غالب کے ایک شعر کی تشریح میں مدد درکار ہے

آپ تو شرمندہ کر رہے ہیں حضرت۔
خیر میں جو سمجھا ہوں وہ یہ کے:
ہر موج کے جال پے ایک نہنگ کا منہ کھلا ہے۔
گہر ہونے تک کسی قطرے کو ان سب مشکلات سے بچ نکلنا پڑتا ہے ۔
مختصر یوں ہوا کہ کسی چیز کو اپنے کامل یا اونچے درجے پر پہنچنے کے لئے بہت مشکلات کا سامنا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ تو ہوئی تشریح۔
لیکن اس میں جو بات کہی گئی ہے اس سے میں اتفاق نہیں رکھتا۔ :)
جناب آپ شعر پر مکمل طور پر سمجھے ہی نہیں تو پھر اتفاق چہ معنی دارد
 
استاد محترم شاکرالقادری صاحب قصد بے ادبی ندارم اما شاعر بذاتہی شاعر ہوا کرتا ہے۔۔ یعنی شاعر ہونا اس کی ذات ہے۔۔ شعر کہنا اس کا کام۔۔۔ تا حد فکر بندہ۔۔ شاعر اپنے خیالات کا اظہار اپنے اشعار میں کرتا ہے۔۔۔ اب جو خیال جتنا پیچیدہ ہوا جاتا ہے شعر بھی مبہم و مشکل ہو جاتا ہے۔۔ لیکن میری نظر کم نظر میں اپنے قارئین کی کم اہلی یا سادہ سنجی کی خاطر وہ شاعری ترک تو نہیں کرسکتا یا اسے ان کے لیے آساں تو نہیں بنا سکتا۔۔ بہ خاطر ایں کہ وہ شاعری محض اس لیے کرتا ہے کہ اس کی ذات میں شاعر ہونا شامل ہے اسکی شناخت ہے وہ عوام کے لئے تو شاعر نہیں ہے۔۔ جو ان کی خاطر اپنے اشعار کو شکل دے۔۔۔​
حضور والا اگر میرا نظریہ ناقص ہے یا اصلا بے بنیاد ہے تو خدا را اصلاح فرمادیجے۔۔​
 

شاکرالقادری

لائبریرین
استاد محترم شاکرالقادری صاحب قصد بے ادبی ندارم اما شاعر بذاتہی شاعر ہوا کرتا ہے۔۔ یعنی شاعر ہونا اس کی ذات ہے۔۔ شعر کہنا اس کا کام۔۔۔ تا حد فکر بندہ۔۔ شاعر اپنے خیالات کا اظہار اپنے اشعار میں کرتا ہے۔۔۔ اب جو خیال جتنا پیچیدہ ہوا جاتا ہے شعر بھی مبہم و مشکل ہو جاتا ہے۔۔ لیکن میری نظر کم نظر میں اپنے قارئین کی کم اہلی یا سادہ سنجی کی خاطر وہ شاعری ترک تو نہیں کرسکتا یا اسے ان کے لیے آساں تو نہیں بنا سکتا۔۔ بہ خاطر ایں کہ وہ شاعری محض اس لیے کرتا ہے کہ اس کی ذات میں شاعر ہونا شامل ہے اسکی شناخت ہے وہ عوام کے لئے تو شاعر نہیں ہے۔۔ جو ان کی خاطر اپنے اشعار کو شکل دے۔۔۔​
حضور والا اگر میرا نظریہ ناقص ہے یا اصلا بے بنیاد ہے تو خدا را اصلاح فرمادیجے۔۔​
برادر حجاز! از قول شماکہ "شاعر بذاتہ شاعر ہوا کرتا ہے" کلی اتفاق دارم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعر بذاتہ شاعر ہے، شعر کہنا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ لیکن وہ اپنے خیالات کا اظہار صرف شعر میں نہیں کرتا بلکہ اظہار خیال کے دیگر ذرائع کو بھی وہ بھر پور انداز میں استعمال کرتا ہے یہ ایک الگ اور طویل بات ہے کہ بنیادی طور پر فنون لطیفہ کی تمام اقسام سے تعلق رکھنے والے لوگ فطرتا ایک جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ یہاں اس بات کا محل نہیں یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ:
شاعر شاعری محض اس لیے نہیں کرتا کہ اس کی ذات میں شاعر ہونا شامل ہے بلکہ وہ شاعری اس لیے بھی کرتا ہے کہ اپنی ذات کا اظہار اور نمود کی خواہش بھی اس صناع ازل نے اس کی فطرت کے اندر ودیعت کر دی ہے جو خود بھی کبھی کنز مخفی کی صورت پوشیدہ تھا اسے بھی محض اپنی ذات کے لیے موجود ہونا گوارا نہ ہوا تو اس نے بھی چاہا کہ میں پہچانا جاؤں سو اس نے اس مقصد کے لیے یہ سب تخلیقات کیں مخلوق پیدا فرمائی اور پھر اپنے آپ کو انبیا اور مرسلین کے ذریعہ متعارف کروایا۔
اسی طرح شاعر بھی بہر حال اپنی ذات کا اظہار چاہتا ہے۔۔۔ اگر اسے قاری کی صورت میں واہ واہ کرنے والا نہ ملے تو وہ اپنی ذات کے اندر ہی گھٹ کر مر جائے ۔۔ اس لیے میرا ماننا یہی ہے کہ شاعرکا وجود اپنے قاری کے وجود کا محتاج ہے
 
