غزلیات برائے تبصرہ

یکجا کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہجر کی شب میں محبت کو بڑھاتے رہیئے
دُور رہ کر بھی تعلق کو نبھاتے رہیئے

نا خدا دیکھے تو کشتی میں بٹھا لے شاید
اس جزیرے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے رہیئے

میں نے مانا تیرگی مٹ تو نہیں پائے گی
اپنے حصے کی یہ شمع تو جلاتے رہیئے

تم اگر ہاتھ سے طاقت نہیں رکھتے یارو
ظلم جو دیکھو تو آواز اٹھاتے رہیئے

جو بھی سوچا تھا وہی ملتا ضروری تو نہیں
اپنی آنکھوں میں نئے خواب سجاتے رہئے

دل میں درد لئے چہرے پہ تبسم لے کر
یہ مناسب تو نہیں غم کو چھپاتے رہیئے

کیوں لگائی ہے تُو نے عشق کی آتش زاہد
اب لگی آگ کو اشکوں سے بجھاتے رہیئے

از قلم ۔۔ ایڈووکیٹ آغا زاہد
 
غزل (نافرمان بچے کی باتیں)

اپنے بچے کو نہ یوں آپ رلاتے رہیے
یہ ہے نعمت اسے اب سر پہ اٹھاتے رہیے

سو گیا ہے وہ ترستے ہوئے لوری کو ابھی
اب نہ جاگے گا وہ پر پھر بھی سناتے رہیے

سن کے لوری کی وہ آواز ہی کروٹ پھیرے
اپنے بچے کو محبت سے سلاتے رہیے

حق ہے ماں باپ کا بچے کو ہنسائے رکھنا
روٹھ جائے تو اسے آپ مناتے رہیے

عیش و عشرت جو سکھائ ہے مجھے آج تو پھر
روکئے مت جو ہے دولت وہ لٹاتے رہئے

مجھے پالا مجھے پوسا مرا دکھ درد سہا
یہ سنا کر نہ اب احسان جتاتے رہیے

دور ہوتے ہی میں نے جان لیا درد ان کا
جن سے کہتا تھا مجھے آپ مناتے رہیے

میں ہوں بیکار ابھی مجھ پہ ہو لعنت اے بدر
میں جو کہتا تھا مجھے سر پہ چڑھاتے رہیے

شاعر ی :بدر جمیل بدر
 
مکمل کلام

شاہِ کونین کے نغمات سناتے رہئیے
رحمت و نور کی بارش میں نہاتے رہیے

شمعِ الفت دلِ مضطر میں جلاتے رہیے
تیرگی رنج و مصائب کی مٹاتے رہیے

دے رب بخش قیامت میں کہ غفار ہے وہ
آپ بس اشکِ ندامت ہی بہاتے رہیے

گر رضا آپ کو ہے فخرِ رسل کی درکار
اپنے سینے سے یتیموں کو لگاتے رہیے

آپ گر چاہیں نہ ہوں عیب ہمارے ظاہر
عیب اوروں کے بہر حال چھپاتے رہیے

جو کہے سیدِ. کونین کو اپنے جیسا
ایسے گستاخ کو آئینہ دکھاتے رہیے

کر کے مفتاح عمل اسوۂِ شاہِ دیں پر
بزمِ ہستی کا ہراک گوشہ سجاتے رہیے

مفتاح الحسن مفتاح چشتی
 
غزل (فرمانبردار بچے کی باتیں)

