غامدی صاحب جب اسلامی ریاست کا تصور پیش کرتے ہیں تو ان کے نزدیک:
- اسلامی میں جمہوری طرز حکومت ہونا چاہیئے
- اسلامی مقننہ اور قانون سازی کے لیے شورائی نظام ہونا چاہیئے
- اور یہی مجلس شوری اس سلسلہ میں با اختیار ہوگی کہ وہ بنیادی اسلامی اصولوں کے مطابق قانون سازی کرے
- اور یہ بھی کہ جو حدود اور قوانین قرآن نے دے دیے ہیں ان میں کوئی تبدیلی کرنے کی شوریٰ مجاز نہیں
- اور جہاں قرآن نے کوئی واضح قانون نہیں دیا تو وہاں قرآن شوریٰ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ انتظامی امور کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے قانون سازی کرے
اب ہم غامدی صاحب کے ان اصولوں کو ہی لیتے ہیں، اور ایک مفروضہ قائم کرتے ہیں:
”
ایک لمحے کے لیے فرض کر لیں کہ غامدی صاحب کی بات درست ہے اور قرآن نے توہین رسالت کا کوئی قانون نہیں دیا اور کسی بھی آیت کی رو سے گستاخ رسول کی سزا موت ثابت نہیں ہوتی“
تو اب ہم اس مفروضہ کو غامدی صاحب کے ہی اصولوں کے تحت پرکھیں گے
کیا اسلامی مقننہ کو اختیار نہیں کہ وہ اپنے رسول کی عزت و حرمت کے لیے قانون سازی کرے؟
کیا شورائی نظامی کے تحت وجود میں آنے والے قوانین کو اسلام تحفظ نہیں دیتا
اور کیا شورائی نظام کے تحت وجود میں آنے والے کسی قانون کے بہترین ہونے کے لیے یہ بات کافی نہیں:
ڈیڑھ ہزار سال سے باوجود اس کے کہ مسلمان ہمیشہ نظریاتی اختلاف کا شکار رہے لیکن ایک خاص قانون (مراد، توہین رسالت کا قانون ہے) کے بارے میں کبھی بھی کسی کو اختلاف نہ ہوا اور تمام لوگوں کا اس پر ہمیشہ اتفاق رہا ہے (ماسوائے چند تنہا تنہا آوازوں کے)
اور آج بھی تمام اسلامی فرقوں اور مسالک کے خواص (یعنی علما) اور عوام (یعنی جمہور) اس قانون پر اتفاق رائے رکھتے ہیں اور متحد و متفق ہیں
اور اس کا مظاہرہ ہر روز دیکھنے میں آرہا ہے
پھر یہ غامدی صاحب کی کیسی روش خیالی ہے؟
اور کیسی جدت پسندی ہے؟
کہ وہ نہ تو شوریٰ کی مشاورت سے وجود میں آنے والے قانون کو تسلیم کرتے ہیں
نہ ہی انہیں دیڑھ ہزار سالہ اتفاق رائے (اجماع امت) کی پروا ہے
اور نہ ہی انہیں جمہورعوام کے جذبات اور عقیدت کا احترام ہے
کیا انہیں معلوم نہیں؟
کہ کرمنل پروسیجرکوڈ (جو انگریزوں کی تخلیق ہے) اس میں بھی ہتک عزت کا قانون موجود ہے؟
خود ”تاج برطانیہ“ کی حرمت کا قانون موجود ہے، حتی کہ وکٹورین تاج کی تصویر کی طرف صرف بندوق یا ڈنڈے سوٹی کے ساتھ اشارہ کرنے بھی تاج برطانیہ کی توہین ہے اور اس کی باقاعدہ سزا ہے یہ الگ بات کہ اب انہوں نے سزائے موت کو ختم کر دیا لیکن یہ انکا معاملہ ہے کہ وہ تاج برطانیہ کے گستاخ کو کیا سزا دیتے ہیں
ہم مسلمان ہیں اورہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کا پاس ہے اگر ہم نے اس سلسلہ میں کوئی قانون سازی کی ہوئی ہے تو ان کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھتی ہے
غامدی صاحب! مجھے اس سے غرض نہیں کہ گستاخ کی سزا قرآن کریم میں موجود ہے یا نہیں!
