غالب سے منسوب ایک غلط شعر؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرخ منظور

لائبریرین
جناب کی راے محترم لیکن عرض یہ ہے کہ اچھی طرح پڑھنے کو میں تحقق وتبحث کے زمرے میں شمار کرتا ہوں ۔ تحقیق کا در مقفل کرنا کنویں والے مینڈک کی مثال کا مصداق بننے کے مترادف ہے۔ ا ور مرزا کے الفاظ میں کہوں تو آسمان کو بیضہء مور ٹھرادیا جاےٴ۔

فکر میری محیط جذب ازل
دوسرا مصرع یاد نھیں آ رہا اگر چہ شعر میرا ھی ہے۔۔والسلام

بھائی صاحب، اتنی تحقیق کے بعد آپ نے یہ نتیجہ نکالا کہ تمام الحاقی کلام بھی غالب کا ہے۔ تو پھر کمال ہے۔
آپ کے خیال میں تو یہ شعر بھی غالب کا ہی ہو گا۔
اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر شاباش رحمت خدا کی
 

فاتح

لائبریرین
بھائی صاحب، اتنی تحقیق کے بعد آپ نے یہ نتیجہ نکالا کہ تمام الحاقی کلام بھی غالب کا ہے۔ تو پھر کمال ہے۔
آپ کے خیال میں تو یہ شعر بھی غالب کا ہی ہو گا۔
اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر شاباش رحمت خدا کی
"اگر یہ شعر میرا ہے تو مجھ پر لعنت خدا کی اور جس اسد کا ہے اس پر رحمت خدا کی"
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بھائی صاحب، اتنی تحقیق کے بعد آپ نے یہ نتیجہ نکالا کہ تمام الحاقی کلام بھی غالب کا ہے۔ تو پھر کمال ہے۔
آپ کے خیال میں تو یہ شعر بھی غالب کا ہی ہو گا۔
اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر شاباش رحمت خدا کی
جناب عالی میرا منشاء محض اتنا ہے کہ تحقیق کی راہیں ہمیشہ کھلی رکھنا بہتر ہیں تا کہ ارتقایٴ و تحقیقی عمل جاری رہے ۔ میں نے تو ابھی تک کوی نتیجہ حتمی طور پہ اختیار نھیں کیا اور نہ ہی میری راےمیں یہ امر اتنا ضروری ہے۔آپ شاید زیادہ سنجیدہ ہو چلے۔معافی چاہتا ہوں دل آزاری کی۔
 

سعدی غالب

محفلین
آصف بھائی صاحب یقین مانیے کسی نے تحقیق کا دروازہ بند نہیں کیا
نہ ہی مجھے تحقیق کی گیٹ کیپر سمجھیے
لیکن دیوانِ غالبؔ کوئی یتیم خانہ نہیں کہ ہر کوئی تحقیق کا لالٹین اٹھا کر چندہ دینے چل پڑے
غالبیات والے جانیں اور غالب جانیں ، اللہ اللہ خیر صلا، آپ کیوں ٹینشن لیتے ہیں جناب
تحقیق کے بھی کچھ تو اصول ہوتے ہیں، یہ تو نہیں کہ جو بات دس بندوں کے منہ سے نکلی اسے تحقیق مان لیا جائے
نیوٹن کا سیب والا قصہ، اور مارکوپولو کے عظیم سیاح ہونے والی بات اس کی مثال ہیں
غالبیات میں تحقیق کا اصول یہ ہے کہ سب سے پہلے دیکھا جائے کہ اس معاملے میں غالبؔ کا کیا قول اور فعل تھا
اگر اس بارے میں غالبؔ کی زندگی خاموش ہو تو دیکھا جائے گا کہ حالیؔ اور شیفتہ صاحب اس بارے میں کیا کہتے ہیں
اگر اس طرف بھی خاموشی ہو تو محققین کی اگلی پشت سے رجوع کیا جائے
اب دیکھئے غالبؔ کا قول
اردوئے معلیٰ مطبوعہ 1899 (مطبع مجتبائی، دہلی) صفحہ نمبر 220 اور 221 پر مرزا شہاب الدین احمد کے نام ایک خط ہے
آپ کے احترام کے پیش نظر اس خط کو نقل نہیں کیا، لیکن آپ ضرور ملاحظہ فرما لیں
غالبؔ کو اس بات سے سخت چڑ تھی کہ ان کا کلام صحت سے نہ لکھا جائے یا غیر کا کلام ان سے منسوب ہو
اسدؔ سے غالبؔ تخلص بدلنے کا واقعہ غالب کے فعل کی مثال ہے
پھر بھی آپ مزید تحقیق چاہتے ہیں تو
نسخہ حمیدیہ میں غالبؔ کا غیر مطبوعہ کلام جمع ہوا
مولانا عرشی صاحب نے یادگارِ نالہ میں بھی غالبؔ سے منسوب کلام جمع کیا
مولانا عبدالباری آسی صاحب نے بھی غالبؔ کا غیر مطبوعہ کلام جمع کیا اور اس کی شرح بھی لکھی
لیکن مذکورہ بالا کتابوں میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں
اگر حاشیے پر ہوتا تب بھی کم از کم میرے نزدیک قابل قبول نہ ہوتا، لیکن انتہا تو یہ ہے کہ حاشیے پر اس بے چارے یتیم شعر کو جگہ نہیں ملی
اب بھی اگر آپ تحقیق کی بات کرتے ہیں تو موسٹ ویلکم جناب، لیکن ہماری کنفیوژن دور کیجئے کہ آکر یہ کس غزل کا شعر تھا جو باقی غزل گم ہو گئی اور یہ شعر باقی رہ گیا؟
 

