غزل برائے اصلاح و تنقید

امان زرگر

محفلین
خاک افتادہ یہ دل میرا ہے جس آزار کا
سنگِ در ہے عشق کا، رہ کوچۂ دلدار کا
اب مسیحا آئے بھی تو ہو سکے گی کیا دوا
فرط الفت میں جنوں اب بڑھ چکا بیمار کا
بیچنے کو اب متاعِ جان و دل آئے سبھی
اک خریدار وفا حاکم ہوا بازار کا
فرش رہ ہیں دیدہ و دل، منتظر آغوش جاں
کچھ کرو چارہ گرو اب حسرت دیدار کا
بزم ہستی سے تہی دامن پلٹ آیا تبھی
اک مغاں شیوہ نے تڑپایا جگر میخوار کا
 
آخری تدوین:

عاطف ملک

محفلین
خاک افتادہ ہے دل میرا یہ جس آزار کا
سنگِ در ہے عشق کا، رہ کوچۂ دلدار کا
اب مسیحا آئے بھی تو ہو سکے گی کیا دوا
فرط الفت میں جنوں اب بڑھ چکا بیمار کا
بیچنے کو اب متاعِ جان و دل لائے سبھی
اک خریدار وفا حاکم ہوا بازار کا
فرشِ رہ ہیں دیدہ و دل، جاں بہ لب آشفتہ سر
چارہ گر بھی کیا کریں اس حسرتِ دیدار کا
بزم ہستی سے تہی دامن پلٹ آیا تبھی
اک مغاں شیوہ نے تڑپایا جگر میخوار کا
خوبصورت ہے یہ تیرا قصہِ رنج و الم
پر کھٹکتا ہے مجھے "
یہ" مطلعِ اشعار کا

بہت خوبصورت کلام امان بھائی!
جتنا سمجھ سکا ہوں اتنا تو بہت مزے کا لگا۔
تجویز بھی دے دی ہے لیکن اساتذہ کی رائے کا انتظار کیجیے۔
سلامت رہیں اور اس سے بھی اچھا لکھیں :)
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
خوبصورت ہے یہ تیرا قصہِ رنج و الم
پر کھٹکتا ہے مجھے "یہ" مطلعِ اشعار کا


بہت خوبصورت کلام امان بھائی!
جتنا سمجھ سکا ہوں اتنا تو بہت مزے کا لگا۔
تجویز بھی دے دی ہے لیکن اساتذہ کی رائے کا انتظار کیجیے۔
سلامت رہیں اور اس سے بھی اچھا لکھیں :)
آپ کا کھٹکا درست ہے مگر مبتدی کو مشق کے لئے اساتذہ کے کلام سے استفادہ کا حق حاصل ہے.
 

الف عین

لائبریرین
خاک افتادہ یہ دل میرا ہے جس آزار کا
سنگِ در ہے عشق کا، رہ کوچۂ دلدار کا
÷÷مطلع میری ناقص عقل میں تو نہیں گھس سکا۔ ’یہ دل‘ تو چل سکتا ہے لیکن وہ آزار کیا ہے، سمجھ میں نہیں آیا۔ رہ اور کوچہ ایک ساتھ؟ یا یہ فعل رہنا سے مشتق رہ بمعنی رہ ہے؟

اب مسیحا آئے بھی تو ہو سکے گی کیا دوا
فرط الفت میں جنوں اب بڑھ چکا بیمار کا
بیچنے کو اب متاعِ جان و دل آئے سبھی
اک خریدار وفا حاکم ہوا بازار کا
۔۔تھیک ہیں دونوں

فرش رہ ہیں دیدہ و دل، منتظر آغوش جاں
کچھ کرو چارہ گرو اب حسرت دیدار کا
÷÷حسرت دیدار کا کیا کروانا چاہ رہے ہیں، یہ واضح نہیں۔

بزم ہستی سے تہی دامن پلٹ آیا تبھی
اک مغاں شیوہ نے تڑپایا جگر میخوار کا
۔۔تبھی کی معنویت نہیں سمجھ سکا۔
 

امان زرگر

محفلین
خاک افتادہ یہ دل میرا ہے جس آزار کا
سنگِ در ہے عشق کا، رہ کوچۂ دلدار کا
÷÷مطلع میری ناقص عقل میں تو نہیں گھس سکا۔ ’یہ دل‘ تو چل سکتا ہے لیکن وہ آزار کیا ہے، سمجھ میں نہیں آیا۔ رہ اور کوچہ ایک ساتھ؟ یا یہ فعل رہنا سے مشتق رہ بمعنی رہ ہے؟

اب مسیحا آئے بھی تو ہو سکے گی کیا دوا
فرط الفت میں جنوں اب بڑھ چکا بیمار کا
بیچنے کو اب متاعِ جان و دل آئے سبھی
اک خریدار وفا حاکم ہوا بازار کا
۔۔تھیک ہیں دونوں

