غالب کے ایک شعر کی تشریح میں مدد درکار ہے

سید ذیشان

محفلین
گیان چند نے اس شعر کی تشریح اسطرح سے کی ہے:-

خشت، پشتِ دستِ عجز و قالب، آغوشِ وداع
پُر ہوا ہے سیل سے، پیمانہ کس تعمیر کا
پشتِ دست: عاجزی کی نشانی ہے،بالخصوص جب یہ زمین پر رکھی جائے۔
آغوشِ وداع: کسی کو رخصت کرتے وقت بغل گیر ہونا۔
پیمانہ پر ہونا: عمر کا آخر ہونا۔ قدما میں سے کسی کا شعر ہے۔
جب ہو گئی شراب میں دیوانہ مر گیا
ساغر کے خالی ہوتے ہی پیمانہ بھر گیا
عمارت کا پیمانہ سیلاب سے پر ہو تو وہ ایسا ہی ضرر رساں ہے جیسے انسان کا پیمانہ زہر سے| قالب سے مراد اینٹ کا قالب ہے- گو عمارت کا قالب بھی مراد ہو سکتا تھا لیکن غالب اکثر قالبِ خشت کا مضمون لاتے ہیں۔ کہیں اینٹیں بنتی دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ اینٹیں ناتواں ہاتھ کی پشت کی طرح ہیں۔ ان کے سانچے میں وداع کرنے والی آغوش کا انداز ہے جس سے معلوم ہوتا ہے ان سے جو عمارت بنے گی وہ اتنی کمزور ہوگی کہ بنتے ہی رخصت ہو جائے گی۔ کس عمارت کی قضا آگئی ہے جو ایسی اینٹوں کا انتظام ہو رہا ہے۔ عمارت کی نیو میں سیلاب کا پانی آجانا اس کے انہدام کی نشانی ہے۔
اس شعر میں غالب انتہا کے قنوطی ہیں۔ یعنی ہر تعمیر میں تخریب کے آثار دیکھ لیتے ہیں۔ ع میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
صفحہ 60-61 تفسیرِ غالب از گیان چند
 

اسد قریشی

محفلین
جی وہی بات آپ نے بھی فرمادی
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
جبکہ اگر میں کہوں:
کسی عشوہ طراز محبوب نے اپنی کج ادائیوں سے غالب کو مغلوب کر دیا اور پھر فاتحانہ شان سے اپنے مفتوح کی گردن پر پاؤں رکھتے ہوئے کہے:
اب بتاؤ غالب کون ہے؟ (تم ۔۔۔ ۔۔ یا ۔۔۔ ۔۔ میں)
مجھے نہیں معلوم غالب نے کس سچوئیشن کو سوچ کر یہ شعر کہا ہوگا

واہ! بہت عمدہ !
 

محمد ساجد

محفلین
محترم شاکر القادری صاحب!
کیا استاد ابراہیم ذوق اور غالب ہمعصر تھے؟؟؟؟؟کیونکہ میں نے سنا ہے کہ حکیم مومن خان مومن بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے۔

ابراہیم ذوق، حکیم مومن خان مومن، بہادر شاہ ظفر اور غالب ایک ہی دور کے ہیں ابراہیم ذوق بہادر شاہ ظفر کے استاد مقرر تھے کہ غالب بھی اسی حلقہ میں آ پہنچے اور جلد ہی اپنا سکہ منوا لیا اس سلسلہ میں مرزا غالب پر گلزار صاحب کا ڈرامہ ضرور دیکھیں جو کہ غالب کی زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہے بہت کمال کا ڈرامہ ہے جس میں نصیر الدین نے غالب کا کردار خوب نبھایا ہے
 
Top