غزلیات برائے تبصرہ

سر الف عین عظیم محمد خلیل الرحمٰن شاہد شاہنواز ظہیراحمدظہیر

مجھے ایک فیس بکی گروپ کی طرف سے ہوئے مشاعرے میں پیش کی گئی غزلیات کی تزئین کے لئے کہا گیا ہے۔۔۔ آپ برائے مہربانی تبصرہ کرتے جائیے جو اشعار درست نہیں ہونگے سکپ کر دیئے جائیں گے۔۔۔
یقیناً آپکا وقت بہت قیمتی ہے مگر اس سے ہم ایسے مبتدیوں کو سیکھنے کا موقع میسر آئے گا۔ میں نیچے غزلیات ایک ایک کر کے پیش کرتا ہوں۔
شکریہ
 
ان کو احساس محبت کا دلاتے رہیے
دل ملے گر نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے

وہ اگر ہوتے نہیں کچھ بھی نہیں تھا ممکن
روٹھ جائیں جو کبھی ان کو مناتے رہیے

ختم ہوگا ہی نہیں ایسا خزانہ ہے یہ
دونوں ہاتھوں سے محبت کو لٹاتے رہیے

گر پتہ ہے کہ نہیں اس کی ہے تعبیر کوئی
اپنے خوابوں کو ہر اک رات سلاتے رہیے

جاتے جاتے یہ خوشی مجھ سے بچھڑ کر بولی
غم ملا ہے تو زمانے سے چھپاتے رہیے

اس طرح سے ہی سہی دل کو تسلی ہوگی
دل کی ہر بات کسی کو تو بتاتے رہیے

زندگی کا نہیں کچھ بھی ہے بھروسا اصغر
ساتھ ہر حال میں بس اس کا نبھاتے رہیے

اصغر شمیم
 
یک جا کلام
محمد نور آسی

ان چراغوں کو ہواؤں سے لڑاتے رہیے
رات تسخیر جو کرنی ہے ، جلاتے رہیے

عین ممکن ہے کسی روز یہ سن لی جائے
"دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیے"

بیج نفرت کا اسے بانجھ بنا دیتا ہے
دل کی مٹی میں فقط پیار اگاتے رہیے

میری مٹی ہے، ابھی اور ملائم ہوگی
کوزہ گراور ابھی چاک گھماتے رہیے

سبز رکھنا ہے جو آنگن کا شجر، آساں ہے
کوئی موسم ہو پرندوں کو بلاتے رہیے

غم اگر ختم نہیں ہوگا تو کم تو ہوگا
دل کا احوال ہمیں آکے سناتے رہیے

وقت لگتا ہے مگر وقت بدل جا تا ہے
دل بھی مل جاتے ہیں گر ہاتھ ملاتے رہیے
 
323 ویں مشاعرے میں یکجاکلام***

جشن میلادنبی یونہی مناتے رہئے
نعت خوانی کیلئے ہم کو بلاتے رہئے

سوکھ جائے نہ گلا جون کی گرمی میں مرا
روح افزاہی سہی کچھ تو پلاتے رہئے

چیختے چیختے جب آنے لگے منھ سے جھاگ
جوش میں نعرہءتکبیر لگاتے رہئے

کچھ سمجھنے کی ضرورت نہیں تفسیر ومتن
انکی آواز میں آواز ملاتے رہئے

چاہتے ہیں جوسلامت رہے ایمان اپنا
کچھ نہ کچھ ہفتے میں واعظ کو کھلاتے رہئے

یونہی شرمندہ رہے حشرتک ابلیس لعیں
عشق محبوب خدا دل میں جگاتے رہئے

ہرمسلمان ہے اسلام میں بھائ بھائ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے

ہونہیں سکتا کبھی تارک سنت مؤمن
اہل ایمان کو یہ یاد دلاتے رہئے

( اے حزیں اپنی ہی پہچان کوجو بھول گیا
فاسق وفاجرہے وہ سب کو بتاتے رہئے )

#عبدالرحیم حزیں اعظمی#
 
آخری تدوین:
روٹھے ہیں آپ سے اب آپ مناتے رہیئے
منتیں کیجے نہ اب ناز اٹھاتے رہیئے

لوٹ آنے سے بہت پہلے ہمیں لیجے ساتھ
درد دل سنیئے ہمارا نہ سناتے رہیئے

کوئ پوچھے جو بھری بزم میں ساتھی ہیں کہاں
آئیں گے بزم میں ہم بھی یہ بتاتے رہیئے

اک دیا جلتا ہوا رکھا ہے دیوار پہ آج
آپ نے ہی تو کہا گھر کو سجاتے رہیئے

( پیار جب حد سے زیادہ ہو تو مکاں ہوتا گھر
بیچ رشتوں کی ہر دیوار گراتے رہیئے )