اپنے ماں باپ کو یوں سر پہ بٹھاتے رہیے
یہ ہیں انمول انہیں آپ ہنساتے رہیے

ماں کے پیروں تلے جنت ہےا گر چاہو تو
اپنے ماں باپ کے پیروں کو دباتے رہیے

ہے نہیں ان کو ضرورت کسی سونے کی ابھی
اپنا پر نور سا چہرہ ہی دکھاتے رہیے

گل و خوشبو کی طرح ہیں ارے ماں باپ بھی تو
انہیں تم دل کی کتابوں میں سجاتے رہیے

انہیں آرام دو تم ان کا ہے آرام کا وقت
ان کی خدمت میں ہی تم جان لٹاتے رہیے

تم بڑے ہو ہی کہاں ان کے لئے بچے ہو
ان کے بالوں کو بھی ہاتھوں سے سجاتے رہیے

ہم جو بچے تھے ہمیں سر پہ اٹھائے رکھا
چاہیے ہم انہیں اب سرپہ اٹھاتے رہیے

جو ہیں ماں باپ تو دنیا مری آباد ہے بدر
میں تو کہتا ہوں انہیں دل سے لگاتے رہیے

شاعر ی :بدر جمیل بدر
 
یکجا کاوش 2

اپنےالفاظ کو پرنور بناتے رہیے
نعت دنیا کو محمد ص کی سناتے رہیے

وحشتِ نفس سے مل جائے گا چھٹکارا ہمیں
ذکر سرکار کا سنیے یا سناتے رہیے

ذکر کرتے رہیں ہم اپنےہی آقا کا سدا
نعت احمد کی زمانے کو سناتے رہیے

یہی تو بابِ الہی ہے زمانے والو
آپکے در پہ ہی بس سر کو جھکاتے رہیے

گر مٹانا ہے زمانے سے یہ ظلمت کا قہر
دیپ پھر انکی محبت کا جلاتے رہیے

یہ ضروری ہے خدا سے بھی تو ہونی ہے لقا
کچھ قدم جانبے منزل بھی بڑھاتے رہیے

چھوڑ دو بغض و حسد نفرتیں یہ کینہ مکر
بات کرنی ہے یہ حق بات سناتے رہئے

کرکے احمد کے ص گھرانےسے وفائیں ہردم
اپنے جو دام ہیں جنت کو بناتے رہئے

یہ ضروری ہے خدا سے بھی تو ہونی ہے لقا
کچھ قدم جانبے منزل بھی بڑھاتے رہیے

اندھی تقلید زمانے کو ہی لے ڈوبی ہے
جال ابلیس کے ہیں اس سے بچاتے رہیے

بولنا اوڑھنا اب سوچنا بھی کفر نہ ہو
اپنی نسلوں کو مسلمان بناتے رہیے

نسل مسلک یہ تفرق سے تغافل کرکے
جو حقیقی ہے وہ اسلام سکھاتے رہیے

اپنے بچوں کو سکھادیجیے آدابِ حق
غیر مسلم کی سیاست سے بچاتے رہیے
 
یکجا کاوش

اس کی چوکھٹ پہ سدا دُھونی رُماتےرہیے
ایک ہی سُر سے حسیں تال مِلاتے رہیے

اس سے بڑھ کے نہیں دنیا میں سعادت کوئی
در پہ یزداں کے ہی سر اپنا جُھکاتے رہیے

عظمتَِ انساں کا ہے راز اسی میں مُضمِر
ساری دنیا میں حسیں پُھول کِھلاتے رہیے

اک عجب دورِ جہالت ہے زمانے بھر میں
اپنے حصے کا کوئی دیپ جلاتے رہیے

کتنی پیاری ہے مِرے پیارے نبی ص کی سُنت
دُشمنوں کو بھی گلے بڑھ کے لگاتے رہیے

سیج کانٹوں کی اسے کہتی ہے دنیا ساری
زیست کا بار بھی ہنس ہنس کے اُٹھاتے رہیے

اپنے اخلاص و مروت سے جہاں کو جیتو
اس حسیں دنیا کو خوشیوں سے سجاتے رہیے

ختم ہو جائے گی دنیا سے جہالت اک دن
رب کی توحید زمانے کو بتاتے رہیے

زندگی وقف کرو راہِ ہُدیٰ میں ساری
نفسِ اَمارہ کی آتش کو بُجھاتے رہیے

اس میں انساں کی چُھپی ایک ہے اعلیٰ ظرفی
