غزل برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
ارے دیکھیے ظلم ڈھانے لگے ہیں
وہ دریا کو صحرا بنانے لگے ہیں

کہیں یہ خبر سچ نہ نکلے خدایا
سنا ہے وہ ہم کو بھلانے لگے ہیں

بہاروں کو پھر سے خزاں کر رہے ہیں
لو پھر سے وہی گُل کھلانے لگے ہیں

بھلا کون آیا ہے اک بارجا کر
کوئی ان کو روکے وہ جانے لگے ہیں

نمک ہرگھڑی پاس ہوتا ہے جس کے
اسے زخم پھر ہم دکھانے لگے ہیں

نبھائیں وہ غیروں سے ہم کو خوشی ہے
چلو وہ کسی سے نبھانے لگے ہیں

ہمیں آج اٹھاتے ہو تم جس گلی سے
وہاں بیٹھنے میں زمانے لگے ہیں

نوید آ نہ جائے قیامت کہیں اب
وہ ہم کو نظر سے گرانے لگے ہیں
 

La Alma

لائبریرین
عمدہ .
ہمیں آج اٹھاتے ہو تم جس گلی سے
وہاں بیٹھنے میں زمانے لگے ہیں


ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
باقی صدیقی .

نمک ہرگھڑی پاس ہوتا ہے جس کے
اسے زخم پھر ہم دکھانے لگے ہیں
پہلا مصرع دوبارہ دیکھ لیں . خیال اچھا ہے انداز غیر شاعرانہ ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
حاصل غزل شعر باقی صدیقی سے توارد نکلا! ایک اور شعر بھی اچھا ہے، لیکن روانی بہتر ہو سکتی ہے۔
بہاروں کو پھر سے خزاں کر رہے ہیں
لو پھر سے وہی گُل کھلانے لگے ہیں
خوبی یہ ہے کہ خزاں کے مقابلے میں گل کھلانے کا محاورہ مزا دے رہا ہے۔ لیکن بہاروں میں خزاؒ لانے کا عمل سمجھ میں نہین آتا۔ کیا کر رہا ہے محبوب ایسا؟ دوسرا عیب، دونوں مصرعوں میں ’رہے ہیں“ اور ’لگے ہیں‘ سے مطلع معلوم ہوتا ہے۔ تیسرا عیب بہاریں جمع میں، لیکن خزاںواحد!!
پہلے مصرع کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جیسے
چمن زار دل کا اجڑنے لگا ہے
(یہ محض ایک مثال ہے، اس سے بہتر مصرع خود کہہ سکتے ہو)۔
باقی اشعار درست سہی، لیکن کوئی خاص بات بھی نہیں۔
راحیل فاروق کو کیا ہو گیا، انہوں نے اپنی دھار کیوں استعمال نہیں کی؟
 
آخری تدوین:

نوید ناظم

محفلین
حاصل غزل شعر باقی صدیق سے توارد نکلا! ایک اور شعر بھی اچھا ہے، لیکن روانی بہتر ہو سکتی ہے۔
بہاروں کو پھر سے خزاں کر رہے ہیں
لو پھر سے وہی گُل کھلانے لگے ہیں
خوبی یہ ہے کہ خزاں کے مقابلے میں گل کھلانے کا محاورہ مزا دے رہا ہے۔ لیکن بہاروں میں خزاؒ لانے کا عمل سمجھ میں نہین آتا۔ کیا کر رہا ہے محبوب ایسا؟ دوسرا عیب، دونوں مصرعوں میں ’رہے ہیں“ اور ’لگے ہیں‘ سے مطلع معلوم ہوتا ہے۔ تیسرا عیب بہاریں جمع میں، لیکن خزاںواحد!!
پہلے مصرع کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جیسے
چمن زار دل کا اجڑنے لگا ہے
(یہ محض ایک مثال ہے، اس سے بہتر مصرع خود کہہ سکتے ہو)۔
باقی اشعار درست سہی، لیکن کوئی خاص بات بھی نہیں۔
راحیل فاروق کو کیا ہو گیا، انہوں نے اپنی دھار کیوں استعمال نہیں کی؟
جی سر مصرعے کو پھر دیکھ لیتا ہوں۔۔۔ رہنمائی کے لیے بہت شکریہ۔
 

