نوید ناظم
محفلین
کوئی جال ہے جو بچھایا گیا ہے
پرندوں کو رسماً اڑایا گیا ہے
بڑی دور سے چل کے آیا تھا وہ بھی
سرِ بزم جس کو اٹھایا گیا ہے
ہمیں آرزو تھی کہ دیکھیں خدا کو
مگر آئینہ سا دکھایا گیا ہے
کوئی حق پرست آج سولی چڑھے گا
جو پھر دار کو یوں سجایا گیا ہے
یہ آوازِ حق ہے یہ اٹھ کر رہے گی
اس آواز کو کب دبایا گیا ہے
بس اب شام بھی آس پاس آ گئی ہے
ہمیں چھوڑ کر آج سایہ گیا ہے
اب اس جھوٹ کو لوگ سچ مان لیں گے
یہ ٹی وی پہ آخر چلایا گیا ہے
بھلا اس سے کیا آگ دل کی بجھے گی
یہ پانی جو آنکھوں میں لایا گیا ہے
لو روکا گیا تھا اِسے جس گلی سے
ںوید اس گلی میں ہی پایا گیا ہے
پرندوں کو رسماً اڑایا گیا ہے
بڑی دور سے چل کے آیا تھا وہ بھی
سرِ بزم جس کو اٹھایا گیا ہے
ہمیں آرزو تھی کہ دیکھیں خدا کو
مگر آئینہ سا دکھایا گیا ہے
کوئی حق پرست آج سولی چڑھے گا
جو پھر دار کو یوں سجایا گیا ہے
یہ آوازِ حق ہے یہ اٹھ کر رہے گی
اس آواز کو کب دبایا گیا ہے
بس اب شام بھی آس پاس آ گئی ہے
ہمیں چھوڑ کر آج سایہ گیا ہے
اب اس جھوٹ کو لوگ سچ مان لیں گے
یہ ٹی وی پہ آخر چلایا گیا ہے
بھلا اس سے کیا آگ دل کی بجھے گی
یہ پانی جو آنکھوں میں لایا گیا ہے
لو روکا گیا تھا اِسے جس گلی سے
ںوید اس گلی میں ہی پایا گیا ہے