فاتح

لائبریرین
لیکن ہماری کنفیوژن دور کیجئے کہ آکر یہ کس غزل کا شعر تھا جو باقی غزل گم ہو گئی اور یہ شعر باقی رہ گیا؟
باقی غزل گم نہیں ہوئی اور نہ ہی اسے اکلوتا شعر کہا جاتا ہے بلکہ جو احباب اس شعر کو غالب کا کہتے ہیں وہ مذکورہ شعر کو ذیل کی غزل میں شامل کر دیتے ہیں اور اس کی وجہ مذکورہ شعر اور اس غزل کا ایک ہی زمین میں ہونا ہے:
شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
 

سعدی غالب

محفلین
ایک سکھ گلوکار کی غزل سنی (گلوکار کا نام یاد نہیں)
دل کو تھاما ، ان کا دامن تھام کے
میرے دونوں ہاتھ نکلے کام کے
خط لکھیں گے چاہے مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

آصف بھائی ان 3 اشعار میں سے ایک غالبؔ کا نہیں ہے، کیا نشانی ہوگی؟
داغؔ اور غالبؔ کے اشعار مکس کر کے گانے والے گا دئیے
اور سننے والے اسی پر پکے ہوگئے کہ یہ ساری غزل غالبؔ کی ہے

اسی طرح کا ایک اور واقعہ سناؤں
نیا نیا جب غالبؔ کو پڑھنے کا چسکا لگا تھا، ایک شعر پڑھا کہیں
"جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی"
اب اس شعر کو غالبؔ کا شعر سمجھ لینے کی دو وجوہات موجود ہیں
ابن مریم ہوا کرے کوئی، میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ بھی اسی غزل کا شعر ہوگا
ایک اور وجہ بھی ہے، شعر میں جس طرح جنت کا مذاق اڑایا گیا ہے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ غالبؔ کا ہی ہوگا
کیونکہ شغلی بابا تو ایک ہی ہے، جو کہتا ہےکہ دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے، سو اس لیے یہ بھی غالبؔ کا ہوگا
لیکن سچ تو اپنی جگہ سچ ہے، کہ اس شعر کا غالبؔ سے کوئی تعلق نہیں
غالبؔ اگر "بوسہ کو پوچھتا ہوں، منہ سے مجھے بتا کہ یوں" اور " دھوتا ہوں جب میں پینے کو، اس سیم تن کے پاؤں" اپنے دیوان میں شامل کر سکتے ہیں تو اس شعر کو نکالنے کی کیا وجہ ہوسکتی تھی؟ (بالفرض اگر چند حسینوں کے خطوط والے شعر کو غالبؔ کا مان بھی لیا جائے)
 

فاتح

لائبریرین
سعدی غالب صاحبہ! مذکورہ شعر اور آپ کی بیان کردہ امثال میں فرق یہ ہے کہ مذکورہ شعر، جو غالب کے نام سے منسوب ہو گیا، کا کسی کہیں کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ کس شاعر کا ہے اور کس زمانے کا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بچپن میں ایک مرتبہ ایک سستا سا دیوانِ غالب خریدا تھا جس میں یہ شعر اسی غزل میں موجود تھا جس کا ہم نے حوالہ دیا۔
جب کے آپ نے جن اشعار کو بطور مثال پیش کیا ہے کہ وہ غالب سے منسوب ہیں وہ یا تو اپنے خالقین کا حوالہ موجود رکھتے ہیں یا ان کی بابت کسی مستند کتاب میں کوئی نہ کوئی حوالہ ضرور موجود ہے۔ مثلاً

دل کو تھاما، ان کا دامن تھام کے
میرے دونوں ہاتھ نکلے کام کے
اور
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی

