ہاں ہوتی آئی ہے کہ شعرا اپنے کو ولی اللہ اگلے وقتوں سے سمجھتے آئے ہیں۔ لیکن اولیاء اللہ میں عورتوں کا شمار!!
خیر غالب خوب فرما گئے تھے کہ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا!
غالب نے بھی کہیں نہ کہیں بادہ خوار نہ ہونے کی شرط تو لگا ہی دی تھی!
صاحب ! آپ تاریخ سے بالکل واقف نہیں ہیں ۔۔۔ شاعری کرنا اور بات ہے اور مذہب شناسی ایک الگ مسئلہ ہے۔۔۔
اسلام کہتا ہے عورت نبی نہیں ہوسکتی ۔۔۔ ولیہ ہوسکتی ہے۔۔۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔۔۔
بی بی مریم علیہا السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔۔۔ نبیہ نہیں ہیں۔۔۔ ولیہ ہیں۔۔۔اس کا ثبوت تو قرآ ن سے ملتا ہے۔۔۔ ایک ہی نبی ہیں جنہیں ابن آدم، ابن ابراہیم یا ابن یعقوب نہیں کہاجاتا، ابن مریم کہاجاتا ہے۔۔۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔ اسی ولیہ کی اولاد ہیں۔۔۔ علیہا الصلوٰۃ والسلام۔۔۔
فرعون اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ پڑھئے تو ایک اور پاکباز خاتون کا تذکرہ ہے۔ حضرت بی بی آسیہ رحمۃ اللہ علیہا۔۔۔ بے شک آپ ولیہ ہیں۔۔
ولیہ تو چھوٹی بھی ہوسکتی ہے۔۔۔ اس سے بڑی ہستی صحابیہ کی ہے۔۔۔۔ حضور کے عہد میں وہ خاتون جس نے حالت ایمان میں نبی آخر الزمان کا دیدار کیا ہو۔۔۔ صحابیہ ہے۔۔۔ کوئی تابعیہ ، کوئی ولیہ اس کی برابری نہیں کرسکتی۔۔۔ اس سے اوپرچلیے۔۔۔ امہات المؤمنین ہیں۔۔۔ قرآن کہتا ہے:
النبی اولٰی بالمؤمنین من انفسہم و ازوجہ امہاتہم
بے شک نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) مومنین سے ان کی جانوں سے بھی زیادہ بڑھ کر (قریب) ہیں ۔۔۔ اور ان کی بیویاں ان (مؤمنین) کی مائیں ہیں۔۔۔
تو انکار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔حضرت خدیجہ ہیں، حضرت عائشہ ہیں، فضیلت حضرت خدیجہ کی یہ ہے کہ آپ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس وقت شادی کی جب آپ نبی نہیں تھے ، یعنی بعثت نہیں ہوئی تھی۔۔۔ جب اسلام کا اعلان فرمایا تو اسلام لانے والوں میں شامل ہو گئیں۔۔۔ حضرت عائشہ کی فضیلت یہ ہے کہ احادیث روایت کرنے میں آپ کا بڑا کردار رہا ہے۔۔۔ صحابہ خود جا جا کر آپ سے اسلام کے مسائل پوچھتے تھے۔۔۔تو ان صحابہ سے جو عام اولیا سے کس قدر افضل اور بہتر تھے، حضرت عائشہ بہتر قرار پاتی ہیں۔۔۔ ام المؤمنین ہونے کی الگ شان ہے۔۔۔
اسلام کی تاریخ میں اولیاء کو جاننا ہو تو ایک کتاب ہے تذکرۃ الاولیاء ۔۔۔ اس میں حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کا تذکرہ موجود ہے۔۔ تاریخ کی جانی پہچانی اور مستند ولیہ ہیں۔۔۔ کوئی انکار کرہی نہیں سکتا۔۔۔