لکھنی ہو حسن پہ جب کوئ غزل آ ملیئے
یونہی دیوان پہ دیواں نہ لکھاتے رہیئے

ساز بج اٹھتے ہیں خاور جو چھڑے تار کوئ
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیئے
(خاور چشتی)
 
آخری تدوین:
********** یکجا کلام *********
ہر کسی کو یہی احساس دلاتے رہٸے
آٸینہ سچ کا ہمیشہ ہی دکھاتے رہٸے

آپ کو آتا ہو جو ہم کو ستانے میں مزا
ہر گھڑی آپ میرے دل کو ستاتے رہٸے

آپ ڈرٸیے نہیں حالات کے تھپیڑوں سے
غم ملے پھر بھی تو یہ جشن مناتے رہٸے

اُس کی یادوں سے سدا رکھٸے اس دل کو روشن
اک دیا درد کا سینے میں جلاتے رہٸے

کچھ عدو بھی تو بھَلے آپ کو مل جاٸینگے
دوستو سے مگر ہر راز چھُپاتے رہٸے

اُن کے آنے کی تو امید لگاٸے رکھٸے
وہ نہیں آٸے مگر آپ تو جاتے رہٸے

وہ اگر ٹوٹ بھی جاٸے تو کوٸی بات نہیں
اپنی پلکوں پہ ہر اک خواب سجاتے رہٸے

آندھیاں توڑ بھی دے آپ کے گھر کو پھر بھی
آشیاں ریت پہ ہر روز بناتے رہٸے

زندگی آپ کو جینے نہیں دے گی اے"قمر"
موت سے ہر گھڑی یہ آنکھ ملاتے رہٸے
ڈاکٹرقمرِعالم"قمر" ، دربھنگہ
 
یکجا
غزل

نشہء عشق و جنوں یونہی بڑھاتے رہیے
اپنی نظروں سے ہمیں آپ پلاتے رہیے

وہ ہے پھل ایسا جو ڈالی سے نہیں ہوگا الگ
صبح سے شام تلک پیڑ ہلاتے رہیے

دل میں نفرت ہو مگر پھیلا ہو لب پر مسکان
دوستی یوں بھی سہی ہم سے نبھاتے رہیے

عہد ہے سائنس کا بازار سے گیزر لاکر
سخت جاڑے کے مہینوں میں نہاتے رہیے

اک اصول اچھا بنا رکھا ہے عادل اپنا
رنج و آلام تسبم سے چھپاتے رہیے

✍️..... حافظ فیصل عادل
 
یکجا کلام

خود کا احساس زمانے کو کراتے رہیے
خواب آنکھوں میں ہمیشہ ہی سجاتے رہیے

کچھ اگر کر کے دکھانا زمانے والوں
بے خطر آنکھ مصائب کو دکھاتے رہیے

وہ اگر اپنا سمجھتا ہے چلا آے گا
پیار کا دیپ لگاتار جلاتے رہیے

ہے اگر شوق محبت میں جلانا خود کو
"دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیے"

یار مل جائیں اگر جان چھڑکنے والے
ایسے احباب سے بےخوف نبھاتے رہیے

پاس آنے پہ تمہیں خوف ہے تو دور سے ہی
مست آنکھوں سے ہمیں جام پلاتے رہیے

تم کو بے کار سمجھ لےنہ جہاں اے نادر
اس لیے،درد،اداسی کو چھپاتے رہیے

نادر بستوی
 
یکجا کلام کی پوسٹ
نعتِ رسولؐ
جشنِ میلادِ محمدؐ جو مناتے رہیے
نعت سرکار ِ مدینہ ؐکی سناتے رہیے

ان ؐکے آنے سے ہوئے دور اندھیرے یکسر
نام ؐسے ان کے اندھیروں کو بھگاتے رہیے

انؐ کی طاعت سے ہے وابستہ خدا کی طاعت
انؐ کی الفت میں زمانے کو بھلاتے رہیے

گھر جو ویران ہوں ویران نہیں رہ سکتے
ذکرِ سرکارِ مدینہؐ سے سجاتے رہیے

میں تو حاضر ہوں مری جان بھی ان پر قرباں
محفلِ نعتؐ سجانے کو بلاتے رہیے

موقعہ جب بھی ملے تم اسے قبول کرو
ان ؐکے روضے کی زیارت کو بھی جاتے رہیے

جن کے ہونے سے خدا راضی رہے خلقت سے
انؐ کے دیوانوں کو سینے سے لگاتے رہیے

انؐ کی چاہت میں چلو نقشِ قدم پر ان کے
انؐ کی ناموس پہ گردن بھی کٹاتے رہیے
شاعر
ذوالفقار ہمدم اعوان
 