برادر حجاز! از قول شماکہ "شاعر بذاتہ شاعر ہوا کرتا ہے" کلی اتفاق دارم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعر بذاتہ شاعر ہے، شعر کہنا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ لیکن وہ اپنے خیالات کا اظہار صرف شعر میں نہیں کرتا بلکہ اظہار خیال کے دیگر ذرائع کو بھی وہ بھر پور انداز میں استعمال کرتا ہے یہ ایک الگ اور طویل بات ہے کہ بنیادی طور پر فنون لطیفہ کی تمام اقسام سے تعلق رکھنے والے لوگ فطرتا ایک جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ یہاں اس بات کا محل نہیں یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ:
شاعر شاعری محض اس لیے نہیں کرتا کہ اس کی ذات میں شاعر ہونا شامل ہے بلکہ وہ شاعری اس لیے بھی کرتا ہے کہ اپنی ذات کا اظہار اور نمود کی خواہش بھی اس صناع ازل نے اس کی فطرت کے اندر ودیعت کر دی ہے جو خود بھی کبھی کنز مخفی کی صورت پوشیدہ تھا اسے بھی اپنی ذات کے لیے موجود ہونا گوارا نہ ہوا تو اس نے بھی چاہا کہ میں پہچانا جاؤں سو اس نے اس مقضد کے لیے یہ سب تخلیقات کیں مخلوق پیدا فرمائی اور پھر اپنے آپ کو انبیا اور مرسلین کے ذریعہ متعارف کروایا۔
اسی طرح شاعر بھی بہر حال اپنی ذات کا اظہار چاہتا ہے۔۔۔ اگر اسے قاری کی صورت میں واہ واہ کرنے والا نہ ملے تو وہ اپنی ذات کے اندر ہی گھٹ کر مر جائے ۔۔ اس لیے میرا ماننا یہی ہے کہ شاعرکا وجود اپنے قاری کے وجود کا محتاج ہے
بہت شکریہ محترم لیکن یک نکتہ اینجا ہست کہ ہم بھی اب تک خدا کو درک نہیں کرسکے ہیں بطور کلی۔۔ اور خود خدا جانتا ہے کہ وہ در حقیقت کیا ہے۔۔ شاعر بھی اپنے کلام کا خالق ہوتا ہے۔۔
 
خشت کے نیچے کوئی اضافت نہیں لگائی جائے گی بلکہ اسے یو ں پڑھا جائے گا
خشت: پشتِ دستِ عجز (یعنی اینٹ کیا ہے کویا عاجز و درماندہ ہاتھ کی پشت)
اور
قالب: آغوشِ وداع

اب ذرا ہاتھ کی پشت کے خم کا جائزہ لیا جائے تو گویا الٹا پیالہ ہے۔۔۔ ۔۔ اور پھر آغوش کے خم کو دیکھا جائے ت سیدھا پیالہ ۔۔۔ ۔
ان دونوں خمدار چیزوں (ایک کا خم اوپر کو اور دوسری کا نیچے کو) سے جب کوئی تعمیر عمل میں آئے گی تو سیلاب بھی اس تعمیر کے پیمانہ کو پر نہ کر سکے گا



