نوید ناظم
محفلین
کیا بتائیں اب کیا کرتے رہے
عمر بھر ہم سے جفا کرتے رہے
بس نہ سمجھے 'آدمی' کو ورنہ لوگ
پتھروں کو بھی خدا کرتے رہے
یہ اشارہ تھا کہ ان کو دیکھ کر
ہم پرندوں کو رہا کرتے رہے
اجنبی ہو کر رہے اک دوجے سے
لوگ رشتوں کو انا کرتے رہے
در مقفل ہی رہے ہم پر سبھی
ہم صداؤں پہ صدا کرتے رہے
بارہا ہم کو ملی تھی زندگی
بارہا اُن پر فدا کرتے رہے
پھر محبت' پھر محبت پھر اک اور
ہم خطا اندر خطا کرتے رہے
روز جوبن پہ نکھار آتا گیا
روز محشر کوبپا کرتے رہے
وہ ہمارا دل جلاتے تھے نوید
اور ہم دل کو دیا کرتے رہے
عمر بھر ہم سے جفا کرتے رہے
بس نہ سمجھے 'آدمی' کو ورنہ لوگ
پتھروں کو بھی خدا کرتے رہے
یہ اشارہ تھا کہ ان کو دیکھ کر
ہم پرندوں کو رہا کرتے رہے
اجنبی ہو کر رہے اک دوجے سے
لوگ رشتوں کو انا کرتے رہے
در مقفل ہی رہے ہم پر سبھی
ہم صداؤں پہ صدا کرتے رہے
بارہا ہم کو ملی تھی زندگی
بارہا اُن پر فدا کرتے رہے
پھر محبت' پھر محبت پھر اک اور
ہم خطا اندر خطا کرتے رہے
روز جوبن پہ نکھار آتا گیا
روز محشر کوبپا کرتے رہے
وہ ہمارا دل جلاتے تھے نوید
اور ہم دل کو دیا کرتے رہے