غزل برائے اصلاح

زبان:فارسی
سخن سرا: اریب آغا ناشناس

وزن: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

چون ترا از دور بینم، از تنم جان می شود
بی تو صبحِ روشنَم شامِ غریبان می شود
نیست در باغِ دلم گل هایِ وصلت، وایِ من
گلشنم چون صحرا از هجرِ تو ویران می شود
می رسد جانم بلب آن دم که از یادم روی
زندگی گویی برایم دشمنِ جان می شود
بر زبانم می شود نامِ تو جاری هر دمی
خلق گویندم که زان، کفرم نمایان می شود
چون به پیشم بگذری، صد درد می گیرد دلم
همچو زلفت خاطرم ای جان پریشان می شود
برگ ها ریزد ز شاخِ عمر، جانا زود کن
از ورودت فصلِ پاییزم بهاران می شود
ناشناست را ببین که در غمت جان می دهد
ﺑﺮ ﺳﺮﺵ ﺁیی دمی گر، مرگ آسان می شود
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے اریب صاحب ،
خصوصا یہ شعر تو کیا کہنے ۔۔۔۔بے حد سلام آپ پر ۔۔۔۔۔۔
برگ ہا ریزد ز شاخِ عمر، جانا زود کن
از ورودت فصلِ پاییزم بہاران می شود
 
بہت خوبصورت غزل ہے اریب صاحب ،
خصوصا یہ شعر تو کیا کہنے ۔۔۔۔بے حد سلام آپ پر ۔۔۔۔۔۔
برگ ہا ریزد ز شاخِ عمر، جانا زود کن
از ورودت فصلِ پاییزم بہاران می شود
نہایت سپاس گزار ہوں آپ کی حوصلہ افزائی کا عاطف صاحب
 

محمد وارث

لائبریرین
حوصلہ افزائی کا نہایت سپاس گزار ہوں وارث بھائی. تمام مصرعوں کے وزن درست ہیں؟
جی درست ہیں، ایک آدھ چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں:

دوسرے شعر میں صحرا کی الف گر رہی ہے جو شاید درست نہیں۔

چوتھے شعر، زاں سبب گویند کہ۔۔۔۔، اس میں کہ دو حرفی یعنی فع بندھا ہے، یہ بھی درست نہیں، کہ کا وزن یک حرفی ہوتا ہے۔

اسی شعر میں، اور یہ مجھے سب سے زیادہ پسند آیا، تقابلِ ردیف در آیا ہے، یعنی دونوں مصرعوں میں 'می شود'۔ ہو سکے تو اسے تبدیل کریں یعنی یا تو پہلے مصرعے میں 'می شود' کو بدلیں یا اس سے پہلے کسی طرح 'جاری' کو بدل کر غزل کا قافیہ لے آئیں تو اس طرح یہ شعر حسنِ مطلع بن جائے گا اور پھر اسے مطلع کے فوری بعد لکھ دیں۔
 
بر زبانم هر دمی نامِ تو جاری می شود

اسی شعر میں، اور یہ مجھے سب سے زیادہ پسند آیا، تقابلِ ردیف در آیا ہے، یعنی دونوں مصرعوں میں 'می شود'۔ ہو سکے تو اسے تبدیل کریں یعنی یا تو پہلے مصرعے میں 'می شود' کو بدلیں یا اس سے پہلے کسی طرح 'جاری' کو بدل کر غزل کا قافیہ لے آئیں
پھر اسے ایسے تحریر کردیتا ہوں

بر زبانم مے شود نامِ تو جاری ہر دمے
 
زان سبب گویند که کفرم نمایان می شود

چوتھے شعر، زاں سبب گویند کہ۔۔۔۔، اس میں کہ دو حرفی یعنی فع بندھا ہے، یہ بھی درست نہیں، کہ کا وزن یک حرفی ہوتا ہ
یہ کیسا رہے گا:
خلق گویندم که زین کفرم نمایان مے شود
 

حسان خان

لائبریرین
بِسیار خوب غزل ہے، برادر۔ فارسی سرا شاعروں کی فہرست میں نام شامل ہو جانے پر تبریکات قبول کیجیے۔ :)
خلق گویندم که زین کفرم نمایان می شود
'زین کُفرم' سے 'اِس سے میرا کُفر' کی بجائے 'میرے اِس کُفر سے' کا مفہوم زیادہ نکل رہا ہے۔ شاید 'خلق گویندم که زان، کُفرم نمایان می‌شود' سے بہتری آ جائے۔ مفہوم یہ ہو جائے گا: "خلق مجھ سے کہتی ہے کہ اُس باعث میرا کُفر نمایاں ہوتا ہے۔" اگر کوئی دیگر مصرع لایا جا سکتا ہے تو لانے کی کوشش کیجیے۔
سبب ظاہر کرنے کے لیے عموماً 'زین/ازین کی بجائے 'زان/ازان' استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے لیے صائب تبریزی سے منسوب ایک بیت دیکھیے:
آرزویِ بوسه شُسته‌ست از دلم پیغامِ تلخ
زان قناعت کرده‌ام از بوسه با دشنامِ تلخ