خشت پشتِ دستِ عجز و قالب آغوشِ وداع
پُر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا۔۔۔ ۔۔
سیل سے مراد ہجر کا طوفانِ بلاخیز۔۔۔ پیمانے سے مراد وجودِ انسان۔۔۔ معنی شائد یہ ہوئے کہ محبوب کو وداع کرتے وقت، جب معانقہ کیا جاتا ہے تو انسان کا قالب ، کسی کو اپنی بانہوں کے حصار میں لئے ہوئےایک ایسا نقشہ پیش کرتا ہے گویا کوئی ناتواں سی تعمیر ہو جو کسی سیلِ بلاخیز کو تھام لینے سے عاجز رہ جائے۔۔اور جب کوئی ان بانہوں کے حصار سے نکلتا ہے تو سب سے پہلے انسان کے ہاتھ اپنی جگہ چھوڑتے ہیں۔۔یعنی خشت پشتِ دستِ عجز۔۔۔ واللہ اعلم

آپ دونوں اساتذہ کی تشریح سر آنکھوں پہ۔
تھوڑا مجھ ناقص العٖقل کی کوشش پہ نگاہ فرمائیں اور اصلاح یا تصدیق بھی کیجئے۔

شعر یوں ہے:۔
خشت پشتِ دستِ عجز :
یعنی اینٹ کسی کمزور ہاتھ کے سہارے میں یا درماندہ دست میں۔

قالب آغوشِ وداع :
رخصت ہوتے ہوئے یا جاتے ہوئے ہے۔

پُر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا :
کس تعمیر کا کو سیل نے آ گھیرا ہے اب؟

مجموعی اور لفظی معنی :
یہ جو کمزور اور بیچارہ ہاتھوں میں اینٹ اٹھائی لے جائی جا رہی ہے اب کس گھر پے طغیانی نے تباہی مچائی ہے؟
یا اب کس کا گھر آفت کا شکار ہوا ہے۔

مجھ کم عقل کے دماغ میں یہی آسان ترین اور لفظی معنی بنتے ہیں جنہیں زیادہ الجھانا میں نہیں سمجھتا بہتر ہے۔
الف عین
 

نایاب

لائبریرین
محترم بھائی مزمل شیخ بسمل
آپ نے یہ ترجمہ کیسے اختیار کیا ۔
خشت پشتِ دستِ عجز :
"یعنی اینٹ کسی کمزور ہاتھ کے سہارے میں یا درماندہ دست میں۔"

خشت پشتِ دستِ عجز :

