غزل برائے اصلاح

تنظیم اختر

محفلین
غزل برائے اصلاح

سوئے ارماں جگا گیا کوئی
دل کی دنیا پہ چھا گیا کوئی

بند تھے دل کے سارے دروازے
چپکے اس میں سما گیا کوئی

ہنستے ہنستے ہمیشہ ملتا تھا
وقت رخصت رلا گیا کوئی

رات دیکھا یوں بام پر ان کو
چاند چھت پر ہو آ گیا کوئ

جو گل تھا بہت عزیز ہمیں
اور ہی اس کو بھا گیا کوئی

ہم نے بس چاہا عمر بھر کا ساتھ
اپنا سب کچھ لٹا گیا کوئی

تنظیم اختر
دوحہ، قطر
 

عظیم

محفلین
سوئے ارماں جگا گیا کوئی
دل کی دنیا پہ چھا گیا کوئی
۔۔۔ارمان شاید ہندی کا لفظ ہے تو اس کا ن غنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ صرف 'سوئے' نہیں 'سوئے ہوئے' کی ضرورت ہے

بند تھے دل کے سارے دروازے
چپکے اس میں سما گیا کوئی
۔۔ چپکے کچھ عجیب لگ رہا ہے۔ 'چپکے سے' ہونا چاہیے تھا۔ باقی خوب یے

ہنستے ہنستے ہمیشہ ملتا تھا
وقت رخصت رلا گیا کوئی
۔۔۔۔ہنستے ہنستے ملنے سے کیا شاعر کو بھی خوشی ہوتی تھی؟ اگر ایسا ہے تو اس کا ذکر شعر میں نظر نہیں آ رہا۔ وقت رخصت رلانے اور ہنستے ہنستے ملنے میں کوئی ربط نہیں بنتا

رات دیکھا یوں بام پر ان کو
چاند چھت پر ہو آ گیا کوئ
۔۔ شترگربہ لگ رہا ہے۔ 'ان کو' کی جگہ 'اس کو' ہونا چاہیے تھا

جو گل تھا بہت عزیز ہمیں
اور ہی اس کو بھا گیا کوئی
۔۔پہلے میں شاید 'وہ' ٹائپ ہونے سے رہ گیا ہے۔ باقی درست ہے

ہم نے بس چاہا عمر بھر کا ساتھ
اپنا سب کچھ لٹا گیا کوئی
۔۔۔پہلا
ہم نے چاہا تھا عمر بھر کا ساتھ
بہتر لگ رہا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ارماں استعمال کیا جا سکتا ہے، سوئے ارماں بھی درست ہی ہے۔ مطلع درست ہے
دوسرے شعر میں چپکے چپکے استعمال کریں، شعر بہتر ہو جائے گا
 

تنظیم اختر

محفلین
جناب الف عین صاحب اور جناب عظیم صاھب
آپ کی بیش قیمتی اصلاح کے لئے بے حد مشکور و ممنون ہوں آپ کے مشورے کے مطابق اس غزل کو ٹھیک کرنے کی کوشش کروں گا. انشااللہ
 

تنظیم اختر

محفلین
جناب الف عین صاحب
جناب عظیم صاحب


سوئے ارماں جگا گیا کوئی
دل کی دنیا پہ چھا گیا کوئی

بند تھے دل کے سارے دروازے
چپکے چپکے سما گیا کوئی

رات دیکھا یوں بام پر اس کو
چاند چھت پر ہو آ گیا کوئی

وہ گل تھا بہت عزیز ہمیں
اور ہی اس کو بھا گیا کوئی

ہم نے چاہا تھاعمر بھر کا ساتھ
اپنا سب کچھ لٹا گیا کوئی

ایک نئے شعر کے اضافے کے ساتھ

آج کیوں ہو گئیں یہ نم آنکھیں
یا
آج پھر ہو گئی ہیں نم آنکھیں
یاد پھر ان کو آ گیا کوئی



تنطیم اختر
دوحہ ، قطر
 

عظیم

محفلین
گل والے شعر میں 'وہ جو گلا تھا' کے ساتھ بحر میں ہو گا مصرع
نئے شعر میں 'نم آنکھیں' سے لگتا ہے کہ شاعر کی اپنی آنکھوں کی بات ہے مگر دوسرے میں 'ان' ہے
یوں کیا جا سکتا ہے
آج پھر ہو گئیں وہ آنکھیں نم
 
Top