فرش رہ ہیں دیدہ و دل، منتظر آغوش جاں
کچھ کرو چارہ گرو اب حسرت دیدار کا
÷÷حسرت دیدار کا کیا کروانا چاہ رہے ہیں، یہ واضح نہیں۔

بزم ہستی سے تہی دامن پلٹ آیا تبھی
اک مغاں شیوہ نے تڑپایا جگر میخوار کا
۔۔تبھی کی معنویت نہیں سمجھ سکا۔

فرش رہ ہیں دیدہ و دل، منتظر آغوش جاں
چارہ گر! آ دیکھ عالم حسرت دیدار کا
لطف خوباں سے وہ بھر لائے گا دامان جنوں
اک عطا سے کب مٹے شوق طلب نادار کا
جام دے کر دل کو محروم تمنا کر دیا
یوں مغاں شیوہ نے تڑپایا جگر میخوار کا
بزم ہستی سے پلٹ آیا تہی دامن تبھی
تھا فقط حرص و ہوس واں منصب و دینار کا

اور مطلع
کیا کریں اس عشق سوزاں درپئے آزار کا
چل مرے دل عزم باندھیں کوچۂ دلدار کا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
نیا مطلع اب بھی دل کو نہیں لگا۔ عشق جو در پئے آزار ہے، اس کا‘ کہنا چاہا تھا شاید۔
پچھلے شعر میں ’تبھی‘ نے ہی ہاتھ روک دیا تھا، اس لیے آگے نہیں بڑھ سلا، ورنہ سوال ’مغاں شیوہ‘ ترکیب پر بھی تھا! اور اب یہ دو اشعار میں تقسیم ہو گیا ہے!
 

امان زرگر

محفلین
اس کو دو اشعار میں تقسیم کر کے سمجھا تھا تبھی کا مسئلہ حل ہو گیا. مغاں شیوہ شاید ساقی کو کہا جا سکتا ہے.
اور اک نیا مطلع
ہو سکے شاید مداوا ہجر کے آزار کا
چل مرے دل عزم باندھیں کوچۂ دلدار کا
نیا مطلع اب بھی دل کو نہیں لگا۔ عشق جو در پئے آزار ہے، اس کا‘ کہنا چاہا تھا شاید۔
پچھلے شعر میں ’تبھی‘ نے ہی ہاتھ روک دیا تھا، اس لیے آگے نہیں بڑھ سلا، ورنہ سوال ’مغاں شیوہ‘ ترکیب پر بھی تھا! اور اب یہ دو اشعار میں تقسیم ہو گیا ہے!
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اس کو دو اشعار میں تقسیم کر کے سمجھا تھا تبھی کا مسئلہ حل ہو گیا. مغاں شیوہ شاید ساقی کو کہا جا سکتا ہے.
اور اک نیا مطلع
ہو سکے شاید مداوا ہجر کے آزار کا
چل مرے دل عزم باندھیں کوچۂ دلدار کا
اچھا مطلع ہے۔ اسے رکھو غزل میں
 

امان زرگر

محفلین
اچھا مطلع ہے۔ اسے رکھو غزل میں
سر جو نئے اشعار تھے ان پر آپ نےکوئی رائے نہیں دی تھی.
جو کہ درج ذیل ہیں
فرش رہ ہیں دیدہ و دل، منتظر آغوش جاں
چارہ گر! آ دیکھ عالم حسرت دیدار کا
لطف خوباں سے وہ بھر لائے گا دامان جنوں
اک عطا سے کب مٹے شوق طلب نادار کا
جام دے کر دل کو محروم تمنا کر دیا
یوں مغاں شیوہ نے تڑپایا جگر میخوار کا
بزم ہستی سے پلٹ آیا تہی دامن تبھی
تھا فقط حرص و ہوس واں منصب و دینار کا
 

الف عین

لائبریرین
مغاں شیوہ پر دیگر اہم علم کیا کہتے ہیں؟
’تبھی‘ کے بارے میں بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ لفظ کیوں لایا گیا ہے، سمجھنے سے قاصر ہوں۔
باقی اشعار درست ہیں
 

امان زرگر

محفلین
لطف خوباں سے وہ بھر لائے گا دامان جنوں
اک عطا سے کب مٹے شوق طلب نادار کا

کی بجائے

لطف خوباں آج دامان جنوں بھر دے مرا
اک عطا سے کب مٹے شوق طلب نادار کا

یا
لطف خوباں آج دامان جنوں بھر دے مرا
اک عطا سے ٹال دے شوق طلب نادار کا

اور ،تبھی، کی جگہ
بزم ہستی سے پلٹ آیا تہی دامن جنوں
تھا فقط حرص و ہوس واں منصب و دینار کا
سر الف عین
 
آخری تدوین:
Top