 
آخری تدوین:
آپ تمام احباب کا سپاسگزار ہوں کہ میری اس غزل کی حوصلہ افزائی اور اصلاح فرمائی. اور میں بہ ویژہ برادرم حسان خان کا از بس سپاسگزار ہوں جنہوں نے اس ایک مہینے کے عرصے میں میرے تجویز کردہ بہت سے ابیات اور مصرعوں، جن میں زیادہ تر بے معنی ابیات پر مشتمل تھے، کی اصلاح فرمائی.
همه‌ی شما سلامت باشید
 
یہ ایک اچھی کاوش ہے۔
فارسی زبان سے شناسائی کبھی ہمارے ہاں ایک بہت بڑا اعزاز ہوا کرتا تھا مگر ہماری بدبختی کہ سیاسی اور سماجی رویوں نے اس میٹھی زبان سے ہمیں بہت دور جا پھینکا ہے۔ آج کے دور میں فارسی غزل کہنا صحرا میں اذان دینے کے مترادف ہے۔
آپ نے فارسی شعروادب کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اچھی غزل کہی ہے۔ شعریت کا رس برقرار رکھا ہے۔ باقاعدہ ریاضت سے آپ کے اسلوب میں مزید شگفتگی اور رعنائی پیدا ہوگی۔ یہ سلسلہ جاری وساری رکھیں۔ چونکہ آپ کے خانوادے میں عبدالمجید لازم افغانی جیسے بزرگ اور باکمال شاعر گزرے ہیں، اس لئے مجھے یقین ہے کہ آپ شاعری کے ورثے کو نہ صرف برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ اس حسین روایت کو مزید تقوّیت دے سکتے ہیں۔
 
یہ ایک اچھی کاوش ہے۔
فارسی زبان سے شناسائی کبھی ہمارے ہاں ایک بہت بڑا اعزاز ہوا کرتا تھا مگر ہماری بدبختی کہ سیاسی اور سماجی رویوں نے اس میٹھی زبان سے ہمیں بہت دور جا پھینکا ہے۔ آج کے دور میں فارسی غزل کہنا صحرا میں اذان دینے کے مترادف ہے۔
آپ نے فارسی شعروادب کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اچھی غزل کہی ہے۔ شعریت کا رس برقرار رکھا ہے۔ باقاعدہ ریاضت سے آپ کے اسلوب میں مزید شگفتگی اور رعنائی پیدا ہوگی۔ یہ سلسلہ جاری وساری رکھیں۔ چونکہ آپ کے خانوادے میں عبدالمجید لازم افغانی جیسے بزرگ اور باکمال شاعر گزرے ہیں، اس لئے مجھے یقین ہے کہ آپ شاعری کے ورثے کو نہ صرف برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ اس حسین روایت کو مزید تقوّیت دے سکتے ہیں۔
بسیار سپاسگزارم آقا.
 
یہ ایک اچھی کاوش ہے۔
فارسی زبان سے شناسائی کبھی ہمارے ہاں ایک بہت بڑا اعزاز ہوا کرتا تھا مگر ہماری بدبختی کہ سیاسی اور سماجی رویوں نے اس میٹھی زبان سے ہمیں بہت دور جا پھینکا ہے۔ آج کے دور میں فارسی غزل کہنا صحرا میں اذان دینے کے مترادف ہے۔
آپ نے فارسی شعروادب کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اچھی غزل کہی ہے۔ شعریت کا رس برقرار رکھا ہے۔ باقاعدہ ریاضت سے آپ کے اسلوب میں مزید شگفتگی اور رعنائی پیدا ہوگی۔ یہ سلسلہ جاری وساری رکھیں۔ چونکہ آپ کے خانوادے میں عبدالمجید لازم افغانی جیسے بزرگ اور باکمال شاعر گزرے ہیں، اس لئے مجھے یقین ہے کہ آپ شاعری کے ورثے کو نہ صرف برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ اس حسین روایت کو مزید تقوّیت دے سکتے ہیں۔
محترم، اردو محفل پر خوش آمدید۔ آپ کا محفل پر تشریف لانا ہمارے لیے باعثِ اعزاز ہے۔ :)
آپ کاتعارف اریب بھائی کی توسط سے ہو چکا ہے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ ایک اچھی کاوش ہے۔
فارسی زبان سے شناسائی کبھی ہمارے ہاں ایک بہت بڑا اعزاز ہوا کرتا تھا مگر ہماری بدبختی کہ سیاسی اور سماجی رویوں نے اس میٹھی زبان سے ہمیں بہت دور جا پھینکا ہے۔ آج کے دور میں فارسی غزل کہنا صحرا میں اذان دینے کے مترادف ہے۔
آپ نے فارسی شعروادب کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اچھی غزل کہی ہے۔ شعریت کا رس برقرار رکھا ہے۔ باقاعدہ ریاضت سے آپ کے اسلوب میں مزید شگفتگی اور رعنائی پیدا ہوگی۔ یہ سلسلہ جاری وساری رکھیں۔ چونکہ آپ کے خانوادے میں عبدالمجید لازم افغانی جیسے بزرگ اور باکمال شاعر گزرے ہیں، اس لئے مجھے یقین ہے کہ آپ شاعری کے ورثے کو نہ صرف برقرار رکھ سکتے ہیں بلکہ اس حسین روایت کو مزید تقوّیت دے سکتے ہیں۔
خوش آمدید شجاعت صاحب محترم۔ آپ کی یہاں آمد ہمارے لیے باعثِ سعادت ہے!
 

