محمد فائق
محفلین
حلق کو فتح ملی خنجر کو رسوائی ملی
ہم وہی ہیں جن کو مقتل سے پذیرائی ملی
اسطرح کچھ مسکرائے تشنگی کی زد پہ ہم
تشنگی اور آب کے مابین یکجائی ملی
ہم تو انگاروں پہ چلنے کے لیے تیار تھے
وہ تو کہیے کہ سفر میں آبلہ پائی ملی
ہم نے کی جب عمر اپنی ساری زندانوں کی نذر
حریت کو تب کہیں جا کر شناسائی ملی
فرق آیا کب ہمارے عزم و استقلال پر
گو ہمیں ہر اک قدم پر ظلم آرائی ملی
کیوں نہ ہو آخر ہماری موت رشکِ زندگی
کون ہیں وہ جن کو بعدِ مرگ گویائی ملی
قتل کر کے بھی ہمیں فائق وہ گھبراتا رہا
حوصلوں میں ظلم کے اس درجہ پسپائی ملی
ہم وہی ہیں جن کو مقتل سے پذیرائی ملی
اسطرح کچھ مسکرائے تشنگی کی زد پہ ہم
تشنگی اور آب کے مابین یکجائی ملی
ہم تو انگاروں پہ چلنے کے لیے تیار تھے
وہ تو کہیے کہ سفر میں آبلہ پائی ملی
ہم نے کی جب عمر اپنی ساری زندانوں کی نذر
حریت کو تب کہیں جا کر شناسائی ملی
فرق آیا کب ہمارے عزم و استقلال پر
گو ہمیں ہر اک قدم پر ظلم آرائی ملی
کیوں نہ ہو آخر ہماری موت رشکِ زندگی
کون ہیں وہ جن کو بعدِ مرگ گویائی ملی
قتل کر کے بھی ہمیں فائق وہ گھبراتا رہا
حوصلوں میں ظلم کے اس درجہ پسپائی ملی