افسوس ہوا یہ سن کر۔ بھابی آپ کو وقت پر غذا دے دیا کرتیں تو آج ہم سب کو یہ سننے کو نہ ملتامیں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوںکاش پوچھو کہ غذا کیا ہے
افسوس ہوا یہ سن کر۔ بھابی آپ کو وقت پر غذا دے دیا کرتیں تو آج ہم سب کو یہ سننے کو نہ ملتا
جی ہاں یہ ہے غالب کے پرزے اُڑانے والوں کا انجام۔حضرت استادَ محترم، اس جمناسٹک میں گویامگر محمد خلیل الرحمٰن قلم کی جگہ کانوں پر قدم رکھ گئے، میں سوچ کر پریشان تھا کہ کانوں پر قدم کے لئے بہت جمناسٹک کرنی پڑتی ہو گی۔
عمدہ صلاح۔ داد قبول فرمائیے۔ سمجھئیے کہ شامل کردیا۔بہت عمدہ سر جی، جی خوش ہوگیا، قسم سے
سیاست میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو مارتے ہیں ہم کہ جس پبلک پہ دم نکلے
(کمال کی چوٹ ہے جناب، بہت عمدہ)
لیکن ایک چھوٹی سی فدویانہ تجویز ہے
کہاں قصرِ صدارت اور کہاں جیلوں کے دروازے
بس اتنا جانتے ہیں ہم، کسی جانب قدم نکلے
اس دوسرے مصرعے کو
"بس اتنا جانتے ہیں ،کل وہ آتا تھا کہ ہم نکلے" کر لیں تو مزا اور لطافت میں شاید اضافہ ہو جائے
مندرجہ بالا تینوں شعر ہم نے ایک بھاری دل کے ساتھ، پھوپھا جان کی وفات اور سوئم سے متاثر ہوکر لکھے ہیں۔ اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ مرحوم عرصہ ایک سال سے صاحبِ فراش تھے۔ اللہ والے آدمی تھے۔ سکون سے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔ مرنے سے کچھ دِن پہلے بچوں کو ہدایت کی تھی کہ اُن کی جیب سے پانچ سو روپیے نکال کر سب گھر والوں کے لیے بریانی کا انتظام کریں۔ جانے کیا رمز تھا اِس میں؟جنازہ پڑھ لیا پڑھ کر سپارےنہ ہو کھانا تو جانے کا مزا کیاپلاؤ اور زردے کی رقابیںیہی ہوگا تو بعد از فاتحا کیاپلاؤ تھا نہ زردے کی رقابیںمرے پھوپھا کا سوئم ہوگیا کیا