بہت شکریہ بہن۔ آپ جیسی کہنہ مشق شاعرہ سے داد پر خوشی ہوئی۔احباب ِ ذوق تو میرا خیال ہے آپ کے شعری اوصاف کو پہلے سے ہی بھانپ گئے تھے. باضابطہ شاعری کی شروعات پر بہت مبارک ہو . عمدہ تخلیق ہے .
اِلٰہی عَفو و عطا کا تِرے اَحَق ہوں میں
خطاؤں پر ہوں میں نادم، عَرَق عَرَق ہوں میں
جو ذرّے ذرّے کو روشن کرے، وہ تابشِؔ صبح
افق پہ شام کو پھیلی ہوئی شفق ہوں میں
بہت شکریہ لاریب بہن.بہت خوب غزل ہے تابش بھائی، بہت سی داد آپ کے لیے
بہت شکریہ یوسف بھائی.
بہت عمدہ تابش بھائی
توجہ پر ممنون ہوں ظہیر بھائی.واہ واہ ہ!! بہت خوب تابش بھائی! کیا اچھے اشعار ہیں !!
کسی نے فیض اٹھایا ہے زندگی سے مری
کتابِ زیست کا موڑا ہوا وَرَق ہوں میں
یہ تار تار سا دامن، یہ آبلہ پائی
بتا رہے ہیں کہ راہی بہ راہِ حق ہوں میں
ماشاء اللہ یہ دوسری غزل بھی نہایت اچھی غزل ہے !! بہت داد و تحسین آپ کے لئے! مقطع کچھ ٹھیک نہیں لگا ۔ اسے سمجھنا مشکل ہے ۔ نیز اس کےپہلے مصرع میں کاما بے محل ہے ۔ یہ تو ایک مسلسل جملہ ہے جو کاما لگانے سے بے معنی ہوجائے گا۔
شعر میں دراصل سورج کی روشنی کو ایک مستقل فیض بانٹنے والے کے استعارہ کے طور پر لیا ہے. شاید بات استعاروں میں ہی رہ گئی ہے. جس کی طرف آپ کا اشارہ ہے.
جب بھی کچھ بہتر سمجھ آیا، بدلنے میں دیر نہیں لگاؤں گا.
میں اس پر نئے سرے سے سوچتا ہوں. جزاک اللہتابش بھائی ، یہاں بات استعاروں سے بھی پہلے کی لگ رہی ہے مجھے ۔ ذرا اس کی نثر بنا کر دیکھئے ۔ جو نثر میں بنارہا ہوں اس شعر کی وہ کچھ یوں ہے:
(میں) وہ تابش ِ صبح (ہوں) جو ذرے ذرے کو روشن کرتی ہے ، میں افق پر شام کو پھیلی ہوئی شفق ہوں ۔
یہ تو بہت الجھے ہوئے بلکہ باہم متضاد بیانات لگ رہے ہیں ۔ کچھ سیاسی بیان سا ہوگیا یہ تو ۔ اس میں سورج اور روشنی کے فیض وغیرہ کی طرف کوئی اشارہ سرے سے موجود نہیں ہے ۔ میری ناقص رائے میں اس شعر کو توڑ کر دوبارہ کہنا چاہئے
بس یہی بات بری لگی ہے. کہ آپ نے سوچا کہ مجھے برا لگے گا اور معذرت کی.پیشگی معذرت اگر میری کوئی بات بری لگی ہو تو ۔
یہ تار تار سا دامن، یہ آبلہ پائی
بتا رہے ہیں کہ راہی بہ راہِ حق ہوں میں
بہت زبردست ۔ تابش بھائی لاجواب شعر ہیں ۔ ڈھیروں دادزبانِ حال سے یہ کہہ رہا ہے مجھ سے خلوص
کہ اپنی قوم کا بھولا ہوا سبق ہوں میں
جو ذرّے ذرّے کو روشن کرے، وہ تابشِؔ صبح
افق پہ شام کو پھیلی ہوئی شفق ہوں میں
تابش بھائی ، یہاں بات استعاروں سے بھی پہلے کی لگ رہی ہے مجھے ۔ ذرا اس کی نثر بنا کر دیکھئے ۔ جو نثر میں بنارہا ہوں اس شعر کی وہ کچھ یوں ہے:
(میں) وہ تابش ِ صبح (ہوں) جو ذرے ذرے کو روشن کرتی ہے ، میں افق پر شام کو پھیلی ہوئی شفق ہوں ۔
یہ تو بہت الجھے ہوئے بلکہ باہم متضاد بیانات لگ رہے ہیں ۔ کچھ سیاسی بیان سا ہوگیا یہ تو ۔ اس میں سورج اور روشنی کے فیض وغیرہ کی طرف کوئی اشارہ سرے سے موجود نہیں ہے ۔ میری ناقص رائے میں اس شعر کو توڑ کر دوبارہ کہنا چاہئے ۔ پیشگی معذرت اگر میری کوئی بات بری لگی ہو تو ۔
بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب۔ پسند فرمانے پر ممنون ہوں۔بہت زبردست ۔ تابش بھائی لاجواب شعر ہیں ۔ ڈھیروں داد
بس یہی بات بری لگی ہے. کہ آپ نے سوچا کہ مجھے برا لگے گا اور معذرت کی.
محبت ہے آپ کی کاشف بھائی.بہت عمدہ غزل ہے تابش بھائی۔ واہ واہ
ایک شعر لاجواب ہے۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ !
ڈھیروں داد قبول فرمائیں !
جزاک اللہسبحان الله