محمد شکیل خورشید
محفلین
اک ہجومِ بے نشاں میں ایک انساں میں بھی تھا
اس ادھوری داستاں کا ایک عنواں میں بھی تھا
یک بیک معدوم ہوتے جا رہے تھے ممکنات
مٹتے جانے والوں میں سے ایک امکاں میں بھی تھا
پاؤں میں چکر تھا یا گردش میں تھے ماہ و نجم
رقصِ بسمل ہو رہاتھا اور رقصاں میں بھی تھا
رہ گذارِ زیست میں کیا ڈھونڈتے پھرتے ہیں لوگ
کچھ نظارے تھے وہاں ، عبرت کا ساماں میں بھی تھا
نام میرا بھی لکھا تھا ،ان کی نسبت میں شکیلؔ
کیوں ہوا مجھ پر یہ احساں ،اس پہ حیراں میں بھی تھا
اس ادھوری داستاں کا ایک عنواں میں بھی تھا
یک بیک معدوم ہوتے جا رہے تھے ممکنات
مٹتے جانے والوں میں سے ایک امکاں میں بھی تھا
پاؤں میں چکر تھا یا گردش میں تھے ماہ و نجم
رقصِ بسمل ہو رہاتھا اور رقصاں میں بھی تھا
رہ گذارِ زیست میں کیا ڈھونڈتے پھرتے ہیں لوگ
کچھ نظارے تھے وہاں ، عبرت کا ساماں میں بھی تھا
نام میرا بھی لکھا تھا ،ان کی نسبت میں شکیلؔ
کیوں ہوا مجھ پر یہ احساں ،اس پہ حیراں میں بھی تھا