کلام

دل کو دیوانہ شہِ دیں کا بنا تے رہیے
عشق کا پھول سدا اس میں کھلاتے رہیے

بارشِ نور میں ہر وقت نہاتے رہیے
محفلِ شاہِ زمن گھر پہ سجاتے رہیے

ان کی یادوں کا دیا دل میں جلاتے رہیے
تیرگی گلشنِ ہستی کی مٹاتے رہیے

تاج والے بھی ترے در کے سوالی ہوں گے
خود کو نوکر شہِ والا کا بتاتے رہیے

اپنی قسمت کی ہو گر تم کو بلندی مقصود
ان کے اوصاف سرِ بزم گناتے رہیے

لاکھ چاہے یہ زمانہ نہ مٹا پائے گا
دل کی آواز سے آواز ملاتے رہیے

نام لے لے کے شہنشاہِ دو عالم کا مجیب
ہجر کے زخم سبھی اپنے مٹاتے رہیے

مجیب الرحمٰن اسمٰعیلی بارہ بنکوی
 
غزل
صحنِ جیون میں یونہی ہنستے ہنساتے رہیے
"دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیے"

دف بجاتے ہوئے فردوس کو جاتے رہیے
جشن سرکار عقیدت سے مناتے رہیے

لوگ بہرے ہیں مرے شہر میں بسنے والے
آپ جتنا بھی یہاں شور مچاتے رہیے

رات اپنی بھی اسی طور سے کٹ جائے گی
داستانِ شبِ فرقت ہی سناتے رہیے

سوکھ ہی جائیں نہ بانہوں میں وفا کے گجرے
پیار سے فصل گلایوں کی اگاتے رہیے

سنگ بنیاد کسی شہر کا رکھنے کے لئے
گھر کی دیوار سے دیوار ملاتے رہیے

اپنے ہاتھوں سے مقدر کی کتابیں لکھیے
ٹھوکریں وقت کی گلیوں میں نہ کھاتے رہیے

نقش سارے ہی سمٹ آئیں گے دھیرےدھیرے
دل کے قرطاس پہ تصویر بناتے رہیے

رقص حالات کی دھن پر ہے سبھی نے کرنا
پابجولاں ہی سہی نچتے نچاتے رہیے
جمیل حیدرعقیل
 
آپ یہ راگ محبت ہی سناتے رہیئے
ساتھ میں وصل کا سنگیت بجاتے رہیئے

رنگ آئے گا ابھر کر محبت کا حسیں
ایک رنگ ان میں وفاوں کا ملاتے رہیئے

نام محبوب کا گر مہکے ہتھیلی پر تو
دل کے پنوں پہ یہی لفظ سجاتے رہیئے

زندگی ایک ردھم پہ ہی اگر بجنے لگے
ایک دھن اس میں جدائی کی بجاتے رہیئے

شاعری ذوق و ادب آپ کا انداز بیاں
اب تو یہ بزم سخن آپ سجاتے رہیئے

فاخرہ چودھری
 
مکمل کلام..... ذہینہ صدیقی........ نئی دہلی...... ہندوستان.
ساز اُلفت تو محبّت میں بجاتے رہءے
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہءے

دوسرے پر جو اُٹھاتے ہیں ہمیشہ اُنگلی
آئینہ اُن کو سر عام دکھاتے رہءے

میکدے کی مجھے حاجت نہیں ساقی میرے
اپنی آنکھوں سے مجھے روز پلاتے رہءے

فیصلہ چھوڑءے ہر بات کا رب پر صاحب
آپ بگڑے ہوئے حالات بناتے رہءے

عمر بھر ہونگے نہیں آپ سے ناراض کبھی
ناز نخرے ان حسینوں کے اُٹھاتے رہءے

روٹھ جانا تو حسینوں کی ادا ہوتی ہے
آپ بیشک انہیں ہر روز مناتے رہءے

آپ کا خون بھی پانی ہے نظر نہیں ان کی
آپ رو رو کے لہو اپنا بہاتے رہءے

سلسلہ منقطع ہو جاءیگا اک دن خود ہی
اپنے دامن کو سلیقے سے چُھڑاتے رہءے

بات کو راز جو رکھنا ہے تو ایسا کیجے
اپنا ہمراز ذہینہ کو بناتے رہءے.
ذہینہ صدیقی.... نئی دہلی...... ہندوستان.
 