خشت ۔۔۔۔ (اینٹ )
پشت ( کمر۔ پیچھے )
دست (ہاتھ )
عجز (کمزوری ۔ ناتوانی )
" اینٹ کمزور و ناتواں ہاتھ کی کمر پر ہے "
" اینٹ کمزور و ناتواں ہاتھ کی پچھلی جانب ہے "
محبوب جب جدا ہوتے آخری بار ہم آغوش ہوتا ہے ۔ اس وقت محب کا ہاتھ حالات و واقعات کی بھاری اینٹ کے نیچے ایسے دبا ہوتا ہے کہ محب چاہ کر بھی اسے وداع ہونے ساے روک نہیں پاتا اور ان آنکھوں میں جن میں محبوب کے ساتھ وصال کے خواب سجائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ وہ آنکھیں محبوب کی جدائی کا سوچ کر آنسوؤں کے سیلاب برپا کر دیتی ہیں ۔۔
آپ کو اختلاف کا حق حاصل ہے میری اس تشریح سے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بہت شکریہ محترم لیکن یک نکتہ اینجا ہست کہ ہم بھی اب تک خدا کو درک نہیں کرسکے ہیں بطور کلی۔۔ اور خود خدا جانتا ہے کہ وہ در حقیقت کیا ہے۔۔ شاعر بھی اپنے کلام کا خالق ہوتا ہے۔۔
جی وہی بات آپ نے بھی فرمادی ۔۔۔ جو ہم پہلے سے عرض کر رہے ہیں ۔۔۔۔ شاعر ارادتاً کبھی بھی اپنے کلام کو ابلاغ سے محروم نہیں رکھتا۔۔ لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا کہ اس نے شعر کسی اور کیفیت کے تحت لکھا ہوتا ہے جب کہ قاری پر اس کا ابلاغ کسی اور جہت سے ہو رہا ہوتا ہے قاری جو کچھ کشید کرتا ہے وہ اپنی جگہ درست اور شاعر نے جو کچھ لکھا وہ اپنی جگہ بجا تو ایسے مقام کے لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم شاعر کے کلام کو کلی طور پر شاید نہ سمجھ سکیں صرف اس کی ایک جہت کو دیکھ سکیں جبکہ شاعر کے نزدیک اسکی کوئی اور جہت ہو ۔۔۔۔ المعنی فی البطن شاعر اسی لیے کہا جاتا ہے
مثال کے طور پر
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
اس شعر کی ایک جہت تو یہ ہے کہ:
عام طور پرکسی محفل میں موجود شخص کے بارے میں اسی محفل میں سے کوئی پوچھے کہ فلاں صاحب کون ہیں؟
تو جس کے متعلق پوچھا جا رہا ہو وہ اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بنتا بلکہ اسی محفل میں بیٹھا کوئی دوسرا شخص تعارف کرا دیتا ہے ۔ اور عمومی طور پر اسی شعر کا مطلب کسی ایسے ہی موع محل کی مناسبت سے جانا جاتا ہے۔
جبکہ اگر میں کہوں:
کسی عشوہ طراز محبوب نے اپنی کج ادائیوں سے غالب کو مغلوب کر دیا اور پھر فاتحانہ شان سے اپنے مفتوح کی گردن پر پاؤں رکھتے ہوئے کہے:
اب بتاؤ غالب کون ہے؟ (تم ۔۔۔۔۔ یا ۔۔۔۔۔ میں)
مجھے نہیں معلوم غالب نے کس سچوئیشن کو سوچ کر یہ شعر کہا ہوگا

لیکن ابلاغ بہر حال ہو رہا ہے۔۔۔۔۔

ہم بات کر رہے تھے ایسے کلام کی جو مبہم ہو گنجلک ہو اور ابلاغ کی کمی کا شکارہو یا اس قدر معمائی ہو کہ اس گتھی کو سلھاتے سلھاتے ناخن خرد عاجز ہو جائیں
 
نایاب بھائی مہدی بھائی نہیں میری ناقص تحریر تھی یہ۔
اور تشریح نہیں بلکہ صرف لفظوں کو سہل انداز میں لکھنے کی کوشش کی ہے، ساتھ اساتذہ سے گذارش بھی شروع میں ہی کردی ہے کے اصلاح فرما دیں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
دراصل مسئلہ لمبی ترکیب سے پیدا ہو را ہے

خشت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پشتِ دستِ عجز :

خشت کے نیچے کوئی اضافت نہیں اور نہ ہی اس کے بعد عطف ہے اس لیے اس کو اکیلا ہی پڑھیں اور اس کے آگے وقفہ ڈال کر ترکیب کو پڑھیں
پشتِ دستِ عجر ۔۔۔۔ یعنی عجز کے ہاتھ کی پشت۔۔۔

اب پورا جملہ یوں ہوگا
اینٹ۔۔۔۔،عجز کے ہاتھ کی پشت

اب اس سے یہ بھی نہیں سمجھا جا سکتا کہ اینٹ عجز کے ہاتھ کی پشت پر ہے یا ( دست عجز زیرِ خشت ) ایسا کوئی قرینہ اس مصرعہ میں نہیں پایا جاتا جس سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہو اس کے لیے (زیر یا زبر یا بر کے الفاظ کا استعمال ہوتا ہے)
اس لیے یہی سمجھا جائے گا
اس تعمیر میں استعمال ہونے والی اینٹ دست عاجز کی پشت کی مانند خمیدہ ہے
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی مہدی بھائی نہیں میری ناقص تحریر تھی یہ۔
اور تشریح نہیں بلکہ صرف لفظوں کو سہل انداز میں لکھنے کی کوشش کی ہے، ساتھ اساتذہ سے گذارش بھی شروع میں ہی کردی ہے کے اصلاح فرما دیں۔
بہت معذرت بھائی
دراصل شعر کے بارے گفتگو محترم نقوی بھائی کر رہے تھے ۔ سو بے خیالی میں یہ غلطی ہو گئی ۔
 

