محترم اساتذہ کرام۔۔۔۔۔
ایک طرحی غزل برائے تنقید....

ﻟﻮﮒ ﺩﺷﻨﺎﻡ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
" ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ "

دل ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﮧ ﺩﮬﺒﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭼﮭﮯ ﻟﮕﺘﮯ
ﺳﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﮨﻤﯽ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺳﯿﮧ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺗﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ
ﺟﻮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺒﮭﯽﮈﮬﯿﺮ ﻟﮕﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ

وہ مرے شہر کی گلیوں سے تو گزرے تنہا
مجھے آواز نہیں دی کہ گلا رکھتے تھے

یہ ستارے بھی تری ہم سے شکایت کرتے
تیری یادوں سے جو راتوں کو سجا رکھتے تھے

آج قبریں بھی نہیں باقی کہیں پر ان کی
حشر ہر وقت زمیں پر جو اٹھا رکھتے تھے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کی گرہ پسند نہیں آئی۔
دوسرا شعر
ﺳﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﮨﻤﯽ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
روانی چاہتا ہے
اس لئے عشق سے ہم خود کو بچا رکھتے تھے
کیا جا سکتا ہے۔

مجھے آواز نہیں دی کہ گلا رکھتے تھے
گِ لا یا گَ لا؟ اس کے علاوہ دو لختی کی کیفیت بھی ہے اس شعر میں۔

یہ ستارے بھی تری ہم سے شکایت کرتے
تیری یادوں سے جو راتوں کو سجا رکھتے تھے
پہلا مصرع یوں ہو تو بہتر ہے
یہ ستارے بھی تراہم سے گلہ کرتے ہیں
باقی ٹھیک ہیں اشعار۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کی گرہ پسند نہیں آئی۔
دوسرا شعر
ﺳﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﮨﻤﯽ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
روانی چاہتا ہے
اس لئے عشق سے ہم خود کو بچا رکھتے تھے
کیا جا سکتا ہے۔

مجھے آواز نہیں دی کہ گلا رکھتے تھے
گِ لا یا گَ لا؟ اس کے علاوہ دو لختی کی کیفیت بھی ہے اس شعر میں۔

یہ ستارے بھی تری ہم سے شکایت کرتے
تیری یادوں سے جو راتوں کو سجا رکھتے تھے
پہلا مصرع یوں ہو تو بہتر ہے
یہ ستارے بھی تراہم سے گلہ کرتے ہیں
باقی ٹھیک ہیں اشعار۔
 
Top