یہ دونوں اشعار داغؔ دہلوی کے ہیں اور ان کے مجموعہ ہائے کلام میں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ غالب کی مشہورِ زمانہ غزل "یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا" کی زمین میں بھی داغ نے غزل کہی "عجب اپنا حال ہوتا جو وصالِ یار ہوتا" اور ٹینا ثانی نے یوں گائی کہ ایک شعرغالب کا اور ایک شعر داغ کا ملا کر گایا لیکن پیشگی وضاحت کے ساتھ کہ اس میں ایک شعر غالب اور ایک داغ کا اکٹھا کیا گیا ہے۔
دراصل داغ نے غالب کی کافی زمینوں میں طبع آزمائی کی ہے یہی وجہ ہے کہ غالب کا کلام محض گانےو الوں سے سننے اور دیوان کا مطالعہ نہ کرنے والے سب غالب کا مان لیتے ہیں لیکن بہرحال واپس اصل نکتے کی جانب آتے ہیں کہ مذکورہ شعر اور داغ کے اشعار میں ابہام کا کوئی قلعہ نہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آصف بھائی صاحب یقین مانیے کسی نے تحقیق کا دروازہ بند نہیں کیا
نہ ہی مجھے تحقیق کی گیٹ کیپر سمجھیے
لیکن دیوانِ غالبؔ کوئی یتیم خانہ نہیں کہ ہر کوئی تحقیق کا لالٹین اٹھا کر چندہ دینے چل پڑے
غالبیات والے جانیں اور غالب جانیں ، اللہ اللہ خیر صلا، آپ کیوں ٹینشن لیتے ہیں جناب
تحقیق کے بھی کچھ تو اصول ہوتے ہیں، یہ تو نہیں کہ جو بات دس بندوں کے منہ سے نکلی اسے تحقیق مان لیا جائے
نیوٹن کا سیب والا قصہ، اور مارکوپولو کے عظیم سیاح ہونے والی بات اس کی مثال ہیں
غالبیات میں تحقیق کا اصول یہ ہے کہ سب سے پہلے دیکھا جائے کہ اس معاملے میں غالبؔ کا کیا قول اور فعل تھا
اگر اس بارے میں غالبؔ کی زندگی خاموش ہو تو دیکھا جائے گا کہ حالیؔ اور شیفتہ صاحب اس بارے میں کیا کہتے ہیں
اگر اس طرف بھی خاموشی ہو تو محققین کی اگلی پشت سے رجوع کیا جائے
اب دیکھئے غالبؔ کا قول
اردوئے معلیٰ مطبوعہ 1899 (مطبع مجتبائی، دہلی) صفحہ نمبر 220 اور 221 پر مرزا شہاب الدین احمد کے نام ایک خط ہے
آپ کے احترام کے پیش نظر اس خط کو نقل نہیں کیا، لیکن آپ ضرور ملاحظہ فرما لیں
غالبؔ کو اس بات سے سخت چڑ تھی کہ ان کا کلام صحت سے نہ لکھا جائے یا غیر کا کلام ان سے منسوب ہو
اسدؔ سے غالبؔ تخلص بدلنے کا واقعہ غالب کے فعل کی مثال ہے
پھر بھی آپ مزید تحقیق چاہتے ہیں تو
نسخہ حمیدیہ میں غالبؔ کا غیر مطبوعہ کلام جمع ہوا
مولانا عرشی صاحب نے یادگارِ نالہ میں بھی غالبؔ سے منسوب کلام جمع کیا
مولانا عبدالباری آسی صاحب نے بھی غالبؔ کا غیر مطبوعہ کلام جمع کیا اور اس کی شرح بھی لکھی
لیکن مذکورہ بالا کتابوں میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں
اگر حاشیے پر ہوتا تب بھی کم از کم میرے نزدیک قابل قبول نہ ہوتا، لیکن انتہا تو یہ ہے کہ حاشیے پر اس بے چارے یتیم شعر کو جگہ نہیں ملی
اب بھی اگر آپ تحقیق کی بات کرتے ہیں تو موسٹ ویلکم جناب، لیکن ہماری کنفیوژن دور کیجئے کہ آکر یہ کس غزل کا شعر تھا جو باقی غزل گم ہو گئی اور یہ شعر باقی رہ گیا؟
-------------
میری رائے میں تحقیق کوئی بھی ہوحتمی نہیں کہی جاسکتی یہ ارتقائی عمل کا حصہ ہے۔ چناں چہ اگر کوئی نیا تحقیقی نظریہ کسی سابقہ نظریہ کا ابطال صد فیصد بھی کردے تو پرانے نظرئیے کی اہمیت تاریخی ہو جاتی ہے ختم نہیں ہوتی جیسا کہ نیل بوہر ، ردر فورڈ اور دیگر ماہرین کے نظریات اور ان میں موجود خوبیاں اورخامیاں تک جدید دور میں اعلی تدریسی سرگرمیوں کا اہم حصہ ہیں۔ اب آیئے شعر کی طرف مندرجہ بالا اشعار میں جو آپ نے اور دیگر احباب نے نقل فرمائے ہیں ۔ یہاں غالب شناسی کا مقابلہ تو ہو نہیں رہا ۔ اور ان اشعار میں بھی میری رائے میں تدقیق وتحقیق کی اتنی گنجائش موجود ہے جسکے لیے وقت نکالنا دشوار کام ہے کم از کم میرے پاس پردیس میں کتب کی اتنی سہل رسائی نہیں کہ ایسا کام کر سکوں ۔ چناں چہ کسی کی رائے سے متفق نہ ہونےکے باعث کسی خلجان میں مبتلا ہونےاور کسی انفرادی شعر کے پیچھےپڑنے کی بجائے پس انداز کرنا بہتر ہے۔ جس کی تحریر کا جو معیار اور درجہ ہوتا ہے قاری اسے اپنے فہم اورمطالعے کی روشنی کے مطابق بخوبی جج کرلینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مرزا کے اردو فارسی کلام میں بیش بہا کارآمد تجزیوں کی گنجائش موجودہے جو آپ جیسی قابل قدر اور محترم ممبران جیسے قابل محققین کی توانائیوں کی متقاضی ہیں۔ غالب کی ہمہ جہت شاعری گلی میں پھرنے والا فقیر بھی اسی لگاؤ سے پڑھتا کے جیسے کوئی پر شکوہ فرمانروا ۔
ہم مرحوم والد شاعرانہ تلمذ ( پویئٹیکل ڈیسایپل ھوڈ) کے دو واسطوں سے مرزا غالب سے ملتے تھے اورمیں شاعرانہ اور فکری طورپر مرزا سے اپنی قلبی وابستگی کو باعث سرور محسوس کرتاہوں ۔ تاہم بہت سے محققین کی غالب پہ تنقید مجھے جابجا درست معلوم ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مرزا کے مقام کو ان کی شاعرانہ شان میں غلو ( جس کے کچھ مظاھر آپ کی مذکورہ بالا تحریر میں محسوس ہوتے ہیں ) کر کے یا تنقیدیا اختلاف کر کے یکسر بڑہایا گھٹایا نھیں جا سکے گا کیونکہ یہ مرتبہ تاریخی ارتقاء سے ان کو ملا ہے جو ان کے کام کا من حیث المجموع سچا عکاس ہے۔
 

