غزل برائے اصلاح ۔۔۔۔۔۔

صفی حیدر

محفلین
محترم سر الف عین و دیگر اسا تذہ کرام و محفلین سے اصلاحِ کلام کی درخواست ہے ......
بحر .. ہزج مثمن سالم

بلائیں ہیں مصائب ہیں عجب ہی زندگانی ہے
کچھ انہونی کے اندیشے ہیں مرگِ ناگہانی ہے
مجھے ہے کھوج جس کی اس کے نقشِ پا ہی دیکھے ہیں
تلاشِ یار میں ارض و سما کی خاک چھانی ہے
جو رنجش تھی نہ مٹ پائی وہ چشمِ خوں چکاں سے بھی
لہو سے بھی نہ دھل پایا جو داغِ بد گمانی ہے
میں طغیانی میں غم کی بہہ رہا ہوں ایک مدت سے
مرے اشعار میں رنج و الم سے ہی روانی ہے
ملالِ عہدِ ماضی تھا نہ مجھ کو فکرِ فردا تھی
کہاں بچپن کے دن ہیں اور کہاں وہ نوجوانی ہے
جو موجِ وقت کا موجود لمحہ ہے وہی سچ ہے
ہے ماضی ایک قصہ اور مستقبل کہانی ہے
سراپا عجز ہونے سے نہ دلبر راہ پر آیا
صفی اب سر گراں ہونے کی میں نے دل میں ٹھانی ہے
 

الف عین

لائبریرین
کوئی تکنیکی غلطی تو نہیں ہے۔ اصلاح کی بظاہر ضرورت نہیں۔ ویسے، جیسے میں اکثر کہتا ہوں، کلامِ غالب میں بھی بہتری کی گنجائش ہے۔
 
بلائیں ہیں مصائب ہیں عجب ہی زندگانی ہے
کچھ انہونی کے اندیشے ہیں مرگِ ناگہانی ہے

میں طغیانی میں غم کی بہہ رہا ہوں ایک مدت سے
مرے اشعار میں رنج و الم سے ہی روانی ہے

ملالِ عہدِ ماضی تھا نہ مجھ کو فکرِ فردا تھی
کہاں بچپن کے دن ہیں اور کہاں وہ نوجوانی ہے
اچھی غزل ہے۔ اقتباس میں دئے گئے اشعار کےضمن میں چند باتیں عرض کرتا ہوں۔ آپ نظر انداز بھی کر سکتے ہیں۔
آپ شاید کہنا چاہ رہے ہیں کہ:
بلائیں ہیں مصائب ہیں عجب ہی زندگانی ہے
کچھ انہونی کے اندیشوں میں مرگِ ناگہانی ہے

یہاں دونوں مصرعوں میں الگ الگ زمانوں کا ذکر ہے۔ مجھے تو ایسا لگا جیسے آپ نے کہنا چاہا کہ:
ملالِ عہدِ ماضی ہے نہ مجھ کو فکرِ فردا ہے
کہاں بچپن کے دن تھے اور کہاں یہ نوجوانی ہے

باقی اشعار خوب ہیں ماشا اللہ۔
نوازش۔
 

صفی حیدر

محفلین
اچھی غزل ہے۔ اقتباس میں دئے گئے اشعار کےضمن میں چند باتیں عرض کرتا ہوں۔ آپ نظر انداز بھی کر سکتے ہیں۔
آپ شاید کہنا چاہ رہے ہیں کہ:
بلائیں ہیں مصائب ہیں عجب ہی زندگانی ہے
کچھ انہونی کے اندیشوں میں مرگِ ناگہانی ہے

یہاں دونوں مصرعوں میں الگ الگ زمانوں کا ذکر ہے۔ مجھے تو ایسا لگا جیسے آپ نے کہنا چاہا کہ:
ملالِ عہدِ ماضی ہے نہ مجھ کو فکرِ فردا ہے
کہاں بچپن کے دن تھے اور کہاں یہ نوجوانی ہے

باقی اشعار خوب ہیں ماشا اللہ۔
نوازش۔
بہت شکریہ سر آپ نے حوصلہ افزائی کی . . . .
سر مرگ، ناگہانی تو ہو سکتی ہے پر انہونی نہیں ہوتی . . . کچھ انہونی کے اندیشے الگ ہیں اور اس پہ مستزاد مرگ ناگہانی ہے . . . .
سر ، لمحہ موجود میں گزرے وقت کو ہی یاد کیا جا رہا ہے . . . بچپن اور بیتی نوجوانی کے سہانے دنوں کی یاد . . جب نہ کوئی ملال تھا اور نہ کوئی فکر تھی . . .
 
