غزل اصلاح کیلیے

بارش تو رک گئی ہے، پانی ٹپک رہا ہے۔
نیچے غریب مفلس،بیٹھا سسک رہا ہے۔
آوارگی میں ہم سے، رہبر بھی کم نہیں ہے۔
ہم بھی بھٹک رہے ہیں، وہ بھی بھٹک رہا ہے۔
زخموں کو کیسے دھوتے،کب آبلے پروتے۔
یاروں کے ہاتھ میں جو، مرہم نمک رہا ہے۔
کیسے میں مان جاؤں، کہ رات ہوگئی ہے۔
وہ آفتاب دیکھو، چھت پر چمک رہا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
بحر کے لحاظ سے ماشاء اللہ مکمل درست، سوائے اس کے کہ ’کہ‘ مجھے بر وزن فع پسند نہیں،

زخموں کو کیسے دھوتے،کب آبلے پروتے۔
یاروں کے ہاتھ میں جو، مرہم نمک رہا ہے۔

آبلے پرونا؟ سمجھ میں نہیں آیا۔
 
بحر کے لحاظ سے ماشاء اللہ مکمل درست، سوائے اس کے کہ ’کہ‘ مجھے بر وزن فع پسند نہیں،

زخموں کو کیسے دھوتے،کب آبلے پروتے۔
یاروں کے ہاتھ میں جو، مرہم نمک رہا ہے۔

آبلے پرونا؟ سمجھ میں نہیں آیا۔
زخموں کو سینے کے معنوں میں لینے کی کوشش کی ہے سر
 
بحر کے لحاظ سے ماشاء اللہ مکمل درست، سوائے اس کے کہ ’کہ‘ مجھے بر وزن فع پسند نہیں،

زخموں کو کیسے دھوتے،کب آبلے پروتے۔
یاروں کے ہاتھ میں جو، مرہم نمک رہا ہے۔

آبلے پرونا؟ سمجھ میں نہیں آیا۔
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن سر یہی بحر بنتی ہے؟؟؟
 
Top