سعدی غالب

محفلین
سعدی غالب صاحبہ! مذکورہ شعر اور آپ کی بیان کردہ امثال میں فرق یہ ہے کہ مذکورہ شعر، جو غالب کے نام سے منسوب ہو گیا، کا کسی کہیں کوئی حوالہ نہیں ملتا کہ کس شاعر کا ہے اور کس زمانے کا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ بچپن میں ایک مرتبہ ایک سستا سا دیوانِ غالب خریدا تھا جس میں یہ شعر اسی غزل میں موجود تھا جس کا ہم نے حوالہ دیا۔
جب کے آپ نے جن اشعار کو بطور مثال پیش کیا ہے کہ وہ غالب سے منسوب ہیں وہ یا تو اپنے خالقین کا حوالہ موجود رکھتے ہیں یا ان کی بابت کسی مستند کتاب میں کوئی نہ کوئی حوالہ ضرور موجود ہے۔ مثلاً

دل کو تھاما، ان کا دامن تھام کے
میرے دونوں ہاتھ نکلے کام کے
اور
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی

یہ دونوں اشعار داغؔ دہلوی کے ہیں اور ان کے مجموعہ ہائے کلام میں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ غالب کی مشہورِ زمانہ غزل "یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا" کی زمین میں بھی داغ نے غزل کہی "عجب اپنا حال ہوتا جو وصالِ یار ہوتا" اور ٹینا ثانی نے یوں گائی کہ ایک شعرغالب کا اور ایک شعر داغ کا ملا کر گایا لیکن پیشگی وضاحت کے ساتھ کہ اس میں ایک شعر غالب اور ایک داغ کا اکٹھا کیا گیا ہے۔
دراصل داغ نے غالب کی کافی زمینوں میں طبع آزمائی کی ہے یہی وجہ ہے کہ غالب کا کلام محض گانےو الوں سے سننے اور دیوان کا مطالعہ نہ کرنے والے سب غالب کا مان لیتے ہیں لیکن بہرحال واپس اصل نکتے کی جانب آتے ہیں کہ مذکورہ شعر اور داغ کے اشعار میں ابہام کا کوئی قلعہ نہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ یہ شعر غالب دکنی کا ہے، لیکن آپ کو صرف بات بڑھانے سے غرض ہے
حالانکہ آپ بھی اس شعر کو غالب کا نہ ماننے والوں کی لسٹ میں ہیں، پھر یہ بے معنی بحث ؟؟؟؟
 

