گستاخ رسول کا فیصلہ تلوار فاروقی سے
قرآن کریم نے طاغوتی و الحادی قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہونے اور ان سے بغاوت و روگردانی کا سبق دیا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے
الم تر الی الذین یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک و ما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت و قد امروا ان یکفرو بہ (النساء ، 60:4 )
کیا آپ نے ان (منافقوں) کو نہیں دیکھا جو (اپنے منہ سے تو) دعوی کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے اس پر جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اتارا گیا۔(یعنی قرآن پر اور ان کتب سماوی پر) جو آپ سے پہلے اتاری گئیں (لیکن) چاہتے ہیں اپنا قضیہ شیطان کی طرف (ایک شریر آدمی کعب بن اشرف کی طرف) لے جائیں حالانکہ انہیں حکم دیا جاچکا ہے اس کی بات نہ مانیں۔
اکثر مفسرین نے اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں ایک یہودی اور ایک بشیر نامی منافق کے درمیان جھگڑے کو بیان کیا ہے۔ یہودی نے کہا ہم اپنے اس معاملے کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں لے چلتے ہیں۔ منافق نے اس سے انکار کیا ، کعب بن اشرف کے پاس جانے کے لئے کہا ، بایں سبب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حق پر فیصلہ کرتے کوئی دینوی غرض و لالچ پیش نظر نہ رکھتے ، جبکہ کعب بن اشرف بہت بڑا راشی تھا۔ اس معاملے میں منافق جھوٹا جبکہ یہودی حق پر تھا۔ سو اس نے تحاکم الی الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اصرار کیا تو منافق بادل نخواستہ یہودی کے ساتھ چل پڑا ، دونوں بارگاہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے۔ دونوں کے بیانات سن کر حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ باہر نکلتے ہی منافق نے یہودی سے کہا کہ اس فیصلے سے میں راضی نہیں ہوں ، چلو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کروائیں ، دونوں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے آپ نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو ہی برقرار رکھتے ہوئے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا۔ منافق پھر بھی نہ مانا ، کہنے لگا چلو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کروائیں۔ دونوں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے حق میں فیصلہ دے چکے ہیں مگر یہ فیصلے پر راضی نہیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے Question of Fact حقیقت حال جاننے کے لیے تصدیق کرنے کے لیے منافق سے پوچھا۔ "اھکذا" کیا واقعی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فیصلہ فرما چکے ہیں؟ اس نے کہا "نعم" تسلیم کیا ہاں ایسا ہو چکا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دونوں سے فرمایا
یہیں ٹھہرے رہو یہاں تک کہ میں تمہاری طرف نکل آوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر تشریف لے گئے ، تلوار اٹھائی ، چادر اوڑھی پھر باہر نکلے ، اس منافق کی گردن اڑا دی یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔تفیسر مظہری 154:2 ، تفسیر کشاف 525:1
اس کے بعد ارشاد فرمایا
میں اس طرح فیصلہ کرتا ہوں اس شخص کے بارے میں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے سے راضی نہ ہو۔
یہ خبر پھیل گئی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچی ، کہا گیا ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک کلمہ گو مسلمان کو ناحق قتل کر دیا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
میں گمان نہیں کرتا کہ عمر کسی مومن کے قتل کا اقدام کرے۔(تفسیر کشاف 525:1)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اقدام قتل کو درست قرار دیتے ہوئے اور قتل مسلم سے آپ کو بری قرار دیتے ہوئے یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی
فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا تجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما۔(النساء 65:4)
پس اے (حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) آپ کے پروردگار کی قسم یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس کے ہر اختلاف میں آپ کو (دل و جان سے) حکم نہ بنائیں پھر جو فیصلہ آپ کر دیں اس سے کسی بھی طرح دل گیر نہ ہوں ، اسے دل سے بخوشی قبول کریں۔
گویا جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو آخری قطعی و حتمی نہیں سمجھتا اسے بدل و جان تسلیم نہیں کرتا ، وہ سرے سے ایمان دار ہی نہیں ہے اور اسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بے ادبی ، گستاخی ، توہین و تنقیص اور حکم نہ ماننے کی صورت میں قتل کرنا ، ایک مومن کو قتل کرنا نہیں بلکہ ایک گستاخ رسول اور مرتد کو قتل کرنا ہے۔
بحوالہ : "تحفظ ناموس رسالت" از ڈاکٹر محمد طاہر القادری