محمد امجد نذیر الہ آبادی
محفلین
محترم اساتذہ کرام۔۔۔۔۔
ایک طرحی غزل برائے تنقید....
ﻟﻮﮒ ﺩﺷﻨﺎﻡ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
" ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ "
دل ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﮧ ﺩﮬﺒﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭼﮭﮯ ﻟﮕﺘﮯ
ﺳﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﮨﻤﯽ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺳﯿﮧ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺗﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ
ﺟﻮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺒﮭﯽﮈﮬﯿﺮ ﻟﮕﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
وہ مرے شہر کی گلیوں سے تو گزرے تنہا
مجھے آواز نہیں دی کہ گلا رکھتے تھے
یہ ستارے بھی تری ہم سے شکایت کرتے
تیری یادوں سے جو راتوں کو سجا رکھتے تھے
آج قبریں بھی نہیں باقی کہیں پر ان کی
حشر ہر وقت زمیں پر جو اٹھا رکھتے تھے
ایک طرحی غزل برائے تنقید....
ﻟﻮﮒ ﺩﺷﻨﺎﻡ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
" ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺎ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ "
دل ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﮧ ﺩﮬﺒﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭼﮭﮯ ﻟﮕﺘﮯ
ﺳﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﮨﻤﯽ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺳﯿﮧ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺗﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ
ﺟﻮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﺒﮭﯽﮈﮬﯿﺮ ﻟﮕﺎ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ
وہ مرے شہر کی گلیوں سے تو گزرے تنہا
مجھے آواز نہیں دی کہ گلا رکھتے تھے
یہ ستارے بھی تری ہم سے شکایت کرتے
تیری یادوں سے جو راتوں کو سجا رکھتے تھے
آج قبریں بھی نہیں باقی کہیں پر ان کی
حشر ہر وقت زمیں پر جو اٹھا رکھتے تھے