سعدی غالب

محفلین
-------------
میری رائے میں تحقیق کوئی بھی ہوحتمی نہیں کہی جاسکتی یہ ارتقائی عمل کا حصہ ہے۔ چناں چہ اگر کوئی نیا تحقیقی نظریہ کسی سابقہ نظریہ کا ابطال صد فیصد بھی کردے تو پرانے نظرئیے کی اہمیت تاریخی ہو جاتی ہے ختم نہیں ہوتی جیسا کہ نیل بوہر ، ردر فورڈ اور دیگر ماہرین کے نظریات اور ان میں موجود خوبیاں اورخامیاں تک جدید دور میں اعلی تدریسی سرگرمیوں کا اہم حصہ ہیں۔ اب آیئے شعر کی طرف مندرجہ بالا اشعار میں جو آپ نے اور دیگر احباب نے نقل فرمائے ہیں ۔ یہاں غالب شناسی کا مقابلہ تو ہو نہیں رہا ۔ اور ان اشعار میں بھی میری رائے میں تدقیق وتحقیق کی اتنی گنجائش موجود ہے جسکے لیے وقت نکالنا دشوار کام ہے کم از کم میرے پاس پردیس میں کتب کی اتنی سہل رسائی نہیں کہ ایسا کام کر سکوں ۔ چناں چہ کسی کی رائے سے متفق نہ ہونےکے باعث کسی خلجان میں مبتلا ہونےاور کسی انفرادی شعر کے پیچھےپڑنے کی بجائے پس انداز کرنا بہتر ہے۔ جس کی تحریر کا جو معیار اور درجہ ہوتا ہے قاری اسے اپنے فہم اورمطالعے کی روشنی کے مطابق بخوبی جج کرلینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مرزا کے اردو فارسی کلام میں بیش بہا کارآمد تجزیوں کی گنجائش موجودہے جو آپ جیسی قابل قدر اور محترم ممبران جیسے قابل محققین کی توانائیوں کی متقاضی ہیں۔ غالب کی ہمہ جہت شاعری گلی میں پھرنے والا فقیر بھی اسی لگاؤ سے پڑھتا کے جیسے کوئی پر شکوہ فرمانروا ۔
ہم مرحوم والد شاعرانہ تلمذ ( پویئٹیکل ڈیسایپل ھوڈ) کے دو واسطوں سے مرزا غالب سے ملتے تھے اورمیں شاعرانہ اور فکری طورپر مرزا سے اپنی قلبی وابستگی کو باعث سرور محسوس کرتاہوں ۔ تاہم بہت سے محققین کی غالب پہ تنقید مجھے جابجا درست معلوم ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مرزا کے مقام کو ان کی شاعرانہ شان میں غلو ( جس کے کچھ مظاھر آپ کی مذکورہ بالا تحریر میں محسوس ہوتے ہیں ) کر کے یا تنقیدیا اختلاف کر کے یکسر بڑہایا گھٹایا نھیں جا سکے گا کیونکہ یہ مرتبہ تاریخی ارتقاء سے ان کو ملا ہے جو ان کے کام کا من حیث المجموع سچا عکاس ہے۔
آپ کوئی تو وجہ بتائیں آخر کہ یہ شعر غالب کا کس وجہ سے ہے؟
جی مجھے بھی غلو ہے، اور ماشااللہ سینکڑوں محقیقین اسی غلو میں مبتلا تھے، آپ نے ایک ضرب المثل تو سنی ہوگی "جس کا کام اسی کو ساجھے، کوئی اور کرے تو ٹھینگا باجے"
میرا یہ سبجیکٹ ہے، اور میں نے اسے اساتذہ سے پڑھا ہے، غلو اگر اسی کو کہتے ہیں تو جی میں غلو میں مبتلا ہوں
لیکن صرف لفاظی سے اسے غالب کا ثابت نہیں کیا جا سکتا
آپ ڈھکے چھپے الفاظ میں یہی کہنا چاہتے ہیں کہ حالی سے لیکر آج کے غالبیات کے ماہرین تک سب پاگل اور عقل کے اندھے تھے، کوئی بھی نہیں پہچان پایا اس شعر کا غالب سے تعلق
آپ کی سمجھ کو سلام ، آپ کی واجپائیت کو سلام ،
تحقیق کیجئے کہ غالب تخلص کے اور کتنے شعرا گزرے ہیں، تحقیق کے دروازے کھلے ہیں، لیکن خدا را غالبیات کو اپنی ذاتی سمجھ بوجھ اور تکے بازیوں
کا نشانہ نہ ہی بنائیے تو بہتر ہوگا
 

