بہت شکریہ سر آپ نے تفصیل سے راہنمائی کی ۔۔۔۔اسقاط کے بارے میں یہ علم تو تھا کہ کہاں کیا جا سکتا ہے اور کہاں نہیں ۔۔لیکن یہ علم نہیں تھا کہ کہاں پسندیدہ ہے اور کہاں اجتناب برتنا چاہیے ۔۔۔پہلی غزل میں آپ نے قوافی کے بارے میں جو راہنمائی کی اس کے مطابق تبدیل کر دیے تھے ۔۔۔مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ سات میں سے دو اشعار کو آپ نے درست قرار دیا ۔۔ محترم سر مطلع میں جو مضمون بیان کرنے کی کوشش کی ہے شاید اس کا درست ابلاغ نہیں ہو سکا ۔۔۔
آپ لہجہ بدلتے جا رہے ہیں
آگ میں خواب جلتے جا رہے ہیں
آتشیں لہجے سے وہ خواب جو محبت کا جواب محبت سے ملنے کی امید رکھتے تھے جلتے جا رہے ہیں ۔۔ لہجے سے جب غصے کی آگ برسے یا بے نیازی اور تغافل کی آتش جلے تو خواب خاکستر ہو جاتے ہیں ۔۔
آپ محفل کی جان ہیں اور ہم
شمع کی مثل جلتے جا رہے ہیں
شمع جلتی ہے تو محفل میں روشنی ہوتی ہے ۔۔ صاحبِ محفل اس روشنی میں محفل کی جان بن جاتے ہیں ۔۔ لیکن شمع سلگتے سلگتے اپنا وجود ہی فنا کر دیتی ہے ۔۔
کچھ خبر لیجئے ہماری بھی
جسم سے ہم نکلتے جا رہے ہیں
جسم سے روح نکلتی ہے ۔۔ روح جو انسان کی اصل حقیقت ہے ۔۔مرگ کی طرف اشارہ ہے ۔۔ محاورے کے لحاظ سے درست ہے یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں تھا۔۔
آپ ہیں باغبان آپ ہی کیوں
قدموں میں گل مسلتے جا رہے ہیں
آپ نے اس شعر میں عیبِ تنافر کی نشاندہی درست کی ہے ۔۔ درست محاورے کے ساتھ تنافر بھی ختم ہو جاتا ہے ۔۔
آپ ہیں باغبان آپ ہی کیوں
قدموں سے گل مسلتے جا رہے ہیں
ہجر میں صبر بھی قیامت ہے
یادوں میں ہم مچلتے جا رہے ہیں
آپ نے درست کہا کہ مچلنا مسرت کا اظہار ہوتا ہے ۔۔۔ درد یا تکلیف کا نہیں ۔۔۔
محترم سر میں کوشش کرتا ہوں اس غزل کو آپ کی بتائی ہوئی اصلاح کی روشنی میں دوبارہ سے تخلیق کروں ۔۔۔۔ ایک بار پھر آپ کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔۔