سید عمران
محفلین
ماشاء اللہ۔۔۔اپنی محدود عقل کے مطابق میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے ساتھ اپنے متبعین کی بھی راہ کھوٹی کربیٹھے گا۔
کم از کم ہمیں تو کافی مفید ، کارآمد اور رہنما باتیں معلوم ہوئیں!!!
ماشاء اللہ۔۔۔اپنی محدود عقل کے مطابق میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے ساتھ اپنے متبعین کی بھی راہ کھوٹی کربیٹھے گا۔
فرض کریں وہ بات قرآن میں ہو تو؟اگر کوئی ائمہ اربعہ کے مقابلے میں نیا مسلک بنا لےیا صحابہ، تابعین، تبع تابعین سے لے کر آج تک امت کے تعامل کے خلاف نئی بات پیش کرے تو کیسا ہے؟؟؟
پروفیسر ایل کے حیدر شعبۂ معاشیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صدر شعبہ تھے۔ ان کا ذکر اطہر پرویز کی کتاب علی گڑھ سے علی گڑھ تک میں بھی ہے۔ایک غیر متعلقہ سوال ہے کہ۔
مختار مسعود کی کتاب ‘سفر نصیب‘ میں انہوں نے اپنے ایک استاد ‘ڈاکٹر ایل۔ کے۔ حیدر‘ کا ذکر کیا ہے۔
لیکن نیٹ پر مجھے کہیں ان کے متعلق کچھ معلومات نہیں مل سکیں۔
آپ کو کچھ علم ہے ان کے بارے میں؟
جی علماء کرام اس بات کا جواب دیں کہ کیا قرآن کا ایسا کوئی حکم ہے جس پر ان ادوار میں عمل نہ کیا گیا ہو یا ان کی تشریح نہ کی گئی ہو؟فرض کریں وہ بات قرآن میں ہو تو؟
پروفیسر ایل کے حیدر شعبۂ معاشیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صدر شعبہ تھے۔ ان کا ذکر اطہر پرویز کی کتاب علی گڑھ سے علی گڑھ تک میں بھی ہے۔
اپنی علمی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے باوجود کچھ لکھنے کی جسارت کررہاہوں۔ کیونکہ ٹیگ کرنے کے باوجود شریک نہ ہونا علمی خیانت نہ سہی ، لیکن حالات نے اسے معاشرتی اور اجتماعی خیانت ضرور بنا رکھا ہے۔جی علماء کرام اس بات کا جواب دیں کہ کیا قرآن کا ایسا کوئی حکم ہے جس پر ان ادوار میں عمل نہ کیا گیا ہو یا ان کی تشریح نہ کی گئی ہو؟
میرے خیال سے کالم نگار نے اس انداز سے بات کر کے ٹھیک نہیں کیا کہ بنیادی بات ہاشمی اور ان کی اولاد کا مغرب میں رہنا تھی اور وہ حقیقت ہی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ محمد اظہارالحق صاحب دو ٹکے کے صحافی ہیں یا ان کی قیمت ذرا سی زیادہ ہے لیکن ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ (حفظہا اللہ) کے بارے میں ان کا تبصرہ درست نہیں ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں "صحافیوں" نے صحافت کا معیار اس قدر گرادیا ہے کہ اب خبر اور ذاتی رائے کا فرق تک مٹ کر رہ گیا ہے ۔ بغیر کسی تحقیق اور چھان بین کے جو چاہے لکھ دیا جاتا ہے ۔ قلم کو لاٹھی کی طرح استعمال کیا جارہا ہے ۔
جو کچھ ان صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں لکھا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے ۔ خواتین کی اسلامی تعلیم کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کی مجددانہ مساعی کے بارے میں تو پوری ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ آپ اور آپ کے رفقاء کی انتھک کوششوں کی وجہ سے مغرب میں بالخصوص اور کئی اسلامی ممالک میں بالعموم خواتین کیلئے اسلامی تعلیم کے متعدد پروگرام جاری ہوئے ہیں اور ان کے مثبت اثرات اگلی کئی دہائیوں میں اسلامی دنیا میں ظاہر ہوں گے ۔ ان کی بیٹی اور داماد کینیڈا کے شہری ہیں اور ٹورونٹو میں الہدٰی انسٹیٹیوٹ چلاتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ اور ان کے شوہر ڈاکٹر ادریس ہر سال تین چار ماہ کے لئے اس انسٹیٹیوٹ میں آکر پڑھاتے ہیں اور بقیہ وقت اسلام آباد اور دنیا کے دیگر شہروں میں درس و تدریس کرتے ہیں ۔ اور جو بات امریکہ کا بارڈر کراس کرنے کے متعلق ہے وہ جھوٹ اور کردار کشی ہے ۔ امریکا میں ایک طبقہ اسلام اور مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثر سے بہت خائف ہے اور ڈاکٹر صاحبہ کی طرح کی کلیدی شخصیات کے لئے کردار کشی اور منفی تشہیر کا ہتھیار اپناتا ہے ۔ انہیں اور ان کے انسٹیٹیوٹ کو بدنام کرنے کی کئی کوششیں کیا جاچکی ہیں ۔ اللہ کریم ڈاکٹر صاحبہ، ان کے رفقاء اور ان کے اداروں کو اپنی امان میں رکھے اور ان کی تعلیمی کوششوں کو بار آور فرمائے ۔ آمین ۔
میرے خیال سے کالم نگار نے اس انداز سے بات کر کے ٹھیک نہیں کیا کہ بنیادی بات ہاشمی اور ان کی اولاد کا مغرب میں رہنا تھی اور وہ حقیقت ہی ہے۔
جہاں تک مجھے علم ہے فرحت ہاشمی کا کینیڈا میں ورک پرمٹ کا دس پندرہ سال پہلے کچھ مسئلہ ہوا تھا۔ اس سلسلے میں کی گئی قانونی چارہ جوئی کے کچھ ریکارڈ اخبارات میں آئے تھے
فرخ بھائی ، تو گویا غامدی صاحب کی امریکا نقل مکانی کی یہ خبر درست نہیں ؟!میرا غامدی صاحب سے اختلاف ہے نہ اتفاق البتہ چند دن قبل ایک سبب سے ان سے ان کے گھر پر ملاقات ہوئی اور اچھی نششست رہی۔ زیادہ تر تو وہ بولنے کی بجائے ہمارے ایک زود گو دوست کو سنتے ہی رہے۔
یہ تو فطری سی بات ہے۔ ہر عمل کا ایک رد عمل آتا ہے۔امریکا میں ایک طبقہ اسلام اور مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثر سے بہت خائف ہے
جی درست ہے۔ امریکہ منتقلی سے پہلے ان کے بیٹھے کے گھر پر ان سےملاقات ہوئی تھی۔ البتہ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ غامدی صاحب امریکہ منتقل ہو رہے ہیں۔فرخ بھائی ، تو گویا غامدی صاحب کی امریکا نقل مکانی کی یہ خبر درست نہیں ؟!
