نورالحسن جوئیہ
محفلین
بارش تو رک گئی ہے، پانی ٹپک رہا ہے۔
نیچے غریب مفلس،بیٹھا سسک رہا ہے۔
آوارگی میں ہم سے، رہبر بھی کم نہیں ہے۔
ہم بھی بھٹک رہے ہیں، وہ بھی بھٹک رہا ہے۔
زخموں کو کیسے دھوتے،کب آبلے پروتے۔
یاروں کے ہاتھ میں جو، مرہم نمک رہا ہے۔
کیسے میں مان جاؤں، کہ رات ہوگئی ہے۔
وہ آفتاب دیکھو، چھت پر چمک رہا ہے۔
نیچے غریب مفلس،بیٹھا سسک رہا ہے۔
آوارگی میں ہم سے، رہبر بھی کم نہیں ہے۔
ہم بھی بھٹک رہے ہیں، وہ بھی بھٹک رہا ہے۔
زخموں کو کیسے دھوتے،کب آبلے پروتے۔
یاروں کے ہاتھ میں جو، مرہم نمک رہا ہے۔
کیسے میں مان جاؤں، کہ رات ہوگئی ہے۔
وہ آفتاب دیکھو، چھت پر چمک رہا ہے۔