دُشمنِ جاں کو سر آنکھوں پہ بٹھاتے رہیے

ساری دنیا ہے گِھری کرب و بلا میں اعظم
اپنی باتوں سے زمانے کو ہنساتے رہیے

اعظم نوید ۔۔۔۔۔۔
 
میری کاوش

اشک اس طرح نہ آنکھوں سے بہاتے رہیئے
عزم سے مشکلیں آسان بناتے رہیئے

رتجگے یوں مری پلکوں پہ سجاتے رہیئے
خواب آنکھوں میں محبت کے جگاتے رہیئے

سادگی سے بھی کبھی گفتگو ہو سکتی ہے
طنز کے تیر نہ ہر وقت چلاتے رہیئے

ہم نے مانا کہ خوشی اپنے مقدر میں نہیں
عرض اتنی ہے کہ دل یوں نہ دکھاتے رہیئے

کم نگاہی سے تو حالات بگڑ جائیں گے
گیت احساس کے جذبوں کو سناتے رہیئے

آپ کے دھیان میں ہر کام بگڑ جاتا ہے
یاد تنہائ کے لمحات میں آتے رہیئے

آنکھ بند کرنے سے مشکل نہیں ٹلتی 'مینا'
گردشِ وقت سے نظروں کو ملاتے رہیئے

ڈاکٹر مینا نقوی
 
خود کو ویران جزیروں میں چھپاتے رہیے
عشق عزاب ہے یہ ہم کو بتاتے رہیے

زخم ناسور نہ بن جائیں بدن میں تیرے
درد کم ہو گا مرہم بھی لگاتے رہیے

روشنی ہو گی کسی روز غم ہستی میں
امید کی شمع شب او روز جلاتے رہیے

کوئ آئے گا نہ دفنانے کسی میت کو
اپنے کاندھوں پہ یہی بوجھ اٹھاتے رہیے

دل بہل جائے گا رونے سے ترا آج اختر
بند آنکھوں سے اشکوں کو بہاتے رہیے
نفیسہ اختر
 
آپ للہ مرے ناز اٹھاتے رہیے
میں جو رووں تو مجھے آکے ہنساتے رہیے

اور کچھ بھی مجھے درکار نہیں اس کے سوا
آپ بس مجھ پہ محبت کو لٹاتے رہیے

آپ کیجے نہ کبھی اپنی محبت میں کمی
اور تا عمر وفا ساتھ نبھاتے رہیے

چلتے چلتے نہ کبھی پاوں مرے زخمی ہوں
میری راہوں سے سدا خار اٹھاتے رہیے

بھول جاوں میں جسے سن کے سبھی اپنے غم
پیار کا گیت کوئی ایسا سناتے رہیے

اک اداسی سدا رہتی بے مرے آنگن میں
آئیے آکے ذرا اس کو ہٹاتے رہیے

اک یہی راہ سکوں کی ہے محبت میں سدا
" دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیے "

جب کبھی بیچ بھنور میں ہو غزل کی کشتی
ڈوب جانے سے اسے آکے بچاتے رہیے

بشری ناہید غزل
 
روٹھ جائے کوئی گر اس کو مناتے رہٸے
دل کی دنیا میں خوشی اور بساتے رہٸے

صرف سر تال کا ملنا ہی ضروری تو نہیں
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہٸے

بیت جا ٸے گی شبِ ہجر خیالوں میں یونہی
بس تصور میں سلیقے سے بلاتے رہٸے

ایسی خاموشی بھی اچھی نہیں اس محفل میں
اپنے لب نعتِ محمدﷺ میں ہلاتے رہئے

یہ ضروری تو نہیں خواب کی تعبیر ملے
اپنے خوابوں کو محبت سے سجاتے رہٸے

نفرتیں پھیل گئیں اس کا مداوا تو کریں
جام الفت کے سدا سب کو پلاتے رہٸے

اپنی آواز کو برجیس اٹھائیں جگ میں
جو بھی غفلت میں ہیں ان سب کو جگاتے رہٸے

برجیس فاطمہ
 
یکجا کاوش
محبوب کے نام کا گٹار بجاتےرہیے
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیے

محبوب کو رات بھر جگاتے رہیے
محبوب کی خاطرشبِ وصل سجاتےرہیے

شب و روز ، اخیر وسَحَر ، گلی و نگر
محبوب کے نام کی تسبیح گنگناتےرہیے

رکھ کر بزمِ محبوب لوگ بُلاتے رہیے
یوں محبوب کےنام کی محفل مناتےرہیے

کر کےترکِ تعلق دنیا سے نومّی
محبوب کے نام کے قصے سناتے رہیے
شہزاد علی نومّی
 
یکجا کلام

جھوٹا افسانہ سہی کچھ توسناتے رہئے
بات جو سچ ہے اسے منہ پہ بتاتے رہئے

تیر نظروں سے ہر اک وقت چلاتے رہئے
دل ہو دیوانہ تو دیوانہ بناتے رہئے

یونہی چلتے ہوئے ہو جائیں نہ پاؤں گھائل
خود ہی پلکوں سے پڑےخار ہٹاتے رہئے

خوف طوفان کا یوں دل سے نکالیں اپنے
شمع اب بادِ مخالف میں جلاتے رہئے

عمر بھر آپ کے ھو کر ہی رہیں گے لیکن
ہم حسینوں کے جو سدا ناز اٹھاتے رہئے

دل اگر ملتا نہیں ہے تو نہ ملنے پائے
کم سے کم ہاتھ تو سب سے ہی ملاتے رہئے

آندھیاں لاکھ بنیں آپ کی دشمن پھر بھی
ریت پر گھر تو نیا روز بناتے رہئے

اشک آنکھوں میں نگار آ نہیں سکتے ہوں اگر
یہ تبسم ہی پسِ پردہ چھپاتے رہئے

ڈاکٹر نگار سلطانہ
 
یکجا کلام

آگ نفرت کی محبت سے بجھا تے رہئے
خرمن بغض و عداوت کو جلا تے رہیے

بزم دنیا کو محبت سے سجا تے رہیے
پھول الفت کے سدا یوں ہی کھلا تے رہیے

تلخ جرعہ ہی پڑے گرچہ غموں کا پینا
جام خوشیو ں کا زمانے کو پلا تے رہئے

خوشبو ئے گل کی طرح ہم تو پہنچ جا ئیں گے
خار راہوں میں مرے کتنے بچھا تے رہئے

کھل اٹھیں گے رخ پز مردہ بھی پھولوں کی طرح
غم کو شبنم سے تبسم کی نہا تے رہئے

فتح ونصرت ہی قدم چومے گی آگے آکر
خوف نا کامی کو بس دور بھگا تے رہئے

غیر تو غیر ہیں ملکر کے بچھڑ جاتے ہیں
رشتے اپنوں سے پرانے بھی نبھا تے رہئے

شاخ پر گل کی سدا خار اگے رہتے ہیں
اپنے دامن کو الجھنے سے بچا تے رہئے

فیضان احمد أعظمی
 
یکجا کلام

-دیپ الفت کے ہواؤں میں جلاتے رہیے
درد اپنوں کا اسی طور بٹاتے رہیے

-اپنی آ ہوں کے ترنّم کو بچاتے رہیے
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیے

-ٹوٹ جائے نہ کہیں جسم سے رشتہ جاں کا
سازِ ہستی کو یونہی اپنے بجاتے رہیے

-چار سو پھیلی ہے اک آتشِ نفرت دیکھو
اپنا دامن انہی شعلوں سے بچاتے رہیے

-بے وفا دنیا میں ہیں ہم ہی وفاؤں کے اَمیں
ساری دنیا کو یہ پیغام سناتے رہیے

-دین کودنیا پہ ہر دم ہی مقدم رکھ کر
گلشنِ دیں کو اسی طرح بچاتے رہیے

-تان آ ہوں کی تو سارنگئی دل سے اُبھری
پیار کی دھن بھی اسی لَے پہ بجاتے رہیے

ساجدہ شاہد
 
یکجا کلام

دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیے
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے

