ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
فضائے خندۂ گل تنگ ، و ذوقِ عیش بے پروا
فراغت گاہِ آغوشِ وداعِ دل ، پسند آیا
فرہنگ:
فضا: جگہ کی وسعت یا پھیلاؤ
خندۂ گل: غنچے کا کھلنا
ذوقِ عیش: ذوقِ نشاط ، ذوقِ زندگی
بے پروا: بے خوف ، آزاد
گاہ : اسمِ مکان اور اسمِ زمان دونوں کے لئے مستعمل ہے ۔ صبحگاہ ، سحر گاہ ، سجدہ گاہ ، آرامگاہ وغیرہ
فراغت گاہ: فراغت کا وقت (یعنی کام کاج سے آزاد ہونے کا وقت) ۔ اگر اس سے جگہ مراد لیں تو آرامگاہ یا راحت کدہ معانی ہوں گے ۔
آغوشِ وداع: رخصت ہوتے وقت گلے ملنا ۔
خندۂ گل کو آغوشِ گل کا وا ہونا بھی کہا جاتا ہے ۔ اس مضمون کو غالب نے دوسرے اشعار میں بھی باندھا ہے :
آغوشِ گل کشودہ برائے وداع ہے ۔۔۔۔ اے عندلیب چل کہ چلے دن بہار کے
گلشن کو تری صحبت ازبسکہ خوش آئی ہے ۔۔۔۔ ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے
اس شعر کا مفہوم تو نسبتاً آسان ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شعر میں "پسند آیا" کا فاعل اور مفعول دونوں محذوف یا مفقود ہیں اس لئے معانی کا الفاظ پر فٹ کرنا مشکل ہے ۔
فضائے خندۂ گل تنگ ہے یعنی گل کو اپنی بہار دکھانے کے لئے جگہ تنگ ہے ۔ اور اس پر ستم یہ کہ اُس کا ذوقِ نشاط آزاد اور بے پروا ہے ۔ (ذوقِ نشاط یا خواہشِ نشاط دل میں ہوتی ہے سو اس کا تعلق دل سے ہے)۔ چنانچہ پھول نے کھِل کر اپنے دل (یعنی خوشبو ) کو وداع کردیا اور فراغت بخش دی ۔ یہاں غالب نے خندۂ گل کو آغوش وا کرنے سے تعبیر کیا ہے اور یہ آغوش کشائی دراصل دل (یعنی خوشبو) کو رخصت کرنے کے واسطے تھی ۔ خوشبو خندۂ گل کی محدود فضا سے نکل کر آزاد ہوگئی ۔
اگر ذوقِ عیش کو "پسند آیا" کا فاعل مان لیں تو یہ معنی ہوئے کہ خندۂ گل کے لئے جگہ تنگ تھی اور ذوقِ عیش (خوشبو) طبعاً آزاد تھا ۔ چنانچہ گل نے آغوشِ وداع کھول کر خوشبو کو جانے دیا ۔ ذوقِ عیش کو آغوشِ وداعِ دل کا یہ وقت (یا مقام) پسند آیا ۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ فراغت اور فراغت گاہ دونوں مونث ہیں چنانچہ پسند آیا درست نہیں ہوگا ۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ غالب نے اس شعر میں پسند آیا کا فاعل خود اپنے آپ کو کہا ہے ۔ اور پسند آنے کا مفعول یہ تمام معاملہ و منظر ہے کہ جسے دونوں مصرعوں میں بیان کیا ۔ میرا خیال ہے کہ لیکن دامنِ شعر تنگ ہونے کی وجہ سے عجزِ بیان در آیا ۔ ردیف آڑے آگئی ۔ وہ خود ہی کہہ گئے ہیں کہ :
بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اورچاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے
فراغت گاہِ آغوشِ وداعِ دل ، پسند آیا
فرہنگ:
فضا: جگہ کی وسعت یا پھیلاؤ
خندۂ گل: غنچے کا کھلنا
ذوقِ عیش: ذوقِ نشاط ، ذوقِ زندگی
بے پروا: بے خوف ، آزاد
گاہ : اسمِ مکان اور اسمِ زمان دونوں کے لئے مستعمل ہے ۔ صبحگاہ ، سحر گاہ ، سجدہ گاہ ، آرامگاہ وغیرہ
فراغت گاہ: فراغت کا وقت (یعنی کام کاج سے آزاد ہونے کا وقت) ۔ اگر اس سے جگہ مراد لیں تو آرامگاہ یا راحت کدہ معانی ہوں گے ۔
آغوشِ وداع: رخصت ہوتے وقت گلے ملنا ۔
خندۂ گل کو آغوشِ گل کا وا ہونا بھی کہا جاتا ہے ۔ اس مضمون کو غالب نے دوسرے اشعار میں بھی باندھا ہے :
آغوشِ گل کشودہ برائے وداع ہے ۔۔۔۔ اے عندلیب چل کہ چلے دن بہار کے
گلشن کو تری صحبت ازبسکہ خوش آئی ہے ۔۔۔۔ ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے
اس شعر کا مفہوم تو نسبتاً آسان ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شعر میں "پسند آیا" کا فاعل اور مفعول دونوں محذوف یا مفقود ہیں اس لئے معانی کا الفاظ پر فٹ کرنا مشکل ہے ۔
فضائے خندۂ گل تنگ ہے یعنی گل کو اپنی بہار دکھانے کے لئے جگہ تنگ ہے ۔ اور اس پر ستم یہ کہ اُس کا ذوقِ نشاط آزاد اور بے پروا ہے ۔ (ذوقِ نشاط یا خواہشِ نشاط دل میں ہوتی ہے سو اس کا تعلق دل سے ہے)۔ چنانچہ پھول نے کھِل کر اپنے دل (یعنی خوشبو ) کو وداع کردیا اور فراغت بخش دی ۔ یہاں غالب نے خندۂ گل کو آغوش وا کرنے سے تعبیر کیا ہے اور یہ آغوش کشائی دراصل دل (یعنی خوشبو) کو رخصت کرنے کے واسطے تھی ۔ خوشبو خندۂ گل کی محدود فضا سے نکل کر آزاد ہوگئی ۔
اگر ذوقِ عیش کو "پسند آیا" کا فاعل مان لیں تو یہ معنی ہوئے کہ خندۂ گل کے لئے جگہ تنگ تھی اور ذوقِ عیش (خوشبو) طبعاً آزاد تھا ۔ چنانچہ گل نے آغوشِ وداع کھول کر خوشبو کو جانے دیا ۔ ذوقِ عیش کو آغوشِ وداعِ دل کا یہ وقت (یا مقام) پسند آیا ۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ فراغت اور فراغت گاہ دونوں مونث ہیں چنانچہ پسند آیا درست نہیں ہوگا ۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ غالب نے اس شعر میں پسند آیا کا فاعل خود اپنے آپ کو کہا ہے ۔ اور پسند آنے کا مفعول یہ تمام معاملہ و منظر ہے کہ جسے دونوں مصرعوں میں بیان کیا ۔ میرا خیال ہے کہ لیکن دامنِ شعر تنگ ہونے کی وجہ سے عجزِ بیان در آیا ۔ ردیف آڑے آگئی ۔ وہ خود ہی کہہ گئے ہیں کہ :
بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اورچاہیے وسعت مرے بیاں کے لئے