نایاب

لائبریرین
محترم شاکر بھائی
پشت کے نیچے بھی زیر ہے
اور دست کے نیچے بھی اور یہ "زیر " دست کو عجز کا کا حامل ٹھہرا رہی ہے ۔
تو پشت کی " زیر "کس کی حامل ہے ۔؟
کیا پشت سے پہلے " خشت " کا ذکر " اینٹ اک کمزور و ناتواں ہاتھ کی کمر " پچھلی جانب " پر ہے "
یہ بحث نہیں بلکہ استاد سے شاگرد کا سوال ہے ۔
 
جی وہی بات آپ نے بھی فرمادی ۔۔۔ جو ہم پہلے سے عرض کر رہے ہیں ۔۔۔ ۔ شاعر ارادتاً کبھی بھی اپنے کلام کو ابلاغ سے محروم نہیں رکھتا۔۔ لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا کہ اس نے شعر کسی اور کیفیت کے تحت لکھا ہوتا ہے جب کہ قاری پر اس کا ابلاغ کسی اور جہت سے ہو رہا ہوتا ہے قاری جو کچھ کشید کرتا ہے وہ اپنی جگہ درست اور شاعر نے جو کچھ لکھا وہ اپنی جگہ بجا تو ایسے مقام کے لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم شاعر کے کلام کو کلی طور پر شاید نہ سمجھ سکیں صرف اس کی ایک جہت کو دیکھ سکیں جبکہ شاعر کے نزدیک اسکی کوئی اور جہت ہو ۔۔۔ ۔ المعنی فی البطن شاعر اسی لیے کہا جاتا ہے
مثال کے طور پر
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
اس شعر کی ایک جہت تو یہ ہے کہ:
عام طور پرکسی محفل میں موجود شخص کے بارے میں اسی محفل میں سے کوئی پوچھے کہ فلاں صاحب کون ہیں؟
تو جس کے متعلق پوچھا جا رہا ہو وہ اپنے منہ میاں مٹھو نہیں بنتا بلکہ اسی محفل میں بیٹھا کوئی دوسرا شخص تعارف کرا دیتا ہے ۔ اور عمومی طور پر اسی شعر کا مطلب کسی ایسے ہی موع محل کی مناسبت سے جانا جاتا ہے۔
جبکہ اگر میں کہوں:
کسی عشوہ طراز محبوب نے اپنی کج ادائیوں سے غالب کو مغلوب کر دیا اور پھر فاتحانہ شان سے اپنے مفتوح کی گردن پر پاؤں رکھتے ہوئے کہے:
اب بتاؤ غالب کون ہے؟ (تم ۔۔۔ ۔۔ یا ۔۔۔ ۔۔ میں)
مجھے نہیں معلوم غالب نے کس سچوئیشن کو سوچ کر یہ شعر کہا ہوگا

لیکن ابلاغ بہر حال ہو رہا ہے۔۔۔ ۔۔

ہم بات کر رہے تھے ایسے کلام کی جو مبہم ہو گنجلک ہو اور ابلاغ کی کمی کا شکارہو یا اس قدر معمائی ہو کہ اس گتھی کو سلھاتے سلھاتے ناخن خرد عاجز ہو جائیں
تشکر برائے فرہم کردن ایں معلومات۔۔ خوش رہئے
 
نایاب بھائی مہدی بھائی نہیں میری ناقص تحریر تھی یہ۔
اور تشریح نہیں بلکہ صرف لفظوں کو سہل انداز میں لکھنے کی کوشش کی ہے، ساتھ اساتذہ سے گذارش بھی شروع میں ہی کردی ہے کے اصلاح فرما دیں۔
ہمیں کچھ سمجھ نہ آیا محترم آپ کیا فرما رہے ہیں؟
 

