غزل بعنوان "پاگل" برائے اصلاح و تنقیدی جائزہ

ایک غزل احباب کی خدمت میں

تم نے سوچا ہی نہ تھا ہجر کے بارے پاگل
ننگے پاوں ہیں اور تلوار کے دھارے، پاگل

اس قدر تیرگی میں کیسے ٹھکانہ ڈھونڈیں؟
کون دیتا ہے فقیروں کو سہارے پاگل

عمر بھر کون بھلا ساتھ تمہارا دیتا؟
تم تو بھولے ہو، دیوانے ہو، بیچارے پاگل

نقد ڈھونڈے سے جہاں نیند میسر نہ ہوں
واں تمہیں خواب ہیں درکار ادھادرے؟ پاگل!

سانس دی، روح دی، دھڑکن دی، زندگی دی اسد
کس قدر کم ہیں محبت کے خسارے، پاگل

از قلم: ملک محمد اسد
 
بہت خوب ملک صاحب، افکار کے لیے۔ عروض کے حوالے سے کچھ خامیاں نظر آئی ہیں، مگر اساتذہ اپنی رائے دیں گے، میں تو خود اصلاح کروا رہاہوں۔
 

سروش

محفلین
زبردست

یہ سمجھ نہیں آیا ۔۔

عرض ہے کہ جہاں لوگوں کو نقد نیند بھی میسر نہیں وہاں خاکسار ادھار میں خواب ڈھونڈنے نکلا ہے، چونکہ خواب نیند سے اگلا مرحلہ اور جب نیند میسر نہ ہو تو خواب کی خواہش فقط دیوانگی ہے، یہ تو ہے سیدھا سادہ مطلب، باقی گہرائی میں یا تشریح جاننے کے لیے آپ نے سوال پوچھا ہے تو وہ بھی عرض کر دونگا انشاءاللہ
 
Top