سعدی غالب

محفلین
"بھائی شہاب آلدین خان واسطے خدا کے ، تم نے اور حکیم نجف خان نے میرے دیوان کا کیا حال کر دیاہے۔ یہ اشعار جو تم نے بھیجے ہیں ، خدا جانے کس ولد الزنا نے داخل کر دئیے ہیں، دیوان تو چھاپے کا ہے۔ متن میں اگر یہ شعر ہوں تو میرے ہیں ، اور اگر حاشیے پر ہوں تو میرے نہیں ہیں۔ بالفرض اگر یہ شعر متن میں بھی پائے جائیں تو یوں سمجھنا کہ کسی ملعون زن جلب نے اصل کلام کو چھیل کر یہ خرافات لکھ دئیے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس مفسد کے یہ شعر ہیں اس کے باپ پر ، اور دادا پرلعنت ۔ اور وہ ہفتاد پشت تک ولد الحرام"

اردوئے معلیٰ صفحہ 220، 221
 

فاتح

لائبریرین
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ یہ شعر غالب دکنی کا ہے، لیکن آپ کو صرف بات بڑھانے سے غرض ہے
حالانکہ آپ بھی اس شعر کو غالب کا نہ ماننے والوں کی لسٹ میں ہیں، پھر یہ بے معنی بحث ؟؟؟؟
آپ کا لکھا کیا آسمان سے نازل ہوا ہے کہ بغیر حوالے کے آپ کے دہن مبارک سے نکلے کلام کو مقدس اور مستند مان لیا جائے اور اس پر بات کرنے کی جرات نہ کی جائے؟ ایک جانب تحقیق کا دعویٰ اور دوسری جانب یہ جہالت سے پر مراسلہ کہ مجھے بات بڑھانے سے غرض ہے۔ ذرا یہ بھی واضح فرما دیجیے کہ آپ کی کیا اہمیت ہے میرے لیے کہ آپ سے بات بڑھانے کی کوشش کروں گا؟ تھوڑا سا آنکھوں اور دماغ سے کام لیں کہ اس دھاگے پر ہمارے دوست فرخ منظور نے ایک مراسلہ لکھا تھا جس کے جواب میں ہم نے یہاں بات شروع کی تھی کہ اچانک آپ آن ٹپکیں اور اب آپ ہم سے فرما رہی ہیں کہ ہم بات بڑھا رہے ہیں۔
اچانک ایک من گھڑت دعویٰ فرماتی ہیں بغیر کسی حوالے کے کہ
یہ شعر غالبؔ دکنی کا ہے
اور اس دعوے کا ثبوت یہ پیش کیا جاتا ہے:
دبستانِ لکھنؤ اور دبستانِ دلی کا فرق سمجھنے والے حضرات بہتر سمجھ سکتے ہیں
جس لہجے کا یہ شعر ہے وہ دلی کی زبان میں معیوب سمجھی جاتی تھی، کجا کہ اتنا عامیانہ شعر غالبؔ کہتے جنہیں وبائے عام میں مرنا بھی گوارہ نہ تھا
واہ واہ واہ یعنی اس دلیل سے یہ ثابت ہوا کہ یہ شعر غالب دکنی کا ہے؟ کیا بے سر و پا اور غیر منطقی دلیل پیش فرمائی ہے۔ اس پر دعویٰ یہ کہ چونکہ آپ کا فرمان نازل ہو چکا ہے کہ یہ غالب دکنی کا شعر لہٰذا کسی کو اس پر مزید بات کرنے کا اختیار نہیں۔
کیسے کیسے لوگ ہمارے جی کو جلانے آ جاتے ہیں​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ کوئی تو وجہ بتائیں آخر کہ یہ شعر غالب کا کس وجہ سے ہے؟
جی مجھے بھی غلو ہے، اور ماشااللہ سینکڑوں محقیقین اسی غلو میں مبتلا تھے، آپ نے ایک ضرب المثل تو سنی ہوگی "جس کا کام اسی کو ساجھے، کوئی اور کرے تو ٹھینگا باجے"
میرا یہ سبجیکٹ ہے، اور میں نے اسے اساتذہ سے پڑھا ہے، غلو اگر اسی کو کہتے ہیں تو جی میں غلو میں مبتلا ہوں
لیکن صرف لفاظی سے اسے غالب کا ثابت نہیں کیا جا سکتا
آپ ڈھکے چھپے الفاظ میں یہی کہنا چاہتے ہیں کہ حالی سے لیکر آج کے غالبیات کے ماہرین تک سب پاگل اور عقل کے اندھے تھے، کوئی بھی نہیں پہچان پایا اس شعر کا غالب سے تعلق