نا چیز ابتدا سے اسی فلسفے پر گامزن ہے۔ میرا مسلک دو سو فیصد یہی ہے۔ ہزار زبانیں ہزار باتیں۔۔۔۔ میں جب سے اس محفل میں آیا ہوں تب سے میں نے کسی مذہبی مکالمے میں حصہ نہیں لیا۔ اسی لیے اس لڑی کو دیکھنے کے باوجود حصہ لینے سے محترز ہوں۔محفل پر عرصہ سے میرا روزانہ خاصا وقت گزرتا ہے۔ میری ذاتی رائے جو ذاتی تجربات کی بنیاد پر مبنی ہے یہ ہے کہ محفل کسی بھی قسم کے مباحثوں کے لیے بوجوہ غیر موزوں ہے چاہے وہ مذہبی ہوں، سیاسی ہوں یا کچھ اور۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں دوسرے کا موقف جاننے کی نسبت زیادہ زور عام طور پر اپنی بات کو اونچا رکھنے پر ہوتا ہے۔
سو ہمیں تو معاف ہی رکھا جائے۔
اپنی علمی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے باوجود کچھ لکھنے کی جسارت کررہاہوں۔ کیونکہ ٹیگ کرنے کے باوجود شریک نہ ہونا علمی خیانت نہ سہی ، لیکن حالات نے اسے معاشرتی اور اجتماعی خیانت ضرور بنا رکھا ہے۔
قرآن میں اکثر احکام بالکل واضح اور صاف ہیں۔ ہاں کچھ احکام پر شروع دور سے علمی اختلاف رہا ، اور بعض نے اس کی تشریح میں بعض ایسے مسائل پیش کئے جو ہر زمانے میں ناقابل قبول رہے۔ لیکن قرآن میں غور و خوض اور اس کے معانی میں غوطہ زنی ہر زمانے میں فاضل اور انقلابی شخصیات کرتی رہیں۔ اور اس کے ناپیدا کنار سمندر سے نئے نئے موتی چن کر لاتی رہیں۔
لیکن کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا کہ قرآن کے کسی حکم ، کسی آیت اور کسی مفہوم کو تشنہ رکھا گیا ہو۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر اور حدیث کی تشریح ایک نازک عمل ہے۔ اور اس کی صلاحیت کم ہی اشخاص میں ہوتی ہے۔ کیونکہٓ اس میدان میں قدم رکھنے کیلئے کم از کم اٹھارہ علوم و فنون میں مہارت تامہ کی ضرورت ہے۔ لفظ اٹھارہ ہی کافی ہے ۔ پوری بات خاطر خواہ سمجھنے کیلئے۔ ان اٹھارہ علوم کے ساتھ ضروری ہے کہ بالعموم جمہور کا ہمنوا ہو۔ ہم علامہ ابن تیمیہ ،علامہ ابن القیم اور امام غزالی وغیرہ کو بہت سے مسائل میں اختلاف کے باوجود انھیں امام کہتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان حضرات کی تصنیفات امت مسلمہ کا وہ لازوال کرشمہ ہے کہ جس نے تقریبا ہر ایک فن کو ایک نئی ڈگر دی۔ ان کے اختلاف کے ساتھ ان کے پاس ایسے ٹھوس دلائل ہوتے ہیں کہ اچھے اچھوں کے سر چکرانے لگتے ہیں۔
اور جہاں تک حال یا ماضی قریب کی مختلف فیہ شخصیات کا تعلق ہے ۔ ان کے دلائل عوام کو تو بھاری نظر آتے ہیں لیکن ایک عام سی صلاحیت کا عالم بھی بلاجھجک اس پر انگلی رکھ کر نشاندہی کرسکتا ہے۔
اور میرے حقیر خیال میں ’’ جس کو جمہورعلماء غلط سمجھتے ہیں وہ عقیدہ غلط ، وہ فیصلہ غلط، وہ مسئلہ غلط‘‘ ۔ ہاں البتہ اگر کچھ علماء کا خیال ہو کہ ان کا یہ نظریہ غلط ہے ۔ تو وہ میدان کھلا ہے‘‘۔ اس میں کچھ افہام و تفہیم کی کوشش ہوسکتی ہے۔
چھوٹا منھ بڑی بات