میرے پاس ایک بہت پرانا غالب کا دیوان تھا اس میں یہ شعر موجود تھا، وہ دیوان کہیں گم ہوگیا- لیکن اس کے بعد میں نے کسی دیوان میںیہ شعر نہیں دیکھا - لیکن عمومی طور پر اسے غالب کا ہی سمجھا جاتا ہے-
میرے خیال میں راعمس آپ بہت جلد نتیجے پر پہنچ گئے ہیں جب کہ مشہور بھی یہی ہے اور شہادتیں بھی یہی ہیں، جیسے اوپر فرّخ صاحب نے لکھا ہے اور میں نے بھی اس شعر کو غالب کے ایک دیوان میں دیکھا تھا۔
جب کہ غالب کی طرف غلط طور سے منسوب ہونے کی بات ابھی تک میرے محدود مطالعے میں تو نہیں آئی، اور نا ہی ابھی تک کسی اور یا نامعلوم شاعر کی طرف اسکی نسبت ظاہر کی گئی ہے اور نا ہی کسی شعر کا کسی شاعر کے دیوان میں نہ ہونے سے یہ لازم آتا ہے کہ اسے اسکا نہ سمجھا جائے۔ پس جب تک کسی مستند حوالے یا تحریر سے یہ ثابت نہیں ہوجاتا کہ یہ غالب کا شعر نہیں ہے میرے ذاتی خیال میں اسے غالب کا شعر ہی سمجھنا چاہیئے۔ ہاں تحقیق کا دروازہ ضرور کھلا ہے اور تحقیق کرنی بھی چاہیئے۔
جی ہاں راعمس، پروفیسر صاحب کا میں بہت بڑا معتقد ہوں اور نہ صرف انکا غالب پر کام بلکہ میر اور اردو عروض پر بھی کام دیکھ چکا ہوں اور مستفید ہو چکا ہوں۔
یقین مانیئے اگر پروفیسر Fwp نے اس موضوع پر کام شروع کردیا ہے تو وہ جلد ہی کچھ نہ کچھ ڈھونڈ نکالیں گے، پروفیسر صاحب پہلے بھی دیوانِ غالب میں موجود غزلوں کے متعلق ہمارے علماء و فضلاء سے اختلاف کر چکے ہیں، مثلاً عرشی اور مہر کے نسخوں سے لیکر عام ملنے دیوانِ غالب میں ایک ہی زمین میں دو علیحدہ غزلیں ہیں جس پر انہیں اختلاف ہے اور وہ انہیں اپنی تحقیق کی رو سے ایک ہی غزل مانتے ہیں، وغیرہ۔
بہرحال اس تحقیق کے نتائج سے ہمیں اس فورم پر ضرور مطلع رکھیئے گا۔
اُس پوسٹ میں صیغہء مذکر نے مجھے بھی چونکا دیا۔جی ہاں ضرور! امید ہے جلد ہی یہ عقدہ حل ہو جائے گا۔
پسِ لفظ: پروفیسر Fwp خاتون ہیں
مرزا کے کلام میں سے کچھ عامیانہ ، معیوب ، یا لکھنوی طرز کے اشعار مل جانے سے ( اور ضرور ایسے نمونے مل جائیں گے) مرزا کے مقام و مرتبے پر کچھ فرق نہیں پڑتا ۔کیونکہ یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا - نہ ہی مرزا کے کلام میں کسی ترکیب سے اختلاف سے ایسا ہوتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے محققین نے کیا ہے ۔۔اور میری رائے میں جا بجا صد فی صد درست بھی کیا ہے۔۔ تحقیق کے دروازے بہر حال ہمیشہ کھلے ہونے چاہییں ۔۔۔یہ شعر غالبؔ دکنی کا ہے
دبستانِ لکھنؤ اور دبستانِ دلی کا فرق سمجھنے والے حضرات بہتر سمجھ سکتے ہیں
جس لہجے کا یہ شعر ہے وہ دلی کی زبان میں معیوب سمجھی جاتی تھی، کجا کہ اتنا عامیانہ شعر غالبؔ کہتے جنہیں وبائے عام میں مرنا بھی گوارہ نہ تھا
مرزا کے کلام میں سے کچھ عامیانہ ، معیوب ، یا لکھنوی طرز کے اشعار مل جانے سے ( اور ضرور ایسے نمونے مل جائیں گے) مرزا کے مقام و مرتبے پر کچھ فرق نہیں پڑتا ۔کیونکہ یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا - نہ ہی مرزا کے کلام میں کسی ترکیب سے اختلاف سے ایسا ہوتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے محققین نے کیا ہے ۔۔اور میری رائے میں جا بجا صد فی صد درست بھی کیا ہے۔۔ تحقیق کے دروازے بہر حال ہمیشہ کھلے ہونے چاہییں ۔۔۔
جناب کی راے محترم لیکن عرض یہ ہے کہ اچھی طرح پڑھنے کو میں تحقق وتبحث کے زمرے میں شمار کرتا ہوں ۔ تحقیق کا در مقفل کرنا کنویں والے مینڈک کی مثال کا مصداق بننے کے مترادف ہے۔ ا ور مرزا کے الفاظ میں کہوں تو آسمان کو بیضہء مور ٹھرادیا جاےٴ۔میرے خیال میں آپ تحقیق نہ کیجیے لیکن صرف غالب کو اچھی طرح پڑھ لیجیے تو بھی آپ پر بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