میں مسلمان ہوں اور اتنا جانتا ہوں کہ انتہائی کمترین درجہ کا ایمان رکھنے والا مسلمان بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا اسی لیے ہم نے اپنے ملک میں قانون سازی کی ہوئی ہے
اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل پر پیپلز پارٹی کے اراکین اتنا رد عمل دکھا سکتےہیں کہ
ہزاروںگاڑیاں جلادی جائیں
بینک لوٹ لیے جائیں
فیکٹریوںاور کار خانوں کو نذر آتش کر دیا جائے
سیکڑوں لوگوں کو زندہ جلا دیا جائے
تو اسے ہماری حکومت رد عمل کہہ کر جان چھڑا لے ۔ ۔ ۔ ۔ اور آپ جیسے روشن خیال مسلم سکالرز اس پر کوئی گفتگو نہ کریں
کتنے لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی؟
کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا؟
لیکن اگر مسلمان اپنے نبی کی حرمت کے قانون کے لیے آواز اٹھائیں تو حکومت کو بھی مروڑ اٹھتی ہے اور آپ کو بھی تکلیف ہو جاتی ہے
ایک صوبے کا آئینی سربراہ اس قانون کا مذاق اڑاتا ہے حالانکہ اس کا آئنی فرض ہے کہ وہ آئین اور قانون کی بات کرے اور اس کی حفاظت کرے
سیشن کی سطح کے ایک عدالتی فیصلہ پر اس کو اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ وہ اس عیسائی عورت کے پاس جیل میں ملاقات کے لیے جاتا ہے اور پریس کانفرنس کر ڈالتا ہے، کیا اس عوت کی اپیل ہائی کورٹ نے مسترد کر دی تھی، کیا وہ سپریم کورٹ سے بھی مایوس ہوگئی تھی، کہ گورنر صاحب اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے
آج آپ روز میڈیا پر سنتے ہیں:
فلاں عورت کو زندہ جلا دیا گیا، نو سال کی بچی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، پانچ سالی کی بچی، حتی کہ تین سال کی بچیاں بھی جنسی درندگی کا شکار ہوئیں
تاثیر صاحب کتنی مظلوم ماؤں کو تسلی دینے کے لیے گئے
انہوں نے کتنی بیواؤن اور درندگی کا شکار ہونے والی بہنوں کے آنسو پونچھے اور ان کے سروں کو انچل کا سایہ بخشا
انکی انسانی ہمدردی کے جذبات توہین رسالت کے قانون سے متاثرہ عورت کے لیے ہی کیوں امڈ امڈ کر آئے
لمحہ فکریہ ہے
پھر جب عوام خواص سڑکوں پر آگئے تو سلمان تاثیر کو کیوں نہیں روکا گیا،
وہ آئینی سربراہ تھے، انہیں قانونی تحفظ حاصل تھا، انہیں حکومتی سر پرستی حاصل تھی،انکے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہ ہو سکتی تھی، اور انکے خلاف کسی عدالت میں مقدمہ کی سماعت نہ ہو سکتی تھی، اس لیے وہ مسلمانوں کے جذ بات کو ٹھیس پہنچانے میں پیش پیش تھے
پھر جو قدرت کو منظور تھا وہ ہوگیا۔ ۔ ۔!
غامدی صاحب!
آج آپ میڈیا پر کہتے پھرتے ہیں کہ:
سلمان تاثیر کا قاتل دوہرے تہرے جرم ا مرتکب ہوا، ایک تو اس نے قانون کو ہاتھ میں لیا، دوسرے اس نے اس شخص کو قتل کیا جس کی حفاظت پر وہ مامور تھا، تیسرا وہ فرائص منصبی میں خیانت کا مرتکب ہوا۔
مجھے آپ یہ بتایئے!
آپ نے سلمان تاثیر کے متعلق یہی بات کیوں نہ کہی
وہ بھی تو ۔ ۔ ۔۔ عدالتی پروسیجر کو نظر انداز کرتے ہوئے، عیسائی عورت کو سپورٹ کر کے قانون کو ہاتھ میں لے رہے تھے
وہ بھی تو۔ ۔ ۔ ۔ جس قانوناور آئین کی حفاظت پر مامور تھے اسی قانون اور آئین کا قتل کر رہے تھے
وہ بھی تو۔ ۔۔ ۔ فرائض منصبی میں خیانت کے مرتکب ہو رہے تھے
تب۔ ۔ ۔ ۔! آپ کے جدید اور روشن خیال اسلامی قوانین کی کونسی شق آپ کو حق بات کہنے سے روک رہی تھی؟
تب آپ نے اہتمام وانصرام کے ساتھ میڈیا پر ان ارشادات عالیہ سے لوگوں کو کیوں نہ نوازا
میں آپ کے متعلق کیا سمجھوں ۔ ۔ ۔ ۔؟
کیا آپ بھی اسی قسم کے روشن خیال علما میں سے تو نہیں
جو ہارون الرشید اور مامون الرشید کو خوش کرنے کے لیے احادیث وضع کیا کرتے تھے
اگر کسی بادشاہ وقت کو کبوتر بازی کا شوق ہوا تو، روشن خیال اور بادشاہی مولوی نے فورا حدیث وضع کر لی
”کان النبی یطیر الحمام“ یعنی ۔۔ ۔ ۔ نبی کبوتر اڑایا کرتے تھے
نعوذ باللہ من شرور انفسنا
آپ کون سے بادشاہ کو خوش کر رہے ہیں، وہی جرم ایک حکمران کرے تو آپ کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ آپ کے لبوں پر تالےپڑ جاتے ہیں
اور وہی جرم ایک عام پاکستانی سے سرزد ہو جائے تو
آپ کی زبان مبارک در افشانیاں اور گل پاشیاں کرنا شروع کر دیتی ہے
بہ مصطفی برسان خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست
والسلام علی من تبع الہدیٰ