غزل برائے اصلاح

انیس جان

محفلین
شعر سِوُم : بندش کی سُستی ہے، لیکن ذرا سی تبدیلی سے شعر شاہکار ہو سکتا، میں اسے ذرا سی نئی شکل دیتا ہوں، دیکھئیے کہ پسند آئے تو قبول کر لیجئے :
اے ساقی! جد آ، بکھرے پڑے ہیں جام و ساغر یاں
تری امید پہ ہر ایک اہلِ انجمن بگڑا
دائم صاحب یہ شعر کیسا رہے گا

اے ساقی جلد لا تشریف ساغر جام بکھرے ہیں
کروں کیا بات رندو کی ہے میرِ انجمن بگڑا
 
شعر پنجم : لفظِ بَرْہَمَن نہیں ہوتا بلکہ بَرَہْمَن ہوتا ہے، اس لحاظ سے یہ قافیہ درست نہیں ہے، شعر کا پہلا مصرعہ بہت خُوب ہے، دوسرا مصرعہ معمولی سی ترمیم چاہتا ہے یوں کر لیجیے :
مسلماں جان کر مجھ کو مَگَر دیرِ کُہَن بگڑا
برَہْمن اور برْہَمن دونوں درست ہیں.

از معنیِ دعای بت و برهمن مپرس
این رام رام نیست همان الله الله است
( بیدل دهلوی)
 

الف عین

لائبریرین
بھائی میں نے تو اپنی محنت بچانے کی خاطر دائم سے اس غزل کے تجزیے کے لیے کہا تھا، طنز کا خیال بھی نہیں تھا ذہن میں اور نہ یہ احساس تھا کہ اس طرح بھی سوچا جا سکتا ہے۔ اپنا ایک کمنٹ تو کر ہی دیا تھا۔ اب تفصیل سے دیکھتا ہوں، لیکن نماز کے بعد۔ ابھی ظہر کے لیے اٹھ رہا ہوں۔ یہ جلدی سے لکھ دیا کہ غلط فہمی دور ہو جائے
 

دائم

محفلین
بھائی میں نے تو اپنی محنت بچانے کی خاطر دائم سے اس غزل کے تجزیے کے لیے کہا تھا، طنز کا خیال بھی نہیں تھا ذہن میں اور نہ یہ احساس تھا کہ اس طرح بھی سوچا جا سکتا ہے۔ اپنا ایک کمنٹ تو کر ہی دیا تھا۔ اب تفصیل سے دیکھتا ہوں، لیکن نماز کے بعد۔ ابھی ظہر کے لیے اٹھ رہا ہوں۔ یہ جلدی سے لکھ دیا کہ غلط فہمی دور ہو جائے
مجھے بھی معلوم ہے سر کہ آپ نے طنز کا نہیں سوچا، میں نے تو ازراہِ تفنُّن عرض کر دیا... :hypnotized::wasntme:
 

الف عین

لائبریرین
صفحہ اول پر کاپی کرنی پڑی ہے اس لیے اصل متن کو ہی لے رہا ہوں
نہ لوں گا نام تیرا، ایک بھی گر موئے تن بگڑا
((خدایا نام نے لوں تیرا گر اک موئے تن بگڑا))
جو تجھ پر جان دیتے ہیں اگر ان کا کفن بگڑا
.... کفن بگڑنے پر مجھے اعتراض تھا لیکن آتش کے سامنے میری کیا مجال۔ خدایا والے مصرع میں 'نے' زائد ہے لیکن بہتر ہے

ہوا بگڑی فضا بگڑی شجر بگڑے چمن بگڑا
چمن کیا بگڑا ہائے بلبلوں کا تو چلن بگڑا
... بلبلوں کا چال چلن سے یہ سارے بگاڑ کا تعلق؟

اے ساقی جلد لا تشریف ساغر جام بکھرے ہیں
نہیں ہے بات اک دو کی، ہے سارا انجمن بگڑا
..... اے کی ے کا اسقاط مستحسن نہیں
یوں کر دو
ذرا تو جلد آ ساقی یہاں سب جام بکھرے ہیں
دوسرا مصرع جو تم نے لکھا تھا وہ ٹھیک ہے

ذرا دیکھو تو حال اس ماہ رخ کا قبر کے اندر
جبیں بگڑی ذقن بگڑا، غرض پورا بدن بگڑا
.... دوسرا مصرع رواں نہیں ایسا کچھ کہو
جبیں ہی کیا، یہاں وہ پھول سا سارا بدن بگڑا

مسلماں کہتے ہیں کافر مجھے، مسجد سے روکے ہیں
مسلماں جان کر مجھ سے ہے ہائے(کافر بجائے ہائے) برہمن بگڑا
درست ہے کافر کے ساتھ

نہیں لگتا انیس اب جی کہیں پر بھی مرا ہرگز
مسلماں بگڑے کافر بگڑے تو بگڑا ہے من(میں)بگڑا
یہ شعر الفاظ بدل کر کوشش کر کے دیکھیں
 

انیس جان

محفلین
محترم استاد الف عین صاحب آج ہی آپ کا مراسلہ پڑھنے کا اتفاق ہوا

مقطع اور مزید دو شعر موزوں کیے ہیں برائے اصلاح

دلاسے وعدہِ فردا کے ہی وہ مجھ کو دیتا تھا
ذرا سی کی جو کل تکرار، تو وعدہ شکن بگڑا

بڑھاپا آیا جو اس پر ہوا یہ حال لیلیٰ کا
ہوئی کافور ساری شوخیاں وہ بانکپن بگڑا

ضرورت قافیے کی ہے نہ پابندی ردائف کی
انیس "آزاد نظموں"سے غزل گوئی کا فن بگڑا

دائم
محمد ریحان قریشی
 
Top