علی امان

محفلین
بہت خوب، بہت بہتر۔ آپ نے برائے اصلاح لکھا ہے اس لئے کچھ گزارشات پیش کر رہا ہوں۔
غزل میں ہر شعر میں ایک مضمون وہ بھی پورا ہونا چاہئے۔ شعرا کے کلام میں شاذو نادر کہیں قطعہ واقع ہوجاتا ہے، کسی ضرورت سے کہیں ہوجائے تو گوارا ہے نہ ہو تو اچھا ہے۔ قطعہ یعنی ایک مضمون ایک سے زائد اشعار میں تمام ہو۔
غزل میں ایسی بھی کوئی قید نہیں کہ تمام اشعار کے مضامین کا آپس میں ربط ہو۔ ہاں، بات یہ ہے کہ جو آپ کہنا چاہتے ہیں کیا وہ دو مصرعوں میں پورا کرپائے۔ اسی کو اتمام مضمون اور ابلاغ کہیں گے۔ اس کے بغیر کچھ بھی نہیں۔
ارے دیکھیے ظلم ڈھانے لگے ہیں
وہ دریا کو صحرا بنانے لگے ہیں
مضمون ناتمام ہے وجہ یہ ہے کہ یہ بات کہیں سے معلوم نہیں ہوتی کہ وہ کیا کر رہے ہیں کہ گویا دریا کو صحرا بنا رہے ہیں۔ دوسرا مصرع "گویا" کہ محل میں ہے۔ یا آپ کچھ اور نام دے لیں۔ گویا سے پہلے کیا ہے؟ یہ کس بات پر مرتب ہے؟ یہ موجود نہیں۔
کہیں یہ خبر سچ نہ نکلے خدایا
سنا ہے وہ ہم کو بھلانے لگے ہیں
مکمل ابلاغ ہے۔ خبر اور سناہے کے تعلق کو ملاحظہ کیجئے۔
بہاروں کو پھر سے خزاں کر رہے ہیں
لو پھر سے وہی گُل کھلانے لگے ہیں
صرف بہاروں کے ساتھ گل کھلانے کا تناسب ہی گنتی میں آتا ہے۔ جیسا کہ الف عین صاحب نے بھی کہا۔ باقی اغلاط ہیں۔ پہلے شعر کی طرح اسمیں بھی ابلاغ نہیں۔ تقابل ردیفین بھی ہے۔ لیکن بہار کی جمع کے ساتھ خزاں کا تفرد کوئی عیب نہیں۔ نہ تو یہ معدودات ہیں۔ نہ ہی مقام کوئی ایسا تقاضہ کر رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے "غموں کو شادمانی دینے والے"۔ بے شمار اس کی مثالیں ہیں۔
بھلا کون آیا ہے اک بارجا کر
کوئی ان کو روکے وہ جانے لگے ہیں
پہلا مصرع خلافِ واقعہ ہے۔ بدل دیں۔ یہاں بہت جاندار مصرعے لگ سکتے ہیں۔
نبھائیں وہ غیروں سے ہم کو خوشی ہے
چلو وہ کسی سے نبھانے لگے ہیں
یہاں بھی پہلا مصرع خلاف واقعہ ہے۔ ذرا سی ترمیم سے درست ہو سکتا ہے۔ مثلا:
نبھائیں وہ غیروں سے، اتنا ہے اچھا
چلو وہ کسی سے نبھانے لگے ہیں
یا کچھ اور اس سے بہتر باندھ لیں۔ مضمون درست ہو جائے گا۔
ہمیں آج اٹھاتے ہو تم جس گلی سے
وہاں بیٹھنے میں زمانے لگے ہیں
جاندار شعر ہے۔ لیکن لفظ "وہاں" کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ اس کو یوں کر دیں:
ہمیں آج اٹھاتے ہو تم اُس گلی سے
جہاں بیٹھنے میں زمانے لگے ہیں
 

نوید ناظم

محفلین
بہت خوب، بہت بہتر۔ آپ نے برائے اصلاح لکھا ہے اس لئے کچھ گزارشات پیش کر رہا ہوں۔
غزل میں ہر شعر میں ایک مضمون وہ بھی پورا ہونا چاہئے۔ شعرا کے کلام میں شاذو نادر کہیں قطعہ واقع ہوجاتا ہے، کسی ضرورت سے کہیں ہوجائے تو گوارا ہے نہ ہو تو اچھا ہے۔ قطعہ یعنی ایک مضمون ایک سے زائد اشعار میں تمام ہو۔
غزل میں ایسی بھی کوئی قید نہیں کہ تمام اشعار کے مضامین کا آپس میں ربط ہو۔ ہاں، بات یہ ہے کہ جو آپ کہنا چاہتے ہیں کیا وہ دو مصرعوں میں پورا کرپائے۔ اسی کو اتمام مضمون اور ابلاغ کہیں گے۔ اس کے بغیر کچھ بھی نہیں۔

مضمون ناتمام ہے وجہ یہ ہے کہ یہ بات کہیں سے معلوم نہیں ہوتی کہ وہ کیا کر رہے ہیں کہ گویا دریا کو صحرا بنا رہے ہیں۔ دوسرا مصرع "گویا" کہ محل میں ہے۔ یا آپ کچھ اور نام دے لیں۔ گویا سے پہلے کیا ہے؟ یہ کس بات پر مرتب ہے؟ یہ موجود نہیں۔

مکمل ابلاغ ہے۔ خبر اور سناہے کے تعلق کو ملاحظہ کیجئے۔

صرف بہاروں کے ساتھ گل کھلانے کا تناسب ہی گنتی میں آتا ہے۔ جیسا کہ الف عین صاحب نے بھی کہا۔ باقی اغلاط ہیں۔ پہلے شعر کی طرح اسمیں بھی ابلاغ نہیں۔ تقابل ردیفین بھی ہے۔ لیکن بہار کی جمع کے ساتھ خزاں کا تفرد کوئی عیب نہیں۔ نہ تو یہ معدودات ہیں۔ نہ ہی مقام کوئی ایسا تقاضہ کر رہا ہے۔ شاعر کہتا ہے "غموں کو شادمانی دینے والے"۔ بے شمار اس کی مثالیں ہیں۔

پہلا مصرع خلافِ واقعہ ہے۔ بدل دیں۔ یہاں بہت جاندار مصرعے لگ سکتے ہیں۔

یہاں بھی پہلا مصرع خلاف واقعہ ہے۔ ذرا سی ترمیم سے درست ہو سکتا ہے۔ مثلا:
نبھائیں وہ غیروں سے، اتنا ہے اچھا
چلو وہ کسی سے نبھانے لگے ہیں
یا کچھ اور اس سے بہتر باندھ لیں۔ مضمون درست ہو جائے گا۔

جاندار شعر ہے۔ لیکن لفظ "وہاں" کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ اس کو یوں کر دیں:
ہمیں آج اٹھاتے ہو تم اُس گلی سے
جہاں بیٹھنے میں زمانے لگے ہیں
جی انتہائی ممنون ہوں کہ آپ نے خوبصورت تبصرہ فرمایا۔۔ امید ہے مہربانی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ جن باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے انہیں دیکھتا ہوں انشاءاللہ۔
 
Top