زخم دل کے سبھی حصوں کو چھپاتے رہیے
زندگی کو سدا ہنس کر ہی نبھاتےرہیے

غم سے پر ہےترے حالات مگر پھر بھی
اپنے گفتارسے لوگوں کو ہنساتے رہیے

سوچکے لوگ ہیں غافل ہے یہ زمانے سے
اپنے افکار سے یوں روز جگاتے رہیے

رب کی نعمت کا یوں اظہار بیاں ہو کیسے
اپنی دولت یوں غریبوں کو لٹاتے رہیے

رہ گئ یاد وفا بس مرے ساتھ تیری
ان ہی یادوں میں فقط شمع جلاتے رہیے

عشق میں ہےنکھریں اور ادائیں بھی وسیم
اب یہ نکھریں سدا ہنس کر ہی اٹھاتے رہیے

وسیم تیمی بن نورالعین سلفی ھرلاکھی مدھوبنی بہار
 
رزق محنت کا لٹیروں کو لٹاتے رہیئے
ظالموں کی یوں ہی اوقات بڑھاتے رہیئے

سر پہ مجبوروں کے بم پھینکئے فاتح بنیئے
امن کے نام پہ شھروں کو جلاتے رہیئے

آپ کے واسطے ہم تو ہیں غذا ئے مرغوب
پیجیئے خون ۔ جگر جان کو کھاتے رہیئے

آپ کا ساتھ تو تقدیر میں لکھا ہی نہیں
عرض اتنی ہے کہ دل سازی کو آتے رہیئے

آپ رکھ پائیں تو رکھ لیجے مری ماں کا خیال
عمر بھر پھر مجھے انگلی پہ نچاتے رہیئے

اُس بلندی پہ رسائی تو نہیں ہے اپنی
آپ عنقا ہیں تو خوابوں میں لبھاتے رہیئے

ساز تو ساز ہیں بجنا تو مقدر ہے میاں
چوٹ کھا کھا کے نئے گیت سناتے رہیئے
ساز دہلوی
 
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیئے
دل جو کہتا ہے وہ ہر گز نہ دباتے رہئیے

کیسے محبوب نہ مانے گا ذرا سوچیں تو
اس ستمگر کو مسلسل ہی مناتے رہیئے

زندگی ملتی ہے اک بار ہی انسانوں کو
اس کو نفرت میں تو مت یار بتاتے رہیئے

دیکھیں ایسا نہ کریں کچھ بھی تو ہو سکتا ہے
غیر کو ہم سے نہ ہر روز ملاتے رہیئے

ہم کو معلوم ہے وعدہ نہیں پورا ہو گا
جھوٹی قسمیں ہی تو مت یار اٹھاتے رہیئے

نور ممکن ہو تو دنیا میں غریبوں کے لئیے
جذبے ہمدردی کے اس دل میں جگاتے رہیئے
نور احمد محمود
 
یکجا کاوش

اپنے حصے کا کوئی دیپ جلاتے رہیے
روشنی سارے جہاں میں ہی پھلاتے رہیے

آپ کی بات کوئی مانے یا کے نہ مانے
آپ کا فرض ہے جو آپ نبھاتے رہیے

ایک نہ ایک دن بن جائے گا گلدستہ بھ
پھول گلشن میں نیا روز لگاتے رہیے

دین اسلام کی جو حد ہے اسی میں رہ کر
خوشیاں چاہے صبح شام مناتے رہیے

حق پہ ہوتے ہیں جو ناکام نہیں ہوتے وہ
اپنی نسلوں کو بھی یہ بات بتاتے رہیے

فاصلے رشتوں کے نہ بیچ کئی بڑھ جائیں
گا بگاہ اپنوں سے بھی ہاتھ ملاتے رہیے

رنج و غم دل سے مٹا دے گی محبت اک دن
گیت الفت کے قدیم سب کو سناتے رہیے
عبدالقدیم تبوک
 
یکجا کلام

مل ہی جائے گی وفا، دام لگاتے رہیے
اس دلِ سوختہ بازار کو لاتے رہیے

کسی پتھر صفت سے ہاتھ ملاتے رہیے
ضبط یونہی ذرا مضبوط بناتے رہیے

تیری تشنہ لبی دریا کو بہت بھاتی ہے
شدتِ پیاس ذرا اور بڑھاتے رہیے

برق سے کہہ دیا ہے کہ تکلف نا ہو ذرا
حسبِ خواہش مرا گھر آپ جلاتے رہیے

جو غزل ایسی تھی جس میں تھیں ادائیں تیری
کیا کہا بزم میں بے روک سناتے رہیے

قیصر عزیز قیس
 
یکجا غزل
رب کے در پے سدا سر کو جھکا تے رہیے
کر کے توبہ یوں گناہوں کو مٹاتے رہیے

سیکھا ہم نے ہے ضیافت بھی نبی سے کرنا
آئے دشمن کی ضیافت بھی نبھاتے رہیے

ماں جو روٹھے تو قیامت سی لگے ہیں گھر میں
ماں کی الفت کو سدا دل میں بساتے رہیے

آگ نفرت کی لگی ہیں یہاں ہر دل میں
دل کی آواز میں آواز ملاتے رہیے

بے وفا دنیا سے امید وفا کیا رکھنا
دل جلوں کو بھی یہ پیغام سناتے رہیے

دل کے آگن میں جگہ لینا بہت مشکل ہے
دل کے رشتے کو سدا ہنس کے نبھاتے رہیے

سخت لہجوں کا چھبن دل میں ہے چبھتی اختر
ایسے لہجوں سے مجھ کو نہ جلاتے رہیے
تمیم اختر ہرلاکھی
 
Top