محمداحمد
لائبریرین
غزل
کیوں مُستند خیال کروں ہر خبر کو میں
کیا جانتا نہیں ہوں صفِ معتبر کو میں
میں صاحبِ نظر نہ سہی، دیکھتا تو ہوں
پھر کیا کروں ہر ایک کی فہم و نظر کو میں
آمادہء سفر ہی نہ ہو ہم سفر تو پھر
کیا خاک چھاننے کو چُنوں رہگزر کو میں
کس مہرباں نے کھوٹی کی ہیں میری منزلیں؟
"پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں"
اُڑتی ہے خاک دشت میں، ہے موج موج ریت
صحرا میں دیکھ لیتا ہوں مد و جذر کو میں
پیہم شجر کُشی سے تنفس ہوا محال
اب یاد کرکے روتا ہوں برگ و شجر کو میں
درکار ہے مجھے کوئی پہلو اُمید کا
پیہم تلاشتا ہوں کسی خوش نظر کو میں
میں سوچتا ہوں جاؤں کسی سبزہ زار کو
لے کر کوئی کتاب، کسی سہ پہر کو میں
یہ روگ لا علاج ہے دل مت دکھائیے
سمجھا رہا ہوں آج مرے چارہ گر کو میں
تیری گلی میں جانا بھی کارِ عبث نہ ہو
پہچان ہی نہ پاؤں تیرے بام و در کو میں
احمد میں اپنی بات کہوں گا غزل کے بیچ
کیونکر سُناؤں حال کسی خود نِگر کو میں
محمد احمدؔ
کیوں مُستند خیال کروں ہر خبر کو میں
کیا جانتا نہیں ہوں صفِ معتبر کو میں
میں صاحبِ نظر نہ سہی، دیکھتا تو ہوں
پھر کیا کروں ہر ایک کی فہم و نظر کو میں
آمادہء سفر ہی نہ ہو ہم سفر تو پھر
کیا خاک چھاننے کو چُنوں رہگزر کو میں
کس مہرباں نے کھوٹی کی ہیں میری منزلیں؟
"پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں"
اُڑتی ہے خاک دشت میں، ہے موج موج ریت
صحرا میں دیکھ لیتا ہوں مد و جذر کو میں
پیہم شجر کُشی سے تنفس ہوا محال
اب یاد کرکے روتا ہوں برگ و شجر کو میں
درکار ہے مجھے کوئی پہلو اُمید کا
پیہم تلاشتا ہوں کسی خوش نظر کو میں
میں سوچتا ہوں جاؤں کسی سبزہ زار کو
لے کر کوئی کتاب، کسی سہ پہر کو میں
یہ روگ لا علاج ہے دل مت دکھائیے
سمجھا رہا ہوں آج مرے چارہ گر کو میں
تیری گلی میں جانا بھی کارِ عبث نہ ہو
پہچان ہی نہ پاؤں تیرے بام و در کو میں
احمد میں اپنی بات کہوں گا غزل کے بیچ
کیونکر سُناؤں حال کسی خود نِگر کو میں
محمد احمدؔ