غزل برائے اصلاح

شہنواز نور

محفلین
السلام علیکم ۔ محفلین ایک غزل پیش خدمت ہے اساتذہ سے اصلاح کی گزارش ہے ممنون رہوں گا ۔۔۔۔

زندگی ایک اذیت ہے بسر ہونے تک
ٹھوکریں کھاتے رہو ختمِ سفر ہونے تک
جنوں کا زور تھا وہ بے خودی کا عالم تھا
بے خبر جیتے رہے اپنی خبر ہونے تک
ظلم کا زور ترے ہونٹ کی خاموشی سے
ظلم کی عمر ترے سینے میں ڈر ہونے تک
چوٹ لگنے پہ بھی احساس نہیں ہوتا ہے
درد ہوتا ہی نہیں دردِ جگر ہونے تک
دور ہوتے ہو تو آتا ہے کلیجہ منھ کو
پاس ہوتے ہو تو ہنستا ہوں مگر ہونے تک
تجھ سے اتنی سی گزارش ہے اے جانے والے
لوٹ آنا تو مرے زیر و زبر ہونے تک
ایک بھی بات کہاں تم نے سنی صرف کہا
مرے اشکوں سے میری آنکھوں کے تر ہونے تک
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم

شاہنواز نور بھائی آپ کی غزل عمدہ ہے -ایک مصرعہ بس وزن سے خارج ہے :

جنوں کا زور تھا وہ بے خودی کا عالم تھا
بے خبر جیتے رہے اپنی خبر ہونے تک

اس شعر کا مصرع اولیٰ -اس کو یوں کہیں تو وزن میں آجائے گا :

عالمِ بے خودی تھا' زورِ جنوں تھا' ہم تھے (/اور ہم )

یاسر
 

الف عین

لائبریرین
وہی مصرع رواں نہیں جس کو یاسر نے بحر سے خارج کہا ہے، کہ یہ بحر میں ہے لیکن کئی حروف کا اسقاط ہو رہا ہے۔ یہی بات خود یاسر شاہ کے مجوزہ مصرعے میں ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے
بے خودی تھی کہ وہ تھا زورِ جنوں کا عالم
دور ہوتے ہو تو آتا ہے کلیجہ منھ کو
پاس ہوتے ہو تو ہنستا ہوں مگر ہونے تک
واضح نہیں ہوا، "مگر ہونے تک"
تجھ سے اتنی سی گزارش ہے اے جانے والے
لوٹ آنا تو مرے زیر و زبر ہونے تک
اے جانے والے کے اے میں ے کا اسقاط درست نہیں۔ ویسے او درست ہو سکتا ہے لیکن اگر الفاظ ہی بدل دیں تو بہتر ہے، جیسے
یہ گزارش ہے مجھے چھوڑ کے جانے والے

ایک بھی بات کہاں تم نے سنی صرف کہا
مرے اشکوں سے میری آنکھوں کے تر ہونے تک
.... کیا کہا؟ شعر واضح نہیں ہو سکا
 

یاسر شاہ

محفلین
الف عین صاحب مجھے معلوم تھا کہ آپ میری تجویز سے اختلاف کریں گے - آپ کی رائے راجح اور افضل ہے کہ بیخودی کی " ی " نہیں گرنی چاہئے-جمہور شعرا بھی بیخودی کی "ی" کے اسقاط کے حق میں نہیں لیکن اگر روانی مجروح نہیں ہورہی تو گرانے میں کیا حرج ہے-دیکھئے غالب نے بھی بیخودی کی "ی " دبائی ہے اور روانی ذرا متاثر نہیں ہورہی :

وحشت کہاں کہ بیخودی انشا کرے کوئی
ہستی کو لفظِ معنئ عنقا کرے کوئی

باقی اس مصرع"جنوں کا زور تھا وہ بے خودی کا عالم تھا " کی ابتدا میں ہی "جنوں" کو دبایا گیا ہے -جس سے روانی مجروح ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ مصرع بےوزن ہے حالانکہ شاہنواز صاحب نے بیخودی میں بھی " ی " کا اسقاط کیا ہے جس سے روانی پہ خاص فرق نہیں پڑا -بہرحال آپ کا مجوزہ مصرعہ تکنیکی لحاظ سے بہتر ہے -
 
Top