حسان خان

لائبریرین
اسی طرح غالب کا ایک غیر مطبوعہ مہمل شعر یہ بھی ہے:
اسد خاکِ درِ میخانہ ہا بر فرق پاشیدن
خوشا روزیکہ آب از ساغرِ مے تا بہ زانو تھا
 
اسی طرح غالب کا ایک غیر مطبوعہ مہمل شعر یہ بھی ہے:
اسد خاکِ درِ میخانہ ہا بر فرق پاشیدن
خوشا روزیکہ آب از ساغرِ مے تا بہ زانو تھا
یہ شعر اتنا بھی مہمل نہیں میری نظر میں بس فارسی کا عارفانہ استعمال ہے۔۔
پہلے مصرع میں فرمارہے ہیں کہ: ہم نے میخانوں کے در کی خاک فرق (یعنی فرق سر یا اردو میں پیشانی) پاشیدن یعنی اڑائی ہے۔
دوسرے مصرع میں: محاورہ ہے "گٹھنوں گٹھنوں پانی ہونا" جسے اس طرح فارسی میں استعمال کیا ہے "آب تا بہ زانو تھا" یعنی یادوں کو تازہ کر کہ فرمارہے ہیں کہ وہ دن کتنے اچھے تھے کہ شراب یا مے کہ ساغر میں ہم گٹھنوں گٹھنوں تھے یعنی بہت پیا کرتے تھے۔۔ باقی واللہ اعلم÷
 
بنیادی طور پر فنون لطیفہ کی تمام اقسام سے تعلق رکھنے والے لوگ فطرتا ایک جیسے لوگ ہوتے ہیں
محترم اب حضور اتنا فیض یاب فرما ہی رہیں ہیں تو لگے ہاتھوں اک گتھی اور سلجھاتے جائیے۔۔ اگر اقبال اور جوش کو مد نظر رکھا جائے تو دونوں ہی فنون لطیفہ سے تعلق عمیق رکھتے تھے بلکہ فنون لطیفہ کی بھی ایک ہی صنف سے۔۔ اور دونوں انقلاب پرست بھی تھے کہ جوش "شاعر انقلاب" اور اقبال "مفکر پاکستان"۔۔۔ اور وقت کے تقاضے کی توجیہ بھی نہیں کہ ہم عصر بھی تھے اور یک دیگر کے احوال سے مطلع بھی جیسا کہ جوش نے "یادوں کی بارات" میں وضاحت کی ہے۔۔۔ اور ان کے بیچ جو اختلاف ہے وہ ارش و ارض کا سا ہے۔۔ جوش کے سینکڑوں اشعار ایسے ہیں جو اسکی توجیہ کرتے ہیں بلکہ "یادوں کی بارات" خود کسی گواہ سے کم نہیں ؏ رندی میں یہ اجلال و حشم کس کا ہے؟۔۔۔ اور اقبال کے لیے صرف اتنا لکھ چھوڑنا کافی ہے کہ "علامہ" کہلاتے ہیں۔۔
ایک عجب کش مکش ہے۔۔۔ دہشت ہوتی ہے سوچ کر۔۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میرے محترم ! آپ نے میرے مراسلہ کے جس جملہ کا اقتباس لیا ہے اس سے میرا ہرگز مقصد یہ نہیں تھا کہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے ہر قبیل کے افراد کا آپس میں کوئی نظریاتی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ نظری اختلاف کی گونا گونی ہی تو فنون لطیفہ کے چمنستان کی آبیاری کرتی ہے۔ چمن میں اگر اختلاف رنگ بو نہ ہو اور یکسانی ہی یکسانی ہو تو وہ چمن تو نہیں رہے گا ناں بلکہ سرسو کا کھیت بن جائے گا۔
میرے کہنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ "نمود ذات" اور "خواہش اظہار" میں فطرتا فنون لطیفہ کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد ایک جیسے ہوا کرتے ہیں
کوئی مغنی ہے تو اسے ایک کن رس سامع کی ضرورت ہے، مصور ہے تو فن مصوری کے قدر دان افراد کی ضرورت کو محسوس کرتا ہے، رقاصہ ہے تو اسے بھی اس کی ہر ہر انگڑائی پر داد کی ضرورت ہے ۔۔۔ اور شاعر کو تو سب سے زیادہ اس کی ضرورت ہے
 
Top