گویا آپ کے "تنقیدی جائزہ" کے مطابق ایک نا معلوم شاعر نے چُن چُن کر دیوانِ غالب سے نہ صرف الفاظ چرائے بلکہ ایک پوری غزل لکھ ماری جو کہ غالب کے کلام کا انتہائی گھٹیا چربہ ہے۔ اور پھر
مہدی حسن جیسے "میراثی اور بھانڈ "نے اس غزل کو پاکستان ٹیلویژن کی ایک محفل میں سب کے سامنے دیدہ دلیری کے ساتھ گا بھی دیا۔ مجھے تو آج تک ایسا شاعر نہیں ملا جو کہ یہ چاہے گا کہ مہدی حسن جیسا "میراثی اور بھانڈ " (وہ
بین الاقومی ایوارڈ یافتہ "میراثی اور بھانڈ " جس کے پاس احمد فراز جیسے شاعر اپنی غزل خود لے کر جاتے تھے-) اس کی غزل کو (چاہے وہ غالب کے کلام کا انتہائی گھٹیا چربہ ہی کیوں نہ ہو۔) اس کے نام کی بجائے غالب کیا کسی اور کے نام پر گا دے -یا حیرت! "تنقیدی جائزہ" میں آبجیکٹویٹی بھلا کس بلا کا نام ہے۔ شکریہ۔