غالب کے اکثر شعر ایسے ہی ہوتے ہیں۔ خاص طور پر وہ اشعار جو انہوں نے جوانی کے زمانے میں کہے۔توبہ اتنا مشکل شعر
مرزا عبدالقادر بے دل کا اثر ہےغالب نے اپنا بہت سا کلام اس لیے بھی حذف کر دیا تھا کہ اس میں معنی عنقا تھے یا اس قدر پیچیدہ اور گنجلک تھے کہ قاری کی سمجھ سے بالا تر۔۔۔ ایسے اشعار میں سے معنی نکالنے کا کام بے سود ہے۔
مرزا عبدالقادر بے دل کا اثر ہے
مرزا عبدالقادر بیدل غالب، اقبال اور احمد فراز کے آئڈئل شاعر تھے۔ تو عقل سے پیدل تو نہیں ہو سکتے۔اتنی مسکل شاعری، یا تو بیدل صاحب عقل سے پیدل تھے یا واقعی بے دل تھے۔
بہت شکریہ جناب۔ یہ تشریح کسی حد تک معنویت رکھتی ہے۔ میرا اندازہ یہی تھا کہ خشت اور قالب کی وجہ سے تومیر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے لیکن یہاں پر اس کا محل سمجھ نہیں آ رہا۔ اس کا سیل سے کیا تعلق ہے؟کلیدی لفظ "تعمیر" ہے اور جیومیٹری فن تعمیر کا لازمہ ہے۔۔ اسی بات کی روشنی میں دیگر اصطلاحات اور علامات کو دیکھیے تو بات کچھ کچھ سمجھ میں آجائے گی۔۔۔ در اصل غالب نے جیومیٹری کو بڑتا ہے اس شعر میں ۔۔ اب اس شعر کو پڑھیے
خشت کے نیچے کوئی اضافت نہیں لگائی جائے گی بلکہ اسے یو ں پڑھا جائے گا
خشت: پشتِ دستِ عجز (یعنی اینٹ کیا ہے کویا عاجز و درماندہ ہاتھ کی پشت)
اور
قالب: آغوشِ وداع
اب ذرا ہاتھ کی پشت کے خم کا جائزہ لیا جائے تو گویا الٹا پیالہ ہے۔۔۔ ۔۔ اور پھر آغوش کے خم کو دیکھا جائے ت سیدھا پیالہ ۔۔۔ ۔
ان دونوں خمدار چیزوں (ایک کا خم اوپر کو اور دوسری کا نیچے کو) سے جب کوئی تعمیر عمل میں آئے گی تو سیلاب بھی اس تعمیر کے پیمانہ کو پر نہ کر سکے گا
غالب جیسا شخص جو ابتدائے شعر میں ہی بے دل کا دلدادہ تھا اس لیے اس کے متعلق یہ سوچنا کہ اس کے کسی شعر میں معانی عنقا ہو سکتے ہیں غلط ہے ہاں غالب کو بعد میں یہ احساس ضرور ہو گیا تھا کہ بیدل کی طرح مشکل پسندی اس کے قاری کی عقل و فہم کے امتحان کے سوا کچھ نہیں ہوگا اس لیے غالب نے مشکل پسندی کو ترک کیا باوجود اس کے غالب کے اشعار میں گنجینہ معانی کے طلسمات جلوہ گر ہوتے رہےغالب نے اپنا بہت سا کلام اس لیے بھی حذف کر دیا تھا کہ اس میں معنی عنقا تھے
معانی تو شاعر کے بطن میں ہوا کرتے ہیں میں نے تو محض ظن و تخمین سے کام چلایا تھا ۔۔ تاہم مجھے اس بات سے اختلاف ہے کہ
غالب جیسا شخص جو ابتدائے شعر میں ہی بے دل کا دلدادہ تھا اس لیے اس کے متعلق یہ سوچنا کہ اس کے کسی شعر میں معانی عنقا ہو سکتے ہیں غلط ہے ہاں غالب کو بعد میں یہ احساس ضرور ہو گیا تھا کہ بیدل کی طرح مشکل پسندی اس کے قاری کی عقل و فہم کے امتحان کے سوا کچھ نہیں ہوگا اس لیے غالب نے مشکل پسندی کو ترک کیا باوجود اس کے غالب کے اشعار میں گنجینہ معانی کے طلسمات جلوہ گر ہوتے رہے
اس بنا پر یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ پیچیدہ ،گنجلک اور قاری کی سمجھ سے بالا تر سے بالاتر ہونے کی بنا پر ان اشعار کو دیوان سے نکال دیا گیا ہو ۔۔
مرزا عبدالقادر بیدل غالب، اقبال اور احمد فراز کے آئڈئل شاعر تھے۔ تو عقل سے پیدل تو نہیں ہو سکتے۔
