جلدی ممکن ہو سکے زونل رؤیت ہلال کمیٹی کے ارکان کے سامنے پیش کیا جائے اور اگر بالاتفاق ان کی شہادت کو قبول کر کے رؤیت کا فیصلہ دے دیں تو مجھے مطلع کر دیا جائے تاکہ میں سابقہ اعلان کے بجائے نیا اعلان کر دوں کہ چاند نظر آنے کی شرعی شہادت مل گئی ہے۔ اہل پاکستان اس کے مطابق روزہ رکھیں یا عید منائیں۔ چنانچہ اس بات پر تمام شرکاء نے اتفاق کیا اور میں خوش خوش واپس آیا کہ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا ہے اور اختلاف ختم کرنے کی ایک قابل عمل صورت نکل آئی ہے جس کو سب نے بالاتفاق منظور کر لیا ہے۔
ہم نے وہ رات پشاور میں گزاری، اگلا پورا دن بھی وہی بسر کیا اور مغرب سے پہلے واپسی ہوئی، اتنے عرصہ میں ہمیں کسی نے اطلاع نہ دی کہ کسی نزدیک یا دور دراز علاقہ سے ہلال شعبان کی رؤیت کی شہادت مل گئی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق جس کی تصدیق محکمہ موسمیات کی رپورٹ سے ہو گئی تھی اور ملک کے تمام اضلاع سے آمدہ اطلاعات نے بھی اس کی تصویب کر دی تھی کہ انتیس رجب کو شعبان کا چاند نظر نہیں آیا۔
نصف سے زیادہ شعبان خاموشی سے گزر گیا ہمیں کسی نے اطلاع نہ دی کہ چاند ایک دن پہلے دیکھا گیا ہے ۔بیس شعبان کے بعد افواہیں گرم ہوئیں کہ صوبہ سرحد کے بعض علماء نے ایک دن پہلے ہلال شعبان کے دیکھے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ علماء کے اس اجتماع میں جو متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا اس کی خلاف ورزی کیوں کی گئی ؟اگر واقعی وہاں کے علماء کے سامنے ہلال شعبان کی رؤیت ایک دن پہلے ثابت ہو گئی تھی تو انہوں نے معاہدہ کے مطابق فوری طور پر زونل رؤیت ہلال کمیٹی کا اجلاس کیوں طلب نہ کیا اور اس کمیٹی کے سامنے گواہوں کی شہادتیں کیوں نہ لیں اور اس فیصلہ سے ہمیں کیوں مطلع نہ کیا گیا۔
ٍ انتیس شعبان مطابق بیس مئی۱۹۸۵ء، جب ماہ رمضان کے ہلال کی رؤیت کے لیے کراچی میں مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس وقت چار سدہ کے متعدد علماء کا یہ فتویٰ پیش ہوا کہ آج انتیس نہیں بلکہ تیس شعبان ہے لیکن مطلع صاف ہونے کے باوجود پاکستان کے کسی گوشہ سے چاند کے دیکھے جانے کی اطلاع نہ ملی۔ سرحد سے بھی زونل کمیٹی یا کسی ضلع کمیٹی کی طرف سے چاند دیکھنے کی اطلاع نہ ملی۔ حالانکہ آج اگر چاند کی تیس تاریخ ہوتی تو چاند کا نظر آنا یقینی تھا ۔اس رات کو مطلع صاف ہونے کے باوجود چاند کا نظر نہ آنا علماء چارسدہ کے فتویٰ کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی تھا۔ نیز محکمہ موسمیات کے ماہرین بھی اس اجتماع میں شریک تھے، انہوں نے جو رپورٹ پیش کی اس سے بھی ظاہر ہوتا تھا کہ آج پاکستان کے کسی حصہ میں چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہیں۔ چنانچہ پوری تحقیق کے بعد مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی اور کراچی کی زونل رؤیت ہلال کمیٹی کے جملہ اراکین نے متفقہ فیصلہ کیا کہ رمضان المبارک کا چاند آج کہیں نظر نہیں آیا، اس لیے پہلا روزہ کل بروز منگل کے بجائے پرسوں بروز بدھ مطابق 22 مئی کو ہو گا۔ اس فیصلہ پر بھی سرحد کے حضرت مولانا حسن جان صاحب نے دوسرے اراکین کی طرح دستخط کئے اور میں نے اس کا اعلان بطور چیئرمین مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان سے کیا۔
لوگ اطمینان سے رمضان المبارک کی برکتوں سے بہرہ اندوز ہو رہے تھے کہ یکایک معلوم ہوا کہ سرحد کے بعض علماء کا ایک اجلاس 21 رمضان المبارک مطابق 11 جون 85 ء منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ چاند کی رؤیت ہو یا نہ ہو اٹھارہ جون کو تیس ماہ رمضان قرار دیا جائے اور انیس جون کو عید الفطر منائی جائے۔
یہ فیصلہ سراسر احکام شریعت کے خلاف ہے کیونکہ چاند انتیس کا بھی ہو سکتا ہے اور تیس کا بھی، انہیں کس نے بتایا کہ اس دفعہ چاند تیس کا ہو گا اور عید بروز بدھ 19 جون کو منائی جائے گی۔ ہو سکتا کہ چاند انتیس کا ہوتا اور ایک روزقبل طلوع ہوتا اور ان کے حساب کے مطابق عید منگل کو منائی جاتی۔ دس دن قبل عید کا یہ تعین کم از کم شریعت اسلامیہ سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔
پوری ایمانداری سے انتہائی کوشش کرنے کے باوجود ہم اپنے ان بزرگ علماء کے فیصلوں کی صحیح توجیہہ نہیں کر سکے اور نہ ہی مجھے اس کی حقیقت تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ ہمیں یہ فیصلے خصوصاً عید کے بارے میں ان کا فیصلہ احکام شرعیہ کے سراسر خلاف نظر آتا ہے ۔میں ان علماء کی خدمت میں مؤدبانہ التماس کرتا ہوں کہ وہ اپنے طرزعمل پر نظرثانی کریں اور اسے اپنی انا یا کسی عصبیت کا مسئلہ نہ بنائیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی مکرم ﷺ نے جو شاہراہ ہدایت ہمیں دیکھائی ہے اس پر ثابت قدمی سے چلتے رہیں۔اس سے ہمارا افتراق و انتشار، اتفاق و اتحاد سے بدل سکتا ہے اور اس سے ہم باطل کی طاغوتی طاقتوں کے سامنے ایک فولادی چٹان بن کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔
آخر میں حکومت پاکستان کے جملہ کار پردازوں سے خصوصاً محترم گورنر سرحد اور جناب وزیراعلیٰ سرحد کی خدمت میں پرزور التماس کرتا ہوں کہ وہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے ان فیصلوں کا جو بڑی تحقیق اور پوری ذمہ داری سے کئے جاتے ہیں خود بھی احترام کریں اور عوام کو بھی ان کے احترام کرنے کی تلقین کریں تاکہ ان عناصر کی حوصلہ شکنی ہوجو دین کے پردے میں ملک میں انتشار و افتراق کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں اور اپنے طرز عمل سے دنیا پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دین اسلام میں اور شریعت اسلامیہ میں اب اتنی تاب و تواں نہیں کہ وہ ملت کو متحد و منظم رکھ سکے۔