حسان خان

لائبریرین
زبان:فارسی
سخن سرا: اریب آغا ناشناس

وزن: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

چون ترا از دور بینم، از تنم جان می شود
بی تو صبحِ روشنَم شامِ غریبان می شود
نیست در باغِ دلم گل هایِ وصلت، وایِ من
گلشنم چون صحرا از هجرِ تو ویران می شود
می رسد جانم بلب آن دم که از یادم روی
زندگی گویی برایم دشمنِ جان می شود
بر زبانم می شود نامِ تو جاری هر دمی
خلق گویندم که زان، کفرم نمایان می شود
چون به پیشم بگذری، صد درد می گیرد دلم
همچو زلفت خاطرم ای جان پریشان می شود
برگ ها ریزد ز شاخِ عمر، جانا زود کن
از ورودت فصلِ پاییزم بهاران می شود
ناشناست را ببین که در غمت جان می دهد
ﺑﺮ ﺳﺮﺵ ﺁیی دمی گر، مرگ آسان می شود
بہتر ہے کہ اِس غزل کا اردو میں ترجمہ بھی ہو جائے:

جب میں تم کو دُور سے دیکھتا ہوں، میرے تن سے جان چلی جاتی ہے۔۔۔ تمہارے بغیر میری صُبحِ روشن شامِ غریباں ہو جاتی ہے۔
میرے باغِ دل میں تمہارے وصل کے گُل نہیں‌ ہیں۔۔۔ مجھ پر وائے!۔۔۔ تمہارے ہجر سے میرا گُلشن صحرا کی مانند ویران ہو جاتا ہے۔
جس لمحہ تم میری یاد سے جاتے ہو میری جان لب پر آ جاتی ہے۔۔۔ زندگی گویا میرے لیے دشمنِ جاں ہو جاتی ہے۔
میری زبان پر ہر دم تمہارا نام جاری ہوتا ہے۔۔۔ خلق مجھ سے کہتی ہے کہ اُس سے میرا کُفر نمایاں ہوتا ہے۔
جب تم میرے پیش سے گذرتے ہو تو میرا دل صدہا درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔۔۔ اے جان! تمہاری زُلف کی مانند میری خاطر پریشاں ہو جاتی ہے۔
[میری] شاخِ عُمر سے برگ (پتّے) گِر رہے ہیں، اے جان، جلدی کرو۔۔۔ تمہارے وُرُود و دُخُول سے میرا موسمِ خَزاں بہاراں [میں تبدیل] ہو جائے گا۔
اپنے 'ناشِناس' کو دیکھو کہ وہ تمہارے غم میں جان دے رہا ہے۔۔۔ اگر تم ایک لمحہ اُس کے سِرہانے آ جاؤ، تو مرگ آسان ہو جائے گی۔
 
آخری تدوین:
گلشنم چون صحرا از هجرِ تو ویران می شود
ہمارے ایرانی دوست "مہدی ایرانیان" کے نزدیک، واژہ ء "صحرا" درحقیقت دو ہجائے بلند پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ میں نے اسے ادھر ایک ہجائے بلند اور ایک ہجائے کوتاہ پر مشتمل رکھا ہے، جو غلط ہے...
اگر میں صحرا کی جگہ "دشت" لکھ دوں، تو کیا یہ صحیح رہے گا
گلشنم از هجرِ تو چون دشت ویران مے شود
 
Top