یکجا کلام

پیار کرتے ہیں ہمیں آپ بتاتے رہیے
مدھ بھرا گیت ہمیں آ پ سناتے رہیے

یہ بھی کیا بات ہے احسان جو کردیں ہم پر
بعد میں بات پہ بے بات جتاتے رہیے

آپ کو عشق کا دعوی ہے تو محبوب کا پھر
عشو ہ و ناز مری جان اٹھاتے رہیے

وقت جو چاہیں ا گر آپ گنواتے رہیے
قلعے خوابوں کے ہواؤں میں بناتے رہیے

یہ بھی کیا بات ہے خود خوش نہ ہمیں رہنے دیں
خود بھی جلتے رہیں ا ور ہم کو جلاتے رہیے

سیدھا رستہ جو دکھانا ہو نئی نسل کو پھر
دیپ راہوں میں امیدوں کے جلاتے رہیے

بڑا آساں ہے رُلانا، ذرا کر کے دیکھیں
وہ جو روتے ہیں اگر اُن کو ہنساتے رہیے

طاہرہ مسعود
 
یکجا کلام
غزل
لاکھ بونے سہی پر قد کو بڑھاتے رہیے
تم بھی انسان ہو احساس کراتے رہیے

اس کی مت رکھوغرض تم کو ملے گی تعبیر
خواب آنکھوں میں مگر پھر بھی سجاتے رہیے

راہ میں لاکھ حوادث ہوں مگر ڈٹ جائیں
مشکلیں کتنی پڑیں ان کو بھگاتے رہیے

اپنے دشمن کو سکھا دینا محبت کا سبق
راہ پر آئے گا بس اس کو سکھاتے رہیے

عاشقی جان بھی لے لیتی ہے، ہوتا آیا
عشق سے خود کو ذرا دوربھگاتے رہیے

منزلِ عشق مقدر بھی کسی دن ہوگی
راہ میں دیپ محبت کے جلاتے رہیے

کچے دھاگے سے بندھا آئے گا اک دن محبوب
شرط لیکن ہے یہی اس کو بلاتے رہیے

روپ میں دوست کے دشمن بھی ملا کرتے ہیں
سوچے سمجھے بنا مت ہاتھ ملاتے رہیے

بند آنکھوں سے کہاں ہوتے ہیں عہد و پیماں
اور اگر ہو ہی گئے ان کو نبھاتے رہیے

دل تمہارا ہے کسی اور کو مت دینا کبھی
دل کو قابو میں رکھیں اس کو مناتے رہیے

دنیا شہزاد کسی دن تو تمہیں مانے گی
تم میں جادو ہے بڑا جادو جگاتے رہیے
ضیاء شہزاد
 
یکجا کلام

ذکر سرکار کی محفل کو سجاتے رہیئے
اپنے خوابیدہ مقدر کو جگاتے رہیئے

نغمۂ نعت نبی خوب سناتے رہیئے
"دل کی آواز سے آواز ملاتے رہیئے "

