صفی حیدر
محفلین
محترم سر الف عین و دیگر اسا تذہ کرام و محفلین سے اصلاحِ کلام کی درخواست ہے ......
بحر .. ہزج مثمن سالم
بلائیں ہیں مصائب ہیں عجب ہی زندگانی ہے
کچھ انہونی کے اندیشے ہیں مرگِ ناگہانی ہے
مجھے ہے کھوج جس کی اس کے نقشِ پا ہی دیکھے ہیں
تلاشِ یار میں ارض و سما کی خاک چھانی ہے
جو رنجش تھی نہ مٹ پائی وہ چشمِ خوں چکاں سے بھی
لہو سے بھی نہ دھل پایا جو داغِ بد گمانی ہے
میں طغیانی میں غم کی بہہ رہا ہوں ایک مدت سے
مرے اشعار میں رنج و الم سے ہی روانی ہے
ملالِ عہدِ ماضی تھا نہ مجھ کو فکرِ فردا تھی
کہاں بچپن کے دن ہیں اور کہاں وہ نوجوانی ہے
جو موجِ وقت کا موجود لمحہ ہے وہی سچ ہے
ہے ماضی ایک قصہ اور مستقبل کہانی ہے
سراپا عجز ہونے سے نہ دلبر راہ پر آیا
صفی اب سر گراں ہونے کی میں نے دل میں ٹھانی ہے
بحر .. ہزج مثمن سالم
بلائیں ہیں مصائب ہیں عجب ہی زندگانی ہے
کچھ انہونی کے اندیشے ہیں مرگِ ناگہانی ہے
مجھے ہے کھوج جس کی اس کے نقشِ پا ہی دیکھے ہیں
تلاشِ یار میں ارض و سما کی خاک چھانی ہے
جو رنجش تھی نہ مٹ پائی وہ چشمِ خوں چکاں سے بھی
لہو سے بھی نہ دھل پایا جو داغِ بد گمانی ہے
میں طغیانی میں غم کی بہہ رہا ہوں ایک مدت سے
مرے اشعار میں رنج و الم سے ہی روانی ہے
ملالِ عہدِ ماضی تھا نہ مجھ کو فکرِ فردا تھی
کہاں بچپن کے دن ہیں اور کہاں وہ نوجوانی ہے
جو موجِ وقت کا موجود لمحہ ہے وہی سچ ہے
ہے ماضی ایک قصہ اور مستقبل کہانی ہے
سراپا عجز ہونے سے نہ دلبر راہ پر آیا
صفی اب سر گراں ہونے کی میں نے دل میں ٹھانی ہے