غزل برائے اصلاح (فعولن فعولن فعولن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
کوئی جال ہے جو بچھایا گیا ہے
پرندوں کو رسماً اڑایا گیا ہے

بڑی دور سے چل کے آیا تھا وہ بھی
سرِ بزم جس کو اٹھایا گیا ہے

ہمیں آرزو تھی کہ دیکھیں خدا کو
مگر آئینہ سا دکھایا گیا ہے

کوئی حق پرست آج سولی چڑھے گا
جو پھر دار کو یوں سجایا گیا ہے

یہ آوازِ حق ہے یہ اٹھ کر رہے گی
اس آواز کو کب دبایا گیا ہے

بس اب شام بھی آس پاس آ گئی ہے
ہمیں چھوڑ کر آج سایہ گیا ہے

اب اس جھوٹ کو لوگ سچ مان لیں گے
یہ ٹی وی پہ آخر چلایا گیا ہے

بھلا اس سے کیا آگ دل کی بجھے گی
یہ پانی جو آنکھوں میں لایا گیا ہے

لو روکا گیا تھا اِسے جس گلی سے
ںوید اس گلی میں ہی پایا گیا ہے
 
ماشاءاللہ۔ من حیث المجوع بہت اچھے اشعار، نوید بھائی۔ داد قبول ہو۔
لو روکا گیا تھا اِسے جس گلی سے
ںوید اس گلی میں ہی پایا گیا ہے
مصرعِ اولیٰ میں لو کی واؤ ساقط ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اصول مدِ نظر رکھیے:
اگر مصرع وتدِ مجموع سے شروع ہو رہا ہو اور وزن پورا کرنے کے لیے کسی دو حرفی لفظ کا حرفِ علت ساقط کرنا پڑے تو احسن یہ ہے کہ وہ لفظ فعل کی کوئی صورت نہ ہو۔ یعنی لو، ہو، ہے، دو، تھا، تھے، تھیں، ہوں، لیں وغیرہ کو اس جگہ استعمال نہ کیا جائے۔ ان کی بجائے تو، کہ، سو، وہ، یہ وغیرہ کا استعمال زیادہ اچھا رہتا ہے۔ اساتذۂِ اردو کے ہاں یہ التزام عموماً آپ کو ملے گا گو آج کے شعرا اس کا اتنا خیال نہیں کرتے۔ مگر مصرع کے حسن پر اس کا اثر طبعِ سلیم کے لیے اظہر من الشمس ہے۔
 

نوید ناظم

محفلین
ماشاءاللہ۔ من حیث المجوع بہت اچھے اشعار، نوید بھائی۔ داد قبول ہو۔

مصرعِ اولیٰ میں لو کی واؤ ساقط ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اصول مدِ نظر رکھیے:
اگر مصرع وتدِ مجموع سے شروع ہو رہا ہو اور وزن پورا کرنے کے لیے کسی دو حرفی لفظ کا حرفِ علت ساقط کرنا پڑے تو احسن یہ ہے کہ وہ لفظ فعل کی کوئی صورت نہ ہو۔ یعنی لو، ہو، ہے، دو، تھا، تھے، تھیں، ہوں، لیں وغیرہ کو اس جگہ استعمال نہ کیا جائے۔ ان کی بجائے تو، کہ، سو، وہ، یہ وغیرہ کا استعمال زیادہ اچھا رہتا ہے۔ اساتذۂِ اردو کے ہاں یہ التزام عموماً آپ کو ملے گا گو آج کے شعرا اس کا اتنا خیال نہیں کرتے۔ مگر مصرع کے حسن پر اس کا اثر طبعِ سلیم کے لیے اظہر من الشمس ہے۔
بے حد شکریہ راحیل بھائی۔۔۔۔ انشاءاللہ آپ کی بات کو مدِ نظر رکھوں گا۔
 
Top