آپ کی سمجھ کو سلام ، آپ کی واجپائیت کو سلام ،
تحقیق کیجئے کہ غالب تخلص کے اور کتنے شعرا گزرے ہیں، تحقیق کے دروازے کھلے ہیں، لیکن خدا را غالبیات کو اپنی ذاتی سمجھ بوجھ اور تکے بازیوں
کا نشانہ نہ ہی بنائیے تو بہتر ہوگا
آ پ کی تحریر سے کم ازا کم ایک بات خو ش آیندلگتی ہے اور وہ یہ ہے کو اگر مرزا آج ہوتے تو آپ امراؤ بیگم کی جگہ ہوتیں یا ان کی حریف یا حلیف ۔ دوسری بات یہ کہ تصویر بتاں والا شعر میں نے اپنے بڑے بہن بھایئوں سے اتنی عمر میں سنا تھا کہ جتنی عمر کے میرے بچے ہونیوالے ہیں اور اسے مرزا کے کسی دیوان میں نہ پایا۔چنانچہ میری نظر میں یہ شعر کبھی مرزا سے منسوب نہیں رہا اور پہلی مرتبہ یہیں اس بحث میں یہ پتا چلا کہ ایسی کوئی بات ممکن ہے۔ابھی بھی میرا خیال ہے کہ یہ شعر غالب کا ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی اور یہ کہ یہ کوئی اتنی اہم بحث نہیں۔ میں نے اپنی بالائی رائے میں یہ مشورہ دیا تھا کہ کسی کی رائے کو مانیں نہ مانیں بے صبری یا خلجان میں مبتلا ہونا کسی طور مفید نہیں ۔۔۔۔ اور ہاں۔۔۔ اتنا ضرور سمجھ لیں کہ غالب کو جو مقام و مرتبہ ان کی شاعری و ہنروری کی وجہ سے ملا ہے اس میں غلو کرنے والے ان ستائش گروں کا کوئی حصہ نہیں ۔ نہ ہی آپ کا یہ غلو اس کو بڑھا سکتا ہے نہ اسے آپ کی ایسی بے جا حفاظت کی حاجت ہے۔۔۔دوسرے یہ کہ آپ ذرا یہ غور فرمائیں کہ لکھنؤ کے لہجے کی کونسی جھلک آپ کو اس میں نظر آتی ہے۔۔۔۔میری رائے میں تو یہ شعر لہجے کے اعتبار سے مکمل طور پر معتدل ہے ۔ لکھنوی طرز کے بانکپن کا شایبہ تو اس کے قریب سے بھی نہیں گزرتا ۔۔۔ اور میں پہلے بھی اشارہ کر چکا ہوں کہ اس سےتو کہیں زیادہ بڑھ کر اور نمونے آپ کو معمولی کوشش سے مل جائیں گے ۔۔۔ اس سے نہ غالب کی توہین ہوتی ہے نہ کوئی دفاع کی حاجت ۔۔۔یہی آفاقی کلام کی زندہ نشانی ہے ۔۔۔۔ اب آپ یہ بھی ملاحظہ فرمایئں کہ اس سلیس زبان میں لفاظی کہاں ہے؟؟ اور میرا موقف کیا ہے ؟؟ آپ کی مرزا سے وابستگی کی بہر حال داد نہ دینا زیادتی ہوگی سو خراج تحسین بھی کھلے دل سے قبول فرمائیں ۔۔۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بھائی صاحب، اتنی تحقیق کے بعد آپ نے یہ نتیجہ نکالا کہ تمام الحاقی کلام بھی غالب کا ہے۔ تو پھر کمال ہے۔
آپ کے خیال میں تو یہ شعر بھی غالب کا ہی ہو گا۔
اسد اس جفا پر بتوں سے وفا کی
مرے شیر شاباش رحمت خدا کی
صاحب آپ ذرا صرف اتنا فرما دیں کہ آپ کو کو کس بات سے اندازہ ہوا کہ میں یہ نتیجہ اخذکر چکا ہوں کہ یہ شعر غالب کا ہے ۔تا ہم میری نظر میں تو یہ بحث ہی چنداں مفید و اہم نہیں تا ہم کوئی متعلقہ حوالہ استناد کامل جائے تو خیر۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
صاحب آپ ذرا صرف اتنا فرما دیں کہ آپ کو کو کس بات سے اندازہ ہوا کہ میں یہ نتیجہ اخذکر چکا ہوں کہ یہ شعر غالب کا ہے ۔تا ہم میری نظر میں تو یہ بحث ہی چنداں مفید و اہم نہیں تا ہم کوئی متعلقہ حوالہ استناد کامل جائے تو خیر۔