ہے تقاضہ یہ محبت کا نبھاتے رہیئے
جشن آقا کی ولادت کا مناتے رہیئے

نام آجائے زباں پر جو نبی کا پھر تو
گوہر صل علیٰ خوب لٹاتے رہیئے

ہے یہ پیغام شہنشاہ دوعالم کا حسیں
ہر طرف شمع الفت کو جلاتے رہیئے

دل میں گر آپ کے ہے باغ ارم کی خواہش
خود کو آقا کی محبت میں مٹاتے رہیئے

جل رہی ہے جو یہاں آتش نفرت اس کو
اپنے اخلاق سے گلزار بناتے رہیئے

اپنا بس کام ہے آقا کی غلامی کرنا
آپ شاہوں کے سدا ناز اٹھاتے رہیئے

مل ہی جائےگی رضا رب کی نبی کے صدقے
مفلسوں اور یتیموں کو مناتے رہیئے

یاد آقا کو کلیجے سے لگا کر جوہر
اپنی تقدیر کی دنیا کو سجاتے رہیئے

شفیق اللہ نوری جوہرباڑاوی سیتامڑھی
 
رونے والوں کو ہمیشہ تو ہنساتے رہیے
دل کی آواز ۔ سے آواز ملاتے رہیے

جو تمھے بھول کے بیھٹاہے زمانے والوں
اسکو احساس محبت تو کراتے رہیے

اپنی آواز کو موتی سے سجا لو پہلے
پھرمجھےعشق کی غزلیں تو سناتےرہیے

میری یادوں میں گزارےہیں زمانےکیسے
بس یہی بات محبت سےبتاتےرہیے

لوگ انگار لٹاتے ہیں لٹانے دو تم
آپ الفت کے ہی بازار لگاتے رہیے

ختم ہونےہی نہ پائے یو! گھروں کی رونق
اپنےگھرکوتومحبت سے سجاتے رہیے

بیج نفرت کاہٹاکر کےسداتم سبکو
پھول الفت کاہمیشہ تو سنگھاتے رہیے

بس یہی بات تو احسان ہماری سن لو
دل پہ گزرے ہوئےحالات بتاتے رہیے
١نومبر٢٠١٩

محمداحسان اللہ علیمی
 
خوب تم جشن ولادت کومناتےرہیے
آنےوالےہیں نبی سب کو بتاتے رہیے

آمدنور ہے گھرکوتوسجاتےرہیے
جوہےگستاخ نبی اسکو جلاتے رہیے

اپنے خوابیدہ مقدر کو جگاتے رہیے
پڑھ کے نعت نبی سبکوتو سناتےرہیے

گنبدِ خضری کونظروں میں بساکرتم تو
دل کو سرکارکا دیوانہ بناتے رہیے

شہرسرکارمیں جاکرکےدوانوں اب تو
بارش نورمیں ہردم تونھاتےرہیے

ہے شفا خاک مدینہ تو زمانے والوں
اپنے سرموں میں وہی خاک ملاتے رہیے

شہرسرکارسےلاکرکےتوآبِ زم زم
مجھ خطاکاردوانوں کوپلاتےرہیے

بس یہی ایک ہی احسان ہومجھ پرآقا
تاقیامت مجھے طیبہ میں سلاتےرہیے

١نومبر٢٠١٩
محمداحسان اللہ علیمی
 
پیار ہی پیار کے نغموں کو ہی گاتے رہیے
بس محبت کے ترانوں کو سناتے رہیے

دل میں سب پیار کے ارمان جگاتے رہیے
عشق کی شمع ہمیشہ ہی جلاتے رہیے

رِیت اور رسم یہ دنیا کی نبھاتے رہیے
دوست و دشمن سبھی سے ہاتھ ملاتے رہیے

اک محبت کا حسیں ساز بنے ممکن دوست
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیے

وہ اگر منع کریں باغ میں ملنے تم کو
اپنا پھر دشت سے ہی رشتہ بناتے رہیے

یاد ظالم کی ستانے لگے اکثر تم کو
فکر کو اپنی ہوا میں ہی اڑاتے رہیے

ان کی نظروں کی توجہہ ہوئی جانب غیرہی
تو نظر انکے قدم سے نہ ہٹاتے رہیے

ناز انکا جو قیامت بنے چھائے ماہر
مست جلووں سے ذرا خود کو بچاتے رہیے

عبدالغنی ماہر
 
یکجا کلام

اک قدم آگے میرے دھیرے سے جاتے رہیئے
راہ چلتا ہوں اشارے سے بلاتے رہیئے

ڈر نہ جاؤں میں کہیں اس غم تنہائی میں
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیئے

حالت غش میں نہ آجائے مجھے مرگِ دوام
پاس آ بیٹھ سرہانےمیں جگاتے رہیئے

صحن گلشن میں خزاں چھائی ہوئی ہے میرے
اے بہار روٹھ نہ جا.. ! لوٹ کے آتے رہیئے

حوصلہ ہمت و طاقت کا سلیقہ ایسا
مجھے حالات سے لڑنے کا سکھاتے رہیئے

ورنہ کمزور ہوں میں ٹوٹ کے گر جاوں گا
میری ہستی کی وہ زنجیر ہلاتے رہیئے

چھوڑ اوروں کو فقط اپنا گریباں جھانکو
یہ تو کھا جائیں گے تم تو نہ کھلاتے رہیئے

مرتضٰی صرف ہے دو دن کی یہ ساری رونق
ہنس بھی لے اور زمانے کو ہنساتے رہیئے

مرتضیٰ آخوندی(گلگت بلتستان)
 
Top