ماشاءاللہ، بہت عمدہ کلام ہے، صفی بھائی۔ من حیث المجموع نہایت پسند آیا۔
مگر چونکہ آپ نے رائے طلب فرمائی ہے تو ہم نے بھی کانی آنکھ سے غزل پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ چند معروضات پیشِ خدمت ہیں:
جو رنجش تھی نہ مٹ پائی وہ چشمِ خوں چکاں سے بھی
لہو سے بھی نہ دھل پایا جو داغِ بد گمانی ہے
مصرعِ اولیٰ میں رنجش کے چشمِ خوں چکاں سے نہ مٹنے کا شکوہ ویسا بلیغ نہیں جیسا داغِ بدگمانے کے لہو سے بھی نہ دھل پانے کا ہے۔ مصرعِ ثانی کی شان ہی الگ ہے۔ پہلا مصرع اسے نہیں پہنچتا۔
چشمِ خوں چکاں سے رنجش کا مٹنا یا نہ مٹنا یوں بھی کچھ عمدہ نہیں۔ یا تو خوں چکانی کا اشارہ ہوتا۔ چشم سے کسی شے کے مٹنے کی توقع رکھنا خواہ وہ کتنی ہی خوں چکاں ہی کیوں نہ ہو، معنیٰ خیز نہیں۔
جو موجِ وقت کا موجود لمحہ ہے وہی سچ ہے
ہے ماضی ایک قصہ اور مستقبل کہانی ہے
مجھے بعض لوگوں سے ایک نکتہ معلوم ہوا تھا جو عموماً عروض کی کتب میں مندرج نہیں۔ مگر اساتذہ کے کلام کے جائزے سے اس کے التزام کا ثبوت ملتا ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ مصرع کے شروع میں "ہے" کو حرفِ واحد کے وزن پر باندھنے سے احتراز کیا جانا چاہیے۔ یعنی اگر کسی بحر میں مصرع "ہے" سے شروع کرنے کے لیے اس کی یائے لین ساقط کرنی پڑے تو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
آپ کے اس شعر میں مصرعِ ثانی "ہے" سے شروع ہو رہا ہے اور اسے ایک حرکت یا ہجائے کوتاہ قیاس کر کے باندھا گیا ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو گزشتہ را صلواۃ، آئندہ را احتیاط!
باقی اشعار نہایت عمدہ ہیں۔ تعریف نہیں ہو سکتی۔ :applause::applause::applause:
 

صفی حیدر

محفلین
ماشاءاللہ، بہت عمدہ کلام ہے، صفی بھائی۔ من حیث المجموع نہایت پسند آیا۔
مگر چونکہ آپ نے رائے طلب فرمائی ہے تو ہم نے بھی کانی آنکھ سے غزل پڑھنے کی کوشش کی ہے۔ چند معروضات پیشِ خدمت ہیں:

مصرعِ اولیٰ میں رنجش کے چشمِ خوں چکاں سے نہ مٹنے کا شکوہ ویسا بلیغ نہیں جیسا داغِ بدگمانے کے لہو سے بھی نہ دھل پانے کا ہے۔ مصرعِ ثانی کی شان ہی الگ ہے۔ پہلا مصرع اسے نہیں پہنچتا۔
چشمِ خوں چکاں سے رنجش کا مٹنا یا نہ مٹنا یوں بھی کچھ عمدہ نہیں۔ یا تو خوں چکانی کا اشارہ ہوتا۔ چشم سے کسی شے کے مٹنے کی توقع رکھنا خواہ وہ کتنی ہی خوں چکاں ہی کیوں نہ ہو، معنیٰ خیز نہیں۔

مجھے بعض لوگوں سے ایک نکتہ معلوم ہوا تھا جو عموماً عروض کی کتب میں مندرج نہیں۔ مگر اساتذہ کے کلام کے جائزے سے اس کے التزام کا ثبوت ملتا ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ مصرع کے شروع میں "ہے" کو حرفِ واحد کے وزن پر باندھنے سے احتراز کیا جانا چاہیے۔ یعنی اگر کسی بحر میں مصرع "ہے" سے شروع کرنے کے لیے اس کی یائے لین ساقط کرنی پڑے تو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
آپ کے اس شعر میں مصرعِ ثانی "ہے" سے شروع ہو رہا ہے اور اسے ایک حرکت یا ہجائے کوتاہ قیاس کر کے باندھا گیا ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو گزشتہ را صلواۃ، آئندہ را احتیاط!
باقی اشعار نہایت عمدہ ہیں۔ تعریف نہیں ہو سکتی۔ :applause::applause::applause:
بہت بہت شکریہ راحیل بھائی . . . بہت نوازش آپ نے جو حوصلہ افزائی کی اس کے لیے تہہِ دل سے شکر گزار ہوں . .آپ کے تخیل کی بلندی اور ندرت کا، جو آپ کے کلام کی صورت پڑھنے کو ملتی ہے، میں مداح ہوں....
آپ نے درست کہا ہے چشمِ خوں چکاں سے سے رنجش کا مٹنا ایک مبہم سی بات لگتی ہے . . . میں اپنی بات کو زیادہ احسن انداز میں بیان نہیں کر سکا . . . دوسرے مصرعے کی پزیرائی سے کچھ بھرم رہ گیا ہے . . . .
"ہے" کو حرفِ واحد کے طور پر مصرعے کے شروع میں استعمال کرنے کے حوالے سے جو نکتہ آپ نے بیان کیا ہے . . وہ واقعی میرے علم میےایک گراں قدر اضافہ ہے.. انشاءاللہ آئندہ اس کا خیال رکھوں گا...
راحیل بھائی آپ سے گزارش ہے کہ آئندہ بھی ایسے نکات سے آگاہ کرتے رہئیے گا جو کتب سے زیادہ مشاہدے اور تجربے پر مبنی ہوں . . . اور اصلاحِ کلام کے لیے آپ کو زحمت دیتا رہوں گا . . مجھے یقین ہے آپ راہنمائی کریں گے . .
 
Top