تو پھر آپ اس بحث سے دور ہی رہیے۔ بحث بھی کرنا ہے اور فایدہ اور نقصان بھی دیکھنا ہے۔ واہ صاحب! سبحان اللہ :))
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تو پھر آپ اس بحث سے دور ہی رہیے۔ بحث بھی کرنا ہے اور فایدہ اور نقصان بھی دیکھنا ہے۔ واہ صاحب! سبحان اللہ :))
(مفت) مشورہ کا شکریہ ۔ ۔۔۔ سوال پھر بھی تشنہء جواب رہا ۔۔۔ ( اس میں کوئی مصلحت سمجھ لوں ؟؟؟):laughing:
 

فرخ منظور

لائبریرین
مرزا کے کلام میں سے کچھ عامیانہ ، معیوب ، یا لکھنوی طرز کے اشعار مل جانے سے ( اور ضرور ایسے نمونے مل جائیں گے) مرزا کے مقام و مرتبے پر کچھ فرق نہیں پڑتا ۔کیونکہ یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا - نہ ہی مرزا کے کلام میں کسی ترکیب سے اختلاف سے ایسا ہوتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے محققین نے کیا ہے ۔۔اور میری رائے میں جا بجا صد فی صد درست بھی کیا ہے۔۔ تحقیق کے دروازے بہر حال ہمیشہ کھلے ہونے چاہییں ۔۔۔

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آپ کی توجہ ان "کچھ" اشعار سے ایسی الجھی کہ آپ کو آپ کی "خوابیدگی" سے باہر نکلنے نھیں دے رہی :happy: ۔ اسی لیے آپ کی توجہ مرزا کے بقیہ دیوان پہ نہیں جاتی جس نے انہیں غالب کر دیا ۔ اگر استعداد ہو تو اپنی دلچسپی کے اشعار سے فرصت پاکر فارسی کلام پہ بھی توجہ دیجیے گا۔
فارسی بیں تا ببنیی نقش ہاءے رنگ رنگ
بگذر از مجموعہء اردو کہ بیرنگ من است
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپ کی توجہ ان "کچھ" اشعار سے ایسی الجھی کہ آپ کو آپ کی "خوابیدگی" سے باہر نکلنے نھیں دے رہی :happy: ۔ اسی لیے آپ کی توجہ مرزا کے بقیہ دیوان پہ نہیں جاتی جس نے انہیں غالب کر دیا ۔ اگر استعداد ہو تو اپنی دلچسپی کے اشعار سے فرصت پاکر فارسی کلام پہ بھی توجہ دیجیے گا۔
فارسی بیں تا ببنیی نقش ہاءے رنگ رنگ
بگذر از مجموعہء اردو کہ بیرنگ من است

معذرت کے ساتھ لیکن آپ اور آپ جیسے کچھ اصحاب اردو شاعری کو پوری طرح کھنگالتے نہیں اور فارسی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں چاہے فارسی انہیں لاکھ سیکھنے سے بھی نہ آئے۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
معذرت کے ساتھ لیکن آپ اور آپ جیسے کچھ اصحاب اردو شاعری کو پوری طرح کھنگالتے نہیں اور فارسی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں چاہے فارسی انہیں لاکھ سیکھنے سے بھی نہ آئے۔ :)
اردو شاعری کا لطف اگر آپ فارسی زبان سے یکسر ناواقف ہو کر یا بالکل نکال کر لیں گے تو لطف آ تو جائے گا مگر اتنا ہی آ ئے گا جیسے آم کی ( پہلے سے کسی کی چوسی ہوئی ) گٹھلی چوس رہے ہوں ۔ ذائقے سے مست بھی ہو جائیں گے کیوں کہ آم کبھی کھایا نہ دیکھا !!! ۔ مرزا کا بالائی منقولہ شعر کسی سے ترجمہ کروا لیں ۔ فرماتے ہیں میری اردو شاعری ایسی ہے جیسے ( آج کے دور میں ) بلیک اینڈ وائٹ (ٹی وی) ۔ اگر رنگ دیکھنے ہیں تو میرا فارسی مجموعہ کی طرف دیکھو۔۔۔ ۔
ڈاکٹر اقبال نے شاعری کی ساڑھے تین کتابیں اردو میں لکھیں اور فارسی میں تقریبا" دگنی جبکہ ان کے (اولین) مخاظب اردو تھے۔۔۔ڈاکٹر اقبال اور مرزا کے علاوہ شبلی نعمانی کو تو آپ اتھارٹی مانتے ہوں گےآپ نے بھی کسی کتاب ( غالبا" شعر العجم ) میں لکھا کہ اردو شاعری فارسی کا دودھ پی بڑی ہوئی ہے ۔ تبھی ہڈیوں میں اتنی جان آئی ہے۔
۔۔۔۔۔میں آپ کو فارسی زبان سیکھنے کی زبر دستی نہیں کر رہا ۔۔۔ لیکن حیرت ہے کہ آپ کسی کی تحریر کے نتائج "کہاں" سے اخذ کرتے ہیں ۔۔ اور سوالوں کا جواب بھی مرحمت فرمانا درخور اعتنا ء نہیں سمجھتے۔
مثل مشہور بھی ہے کہ ۔۔۔
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے
(۔۔۔۔) کو فارسی کیا ہے
میں نےقوسین کی جگہ خالی چھوڑ دی کیونکہ آپ نے اپنے پروفائل میں عمر بھی چھپارکھی ہے :shameonyou: ۔۔۔
( امید ہےاس بار قلبی کشادگی سے جواب مرحمت فرمائیں گے :laugh1: )
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top