عزیز محترم! پہلے تو اس بات کی وضاحت کردوں کہ ابتدائے سخن میں غالب نے میرزا عبدالقادر بیدل کی پیروی میں مشکل پسندی کو اختیار کیا تھا تاہم جوں جوں غالب کو اس بات کی تفہیم ہوتی گئی کہ شاعری میں بیدل کا اسلوب گویا معمہ سازی اور چیستان سازی کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیے انہوں نے اس سے کنارہ کشی کی اور سہولت کے ساتھ ابلاغ کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس طرف آئے لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی انہیں اپنی استادانہ حیثیت کو تسلیم کرانے کے لیے کچھ ایسے اشعار کہنا پڑے جو میرے نزدیک غالب کی ایک شعوری کوشش تھے بادشاہ کے دربار میں استاد ابراہیم ذوق کا رسوخ اور غالب کے دیگر ہم عصر شعرا کے ساتھ معاصرانہ چشمک کے شاخسانے کے طور پر غالب نے کبھی کبھی ایسے اشعار جان بوجھ کر کہے ہیں جو غالب کی حیثیت کو اس کے ہم عصر شعرا سے بالاتر متعین کرنے میں ممد و معاون ہوئےاستاد محترم آپ سے صرف ایک سوال یہ ہے کہ غالب کا اس درجہ مشکل ہونا مثبت ہے یا منفی. اگر مثبت ہے تو آج کے شعرا کو اس سے رکنے تلقین کیوں کی جاتی ہے؟
اگر منفی ہے تو کیا آپ کی اس بات کا شکار غالب بھی ہیں کہ :
المعانی فی البطن شاعر
لیکن اتنا بھی کیا مشکل کے شعر قاری تک پہنچ جائے اور معانی شاعر کے بطن میں ہی رہ جائے
جواب کا منتظر
عزیز محترم! پہلے تو اس بات کی وضاحت کردوں کہ ابتدائے سخن میں غالب نے میرزا عبدالقادر بیدل کی پیروی میں مشکل پسندی کو اختیار کیا تھا تاہم جوں جوں غالب کو اس بات کی تفہیم ہوتی گئی کہ شاعری میں بیدل کا اسلوب گویا معمہ سازی اور چیستان سازی کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیے انہوں نے اس سے کنارہ کشی کی اور سہولت کے ساتھ ابلاغ کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس طرف آئے لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی انہیں اپنی استادانہ حیثیت کو تسلیم کرانے کے لیے کچھ ایسے اشعار کہنا پڑے جو میرے نزدیک غالب کی ایک شعوری کوشش تھے بادشاہ کے دربار میں استاد ابراہیم ذوق کا رسوخ اور غالب کے دیگر ہم عصر شعرا کے ساتھ معاصرانہ چشمک کے شاخسانے کے طور پر غالب نے کبھی کبھی ایسے اشعار جان بوجھ کر کہے ہیں جو غالب کی حیثیت کو اس کے ہم عصر شعرا سے بالاتر متعین کرنے میں ممد و معاون ہوئے
اس لحاظ سے میں غالب کی مشکل پسندی کو نہ تو منفی کہوں گا اور نہ ہی مثبت قرار دونگا بلکہ یہ وقت کی ایک ضرورت تھی ۔ ضرورت اس لیے کہ غالب کو ایک ایسے دور میں جب ہر کوئی اپنی استادی کا ڈنکا بجا رہا تھا اپنی حیثیت بہر طور تسلیم کروانا تھا۔
پھر جب استادانہ فن کاریوں کی بات آتی ہے تو اشعار ، شعر کے درجہ سے ہٹ کر معمے اور چیستان بن جاتے ہیں اور اس قسم کی پہیلیوں کا مطلب تو بہرحال فی بطن شاعر ہی ہوا کرتا ہے کوئی بوجھ لے تو واہ واہ نہ بوجھ سکے تو استاد کی استادی قائم۔۔۔ ۔
زیر نظر شعر غالبا غالب کی غزل"نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا" ہی کوئی حصہ ہے آج تک اس غزل کے مطلع کی شروح میں بھی اساتذہ فن اختلاف کا شکار رہے ہیں ۔۔۔ جب کسی شعر سے مختلف جہات نکل رہی ہوں اور مختلف مفاہیم اور معانی متعین ہو سکتے ہوں تو ایسے میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ اس کی ممکنہ تشریحات اور جہات ہیں جبکہ اس کے اصل معنی تو شاعر کے پیٹ میں ہی ہیں
میں اسی لیے آج کے شاعر کو مشکل پسندی سے رکنے کا کہتا ہوں ۔ ۔ ۔ در اصل ہر ایک لکھاری یا شاعر کا اپنا اپنا قاری ہوا کرتا ہے۔۔ اور ابلاغ کا بہترین اصول یہی ہے کہ آپ اپنے قاری کی صلاحیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اسلوب کا تعین کریں ۔۔۔ یا پھر اپنے لیے اس سطح کا قاری تلاش کریں جس سطح پر آپ لکھ رہے ہیں۔
بہترین صورت یہی ہوگی کہ آپ قاری کے ساتھ چلیں اور پھر آہستہ آہستہ قاری کو اپنے ساتھ لے چلیں
اور میں خود شاعری میں وصی شاہ کی پیروی کو نا پسند کرتا ہوں.